کانگریس مکت بھارت

2:17 PM nehal sagheer 0 Comments


آزادی کے بعد گاندھی جی کا خیال تھا کہ کانگریس پارٹی کو تحلیل کردیا جائے اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کس طرح سے آزادبھارت کی جمہوریت کی تقدیر لکھتے ہیں مگر کانگریسی رہنما اس پر متفق نہیں تھے۔نتیجتاًکانگریس نے انتخابات میں ایک فریق کی طرح حصہ لیا اور عرصہ دراز تک اقتدار پر قابض رہی ۔اس دوران اس نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے شکست وریخت سے دوچار ہوئی عروج و زوال کا ذائقہ بھی چکھا مگر ایمرجنسی کے بعد کے دو سال اور واچپئی کے پانچ سالہ دور حکومت کو چھوڑکر کانگریس ہی مرکزی حکومت پر قابض رہی یہ اور بات ہے کہ کئی ریاستیں اسکے ہاتھ سے نکلتی رہیں ۔کانگریسی رہنماؤں نے اپنے عروج کے زمانے میں اپنے کسی بھی مخالف کو نہیں بخشا۔مخالف جماعتوں کو مٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے کبھی مزدور تحریکوں کو کچلنے کے لئے مہاراشٹر میں شیوسینا کے بال ٹھاکرے کی افزائش کی تو کبھی پنجاب میں سنت جزیل سنگھ بھنڈراں والے کی پرورش کی یہ اور بات ہے کہ آگے چل کر یہی لوگ کانگریس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے ۔مخالف جماعتوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے کانگریس نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا لیکن کانگریس پارٹی خود بھی ایک خاندان کی اجارہ داری بن کر رہ گئی ایک وقت تھا کہ اندرا از انڈیا اور انڈیا از اندرا کے نعرے پورے ملک میں گونج رہے تھے یہی وجہ ہے کہ جب نہرو خاندان کا زوال شروع ہو ا تو کانگریس بھی ہزیمت سے دو چار ہونے لگی اور کانگریس کی نیا کا کوئی کھیون ہار نہیں ملا اور ساری ذمہ داری ناتواں اور ناتجریہ کاندھوں پر آگئی۔کانگریس نے اقتدار میں رہنے کے لئے بیسا کھیوں کا سہارا لیا اور اتحادیوں نے اپنی حمایت کی خوب جم کر قیمت وصول کی ۔کانگریس کا آخری دور اقتدار گھوٹالواں اور کرپشن کا دور ثابت ہو اس درمیان میڈیا نے کانگریس کی جم کر مخالفت کی انا ہزارے کی تحریک نے کانگریس کو بری طرح پامال کیا ۔تبدیلی کی لہرمودی لہر بن کر ابھری اور کانگریس کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے گئی ۔ساٹھ سال تک ملک پر حکومت کرنے والی جماعت تین کے ہندسوں کے قریب بھی نہ پہنچ سکی۔مسلمان اور دلت ہمیشہ ہی کانگریس کے ووٹ بینک رہے کچھ تو کانگریس کی سیکولر اور کچھ فرقہ پرست جماعتوں کے خوف نے مسلمانوں کو ہمیشہ کانگریس کے قریب رکھا کانگریس نے اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،شاہ بانو اور بابری مسجد جیسے مسائل میں الجھا کر مسلمانوں کو کبھی اپنے تعلق سے سوچنے کا موقعہ نہیں دیا ۔ ۲۰۰۲ ؁ کے گجرات فسادات کو چھوڑ کر تقریباً جتنے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے وہ کانگریس کے دور میں ہوئے ۔بیشتر فرضی انکاؤنٹر اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں بھی کانگریس کی ہی مرہون منت ہیں پھر بھی مسلمانوں کی اکثریت کانگریس سے ہی وابستہ رہی مگر بابری مسجد کے سانحہ نے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ کانگریس سے بددل ہو گئے۔ بابو جگ جیوں رام کے بعد کوئی بھی رہنما دلتوں کو کانگریس سے جوڑے رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ کانسی رام اور مایا وتی کے عروج نے دلتوں اور پسماندہ طبقوں کو کانگریس سے دور کردیا ۔منہ بھرائی اور ہر ایک کو خوش رکھنے کی پالیسی بھی کانگریس کے لئے سم قاتل ثابت ہوئی ۔نتیجہ علاقائی پارٹیوں کی مقبولیت کی شکل میں ظاہر ہوا اور کانگریس مرکز میں اقتدارمیں رہتے ہوئے چند صوبوں میں سمٹ کر رہ گئی ۔آج حالت یہ ہیکہ کانگریس ایک علاقائی پارٹی سے بھی کمزور نظر آرہی ہے ایک کے بعد ایک ریاستیں اسکے قبضے سے نکل گئی ہیں ۔جو باقی رہ گئی ہیں وہ بی جے پی کی ریشہ دوانیوں اور خود اپنوں کی نافرمانیوں کا شکار ہو کر آخری سانسیں لے رہی ہیں ۔پارٹی میں کوئی رہنما ایسا نہیں ہے جو کانگریس کے ناتواں جسم میں قوت ڈال سکے ۔سونیا جی ابھی بھی غیر ملکی ہی نظرآرہی ہیں راہل گاندھی میں پختگی نہیں آپارہی ہے حالانکہ بی جے پی حکومت اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں پوری طرح ناکام ہے اور غلطیوں پر غلطیاں کر رہی ہے مگر کانگریس میں اسکی غلطیوں کا فائدہ اٹھانے کی صلاحت نہیں رہ گئی ہے۔ جے للیتا، ممتا ، کیجری وال اور نتیش کمار کے عروج کی قیمت بھی کانگریس کو ہی چکانی پڑرہی ہے ۔ اسلئے اندیشہ یہی ہے کہ اپنی تمام ترخامیوں کی وجہ سے بھلے ہی بی جے پی اگلے پارلیمانی انتخابات کے بعد اقتدار میں نہ رہے لیکن کانگریس کے لئے بھی کوئی مزدۂ جانفزا نہیں ہے

ڈاکٹر اصغر علی انصاری
آعظمی نگر، بھیونڈی
مہا راشٹر۔
email: asgharansari2@gmail.com

0 comments: