featured

ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

7:58 PM nehal sagheer 0 Comments

   پروفیسر محسن  عثمانی ندوی                     

      اردو کے اخبارات کی ورق گردانی  سے اس غم اور رنج والم کا اندازہ ہوتا ہے جس نے مسلمانوں  کے اعصاب کو شدیدطور پر متاثر کیا ہے  ہر روز جب صبح طلوع ہوتی ہے ظلم وجبر کی کوئی سوہان روح خبر ملتی ہے  ہر شام جب آفتاب غروب ہوتا ہے اپنی مظلومیت کا ماتم سنائی دیتا  ہے ۔نہ ظلم کا سلسلہ رکتا ہے  اور نہ سینہ کوبی کا دروازہ بند ہوتا ہے ۔وہ پارٹی جسے مسلمانوں سے بیر ہے اور جو مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتی ہے اور اسلام کو مٹانا چاہتی ہے پرسنل لا کو ختم کرنا چاہتی ہے مشرکانہ عقید ہ کو تعلیم گاہوں میں رائج کرنا چاہتی  بر سر اقتدار آچکی ہے ۔یہ بہت بڑی چوٹ ہے جو مسلمانوں کو لگی ہے  ہندوستان کی تاریخ میں  اسی طرح  کے صدمہ سے مسلمان  اس وقت دوچار ہوئے تھے  جب ان کی حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی تھی اور انگریزوںکی مضبوط حکومت  قائم ہو گئی تھی، مسلمان اس وقت بھی شدید  نفسیاتی شکست سے دو چار ہوئے تھے۔ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین  سرک گئی تھی اور آسمان بے رحم بن گیا تھا ،آشیاں برباد ہوگیا تھا، گلستان وطن میںخزاں آگئی تھی۔انگریز ایک چھوٹی سے اقلیت تھے لیکن اقتدار کی طاقت ان  کے ہاتھ میں آگئی تھی، اس لئے عیسائیت کی تبلیغ کاطوفان آگیا تھا اس وقت اس طوفان کو روکنے کے لئے بیدار مغز علماء میدان میں آئے تھے  ان میں مولانا رحمۃ اللہ کیرانوی ( متوفی ۱۳۰۸ھ)  جناب ڈاکٹر وزیر خان اور مولانا سید آل حسن (متوفی ۱۸۴۶ء)حضرت امداد اللہ مہاجر مکی( متوفی ۱۳۱۷ھ)حضرت مولانا قاسم نانوتوی (متوفی  ۱۲۹۷ھ) مولانا محمد علی مونگیری ( ۱۳۶۳ھ)  مولانا سید عبد الباری  ( متوفی ۱۳۰۳ھ )   وغیرہ کے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ،۔  جنگ آزادی میں  ناکامی کے بعد  اور برطانوی حکومت  کے قیام کے بعد عیسائیت  سے  علمی فکری اور نظریاتی مقابلہ کا  یہ زبردست کارنامہ تھا جو مسلم علماء نے انجام دیاتھا ۔اور پھرمسلمانوں کے درمیان  عیسائیت کی تبلیغی کوششیں نا کامی سے  دوچار ہوگئیں ۔یہ کارنامہ علمی سطح پر مسلم  علماء نے انجام دیا ۔
        اس  دور کے بعد وہ دور آیا جب  ملک میںآزادی کی تحریک  کامیابی سے دوچار ہوئی لیکن ملک تقسیم ہوگیا  اور مسلم دشمنی کی گرم ہوا اور باد سموم  اس ملک میں چلنے لگی جس طرح  اس وقت گائے نے اپنی  سینگھ پر دنیا اٹھا رکھی ہے  اس وقت بھی آزادی کے کچھ برسوں کے بعدآچاریہ ونوبا بھاوے  نے گائے کی حفاظت کے لئے  قانون بنانے کی مانگ کی تھی اور حکومت پر دباو ڈالنے کے لئے  مرن برت شروع کرنے کا اعلان کردیاتھا۔  اور پھرسارے ملک میں  ہلچل  مچ گئی  تھی۔اور اس  وقت سرو ادے رہنما  ونوبا بھاوے سے ملاقات کے لئے  اور اس موضوع پر بات کرنے کے لئے مولانا عبد الکریم  پاریکھ  اور مولانا علی میاں وردھا گئیُ ۔ ونوبا بھاوے کی سماعت جواب دے چکی تھی اس لئے ساری  بات چیت  لکھ کر ہوئی  اور اس وقت  مولانا عبد الکریم باریکھ کی کتاب  ’’ گائے کا قاتل کون اور الزام کس پر ‘‘ شائع ہوئی اور بہت مقبول ہوئی ۔آج بھی یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے  اورشاید  ناگپور میں ان کے ادارہ سے مل سکتی ہے ۔  ہمارے کہنے کا  مقصد صرف یہ ہے کہ اس وقت مسلم قیادت کی صف میں  ایسی معتبر شخصیتیں  موجود تھیں جن کا وزن تھا اور جن کی بات سنی جاتی تھے ۔ونوبا بھاوے جیسی شخصیت سے مل کر گائے کے سلسلہ میں قانون بنانے کا مطالبہ رفع دفع کیا گیا ، اس وقت مسلم مشاورت بھی ایک اہم مسلم قیادت تھی  اور اس کے ابتدائی دور میں ڈاکٹر سید محمود  ،مولانا ابو الحسن علی ندوی ، مولانا مفتی عتیق الرحمن  عثمانی مولانا  ابو اللیث  مولانامحمد مسلم  جیسی بہت سی شخصیتیں تھیں  جن کا وقار بھی تھا  اعتبار بھی تھا اوراحترام بھی تھا ۔ اس وقت مسلم قیادت  میں ایسی شخصیتوں  کا خلا پایا جاتا ہے  ایسے ٍ لوگ نہیں ہیں جو حکومت اور اکثریت پر اثر انداز ہوسکیں  آج بھی جو مسلم تنظیمیں  سیکولر  ہندو اور عیسائی شخصیتوں  کے ساتھ اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے ساتھ مل کرانصاف کے لئے کام کررہی ہیں اور کانفرنس منعقد کررہی ہیں  اور کوششیں کررہی ہیں ان کی قدر کی جانی چاہئے  اور ان کا ساتھ دینا چاہئے  مثال کے طور پر ملی کونسل اور آبجکٹو اسٹدیز کا ادارہ اپنی تمام کانفرنسوں میں اور پروگراموں میں منصف مزاج  سیکولر  غیر مسلموں کو بلاتا ہے ، یہ حکمت اور بصیرت کی بات ہے ۔
        موجود حالات میں  آسمان کے ستاروں کی طرح  زمین پر بڑی تعداد میں ایسے روشن دماغ  بصیرت مند علماء درکار ہیں جنہوں نے  ہندو مذہب کا گہرا مطالعہ کیا ہو، بالکل اسی طرح  جیسے ابو ریحان بیرونی نے ہندوستان آکرہندو مذہب کا گہرا مطالعہ کیا تھأ اور  جیسے انگریزی اقتدار کے زمانہ میں  ایسے علماء سامنے آئے جنہوں نے عیسائیت کا گہراا مطالعہ کیا تھا  ،اب  اس ملک میں ایسے علماء درکار ہیں جو ’’لسان قوم‘‘ میںبات کرنا جانتے ہوں  ۔، قرآن میں ہے کہ ہم نے جتنے رسول بھیجے  وہ سب ’’لسان قوم‘‘  میں بات کرنے والے تھے ۔ یعنی جوعالم دین لسان قوم میں بات نہ کرسکے برادران وطن  کو ان کی زبان میں  مخاطب نہ کرسکے   وہ  حقیقی معنی میںنائب رسول نہیں ہوسکتا ہے  کیونکہ اللہ کے رسول  لسان قوم میں گفتگو کرتے تھے ۔ ضرورت ہے کہ ایسے علماء  ملک کے طول وعرض میں پائے جائیں  جو  ہندؤں کے پنڈتوں سے  اور  ہندوسیاسی لیڈروں  سے  وشو ہندو پریشد اور آراس اس  کے قائدین سے  ہندی میںمکالمہ کرسکیں  اور  اعلی تعلیم یافتہ ہندووں کے بڑے بڑے جلسوںکو انگریزی میںخطاب کرسکیں ۔ یہ بہت  بڑا  اسلامی مشن ہے، اس کے لئے  دینی مدارس کے نصاب میں بنیادی  انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت پیش آئے گی  پورے تعلیمی نظام  کی ’’اور ہالنگ ‘‘ کی ضرورت پیش آئے گی  مسلمانوں کے مستقبل کو اس ملک میں روشن کرنا ہے تو یہ کام کرنا ہی گا  اور ایسے علماء تیار کرنے  ہوںگے  جو  ہندووں کے مذہب سے اوران کی زبان سے  اچھی طرح واقف ہوں  ۔ہمیں  یہ سمجھنا بند کردینا ہوگا کہ ہم نے اور ہمارے  بزرگوں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے اور انہوں نے جو نصاب تعلیم تیار کیا وہ  ہر زمانہ کے لئے حرف آخر ہے ۔ جس طرح سے  تفاخر بالانساب  غلط ہے اسی طرح سے تفاخر بالاسلاف میں مبالغہ بھی غلط ہے  ۔
    ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم اب تک اپنی  غلطیوں کو نہیں سمجھ سکے ہیں  ہم نے اس ملک میں  بہت سی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں،  بہت بڑی تحریکیں برپا کی ہیں  لیکن ہم نے غلطیاں بھی کی ہیں  اور ان قابل فخر اور قابل قدر تحریکوں میں بھی  غلطیوں کا گذر ہوا ہے،  لیکن ہم ان غلطیوں کو سمجھ نہیں سکے  اور اس لئے نہیں سمجھ سکے کہ وہ غلطیان ہمارے  مزاج کا حصہ بن گئی ہیں  اور جب انسان کا مزاج ہی غلط ہوجائے  تووہ غلطی کو کیسے سمجھ سکتا ہے  ۔  غلطی یہ  ہے کہ ہمارا مزاج انوارڈ اٹی ٹیوڈ یعنی داخلیت کا مزاج  بن گیا ہے یہ وہ مزاج ہوتا ہے جس میں انسان کی سوچ  اپنے دائرہ میں محدود ہوتی ہے  اس کا عمل بھی  اس دائرہ میں محدود ہوتا ہے، اسی لئے  ہمارے سارے منصوبے  اور پروگرام مسلمانوں کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں گویا ہم خلیفہ منصور عباسی یا اورنگ زیب کے عہد میں جی رہے ہیں ۔ غیر مسلم ہمارے دائرہ کارر سے باہر ہوتے ہیں  ،ایک شخص  سیرت نبوی  کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ پیغمبرﷺ اور ان کے اصحاب کو مکہ کی زندگی میں  مشرکین  اور اہل کفر کے درمیان  کام کرتے ہوے دیکھتا ہے  اور مدینہ کی زندگی میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو   یہودیوں سے معاہدہ کرتے ہوئے  اور فرماروایان عالم کو خطوط  لکھتے ہوے  اور وفود بھیجتے ہوے پاتا ہے  ،  پیغمبرانہ کام  مسلمانوں کی اصلاح اور تزکیہ کے ساتھ  غیر مسلموں کو بھی اپنا  ہدف بنانا ہے ء یعنی داخلی اور خارجی  دونوں سطح پر کوشش  کرناہے  جو سیرت کی صحیح پیروی ہے   یعنی غیر مسلموں سے  تعلقات رکھنا  ان کی زبان سے اور ان کے مذہب سے واقف ہونا اور ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا  اور اس رابطہ باہمی اور انسانی تعلقات کو دعوت کے لئے بھی  استعمال کرنا  عین  مزاج سیرت ہے ۔ ہمارے یہاں جو تحریکیں اٹھتی ہیں وہ گرد وپیش سے آنکھ  بند کرکے اٹھتی ہیں ۔ ہندوستان  میں تمام دینی مدارس کے عالی مقام  بانیوں کو اس کا ندازہ ہی نہیں تھا کہ یہاں ہندو تو کا طوفان آنے والا ہے  اوریہ ملک بھی کبھی اسپین بننے کے خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ آج لکھنو شہر میں ہندی زبان میں جابجا  ہورڈنگ اور پوسٹر لگے ہوئے ہیں  ’’ ہندو راشٹر کی اور ‘‘ یعنی  ہندوراشٹر بنانے کی منزل کی طرف ۔اگر خدا نہ خواستہ  ان کا یہ خواب  شرمندہ تعبیر ہوگیا تو دینی مدارس کی بھی خیر نہیں ہے۔ ہماری اصلاحی  اور علمی تحریکیں مزاج سیرت کے مطابق نہیں ہوتی ہیں  ان پر داخلیت کی فضا چھائی ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر عصر حاضر کی تبلیغی تحریک نظام الدین دہلی سے شروع ہوکر ساری دنیا میں پھیل گئی  اس کے ثمرات اور برکات  سے کسی کو انکار نہیں ہے ، لیکن اس  کام کے عالی مقام بانیوں  اور رہنمائوںکا مزاج اگر سیرت طیبہ سے پورے طور پرتشکیل  پاتا  تو اس کے اصولوں میں  اکرام مسلم  کے ساتھ احترام انسانیت  یا خدمت خلق  یا نافعیت  یعنی  ہر شخص کو نفع پہونچانے  کا اصول بھی شامل ہوتا  ۔ بلا تفریق مذہب خدمت خلق کے موضوع پر بے شمارصحیح حدیثیں موجود ہیں،  لیکن تبلیغی رہنماوں کی نظر’’ اکرام مسلم ‘‘سے آگے نہیں بڑھ سکی  کیونکہ سوچ کا دائرہ داخلی  تھا  یعنی انوارڈ اٹی ٹیوڈ کا تھا ۔ دار العلوم دیوبند کی حیثیت ام المدارس کی ہے ۔ ہندوستان میں  سیکڑوں مدارس قائم ہیں  اور ہزاروں کی تعداد میں  عالم اور فاضل کی ڈگریاں لے کر طلبہ ہر سال میدان عمل میں آتے ہیں  چونکہ ان مدارس کا نصاب  ان لوگوںنے بنایاجو انوارڈ اٹی ٹیوڈ کا غیر سیرتی( خلاف سیرت   مسلمانوں  سے باہر کے کاموں کو نظر انداز کرنے کا ) مزاج رکھتے تھے  اس لئے وہ فارغ التحصیل طلبہ  سب کے سب  مسجدوں میں اور مسلمانوں کے سامنے  وعظ کہنے کے لائق بن سکے ۔ کسی کو اس بات سے انکار نہیں کہ  مسلمانوں کی اصلاح بھی بہت بڑاکام ہے اور بہت ضروری ہے   لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ  اس دائرہ  کے باہر بھی بہت سے کام ہیں  اور ہر پیغمر نے اس کام کو انجام دیا ہے اور اس ’’ باہر ‘‘ کے کام کو نہ کرنے کا  انجام یہ ہواہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان وہ کمیونیکیشن گیپ  کمیونیکیشن گیپ پیدا ہو گیا ہے جو عہد صحابہ اور عہد رسالت میں موجود نہیں تھا۔جہاں کہیں مسلمان  غیر مسلموں  کے درمیان رہتے ہوں  وہاں ان کی کوئی  اصلاحی تحریک  جو صرف مسلمانوں کے لئے ہو وہ صرف جزوی طور پر سیرت طیبہ اور پیغمبرانہ کام سے مطابقت رکھتی ہے ۔ آج اگراس ملک میں  برادران وطن سے ڈائلاگ کرنا ہے  اور اسلامی عقیدہ  ان کو سمجھانا ہے  یا ان کے اعتراضات کا جواب دینا ہے  تو ان کی زبان سے اور ان  کے مذہب سے پورے طور واقفیت حاصل کرنی پڑے گی ۔ اور ہندی اور ہندو سے واقف  علماء تیار کرنے کے لئے مدارس کے نصاب میں تبدیلی کرنی پڑے گی ۔اتحاد اورمسلمانوں کی دینی تربیت  اورنئی نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کے بعد سب سے زیادہ ضروری کام یہی ہے ۔
    ہندوستان میں عہد حاضر میں غیر مسلموں  میں کام کرنے کی ضرورت اور اہمیت  کا احساس  جماعت  اسلامی کو ہوسکا  جس نے  ہندوستان کی تمام زبانوں میں  قرآن مجید کے  ترجمے  کی  تحریک شروع کی تھی ،  اورہر زبان میں اس جماعت نے اسلامی لٹریچر تیار کروایا  اورپھر اس ضرورت اور ار اہمیت کا احساس  مولانا ابو الحسن علی ندوی کو  ہوسکا  جنہوں نے برادران  وطن کو خطاب کرنے کے لئے پیام انسانیت کی تحریک شروع کی تھی  انہوں نے مولانا عبد الکریم پاریکھ کو اپنے ساتھ لے کر پورے ملک میں  برادران وطن  کو انسانی اقدار کی طرف توجہ دلائی۔ پیام انسانیت  کا  یہ کام براہ راست دعوت  کا کام نہ تھا  لیکن دعوت کے کام کے لئے اس سے زمین  ہموار ہورہی تھی  ۔  جس شخص کا مزاج پورے طور سیرت سے تشکیل پائے گأ اس کے کار وفکار کا دائرہ ایسا ہی ہوگا  اگر اس وقت مدارس کے ذمہ داروں نے  اپنا غیر سیرتی ( خلاف سیرت ) داخلی رویہانوارڈ اٹی ٹیوڈ  نہیں تبدیل کیا  اور نصاب تعلیم کو غیر مسلموں سے برادران وطن سے خطاب کرنے کے لائق نہیں بنایا  تو اس کے نتائج  خطرناک ہوں گے  اور یہ ملک جہاں مسلمانوں نے کئی سو سال حکومت کی ہے  اسپین کے مماثل  بن سکتا ہے  ۔
                                                                 مانو نہ  مانو  جانِ جہاں  تم  کو  اختیار 
                                                     ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

0 comments: