کیا واقعی 2024 میں بی جے پی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟
نہال صغیر
نہال صغیر
نہال صغیر
نریندر مودی کا ہی پسندیدہ جملہ ہے جو میڈیا میں اکثر گردش کرتا رہتا ہے ،انہوں نے کہا تھا پاکستان کو اسی کی بھاشا میں جواب دینا چاہئے ؟ پتہ نہیں اس کا مطلب اور اس کے پس منظر کو کسی نے سمجھا یا نہیں مگر ہندوستانی عوام خصوصی طور سے سماجی کارکنان ، حزب اختلاف اور مسلم نوجوانوں نے اسے سمجھ کر میڈیا کے دورخے پن کا جواب بقول نریندر مودی اسی کی زبان میں بخوبی دینا شروع کیا جس سے سب دم بخود رہ گئے ۔ کہا یہ بھی جاتا ہے اور حقیقت بھی ہے کہ دشمن کے پاس جو ہتھیار ہو خواہ کمزور ہی سہی لیکن وہی آپکے پاس بھی ہونا چاہئے ، تب ہی آپ وہ جنگ جیت سکتے ہیں ۔حکومت نے ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کے اکثر اداروں کو اپنا زر خریدبنالیا ہے ایسے میں انکے ذریعہ حکومت کی قدم بوسی کا جواب سوشل میڈیا کے ذریعہ دینا ہی متبادل تھا ۔ اس کو استعمال کیا گیا اور خوب استعمال کیا گیا جس سے حکومت اور سنگھ کے کارندے سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ اس کا جواب وہ کیا دیتے مگر انہوں نے بھی اتنی جلدی ہارنا نہیں سیکھا ہے سو انہوں نے سوشل میڈیا کی خامیاں بیان کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ یہ غیر معتبر ہے یعنی اسے عوام کے سامنے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور اب گذشتہ پیر ۲۱ ؍ ستمبر ۲۰۲۰ کو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میںحلف نامہ داخل کرکے سوشل میڈیا کو ساری خرابیوں کی جڑ قرار دیا ہے ۔ واضح ہو کہ مین اسٹریم میڈیا کی خامیاں اور اس کے حقائق کو چھپانے اور عوام کو زمینی سچائی سے بے خبر رکھنے والے رویہ کیخلاف سدرشن نیوز معاملہ میں سپریم کورٹ کے ججوں کا تبصرہ موضوع بحث ہے ۔اس دوران جبکہ سدرشن ، ریپبلک وغیرہ جیسے چینل کی اعتباریت پر بڑے پیمانے پر سوال اٹھ رہے ہیں تو ایک بار پھر مرکزی حکومت نے اپنے چہیتوں کو بچانے کیلئے سوشل میڈیا کا کارڈ سپریم کورٹ میں پھینکا ہے ،حکومت کا یہ رویہ اس کے خوف کو ظاہر کرتا ہے ۔
بے بسی کے اس دور میں جب عوام کی کوئی سننے والا نہیں تھا سوشل میڈیا ان کیلئے صحرا میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح آیا جہاں وہ اپنی بات کہہ سکتے ہیں اور مین اسٹریم میڈیا کی زہرلی سوچ کا تریاق بھی ڈھونڈ سکتے ہیں ۔عوام نے سوشل میڈیا کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ آج سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر ایسی ہزاروں سائٹیں ہیں جہاں آپ کی بات من و عن پیش کی جاتی ہیں ۔ حکومت کی پریشانی یہی ہے کہ وہ ہزاروں کروڑ روپئے جس سچائی کو پوشیدہ رکھنے اور عوام کو بدگمانی میں مبتلا رکھنے کیلئے خرچ کررہی ہے ، سوشل میڈیا کے جہد کار چند منٹوں میں اس کی ہوا نکال دے رہے ہیں ۔ اس لئے حکومت چاہتی ہے کہ وہ اس شعبہ کی خامیوں کا پروپگنڈہ کرکے اس پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرے ۔ اس لئے مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں سدرشن ٹی وی کیس میں حلف نامہ داخل کرکےکہاکہح ’’ ویب پر مبنی ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہئے۔ جس میں ویب میگزینز اور ویب پر مبنی نیوز چینلز اور اخبارات شامل ہیں۔موجودہ وقت میں یہ مکمل طور پربے قابو ہیں۔ فی الحال ، ڈیجیٹل میڈیا بڑے پیمانے پر پھیل گیا ہے۔ جہاں متعدد متضاد ویڈیوز ، متضاد خبریں اور حقائق چلائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ، قانونی طور پر اس کے لئے رہنما اصول اور قواعد طے کرنا ضروری ہے‘‘۔ حکومت سوشل میڈیا کے تئیں اپنے مقاصد میں کتنی کامیاب ہوتی ہے یہ تو وقت بتائے گا ، مگر اس کیلئے اپنے پروپگنڈوں کو سچائی پر تھوپنے کا عمل مشکل ضرور ہوگیا ہے ۔معاشرے میں گندگی مین اسٹریم میڈیا کا وہ طبقہ پھیلارہا ہے جسے عرف عام میں گودی میڈیا کہتے ہیں مگر الزام سوشل میڈیا پر دھرا جارہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سدرشن نیوز چینل کیخلاف جاری سماعت سے حکومت اپنے مفاد کا حصول چاہتی ہے کیوں کہ ججوں نے بے لگام الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کی بات کی ہے۔
مرکزی حکومت کے خوف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے مین اسٹریم میڈیا سے جن سینکڑوں صحافیوں کو دبائو ڈال کر باہر نکلوادیا تھا انہوں نے سوشل میڈیا پر مورچہ سنبھال لیا ہے ، جو حکومت سے ہر روز سوال کرتے ہیں اور وہ سوال حکومت قابل توجہ سمجھے یا نہیں مگر ملک کے عوام سمیت اقوام عالم تک ان کی باتیں ضرور پہنچ جاتی ہیں اور اس سے مرکزی حکومت بھری دوپہر میں بے لباس ہوتی رہتی ہے ۔آج حالت یہ ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر مورچہ جمائے صحافیوں نے عوامی مفاد کی باتیں اسقدر کی ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا کا اعتبار تو ختم ہو ہی گیا ہے اور عنقریب انہوں نےروش تبدیل نہیں کی تو ان کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا ۔ اسی لئے حکومت اپنے چاپلوس میڈیا اور اس کے مالکان کی سلامتی کیلئے سوشل میڈیا کو بدنام کرنے کی جانب قدم بڑھارہی ہے ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج مین اسٹریم میڈیا کا وجود کیوں خطرہ میں ہے ؟ ہم نےسیر پر سوا سیر کی کہاوت سنی ہے ، سو آج مین اسٹریم میڈیا کے سیر کو سوشل میڈیا کا سوا سیر مل گیا ہے ۔ اگر انہوں نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہوتی تو ان پر غیر یقینی کے یہ حالات نہیں آتے ، انہوں نے اپنا اعتبار خود کھویا ہے ۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ، سوشل میڈیا اسی ضرورت کی تکمیل کیلئے ہمارے سامنے ہے ۔ بہتر ہوتا کہ مرکزی حکومت سوشل میڈیا کی نام نہاد خامیاں سپریم کورٹ کے روبرو رکھنے کی بجائے مین اسٹریم میڈیا کے ذریعہ جو زہر معاشرے میں پھیلایا جارہا ہے اس پر کنٹرول کیلئے کوئی تجویز پیش کرتی، جیسا کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے سدرشن معاملہ میں الیکٹرانک میڈیا کیلئے اصول و ضوابط اور انہیں اقدار کا پابند بنانے کی بات کی ہے ۔
ہندوستانی میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے؟یہ ایک سوال ہے جو یقینا ً بہتوں کے دماغ میں گردش کررہا ہوگا ۔ اس طرح کے سوال کی وجہ یہاں کے میڈیا ہائوس کا بے لگام ہوجانا ہی نہیں ہے بلکہ اکثریت اور دولت کے زعم میں مسلمانوں کو بدنام کرنا اور پسماندہ طبقات کیخلاف سازشیں کرنا ہے ۔ کسی مہذب معاشرے میں جہاں میڈیا کو پابند نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی اس کی خبروں کو سینسر کیا جاسکتا ہے ۔مگر دیگر شعبوں کی طرح یہاں بھی کچھ اصول نافذ ہوتے ہیں جس کو عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے ۔کہا جاتا ہے کہ انسانوں کی بستی میں میڈیا کیا کسی کی بھی آزادی کلی نہیں ہے ۔ جہاں آپ کی باتوں یا آپ کی نام نہاد آزادی سے کسی کو ناحق نقصان پہنچے وہاں آپ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے ۔میڈیا کے ایک بڑے طبقہ کے بے لگام ہوجانے کی کہانی اتنی بھیانک ہے کہ اس کی خطرناکی کو بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ رویش کمار اکثر اپنے شو میں میڈیا کے اسی رویہ کو نشانہ بناتے ہوئے اکثریتی فرقہ کو کہتے ہیں کہ آپ ٹی وی نہ دیکھیں یہ آپ کے بچوں کو فسادی بنارہا ہے۔ حکومت کو خود پر سوال اٹھانے والوں سے خوف ہے اور وہ اسے فساد کی جڑ مانتی جبکہ سپریم کورٹ کے ججوں نے مین اسٹریم میڈیا کی تباہی کو اس حد تک محسوس کیا کہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو کہنا پڑا ، ’’سپریم کورٹ کا کسی چیز پر روک لگانا ایٹمی میزائل کی طرح ہے۔لیکن ہمیں آگے آنا پڑا کیونکہ کسی اور کے ذریعےکوئی کارروائی نہیں کی جا رہی تھی۔ ایک سرکاری افسرنے خط لکھا بس‘‘۔سپریم کورٹ کے مذکورہ بنچ کے ججوں یہ کہنا کہ ’’میڈیا میں یہ پیغام جانا چاہئے کہ خاص کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ۔ ہمیں مستقبل کے ملک کو دیکھنا ہے جو جو متحد اور متنوع ہو‘‘۔بہر حال سپریم کورٹ نے میڈیا کیلئے جس حدود کی بات کی ہے اس کا نافذ ہونا بہت ضروری ہے ۔ لیکن یہ حدود حکومت کی ریشہ دوانیوں سے آزاد ہواور اس کی نگرانی کرنے والے لوگ سبھی کمیونٹی سے ہوں جو مبنی بر انصاف فیصلے لے سکیں ۔ ورنہ سدرشن چینل جیسے میڈیا ہائوس اس ملک کو جلا کر خاک کردیں گے اور اس وقت کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہمیں اس تناظر میں ریڈیو روانڈا کی زہرناکی کو یاد رکھنا چاہئے ۔جس کی نفرت پر مبنی پروپگنڈہ کے سبب لاکھو ں انسان قتل کردیئے گئے تھے۔
ممتاز میر
چند دنوں پہلے ممبئی سے ایک دوست کا فو ن آیا۔وہ ڈاکٹر ہیںممبئی قیام کے دوران ہفتے میں ۴؍۵ دن ان سے ملاقات رہتی تھی۔انتہا درجے کے دوٹوک اور خوش مزاج ہیں ۔جسمانی روگوں کا علاج دواؤں سے تو کرتے ہی ہیںمگر ان کی باتیں بھی کسی ٹانک سے کم نہیں ہوتیں۔ہم اکثر اپنا موڈ درست کرنے کے لئے ان سے باتیں کرتے ہیں جو اکسیر بھی ثابت ہوتی ہیں۔کہنے لگے چھ ماہ ہورہے ہیں آپ ممبئی نہیں آئے۔ ہم نے کہا ،پہلے تو اس انتظار میں رہے کہ سی ایس ٹی والی گاڑیاں شروع ہو تو ریزرویشن کرائیں ۔اس سے مایوس ہوئے تو کر لا ٹرمنس کا ریزرویشن ڈھونڈنے لگے۔اب ملا ہے تو یکم اکتوبر کو یہاں سے نکلیں گے ۔ پوچھا، کہ دو،اکتوبر کی صبح پہونچ جائیں گے ، ہم نے کہا ، انشا ء اللہ ،کہنے لگے ۔یعنی آپ گاندھی جینتی ہمارے ساتھ منائیں گے ،دیش بھکتی کے گیت گائیں گے۔ہم نے کہا ۔یہ تو ٹھیک ہے کہ ہم دو اکتوبرکو ممبئی میں ہوں گے مگر باقی سب کرتے ہوئے اب ڈر لگتا ہے ۔ پوچھا،کیوں؟ہم نے کہا کہ بھائی NSA سے ڈر لگتا ہے ۔پوچھاNSA اور گاندھی جینتی کا کیا تعلق۔ ہم نے کہا ،اب گاندھی جی دیش بھکت کہاں رہے ۔ اب تو دیش کا ہیرو اور دیش بھکت ناتھو رام گوڈسے ہے ۔اب جگہ جگہ گاندھی کے بازو میں ناتھو رام گوڈسے کی تصاویر لگائی جا رہی ہے ۔کہیں ایسا بھی ہوا ہوگا کہ گاندھی کی تصاویر نکال کر ناتھورام کی لگائی گئی ہوں۔ انشاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا جب گاندھی جی کو راشٹر پتا کے’’عہدے‘‘ سے ہٹا کر ’’ناتھو رام جی‘‘ کو راشٹر پتا بنا دیا جائے۔اوراگر یہ ممکن نہ ہوا تو راشٹر دادا بنا دیا جائے۔ ویسے بھی ناتھو رام جی کا تعلق جن لوگوں سے تھا وہ دادا گیری میں ہی یقین رکھتے ہیں۔یہ سب بھی ممکن نہ ہوا تو بھارت رتن تو کبھی بھی دیا جا سکتا ہے۔اور یہ سب اس لئے ہوگا کہ ہماری سول سوسائٹی یا تو بے حس ہے یا منافق۔
کچھ مسلمان دانشوروں کا خیال ہے کہ گاندھی جی سنگھیوں کے ہی فرنٹ مین تھے ۔جس طرح یہودی چت اور پٹ دونوں پر داؤں کھیلتے ہیں بالکل اسی طرح ہمارے یہاں سنگھی ہر جگہ اپنے آدمی بٹھا کر رکھتے ہیں ۔ جیسے حالیہ تاریخ میں نرسمہا راؤ۔وہ کانگریس میں سلیپر سیل کی طرح تھے ،قسمت نے یاوری کی وزیر اعظم بن گئے۔دکھا دیا اپنی اصلی چہرہ ،گروادی بابری مسجد۔اسی طرح ان دانشوروں کا خیال ہے کہ گاندھی جی جو کچھ بھی کرتے رہے اس میں ہندو مہا سبھا کی مرضی شامل تھی ۔بلکہ وہ سبھائیوں کی بتائی ہوئی چالیں چلتے تھے۔مگر فرنٹ مین بہرحال ہوتا تو ایک جاندار انسان ہی ہے ۔بے جان مشین کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی کوئی عقل اور جذبات نہیں ہوتے ۔انسان کبھی کبھی خود بھی سوچ لیتا ہے ۔کبھی کبھی اس کی عقل متاثر بھی ہوجاتی ہے ۔شقی القلب انسانوں کے بھی جذبات کبھی متاثر ہوجاتے ہیں۔پھر گاندھی برہمن تو تھے نہیں،وہ وطن عزیز کی تقسیم کے مخالف تھے۔مگر جب تقسیم نوشتہء دیوار بن گئی تو انھوں نے پاکستان کے لئے کچھ ہمدردی دکھائی۔ان کا موقف تھا کہ پاکستان کو اس کے حصے کے ۵۵ کروڑ کی رقم ادا کی جائے جب کہ سنگھ چاہتا تھا کہ پاکستان بھوکا مر جائے ۔
آجکل ہم الجمیعتہ دہلی کے ۱۹۲۵ سے ۱۹۲۸تک کے اداریے و مضامین پڑھ رہے ہیں ۔ان تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو مہا سبھا کسی حال میں وطن عزیز میں نہ امن قائم ہونے دینا چاہتی تھی نہ اتحاد ۔ جہاں ذرا بھی امن و امان کی اور ہندو مسلم اتحاد کی صورت بنتی نظر آتی تووہاں زہریلی تقریریں کی جاتیں ہندؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جاتا اور فساد برپا کرادیا جاتا۔اور پھر برسوں کے لئے ہندو مسلم اتحاد خواب بن کر رہ جاتا جو انگریزوں سے چھٹکارے کے لئے ضروری تھا۔آج جو ہورہا ہے وہی سو سال پہلے بھی ہوا ۔ہندوؤں کے جن بڑوں کو اس وقت ایکشن لینا چاہئے تھا وہ سب اپنے اپنے گوشہء عافیت میں پڑے رہے اور میدان شر پسندوں کے لئے خالی چھوڑدیا ۔جب میدان میں مقابل کوئی ہے ہی نہیںتو کمزور سے کمزور ٹیم ہو جیتے گی تو وہی۔آج بھی تاریخ کے دھارے کو موڑنے یا روکنے کی کوئی کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔بہرحال گاندھی جی کی پاکستان نوازی سنگھ کے روڈ میپ کے خلاف تھی ۔فرنٹ مین باغی ہو گیا تھا ۔ایسی حالت میں ناتھو رام جو پرانا سنگھی تھا سنگھ کی مدد کو آیا۔ آج ناتھو رام کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ اسی احسان کا بدلہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137