ہیں رقص میں بلائیں مضافات و شہر میں (۲)

3:26 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

مسلمانوں کی تاریخ پر جب بھی نظر جاتی ہے تو پوری تاریخ کرب و بلا نظر آتی ہے اور ہر طرف اپنوں کی سادگی اور غیروں کی عیاری کی داستان بساط عالم پر پڑی عبرتناک صورت حال بیان کر رہی ہوتی ہے۔ ماضی قریب میں بوسنیا کی درد بھری کہانی لوگ ابھی بھولے نہیں ہیں، جہاں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے ہی مٹادینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی اور وہاں کے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے امریکہ اور یوروپی ممالک نے یہ کہا تھا کہ ہم تو مسلمانوں کی مدد کر رہے ہیں، یہی نہیں بلکہ یوروپی دنیا تقریباً ۴ برس تک بوسنیا کی آگ پر اپنے ہاتھ تاپتی رہی اور جب اسے یہ یقین ہوگیا کہ بوسنیا کے مسلمان اب ادھ مرے ہوچکے ہیں اور نسل کشی سے ان کی مزاحمتی صلاحیت زائل ہوچکی ہے تو اس نے بوسنیا کے معاملات میں ’مداخلت‘ بھی ضروری سمجھی، اس کی وجہ بھی بہت واضح تھی کہ سرب عیسائی تھے اور وہ روس کے زیر اثر تھے۔ عظیم تر سربیا وجود میں آجاتا تو پوری وادئ بلقان پر روس کے اثرات گہرے ہوجاتے۔ 
بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کیسی تھی اس کا اندازہ کرنا نہ اس وقت ممکن تھا نہ اب۔ یوں کہیے کہ بوسنیا ایک بہت بڑے مذبح میں تبدیل ہوگیا تھا جس کی پوری اسلامی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ سرب جہاں اجتماعی قتل عام کرسکتے تھے وہاں انہوں نے کیا، جہاں وہ گولہ باری کرسکتے تھے کی، جس جگہ پانی بند کرسکتے تھے، بند کردیا۔ جہاں غذا کی قلت پیدا کی جاسکتی تھی کی، وہاں مسلمانوں کو بھوکا مارا گیا، جہاں جہاں وہ کیمپوں میں مسلمانوں کو سڑاکر مار سکتے تھے وہاں وہاں وہ مسلمانوں کے چلتے پھرتے ڈھانچے تخلیق کیے۔ ان کی پالیسی تھی کہ نوجوان مسلمانوں اور بچوں کو چن چن کر ماردو۔ برسوں کے شدید بحران کے دوران ہزاروں مسلم خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں اور پھر یہ نعرہ بھی لگایا گیا کہ ہم مسلمانوں کے یہاں سرب بچے پیدا کریں گے۔ اس صورت حال کا سب سے ہولناک پہلو یہ تھا کہ قتل عام اور عصمت دری کے 80 فیصد واقعات میں وہ لوگ ملوث تھے جو چالیس پچاس سال سے مسلمانوں کے ’پڑوسی‘ تھے۔ 
بوسنیا مارشل ٹیٹو کے یوگو سلاویہ کا حصہ تھا جس نے مسلمانوں کی مذہبیت کو گہرا دفن کردیا تھا۔ بوسنیا مسلمانوں کی عظیم اکثریت نام کی تھی مسلمان نہیں تھی انہوں نے اپنے نام بھی مقامی انداز میں رکھ لیے تھے لیکن ان مسلمانوں کو بھی یہ کہہ کر مارا گیا کہ تم نہیں تو تمہارے آبا و اجداد تو مسلمان تھے، تمہارے جسموں میں انہیں کا خون ہے۔ آج عالم اسلام خصوصاً عالم عرب میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے قضیہ فلسطین اور یہودی مقاصد کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ صبح کے نام پر شام ہی شام بلکہ گھپ اندھیرا بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے اور یہ کہ مسلمانوں کی حقیقی صبح کب نمودار ہوگی؟ 
بوسنیا، چیچنیا، الجزائر، قبرص، سوڈان، صومالیہ گو کہ جہاں جہاں بھی مسلمانوں کی کچھ مسلمیت کی جھلک نظر آتی ہے انہیں زندہ درگور کرنے کی سازشوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ دیگر مسلم ملکوں کی طرح ہی صومالیہ میں بھی انتشار پیدا کیا گیا اور برسوں سازشوں کے جال میں پھانس کر ادھ مرا بنادیا گیا۔ اس بدقسمت ملک کی محرومیوں کا جائزہ لینے کی اگر کوشش کی جائے تو چاند کے بہانے چھت پر پہنچنے کی کوشش ہی کہی جائے گی یعنی 1976-77 میں صومالیہ کے چند فوجی اتفاقاً ایتھوپیا کے علاقے میں داخل ہوگئے تھے جہاں صومالی مسلمان بھی مقیم تھے، یہی وہ واقعہ ہے جو صومالی مسلمانوں کے لیے ناسور بن گیا اور مسلمانوں کے دشمنوں کے لیے صومالیہ مداخلت کا جواز بھی بن گیا۔ جس کے نتیجے میں امریکہ بہادر کو آگ برسانے کا موقع مل گیا، ہزاروں کی جانیں گئیں اور لاکھوں کی املاک جل کر خاک ہوگئیں۔ 
ایتھوپیا جہاں عیسائی اکثریت ہے اس کے اسرائیل کے ساتھ بہت ہی قریبی روابط ہیں اسے اسلامی دنیا کے دل میں خنجر گھونپنے کے لیے تیار کیا گیا۔ 1990 کی دہائی میں صومالیہ امریکہ کی ہزیمت کی علامت بن کر ابھرا تھا اور امریکہ اس تجربہ کو بھولا نہیں تھا مگر اس نے اپنی شاطرانہ ذہنیت کے مطابق صومالیہ میں خود آنے کے بجائے صومالیہ اور ایتھوپیا میں کرائے کے فوجی تلاش کرلیے اور انہیں اسلحے اور کروڑوں ڈالر بھی فراہم کیے تاکہ اس طرح صومالیہ مستقل طور پر میدان جنگ بنا رہے۔ اسی طرح جیسے اسلامی ممالک اس وقت دست و گریباں ہیں۔ مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے اسلامی ملکوں کے سربراہان و حکمراں سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی بھیگی بلّی بنے ہوئے ہیں۔ 
بہرحال دنیا کی سب سے سپرپاور سے تصادم مول لینا آج کے بے حس مسلم حکمرانوں اور بے سر و سامان کمزور مسلمانوں کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی مٹھی بھر اسلامی فکر رکھنے والے ہی دشمنوں کے میزائلوں، ٹینکوں اور جنگ جو طیاروں کا مقابلہ اینٹ و پتھر سے کرسکتے ہیں۔ یہ جنگ اپنی طاقت کے نشے میں بدمست استعمار کے منصوبہ سازوں نے عالم اسلام پر مسلط کر رکھی ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہر طرح کے حربی ساز و سامان سے لیس ہوجائیں۔ مادی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو کسی طور بھی برابر کا جوڑ نہیں ہے لیکن واقعات و حالات پر نظر رکھنے والے یہ منظر بھی دیکھ چکے ہیں چند نفوس پر مشتمل سرفروشوں نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت روس کو افغانستان میں دھول چاٹنے پر بھی مجبور کردیا ہے اور امریکہ بہادر کو بھی نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن جیسے حالات سے گزرنا پڑا ہے۔ 
9/11 کے بعد سے پوری دنیا میں مسلمانوں کے تعلق سے جو حالات رونما ہو رہے ہیں یا کیے جارہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ ہرگزرتا لمحہ مسلم اُمہ کو دعوت فکر دے رہا ہے۔ خاص طور سے ان مسلم حکمرانوں کے لیے جو اس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ انہیں مغربی ملکوں کی سوائے کاسہ گدائی کے قبلہ اول کی بازیابی اور اس کی حفاظت کا خیال بھی جاتا رہا اور آئے دن دین و ملت اور ناموس رسولؐ پر ہتک آمیز حملوں کا بھی کوئی اثر باقی نہیں رہا۔ ایسے حالات میں اب جبکہ اسلام کی روح غیر محسوس طریقہ سے عالم اسلام کی رگ و پے میں سرایت کر رہی ہے اور مسلمان اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے تو دوسری طرف امریکی استعمار اور ان کے صلیبی و صہیونی اتحادی اپنی تمام تر قہر سامانیوں کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں کے شہروں اور بستیوں کو تاراج کرنے کے لیے پابہ رکاب ہیں۔ حال اور مستقبل کی جنگ کا نقشہ بالکل واضح ہے۔ ایسے میں ہمارے مسلم حکمراں کس جانب کھڑے ہیں تاریخ کا راوی خاموش مشاہدہ کر رہا ہے۔ 
معتبر تجزیہ کاروں، مبصروں اور دانشوروں کے خیال میں یہ بات بڑی حد تک سچ ثابت ہونے والی ہے کہ مسلم اُمہ کے خلاف مغربی طاقتوں کی جنگ اب بہت ہی خطرناک مرحلہ میں داخل ہونے والی ہے اور عنقریب ہی انتہائی خطرناک حالات پیدا ہوسکتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑے ہی خوفناک صورت حال سے گزرنا پڑسکتا ہے۔ داعش جیسی تنظیموں کا جنم اور ان کی سرگرمیوں سے مستقبل کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کتنی سچی کہاوت ہے کہ بارود کی بو سے بھرے ماحول میں پرندوں کے چہچہے سنائی نہیں دیتے، امن کی فاختائیں ایسے حالات میں نہیں اترتیں۔ واضح رہے کہ دشمنوں کے ہاتھ اب ہمارے گریباں تک آپہنچے ہیں۔ افغانستان، عراق وغیرہ کا حشر آپ کے سامنے ہے اور اب کس کس کا حشر ان جیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟ یاد رکھیے دریوزہ گری، کاسہ لیسی موت ہے۔ اقتدار کے حصول اور اس کے دوام کے لیے خوشنودیوں کے طلب گار بن کر دین و ملت کا جنازہ اپنے ہی کندھوں پر ہر روز نئے قبرستانوں تک کب تک پہنچاتے رہیں گے۔ کاش کہ کوئی عالم عرب کے ان عالی جاہوں کو دور خلافت کے آخری خلیفہ سلطان عبدالمجید کا ہی بیان پڑھ کر سنادیتا تو ان کے اندر کی سوئی ہوئی غیرت بیدار ہوجاتی۔ بصورت دیگر حالات کے تیور تاریخِ اندلس دہرانے کے لیے بے تاب نظر آرہے ہیں جو تاریخ اسلامی کا بڑا ہی ہولناک اور عبرت ناک باب ہے۔ 

0 comments: