featured

عظمیٰ کا موت کے کنوے سے گھر واپسی کا راز!

1:44 PM nehal sagheer 0 Comments



عمر فراہی 
۔ ای میل: umarfarrahi@gmail.com

عظمیٰ موت کے کنوے سے گھر واپس آچکی ہے ۔ایسا عظمیٰ نے پاکستان سے واپسی کے بعد میڈیا کے سامنے بیان دیتے ہوئےکہا ہے ۔اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان جانا تو آسان ہے واپس لوٹنا بہت مشکل ۔ویسے یہ بات تو ہمیں 1947 سے ہی پڑھائی جارہی ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور یہ ریاست بہت جلد ٹکڑوں میں بٹ جائے گی ۔پاکستان کے وجود میں آتے ہی کچھ بائیس سالوں کے بعد ایسا ہوا بھی اور پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا لیکن اس کے باوجود وہ ہمارے لیئے خطرہ بنا رہا ۔اسی کی دہائی میں کشمیر اور افغانستان کی شورش کے بعد پاکستان میں ہونے والے دھماکوں کی وجہ سے اسے موت کا کنواں بھی کہا جانے لگا ۔کیا یہ بات عظمیٰ کو پتہ نہیںتھی ۔ یقیناٌ پتہ رہی ہوگی کیونکہ جس طرح پاکستانی بچوں کو ہندوستان سے نفرت کا درس دیا جاتا ہے ہمارے یہاں بھی اسکولوں میں پاکستان سے محبت کرنے کا کوئی سبق نہیں ہے اور یہاں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آئی ہیں انہوں نے اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے ہمیں پاکستان سے ڈرا کر رکھا ہے ۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی پاکستانی سیاستداں بھی کرتے ہوں کیونکہ دونوں نے سیاست کا سبق ایک ہی مکتب ،مکتب برطانیہ سے سیکھا ہے ۔لیکن کبھی کبھی دونوں ملکوں کے درمیان ایسے حالات اور واقعات بھی ہوجاتے ہیں کہ عوام جو فطری طور پر امن کی متلاشی ہے وہ ایک دوسرے کے قریب آکر ایک دوسرے کوسمجھنا چاہتی ہے۔بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ابھی ایک سال پہلے پاکستان کے ایک فلاحی ادارے ایدھی ٹرسٹ نے آٹھ سال تک گیتا کی پرورش کرکے اسے اس کے ہندو عقیدے کے ساتھ بھارت کو واپس کردیا۔اگر پاکستانی چاہتے تو ایک معصوم بچی کی ذہن سازی کرکے اس کامذہب تبدیل کروا سکتے تھے اور پاکستان میں ہی اس کی شادی ہوجاتی لیکن انہوں نے سرحد سے بھٹک کر آئی ہوئی سیتا کو رام کے دیش میں واپس بھیج دیا -مئی کے مہینے کی شروعات سے ہی اخبارات میں یہ خبر پڑھنے کو مل رہی تھی کہ بائیس سالہ دوشیزہ جس کا نام عظمیٰ ہے وہ پاکستان اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے گئی تھی اور بندوق کی نوک پر کسی شادی شدہ چار بچے کے باپ طاہر علی سے اس کی جبراًشادی کروا دی گئی ۔اب جب وہ ہندوستانی سفارتخانے اور وہاں کی عدالت کی مدد سے وطن واپس ہوئی ہے تو اس کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں سامنے آرہی ہیں ۔لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب وہ اپنے رشتہ دار سے ملنے گئی تھی تو ساتھ میں اپنی بچی کو بھی کیوں نہیں لیکر گئی۔ وہ اپنے رشتہ دار کے یہاں ہی کیوں نہیں ٹھہری اور اس کے رشتہ داروں نے طاہر سے اس کی جبراً شادی کیوں ہونے دی ۔ہم نے بھی پہلے یہی سوچا تھا کہ شاید طاہر ہی اس کا رشتہ دار رہا ہوگا اور رشتہ داروں نے اس کی شادی کروا دی ہوگی لیکن ایسا کچھ نہیں تھا عظمیٰ نے خود راون کی لنکا اور موت کے کنوے سے محبت کی تھی ۔ فیس بک پر کسی نے انڈیا ٹوڈے میں شائع عدالتی کارروائی کے دوران اس کے شوہر اور نکاح پڑھانے والے مولوی کی گواہی کے حوالے سے لکھا ہے کہ عظمیٰ اور اس کے شوہر طاہر علی کی ملاقات دو سال پہلے ملیشیا میں کسی کمپنی کیلئے کام کرنے کے دوران ہوئی تھی اور یہ دونوں پہلے سے ہی ایک دوسرے سے آشنا تھے یا یوں کہہ لیں کہ دونوں میں اسی دوران سے آشنائی چل رہی تھی ۔عظمیٰ کو پتہ تھا کہ طاہر علی شادی شدہ اور چار بچے کا باپ بھی ہے ۔اس کے باوجود وہ اس کے ساتھ شادی کیلئے رضامند ہوگئی ۔عدالت میں طاہر علی نے اپنے وہاٹس پر ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ بھی پیش کیا کہ عظمیٰ نے خود اس سے کہا تھا کہ اگر کبھی تمہارے پاس میرے بھائی کا فون آئے تو یہ مت کہنا کہ تم شادی شدہ ہو اور تعلیم کے بارے میں پوچھے تو کہنا کہ تم نے گریجویشن کیا ہے ۔عظمیٰ نے جس طرح ہندوستانی سفارتخانے میں پناہ لینے کے بعد ڈرامے بازی کی اس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ پاکستان کے لوگ کتنے اجڈ ہیں جو زبردستی بندوق کی نوک پر ہندوستانی لڑکیوں کو بھی اغوا کرنے لگے ہیں ۔لیکن عظمیٰ کے ماضی کی زندگی سے ایسا لگتا ہے کہ وہ خود بہت ہی شاطرانہ دماغ رکھتی ہے ورنہ وہ تنہا طاہر علی سے ملنے کیلئے پاکستان نہ جاتی۔تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے بھائی اور بھابھی نے ایک دشمن ملک میں ایک انجان مرد کی اسپانسرشپ پر اسے پاکستان جانے دیا ۔جیسا کہ اخباری رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کی پہلی شادی کانگریس کے کسی ایم ایل اے کے لڑکے سے ہو چکی تھی اور اس کے بعد بھی اس کی پانچ شادیاں ہوئیں اور طلاق ہوچکا ہے ۔اس کے دو طلاق شدہ شوہر نیدر لینڈ میں ہیں جن سے اس کے چار  بچے بھی ہیں ۔اس کا مطلب طاہر علی اس کا چھٹا شوہر تھا مگر طاہر علی سے صرف دو دن میں ہی ایسا کیا ہوا کہ اس نے دلی میں مقیم اپنے بھائی سے رابطہ کیا ۔بھائی نےہندوستانی سفارت خانے میں کسی عدنان نام کے شخص سے رابطہ کرنے کو کہا ۔عظمیٰ نے بہت ہی چالاکی سے اپنے شوہر طاہر علی کو یہ کہہ کر ہندوستانی سفارتخانہ چلنے کو کہا کہ ہمیں ہندوستان میں ہنی مون منانے کیلئے ہندوستانی سفارت خانہ سے ویزے کیلئے رابطہ کرنا ہوگا جہاں عدنان نامی شخص ہماری مدد کرے گا ۔سفارتخانہ پہنچنے کے بعد عدنان نے طاہر علی کو باہر انتظار کرنے کو کہا اور عظمیٰ کو اندر لے لیا ۔جب کافی دیر تک عظمیٰ باہر نہیں آئی تو طاہر علی نے عظمیٰ کے بارے میں رسپشن پر دریافت کیا تو اسے بتایا گیا کہ اندر اس نام کی کوئی لڑکی نہیں ہے۔طاہر نے عظمیٰ کو حاصل کرنے کیلئے مقامی پولس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تو مذکورہ بالا کہانی کا کلائمیکس ابھر کرسامنے آیا ۔یعنی عظمیٰ نے ہندوستانی سفارت خانہ میں اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کرکے کہانی کو نیا موڑ دے دیا اور پاکستانی عدلیہ کی ہمدردی بھی جیت لی ۔عظمیٰ خوش قسمت تھی کہ ہندوستانی سفارت خانہ نے اس کے مسئلے میں دلچسپی دکھائی ورنہ عام طور پرسفارت خانہ اتنی مستعدی نہیں دکھاتے ۔شکر ہے کہ پاکستانی عدالت نے بھی اس لڑکی سے نہیں پوچھا کہ اسلام میں محرم کے بغیر کسی بالغ عورت کو حج کی اجازت نہیں ہے اور وہ کس رشتے سے ایک ملک میں ایک انجان شخص کے گھر آنے کی جرات کر بیٹھی۔پھر بھی جس ملک کو اس نے موت کا کنواں کہا ہے اسی ملک کی عدالت نے اس لڑکی کی نادانی پر رحم کھاتے ہوئے اسے فوری اپنے وطن جانے کی اجازت دےدی ۔پاکستان ہمارا لاکھ دشمن ملک سہی لیکن جس طرح اس نے سشما سوراج اور ہندوستانی سفارتخانہ کا شکریہ ادا کیا پاکستانی عدلیہ کا بھی شکرگذار ہونا چاہئے تھا۔عظمیٰ کو شاید پتہ نہیں کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے کسی کو وقتی دھوکہ دے سکتی ہے لیکن جدید پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں حقیقت کو زیادہ دیر تک چھپانا بہت مشکل ہے- کچھ آٹھ یا نو سال پہلے بھی عظمیٰ کی طرز کا ایک حادثہ ایک ہندو مہاراشٹرین لڑکی کے ساتھ جس کا نام غالباً سنیتا پاٹل تھا پیش آچکا ہے۔ سنیتا ایک پاکستانی لڑکے سے پیار کرکے عائشہ پاٹل ہوچکی تھی اور پھر سرحد پار جاکر اس سے نکاح کرلیا ۔اس لڑکے سے اسے ایک اولاد بھی ہوئی لیکن کچھ چار سال بعد اس کا شوہر کسی حادثے کا شکار ہوکرفوت ہوگیا ۔اس کی موت کے بعد اس کے گھر والے اس پر ظلم کرنے لگے -لڑکی نے ہندوستانی سفارت خانے اور اس وقت کے مہاراشٹر کے ہوم منسٹر آرآر پاٹل سے مدد مانگی کہ وہ اس کا حق دلانے کیلئے اس کی مدد کریں مگر اسے اپنے ملک سے کوئی مدد نہیں ملی ۔بالآخر اس نے پڑوسیوں کی مدد سےاپنے گھر والوں کے خلاف پاکستانی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ۔عدلیہ سے انصاف حاصل کرنے کے بعد جب وہ ہندوستان میں اپنے والدین سے ملنے آئی تو میڈیا والوں نے سوال کیا کہ کیا اب وہ واپس پاکستان جانا چاہیں گی ۔اس نے کہا ہاں میں اپنے شوہر کے بچے کی پرورش وہیں کرنا چاہوں گی کیونکہ جب میرے اپنے وطن کے لوگوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تو میری مدد پاکستان میں میرے شوہر کے دوستوں اور پڑوسیوں نے کی اور پاکستانی عدالت نے بھی مجھے انصاف دیا ۔عظمیٰ کے ساتھ طاہر علی کا کیا معاملہ تھا پتہ نہیں لیکن عظمیٰ کو پاکستان کی عدلیہ کا شکر گذار ہونا چاہئے کہ اسے انصاف ملا اور ہندوستانی سفارت خانہ نے بھی ایک مسلم لڑکی کے ساتھ اتنی مستعدی کیوں دکھائی چلئے اسے بھی راز میں رہنے دیتے ہیں ہوسکتا ہے اس میں بھی کوئی راز ہو۔

0 comments: