ہیں رقص میں بلائیں مضافات و شہر میں (قسط اول)

3:24 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

اسلام کے نزول سے ہی یہود و نصاریٰ اس کے ازلی دشمن رہے ہیں، دن رات وہ اسی ادھیڑ بن میں رہتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو کس طرح اپنے جال میں پھانس کر ان کی زندگیاں اجیرن کردیں۔ جو لوگ حالات و واقعات پر نظر رکھتے ہیں وہ یقیناًاس بات کی گواہی دیں گے۔ گزشتہ چند دہائیوں قبل یوروپی ممالک کے وزرائے خارجہ اور ارباب فکر و دانش نے ایک کانفرنس منعقد کی تھی جس کے اختتام پر شرکاء نے یہ قرار داد پاس کی تھی کہ ’’ایک ایسی ریاست جو عرب اور مسلمانوں کے حوالے سے ازلی دشمن ہو، جو مغرب کی صحیح معنوں میں وفادار بھی ہو اور پروردہ بھی، اسے نہرسوئز کے مشرق میں قائم کیا جاناچاہیے تاکہ عربوں کو ہمیشہ کے لیے متفرق و پراگندہ رکھا جاسکے۔‘‘ لیکن اس وقت اس قرارداد پر عمل درآمد کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ کا باعث بنا وہ مسلمانوں کا نظام خلافت تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے اسے زمین بوس کرنے کی کوشش کی گئی۔ 1922 میں جب سلطان عبدالمجید خلافت کے منصب پر فائز ہوئے تو قصر خلافت مخدوش ہوچکا تھا اور خلافت کے دشمنوں کی ریشہ دوانیاں عروج پر تھیں۔ اس دور میں جب سلطان عبدالمجید کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آئی تو خلیفہ کولارڈ ہرڈرل نے یہ پیشکش کی کہ وہ کچھ مال و دولت کے عوض فلسطین کو فروخت کردیں، اس پر سلطان نے کہا کہ ’’فلسطین میری ذاتی ملکیت نہیں کہ میں اسے فروخت کرتا پھروں، میری لاش کے ٹکڑے ہونا اس سے بہتر ہوگا کہ میں اسلامی ریاست کے ٹکڑے ہوتے دیکھوں، ہاں خلافت ختم ہوگئی تو فلسطین تمہیں مفت ہی مل جائے گا۔‘‘ 
تاریخ گواہ ہے کہ 1924 میں خلافت کے خاتمہ کے چند برس بعد ہی اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آگیا جس کا اولین مقصد مشرق وسطیٰ کے وسائل پر قبضہ کرنا تھا جو دنیا کے 60 فیصد وسائل کی مالک مسلم ریاستیں ہیں۔ اس ناجائز قبضہ کے باعث ہی عرب اسرائیل میں کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ میں آگ لگانے اور اس کے نزدیک کھدائی کرانے جیسے مذموم اور شرمناک واقعات نے پوری مسلم دنیا کو سوچنے پر مجبور کردیا، جس کے باعث ہی مسلم ممالک کو مشترکہ پلیٹ فارم دینے کے لیے اسلامی کانفرنس تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ اور جس کے مقاصد و نصب العین میں یہ بات واضح طور پر درج کی گئی کہ فلسطین اپنے حقوق اور خطہ کی آزادی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، ان کی کوششوں میں بھرپور مدد و معاونت کی جائے گی۔ لیکن افسوس کہ فلسطینیوں کی صورت حال میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ یہ کہا جائے کہ پہلے کے بہ نسبت کہیں زیادہ ابتر و بدتر ہوگئی ہے تو یقیناًغلط نہ ہوگی۔ یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ فلسطین کی وہ تنظیمیں بھی جو اس کے کاز اور جدوجہد آزادی کے لیے معرض وجود میں آئیں وہ بھی ناکام ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی جنگ کرنے والی دو اہم تنظیمیں ہیں جن کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ الفتح کے سربراہ یاسر عرفات اور حماس کے روح رواں شیخ یٰسینؒ کی قربانیوں کو کون اور کیسے نظر انداز کرسکتا ہے۔ ان عظیم روحوں کے رخصت ہوجانے کے بعد یہ تنظیمیں کمزور پڑنے لگیں بلکہ انہیں بے اثر بنانے کے لیے ایک دوسرے کو ٹکرا دیا گیا، اس طرح کی مذموم سازشیں اور منصوبہ بند حکمت عملیاں انہیں سازشوں کا حصہ ہیں جو یہود و نصاریٰ نے اول وقت میں تیار کی تھیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہودی لابی دن بہ دن اپنے مقصد کے حصول میں آگے بڑھ رہی ہے اور فلسطینی عوام اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کرپا رہے ہیں اور صورت حال سنگین سے سنگین رُخ اختیار کرتی جارہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت حال مسلم دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے؟ اور پھر مسلم دنیا کا ہی کیا اس معاملے میں عالمی دنیا کا طرز عمل بھی تو کچھ مختلف نہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان نے اپنے دور اقتدار کے آخری دنوں میں یہ ’جرأت مندانہ بیان‘ دے کر واضح کیا کہ جب تک فلسطین کا فیصلہ نہیں ہوگا، مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ یقیناًیہ ایک دہکتی اور چشم کشا حقیقت ہے لیکن اس سارے منظرنامہ میں اقوام متحدہ جیسے ادارے سے کسی بھی طور کی کوئی مثبت توقع فضول ہے۔ کیونکہ یہ ادارہ بھی دیگر اداروں کی طرح مسلمانوں کے تعلق سے بے فیض ہے اور یہ بات بھی کتنی دلچسپ ہے کہ ایسے اداروں اور سپرطاقتوں کے سربراہوں کے اقتدار کے دن جب پورے ہو رہے ہوتے ہیں تو انہیں اس وقت ہی سچائی نظر آتی ہے۔ بہرحال ان سے ہی کیا خود جب اپنے ہی اپنے نہیں تو دوسروں سے کیا شکایت؟ OIC جسے قائم ہی مسلم دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے کیا گیا تھا آخر اسے کیا ہوگیا ہے جو اسے کیوں سانپ سونگھ گیا ہے؟ 
OIC اس وقت تقریباً 103 ملین مسلمانوں کے حقوق کی ترجمان ہے۔ اس کے ممبروں میں مشرق وسطیٰ، شمالی، مغربی افریقہ، وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر کے ممالک شامل ہیں۔ اس کے قیام کو لگ بھگ چالیس پینتالیس سال کا عرصہ گزرگیا ہے اور ہر کانفرنس میں فلسطین پر مظالم کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کی جاتی رہی ہیں لیکن یہ قراردادیں معصوم و مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام کو نہ روک سکیں اور نہ ہی ان کے جمہوری حقوق انہیں دلواسکیں۔ کیا محض قراردادیں ہی امت مسلمہ کے سلگتے مسائل کا حل ہیں؟ آج پورا عالم اسلام یہود و نصاریٰ کے گھناؤنے عزائم اور منصوبوں کے جال میں پھنس کر تڑپ رہا ہے اور مسلم حکمراں عیش و عشرت کے محلوں میں تو محوِ خواب ہیں یا پھر اپنے اقتدار کے دوام کے لیے ان طاقتوں کے فریب میں ہیں جو عالم اسلام کے ازلی دشمن ہیں۔ ظاہر ہے جب ایسے حالات ہوں گے تو ایک نہ ایک دن ان محل نشینوں کو بھی انہی حالات سے گزرنا پڑے گا جن سے آج عالم اسلام کا بچہ بچہ دوچار ہے۔ 

مسلم دنیا میں یہ تلخ حقیقت وقت گزرنے کے ساتھ عیاں ہوتی گئی ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ غیر ملکی طاقتیں نہیں بلکہ مسلمانوں پر مسلط وہ حکمراں ہیں جو غیر ملکی طاقتوں کے آلۂ کار کے طو رپر کام کر رہے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو اسلامی کانفرنس تنظیم اب تک عالم اسلام کا نقشہ ہی بدل چکی ہوتی۔ لیکن وہ کچھ اور کیا کرتی اپنے گھسے پٹے اعلامیوں پر بھی عمل نہیں کرسکی۔ آج سے چالیس پینتالیس برس قبل اسلامی چوٹی کانفرنس کے اعلان مکہ میں جن عزائم کا اظہار کیا گیا اس کا عملی اظہار آج تک کسی بھی مسلم ملک میں نظر نہیں آیا۔ جہاں بھی اور جس ملک میں بھی مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا گیا، یا توڑا جارہا ہے، وہاں وہاں کے نہتے معصوم عوام خود ظالموں سے نبرد آزما ہیں۔ مسلم حکمراں اگر حقیقی کردار ادا کرتے تو عام مسلمانوں کو کسی جدوجہد کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ کتنی حیرت و شرم کی بات ہے کہ سارے عرب ملکوں کی فوجیں مل کر بھی فلسطین کو آزاد نہ کراسکیں اور ہر روز فلسطینی مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے جسے مسلم حکمراں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر رہے ہیں۔ بوسنیا، ہرزیگونیا میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا اور بالآخر بوسنیا کے حصے بخرے بھی ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ ان مسلم حکمرانوں نے کیا کیا جو عالمی کانفرنسوں میں بہت کچھ کرنے کے عزائم اور اعلامیے جاری کرتے رہتے ہیں۔ 

0 comments: