featured

اب دواؤں کی تجارت پر نظر

11:45 AM nehal sagheer 0 Comments


ممتاز میر

ہم کئی بار اپنے مضامین میں یہ بات لکھ چکے ہیں کہ حکومت کرنے کا حق انھیں ہے یا وہ بہتر حکمرانی کر سکتے ہیں جودل میں خوف خدا رکھتے ہیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ۔باقی لوگ تو چوری کرتے ہیں ڈاکے ڈالتے ہیں اپنی عورت کو چھوڑ کر سرکاری مشنری کی مدد سے دوسری عورت کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ساتھ میں عورت کی ہمدردی کا ڈھونگ بھی رچاتے جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کے دور میں کسان اگر خودکشی کرتا ہے تو تعجب کی بات نہیں ۔کتنی حیرت انگیز ہے یہ بات اور مسلمانوں کے لئے قابل اطمینان بھی کہ پہلے ان لوگوں کو خود کشی پر مجبور کیا گیا جو سبزی یا ویجیٹبلس کی ملکی ضروریات کو پورا کر رہے تھے ۔اب گوشت یا نان ویج کی ضروریات پورا کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔تازہ ترین خبر کے مطابق اب گؤ رکھشک بھینس کے گوشت کا کاروبارکرنے والوں پر بھی حملے کر رہے ہیں۔بار بار کے واقعات کے بعد بھی حکومت کے کانوں پر جوں رینگنے کو تیار نہیں۔جبکہ چمڑے اور اس کی اشیاء کی برآمد سے حاصل ہونے والا زر مبادلہ بھارت میں دوسرے نمبر پر ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ گوشت کا کاروبار کرنے والے چونکہ ایک خدا پر بھروسہ کرتے ہیں اسلئے وہ خودکشی کرنے والے نہیں ۔
نوٹ بندی کے وقت یہ کہا گیا تھا کہ اس سے کالا دھن ختم ہوگا ۔کرپشن پر روک لگے گی اور دہشت گردی بھی ختم نہ سہی کم ہو جائے گی ۔کچھ بھی نہ ہوا بلکہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دہشت گردی تو اور بڑھ گئی۔اور یہ تعجب کی بات بھی نہیں ۔ اگر ہم بی جے پی حکومتوں کی تاریخ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی سے اسے غذا ملتی ہے ۔ہمیشہ سنکٹ کے وقت دہشت گردوں نے بی جے پی کے لئے سنکٹ موچن کا کام کیا ہے۔اسلئے ہم سمجھتے ہیں کہ بتائی گئیں تینوں وجوہات بکواس تھیں ۔مگر یہی کام ڈھنگ سے تو کیا جا سکتا تھا ۔مثال کے طور پر اگر ہم ریزرو بینک کے گورنر ہوتے توپہلے نئے نوٹ چھاپ کر ذخیرہ کر لیتے ۔نئے نوٹ پرنٹ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھتے کے نوٹ صورت کے رنگ روپ کے چاہے جیسے ہوں سائز میں بالکل ویسے ہوں جیسے کے پرانے نوٹ تھے تاکہ اے ٹی ایم مشینوں میں رکھتے وقت دقّت نہ پیش آئے اور ان کی سیٹنگ نہ تبدیل کرنا پڑے۔حیرت ہے کہ ہندوستان جیسے بڑے ملک کی حکومت چلانے والوں کو اتنی معمولی بات کی سمجھ نہیں تھی !خیر،پھر ہم کہتے کہ اب تمام بینکوں کو چھاپے گئے نوٹ روانہ کریں اور ساتھ ہی نوٹ بندی کا اعلان کریں ۔مگر مسئلہ یہ تھا کہ ان کی نیت صحیح نہیں تھی ۔حکومت کو چندہ دینے والوں نے بینک سے قرض لے کر جوگڑھے کئے تھے نوٹ بندی سے وہ بھرنا تھا ۔اب وہی حکومت انہی چندہ دینے والوں کی خاطر دواؤں جیسی نازک اور ٹیکنیکل چیز کے پیچھے پڑی ہے ۔وطن کا کیا ہوگا انجام۔بچالے اے مولا !
اب حکومت عوام کو دوا سپلائی کرنے والوں کو خود کشی پر مجبور کرنا چاہتی ہے ۔چند سالوں پہلے حکومت نے نہ صرف یہ فیصلہ لیا بلکہ نافذ بھی کردیا کہ جس طرح دیگر اشیا آن لائن فروخت کی جا رہی ہیں اسی طرح اب دوائیں بھی آن لائن فروخت کی جا سکتی ہیں۔ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ فون کرکے یا بذریعہء ای میل پزا ،جوتا، کپڑا یا موبائل سیٹ منگوایا جا رہا ہے ۔اب آپ انھی جدید وسائل کا استعمال کرکے ہرقسم کی دوا بھی منگوا سکتے ہیں۔یہاں تک کہ وہ دوائیں بھی جنھیں بیچتے ہوئے بازار میں بیٹھا ہوا لائسنس یافتہ کیمسٹ بھی ڈرتا ہے۔وہ کیمسٹ جو باقائدہ فارمیسی کی ڈگری رکھتا ہے۔بہت ساری ایسی دوائیں ہوتی ہیں جو مارکیٹ میں دکان رکھنے والا لائسنس یافتہ کیمسٹ چاہے ہول سیلر ہو یا ریٹیلر،آسانی سے بیچ نہیں سکتا کیونکہ اسے خریدنے اور بیچنے میں بہت ساری فارمالیٹیز پوری کرنی پڑتی ہیں ۔مگر وہی دوائیں اب ای مارکیٹنگ کے ذریعے آسانی سے بیچی یا حاصل کی جارہی ہیں۔اور یہ سب وطن عزیز کو ماڈرنائز کرنے کے نام پر ہو رہا ہے۔ مگر کیا واقعتاً ایسا ہے ۔ہم تو یہ جانتے ہیں کہ بازار میں میڈیکل اسٹورس پر کوئی بھی دوا بغیر پرسکرپشن کے نہیں ملتی۔پھر فون یا ای میل سے دوائیں کیسے مل سکتی ہیں ؟پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آپ کو پرسکرپشن اسکین کر کے بھیجنا ہوگا۔ہم نے کہا کہ اس طرح تو فارجری کے مواقع بہت زیادہ ہیں ۔ جواب ملا کہ ایسا بہت ہو رہا ہے۔قارئین کو شاید یہ جان کر اور زیادہ تعجب ہو کہ ہندوستان کی بہت ساری ریاستوں میں غیر ایلوپیتھ میڈیکل گریجویٹس کو ایلو پیتھی کی دوائیں لکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے جبکہ انھیں ان کے کورس میں ماڈرن میڈیسن کے نام سے نہ صرف ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے بلکہ باقاعدہ امتحان دے کر انھیں یہ مضمون پاس کرنا پڑتا ہے۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایم بی بی ایس میں ہربل میڈیسن پر کوئی مضمون نہ ہونے کے باوجود انھیں یعنی ایلو پیتھس کو ہربل میڈیسن لکھنے کی پوری آزادی ہے ۔ہمارے نزدیک یہ ایلوپیتھ دواؤں کو غیر معمولی اہمیت دینا اور دیسی دواؤں کی بے توقیری ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم آج بھی آزادی سے پہلے کی ذہنی فضا میں جی رہے ہیں۔اس پر ونسٹن چرچل کی کہی ہوئی بات یاد آتی ہے کہ ہندوستانی ابھی آزادی کے لائق نہیں۔گو کہ عوام تو دنیا میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑرہی ہے مگر ہمارے حکمراںآج بھی اندھیر نگری چوپٹ راج چلاتے ہیں۔
پورے دیش میں تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ کیمسٹ ہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ ۵۰؍۶۰ لاکھ پیٹ اس پر پل رہے ہیں ۔حکومت سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ ان کا کیا ہوگا؟دواؤں کی ای مارکیٹنگ سے جرائم کتنے بڑھیں گے؟کیا فارجری صرف اتنے پر رک جائے گی یا اور بھی مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے گی؟ممنوعہ دواؤں پر کس طرح لگام کسی جا سکے گی ؟ایک طرف حکومت عوام تک سستی دوائیں پہونچانے کے اقدامات کرتی ہے اور دوسری طرف ای مارکیٹنگ کو نہ صرف بڑھاوا دے رہی ہے بلکہ اس پر بضد بھی ہے ۔اس سے پہلے ۱۴۔اکتوبر۲۰۱۵ کو وطن عزیز کے تمام کیمسٹوں نے اسی مسئلے پرہڑتال کی تھی اب پھر آئندہ ۳۰ مئی آن لائن دواؤں کی فروخت کے خلاف ہڑتال کرنے جا رہے ہیں۔دیکھئے حکومت کے کانوں پر جوں رینگتی ہے یا نہیں۔فی الوقت جو سیٹ اپ ہے اس میں ہول سیلر کو ۱۰ فی صد منافع ملتا ہے اور ریٹیلر کو ۲۰ فی صد۔ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو یہ بہت لگے۔مگر بزنس کے ساتھ جو اخراجات لگے ہوئے ہیں۔پھر ایکسپائری دواؤں کا جو ڈر ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ منافع کچھ بھی نہیں ۔یہ سب آن لائن پر بھی ہوگا ۔پھر ہوم ڈیلیوری کے اخراجات الگ ہونگے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ اسے کیسے برداشت کریں گے؟اب تو ایک مصیبت اور نوڈل ایجنسی کے نام سے بڑھائی جا رہی ہے ۔اس ایجنسی کو مینو فیکچرر سے لے کر ریٹیلر تک ،سب کو روزانہ بننے والی ۔دکان میں آنے اور بکنے والی دواؤں کا حساب کتاب روزانہ دینا ہوگا ،چاہے آپ کی دکان شہر میں ہو یا دیہات میںَ ۔چاہے بجلی اور کنکٹیویٹی ہو یا نہیں ۔گمان غالب یہی ہے کہ مودی جی کے آس پاس سارے لال بجھکڑ ہی ہیں۔یہ کھیل ویسا ہی ہی ہے جیسا امبانی نے جِیو کا کھیلا تھا ۔ماہرین کہتے ہیں کہ مودی جی کے دوستوں نے قرض لے کر بینکوں کو خالی کر دیا تھا ۔بینکوں کو بھرنے کے لئے نوٹ بندی کا کھیل کھیلا گیا تھا ۔آن لائن دواؤں کا کاروبار بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دیا جانے والا ہے۔کہا جاتا ہے کہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ نفع بخش فار ماسیوٹیکل انڈسٹری ہے ۔اگر مینوفیکچرنگ سے لے کر گراہک کو پہونچانے تک پر ملٹی نیشنل کمپنیاں قابض ہو جاتی ہیں تو سوچئے کیا ہوگا ؟اگر درمیان سے یہ چھوٹے چھوٹے ہول سیلر اور ریٹیلر صاف کر دیئے گئے تو یہ مگر مچھ اپنی ہر چیز منہ مانگے داموں پر بیچیں گے ۔اب تو کہیں کہیں سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ یہ بڑے بڑے کارپوریٹس گھرانے سبزی بھاجی بھی بیچ رہے ہیں۔
ہماراحکومت سے سوال یہ ہے کہ اگر ساڑھے۸ لاکھ کیمسٹوں کو قبرستان پہونچادیا گیا ،سبزی منڈیاں بند کروادی گئیں،ٹھیلے پر سامان بیچنے والوں سے سڑکوں کو نجات دلادی گئی ، پھیری والوں سے گلیوں کو پاک کردیا گیاتو ان کارپوریٹس گھرانوں کے پراڈکٹس کو خریدے گا کون؟ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کی قوت خرید ختم ہو جائے گی تو شاپنگ مالس میں جائے گا کون؟ آخری بات یہ کہ کیمسٹوں کے بعد جنرل پریکٹیشنرس کو بھی اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑیگا۔جب فون کال پر یا آن لائن دوائیں آجائیں گی تو عام ڈاکٹرس کو پوچھے گا کون ؟ہوگا یہ کہ پہلے لوگ بیماریوں کو بڑھائیں گے پھر اسپیشلسٹ کے پاس جا کر پرسکرپشن حاصل کریں گے پھردواؤں کا آن لائن آرڈر دیں گے ۔ہو سکتا ہے اس سے حکومت کی منشا یہ ہو کہ اب گاؤں دیہات میں کوئی نہ رہے ۔سب ایسے اسمارٹ سِٹیوں میں منتقل ہوجائیں جہاں آن لائن ’’سیوائیں‘‘ہمہ دم دستیاب ہیں۔وہاں رہیں جہاں لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان نہ ہو ۔بھلے ہی اس انتقال میں بہت سارے بھارت سے کیا دنیا سے منتقل ہوجائیں۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ خاندان چھوٹا اور خرچ بھی کم۔بچت کو شاپنگ مالس میں لٹایا جا سکتا ہے ۔شاید اسے ہی کہتے ہیں ویلفئر اسٹیٹ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137

0 comments: