featured

صاحبو! کوئی راہ عمل ہے؟

6:48 PM nehal sagheer 0 Comments


قاسم سید
   
مرکز میں برسراقتدار این ڈی اے سرکار اپنی مدت کے تین سال پورے کرنے جارہی ہے۔ سابقہ حکومتوں کے برعکس اس نے ملک کو نئی سوچ کے راستے پر ڈال دیا ہے، جس کا اظہار حکومت کے رویوں سے لے کر سڑکوں تک ہورہا ہے۔ یہ بحث الگ ہے کہ یہ فکر ملک کو نیا قالب عطا کرے گی یا اس کے حصے بخرے کرنے کی طرف دھکیلے گی، لیکن اس فکر کی جارحیت، انتہاپسندی اور یک رخاپن نے بڑے طبقہ کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، حتیٰ کہ سیکولر منافقین بھی اضطراب محسوس کررہے ہیں۔ ان کے سافٹ ہندوتو کو گرم ہندوتو اژدہا بن کر نگلنے کو بے تاب ہے تو ان کی فکر و تشویش کا تعلق اپنے وجود کی بقا کے لئے ہے۔ مسئلہ صرف شہریوں کی پسند ناپسند کا نہیں سیاسی نظام کے تحفظ کا بھی ہے، جس کو دھیرے دھیرے بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور سب ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اب صورت حال ایسی بنادی گئی ہے کہ دوسری سب سے بڑی اکثریت یا سب سے بڑی اقلیت پر غیرمحسوس طریقہ سے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ ووٹ بینک کی جابرانہ سیاست نے اسے اچھوت بنادیا ہے۔ فراخ دلی سے کام لیں تو اس میں صرف ان پارٹیوں کا ہی ہاتھ نہیں ہے جو ہمیں پونچھے کی طرح استعمال کرتی رہی ہیں، بلکہ ہمارے اپنوں کی بھی سنگین اور ناقابل معافی غلطیاں ہیں، جو آنے والے وقت کا رتی بھر احساس کو بھی تھپک کر سلانے اور غلاموں کی طرح ان پارٹیوں کے خون کرتے رہے۔ یہ غیرمشروط وفاداری کا بندھن ان لوگوں کا رہین منت رہا جنھوں نے آزادی کے بعد سے ہی کانگریس سے عہد وفا کرلیا تھا۔ اقتصادی تباہ کاری کی بھیانک سازشوں نے بھی اس رشتہ کو کمزور نہیں ہونے دیا اور جب بھی غلامانہ ذہنیت نے انگڑائی لی اس پر تصوراتی و خیالی اندیشوں کے کوڑے برساکر کھونٹے کو اور مضبوط کردیا۔ یہ لوگ کسی بھی صورت میں معافی کے قابل نہیں اور نہ ہی ان میں اتنی جرأت ہے کہ وہ اپنی تعبیراتی و حکمت عملی کی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ انھوں نے اپنے اردگرد تقدس اور عزت مآب کا اتنا طاقتور ہالہ بنادیا کہ اگر کوئی اعتراض یا تنقید کا پتھر آئے بھی تو اسے ملت مخالف، بزرگ مخالف اور فرقہ پرست قوتوں کا ایجنٹ قرار دے کر معتوب و مقہور کردیا جائے۔ بحمداللہ یہ سلسلہ آج بھی اس آن بان شان سے جاری ہے اور نئی نسل کا قیمہ بنایا جارہا ہے۔ ان کے پاس موجودہ حالات میں بھی کوئی روڈمیپ نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ ذہن مائوف یا خوف زدہ ہیں اس لئے کوئی عملی قدم اٹھانے اور لائحۂ عمل دینے میں تکلف محسوس کررہے ہیں۔ دراصل عوام اور رہبران کے درمیان وسیع خلیج ہے جو روز بروز گہری ہوتی جارہی ہے۔ جو نہیں چاہتے کہ عوام کالانعام ان کے منھ لگیں، ان کے پاس عقیدت مندوں کی تربیت یافتہ فوج ہے، جس کے حصار میں رہ کر اپنی طاقت اور اہمیت منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کانفرنسوں اور جلسوں کے ذریعہ گاہے بگاہے اس کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے، مگر حیرت ہے کہ حکومت اس کے باوجود ان سے رابطہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، جو پی ایم سے ملنا تو چاہتے ہیں مگر ان کے بلاوے پر، از خود میل کرنے میں ان کے پندار انانیت کو چوٹ پہنچتی ہے اور یہیں ان کے طرز عمل کے دہرے پن کی چادر ہٹ جاتی ہے۔ اگر وزیراعظم غلط آدمی ہے جس کی وجہ سے آپ ملنا نہیں چاہتے تو اس کے بلاوے کا انتظار اور اس پر ملاقات کا اقرار کیوں؟ بہرحال جن لوگوں کی معراج اور مقبولیت کی دلیل کی کسوٹی ہی پی ایم سے ملاقات ہو ان کی ذہنی پسماندگی کا کوئی علاج نہیں، اس انتظار میں تین سال گزر گئے، کیا پتہ اگلے دو سال میں لاٹری کھل جائے۔
دراصل وہ بھیڑیا انسانی آبادی میں گھس آیا جس کا شور مچاکر اور خوف دلاکر ووٹوں کو سمیٹا جاتا تھا، اب اس نے ان بستیوں کا رخ کرلیا ہے جن کے تحفظ کے لئے سیکولر اور جمہوری اقدار کی باڑھ لگائی گئی تھی۔ اس کی مرغوب غذا صرف اقلیتیں ہی نہیں ہیں وہ سول سوسائٹی بھی ہے جو کثرت میں وحدت کی دل سے قائل ہے اور اس کے لئے قربانیاں دیتی آئی ہے۔اس کی آواز دبائی جارہی ہے، اسے دیش کا غدار، ہندوئوں کا دشمن کہہ کر ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے۔ جے این یو اسی مزاحمت کی طاقتور علامت ہے، وہ مظلوم طبقات نشانے پر ہیں جو اس کی منواسمرتی میں فٹ نہیں بیٹھتے اور ہر وہ نظریہ جس میں زندگی کی سچائیاں اور مزاحمت کی رمق ہے، اس کے اوّلین اہداف میں شامل ہے۔ اور چونکہ مسلمان ایک نظریاتی اکائی ہیں اس لئے ان کے حوصلوں کو توڑکر خوف و دہشت کا ذہنی مریض بتایا جارہا ہے اور وہ اپنی کوششوں میں نیک نیت ہیں، اپنے ارادوں کو کانگریس و دیگر سیکولر منافقوں کی طرح چھپاکر نہیں رکھتے۔ ان کے نشانے پر گائوں کے میلوں ٹھیلوں میں گائے بھینس فروخت کرنے والے، ان کا دودھ بیچ کر گزارا کرنے والے، سڑک کنارے پنکچر جوڑکر پیٹ کی آگ بجھانے والے، گوشت کی چھوٹی دکان چلاکر خاندان پالنے والے بھی آگئے ہیں۔ گئورکشوں کے بھیس میں جنونی غنڈوں کی فوج دندناتی پھررہی ہے۔ دادری کا اخلاق بیف رکھنے کی افواہ میں مارا گیا، پہلو خان کو دن دہاڑے شارع عام پر دوڑا دوڑاکر لوہے کی راڈوں سے مارکر دم نکال دیا۔ جھارکھنڈ کے لاتیہار میں محمد مظلوم اور بارہ سالہ عنایت اللہ مارچ 2016 میں نام نہاد گئورکشکوں نے پہلے اَدھ مرا کیا، پھر پیڑ پر لٹکاکر پھانسی دے دی۔ ہریانہ میں گزشتہ سال جانور لے جانے والے مسلم لڑکوں شدھی کرن کے لئے گائے کا گوبر اور پیشاب منھ میں ٹھونسا گیا۔ جموں میں غریب پنجارا مسلم پریوار کو گئورکشکوں نے بری طرح زدوکوب کیا۔ ان کے خیمہ کو آگ لگادی، بزرگ کو لہولہان کردیا، عورتیں ہاتھ جوڑکر رحم کی بھیک مانگتی رہیں ان کو 9 سالہ معصوم بچی پر بھی ترس نہیں آیا۔ حد تو یہ ہے کہ اب بھینس لے جانے والوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔ قومی راجدھانی میں تین لڑکوں کو اس لئے مار مارکر ادھر مرا کردیا کہ وہ بھینسوں کو اس شان و توقیر اور عزت و وقار کے ساتھ نہیں لے جارہے تھے جس کی وہ مستحق تھیں اور ان کی دلآزاری ہوئی۔ یہ لوگ مرکزی وزیر مینکا گاندھی کی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے، یعنی اب جانوروں کے حقوق انسانی حقوق پر مقدم ہیں، گئورکشا کے نام پر کسی کا قتل جائز ہے، راڈوں، لاٹھیوں، ہاکیوں سے ہاتھ پیر توڑے جاسکتے ہیں۔ اس کے باوجود مسلمان گئوہتیارا، غدار، دہشت گرد اور خواتین پر ظلم کرنے والا نظر آتا ہے، اس لئے وہ واجب القتل یا مستوجب سزا ہے اور اس کا اختیار غنڈوں کو دے دیا گیا ہے۔ ریاستی حکومتیں اور حکمراں جماعت کے لیڈر ایسے واقعات کا دفاع اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
مرکز میں حکومت تبدیلی کے بعد متواتر ایسے واقعات ہورہے ہیں، انھیں گئورکشک غنڈوں سے دہشت زدہ کیا جارہا ہے۔ وہیں قانون کا سہارا لے کر روزی روٹی کمانے کے راستے بند کئے جارہے ہیں۔ بی جے پی 13 ریاستوں میں برسراقتدار ہے، وہ کھلے طور پر کہتی ہے کہ مسلمان ہمیں ووٹ نہیں دیتے پھر بھی کسی شریف مسلمان کو پریشان نہیں کیا گیا۔ دراصل وہ کہنا چاہتی ہے ہمیں آپ کے ووٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پارلیمانی الیکشن اور پھر یوپی میں عملاً کردکھایا کہ 18 فیصد آبادی کا کوئی نمائندہ یوپی سے لوک سبھا نہیں پہنچنے دیا۔ تمہاری مخالفت کے باوجود سرکاریں بنالیں، تمھیں سیاسی حاشیے پر ڈال دیا، تمہاری سیاسی حیثیت زیروکردی، اس لئے اب دامادوں والی عادت سے چھٹکارا پالیں تو بہتر ہے۔ یہ مار صرف معاشیات پر ہی نہیں چوطرفہ ہے، تعلیمی محاذ پر اے ایم یو اور جامعہ ملیہ کا اقلیتی کردار چھیننے کا پورا انتظام کرلیا گیا ہے۔ اسکولوں کے نصاب میں انقلابی تبدیلیاں ہورہی ہیں، قومی ہیروز بدلے جارہے ہیں۔ وندے ماترم اور یوگا کو لازمی بنادیا گیا ہے۔ تہذیبی شناخت مٹانے اور مذہبی وابستگی کمزور کرنے کی ہر ممکن تدابیر کو قانونی جامہ دیا جارہا ہے، حتیٰ کہ کھانے پینے کا مینو بھی سرکار طے کررہی ہے۔ صرف مزدور اور درمیانی طبقہ ہی ہدف نہیں ہے دانشور اور متحرک طبقہ بھی لطف و عنایات کی زد پر ہے۔ ذاکر نائیک کا صرف بوریہ بستر نہیں لپیٹا گیا ان کو دہشت گرد بھی ثابت کردیا جائے گا۔ نظریاتی اختلافات رکھنے والے اس پر خوش ہوسکتے ہیں اور تالیاں بھی بجاسکتے ہیں، ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں الزام لگتے ہی اسے مجرم سمجھ لیا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جو خاموش ہیں یا دور کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں، خود کو مامون و محفوظ سمجھ رہے ہیں، کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا جاہ و جلال، عزت و رتبہ، ہماری جماعت، ہمارے ادارے، مدارس و مساجد محفوظ رہ جائیں گے؟ کیا آگ کے مزید بھڑکنے کا انتظار ہے کہ آنچ گھر تک نہیں پہنچی ہے۔ مغربی یوپی کے 18 سو مدارس و مساجد سیکورٹی ایجنسیوں کے راڈار پر ہیں، ان کی نقل و حرکت پر نگاہ ہے۔ مدرسوں میں آنے جانے والے ہر شخص پر نظر ہے۔ جو خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم ابھی محفوظ ہیں، کچھ پتہ نہیں کل کوئی اور نائیک تلاش کرلیا جائے، کیونکہ خاموشی حوصلہ بڑھاتی ہے۔ ہندوئوں کو مضبوط قوم بنانے اور ہندو لوگوں کے احساس کو ہوا دینے کے لئے مسلمانوں اور دیگر مظلوم طبقات سے جانوروں جیسا سلوک، آگ لگانے، مارپیٹ کے واقعات سے ہندو گورو پھلتا پھولتا ہے اور سیاسی صف بندی ہندو-مسلم کے نام پر ہوجاتی ہے۔
اب دو تین سوال ہیں، کیا تیزی سے بدلتے سیاسی محور کی سنگینی محسوس کررہے ہیں؟ کیا بی جے پی اور مسلمانوں کے سیاسی رشتوں پر غور و فکر اور نظرثانی کی ضرورت ہے؟ کیا سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے؟ یوپی میں یوگی راج پانچ سال تو رہے گا تو کیا مرکز کی طرح اترپردیش میں بھی سرکار سے گفتگو کا دروازہ بند رکھا جائے گا۔ بی جے پی کی لگاتار فاتحانہ پیش قدمی کا کوئی علاج ہے؟ سیکولر پارٹیوں نے اپنا بندوبست کرکے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ کیا تین طلاق پر ہمیں ان کا ساتھ مل سکے گا؟ کیا آنے والے طوفانوں سے نمٹنے کی کوئی تیاری ہے؟ کیا ہمارے معزز علمائے کرام اور مخلص رہنما کوئی راستہ دکھائیں گے؟ کیا اندرونی اختلافات ختم کرکے مشترکہ جدوجہد کی کوشش کریں گے؟ کیا ٹیکٹیکل ووٹنگ کے عذاب سے نجات پائیں گے؟ کوئی راہ عمل ہے؟ یا پہلو خان یوں ہی مرتا رہے گا۔
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: