featured

بولنے کی آزادی اور کتوں کے بھونکنے کا فرق .!

10:36 PM nehal sagheer 0 Comments



عمر فراہی

آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور بھونکنا کتے کی پیدائشی فطرت - جمہوریت میں انسان کو بولنے کی آزادی ہے اس لئے وہ خود کو آزاد سمجھتا ہے لیکن انسان کے بولنے اور کتوں کے بھونکنے میں کوئی فرق نہ ہو تو ایسی آزادی کا کیا مطلب..؟ مگر جو چیز انسان کو ایک حیوان نما جانور پر فوقیت اور فضلیت دیتی ہے وہ کیا ہے ؟
آپ میں سے اکثر کا جواب شاید یہ ہو کہ  انسان کا علم اسے دوسری مخلوق سے افضل اور اشرف بناتا ہے تو ہماری ناقص رائے میں جو جتنا تعلیم یافتہ اور ذہین ہے وہ اتنا ہی اچھا بولتا ہے ۔ لیکن چیخنا ، پکارنا ، آواز اٹھانا یابولنا ہی صرف کسی مسئلے کا حل ہوتا تو ہم میڈیا کو اس لئے اپنا مسیحا سمجھتے کیونکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سارے پڑھے لکھے لوگوں کے بولنے چیخنے اور چلانے کی ایک بھیڑ لگی ہوئی ہے - لیکن اگر میڈیا کے اس چیخنے اور چلانے سے اخلاق کے بعد نجیب اور پہلو خان کا قتل نہ ہوا ہوتا تو ہم سمجھتے کہ میڈیا نے کامیابی حاصل کرلی - اس کے برعکس کچھ شریف لوگوں کی یہ ذہنیت بنتی جارہی ہے کہ میڈیا ہی فساد کی اصل جڑ ہے - دوسرے لفظوں میں دیکھا جائے تو موجودہ لبرل میڈیا اور کتے کی فطرت میں ایک زبردست مماثلت پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کتے جب کسی شخص کی چال ڈھال اور لباس سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ کمزور ہے تو ہی بھونکنا شروع کرتے ہیں اور اس وقت ہی  بھونکتے ہیں جب ان کے ساتھ کتوں کا گروہ موجود ہو - مگر کتوں کی یہ ٹولی گروہ میں ہوکر بھی اس وقت کبھی نہی بھونکتا جب اس کی گلی سے کوئی ہتھیار بند سپاہی یا کوئی مسلح شخص گذر رہا ہو - میں نے دیکھا ہے کہ کتوں کے یہ گروہ اس وقت پتلی گلی سے بھاگنا شروع کردیتے ہیں جب میونسپلٹی کی گاڑی انہیں قید کرنے کیلئے آتی ہے - تازہ مثال عام آدمی پارٹی کے سربراہ کیجریوال پر دو کروڑ رشوت پر میڈیا جس طرح واویلا کر رہا ہے ۔ کیا اسے نہیں پتہ کہ دلی کے دس جن پتھ کے بنگلوں میں بی جے پی اور کانگریس کے جو لیڈران رہائش پذیر ہیں ان کی قیمت دو سو کروڑ ہے اور ان میں رہنے والے اپنے اوپر اور اس مکان کی دیکھ ریکھ میں ہر مہینے لاکھوں روپئے خرچ کرتے ہیں - کیا ملک کے ان لیڈران کو دو سو کروڑ کے مکانات میں رہنے کا حق ہے - کیا ان مکانات پر ماہانہ آنے والا خرچ عوام کے ٹیکس کا پیسہ نہیں ہے - کیا عوام کی اس محنت کی کمائی کو اتنی غیر ذمہ داری سے خرچ کرنا سرکاری بدعنوانی نہیں ہے ؟ لیکن میڈیا  طاقتور حکمراں طبقات کی اس بدعنوانی کو محسوس کرتے ہوئے بھی آنکھ پھیر لیتا ہے تو اس لئے کہ طاقتوروں کے خلاف آواز اٹھانے پر انہیں کتوں جیسی ان کی اوقات بتا دی جائے گی - ہم بولنے والوں کو بھی اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ جمہوری طرز سیاست میں کیا ہم واقعی بولنے کیلئے آزاد ہیں اور کیا ہمارے بولنے اور کتوں کے بھونکنے میں کوئی فرق بھی ہے ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو ماحول میں بہتری کی وہ تبدیلی نظر بھی آنی چاہیے اگر نہیں تو پھر ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہم کتوں کی طرح خوف اور دہشت کے ماحول کا اندازہ لگا کر تو نہیں بول رہے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیسی جمہوریت اور کیسی آزادی لیکن احترام انسانیت اور رحم کےجذبات سے ناپید جدید تعلیمی نصاب بھی جو نئی نسلوں کو اچھا بولنا تو سکھا دیتی ہے لیکن ان کے بولنے اورکتوں کے بولنے میں اگر کوئی فرق محسوس کیا جاسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن و دماغ سے سیاسی پینترابازی بدل کر اپنا دفاع کرلیتا ہے جبکہ کتے بے موت مارے جاتے ہیں -

0 comments: