ایک دانشور کا فرسٹریشن

3:30 PM nehal sagheer 0 Comments

ایک دانشور کا فرسٹریشن 
ممتاز میر
انسان بڑی عجیب و غریب چیز ہے۔دنیا کابڑے سے بڑا ماہراس کے تعلق سے یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ کہ وہ کب کیا کرے گا کب کیا کہے گا اور کب کیا لکھے گا۔اگر مسلمان دانشور انسانوں کے کارناموں سے متاثر ہو کراس کا رتبہ نبیوں سے بڑھا سکتے ہیں تو پھر ہندو انسان کو بھگوان بنا دیتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں ۔قرآن تو بار بارصبر کی تلقین کرتا ہے ۔یہ اسلئے کہ ہم جوش میں ہوش کا دامن نہ چھوڑ دیں۔اپنی حدود سے تجاوز نہ کر جا ئیں مگر اچھے اچھوں کے ہاتھوں سے صبر کا دامن چھوٹ جاتا ہے اوروہ سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں۔
ایسا ہی ایک مضمون پاکستانی صحافی جناب جاوید چودھری کا ابھی چند دنوں پہلے نظر سے گذرا۔جناب جاوید چودھری خود ہمارے نزدیک پاکستان کے ایک بڑے اور معتبر صحافی ہیں۔ہم ان جیسے دانشور اور صحافی سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ اپنے ممدوح کی قصیدہ خوانی میں وہ بھی عام لوگوں کی طرح آپے سے باہر ہو جائیں گے ۔ایسا عموماً ہوتا ہے مگر ان کے ساتھ جو سیاستدانوں کی چاپلوسی میں غرق ہوتے ہیں۔ابھی کل کی بات ہے کہ ملائم سنگھ یادو کے ایک چمچے نے کہا (کون؟مولانا ملائم نہیں پہلوان ملائم سنگھ)کو صرف سبھاش چندر بوس سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔بالکل ایسے ہی ذہنی افلاس کا مظاہرہ جناب جاوید چودھری نے اپنے مضمون’’کیلا بھی سوچنے کے عمل کو تیز کرتا ہے‘‘میں کیا ہے۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں’’کابینہ کے لئے احتساب کا ایک کڑانظام تشکیل دیا گیا ،اس نظام سے کوئی شخص مبرا نہیں تھا ‘‘کیا اس سے بہتر مثالیں مسلمانوں کو خلافت راشدہ میں میسر نہیں۔کابینی ارکان کی بات تو بہت دور کی ہے ،کیا خود خلفائے راشدین نے اپنے آپ کو نظام انصاف کے سامنے پیش نہیں کیا؟چلئے خلفائے راشدین کی بات جانے دیجئے وہ بہت اونچے لوگ تھے۔کٹکھنی بادشاہت کے دور میں بھی کیا ہماری تاریخ میں ایسے بادشاہ نہیں ملتے جنھوں نے عام لوگوں کی طرح ہی اپنے آپ کونظام انصاف کے سامنے پیش کیااور خود اپنے آپ پر سزائیں نافذ کروائیں۔کیا جاوید چودھری جیسے صحافی کو معلوم نہیں کہ چور کی قطع ید والی سزا کو، قتل کے مجرم کی سزائے موت کواور زانی کے سنگسار جیسی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں کہہ کر اسلام کو صدیوں بدنام کیا جارہا ہے۔اب اگر(پاکستانی حالات کے مد نظر)عوامی جگہوں پر گالیاں لکھنے کی سزا موت قرار دیدی جائے تو سوچئے کیا ہوگا؟اور آپ نہ سہی آپ کی برادری کے لوگ کیسا طوفان اٹھائیں گے؟ہم چونکہ انسان کی سیرت و کردار کی بہترین نہج پر تعمیر کے موید ہیں اسلئے نہ سنگاپور کے اس قانون کے مخالف ہیں نہ آپ کے ملک میں ایسے کسی قانون کے بننے پر مخالفت کریں گے مگر عوامی مقامات پر گالیاں لکھنے والوں کو سزائے موت دینے کی حمایت کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ڈیڑھ ارب انسانوں کے اپنی جان سے پیارے،والدین اور آل اولاد سے پیارے ہادی و رہبر کو گالیاں دینے والوں کی سزا کیا ہوی چاہئے؟ہمارے نزدیک تو پھر ایسے شخص کو چوراہے پر چیر پھاڑ ڈالنا چاہئے۔مگرایسی باتیں کوئی دانشور کہاں کر سکتا ہے۔اگر کرے تو لات مار کر حلقہء دانشوری سے باہر نکال دیا جائے۔
مضمون کا سب سے خراب حصہ وہ ہے جسمیں انھوں نے اپنے ملک کے وزیر اعظم جناب نواز شریف اور لی کوان یو کی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔جناب نواز شریف جب سنگاپور گئے تو انھوں نے سنگاپور کے بانی وزیر اعظم لی کوان یو سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ کیا پاکستان کبھی سنگاپور بن سکے گا؟ظاہر ہے ایسے سوالات وہی مسلمان کر سکتے ہیں جو اپنے دین اور اپنی قوم کے تعلق سے احسا س کمتری میں مبتلا رہتے ہوں۔بہرحال لی کوان یو کا جواب جاوید چودھری کے الفاظ میں پڑھئے۔’’آپ کا خیال ہے کہ آپ کی اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی چنانچہ آپ لوگ اس عارضی دنیا پر توجہ نہیں دیتے۔آپ سڑک عمارت سیوریج سسٹم ٹریفک اور قانون کو سنجیدگی سے نہیں لیتے،جبکہ ہم لوگ اس دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں لہٰذا ہم لوگ اس دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا رہے ہیں۔وہ رکے اور زرا دیر بعد بولے آپ خود فیصلہ کیجئے
جو لوگ اس دنیا پر یقین نہ رکھتے ہوں وہ اسے خوبصورت کیوں بنائیں گے۔دوسری وجہ آپ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اپروچ درست نہیں۔میں پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں۔ہندوستان کی تقسیم سے پہلے میں اس علاقے میں پریکٹس کرتا تھا۔میرے موکل کلکتہ سے کراچی تک ہوتے تھے میں نے ان دنوں ہندو اور مسلمانوں کی نفسیات کو بڑے قریب سے دیکھا۔میرے پاس جب کوئی ہندو کلائنٹ آتا تھا اور جب میں کیس کے جائزے کے بعد اسے بتاتا تھا کہ تمھارے کیس میں جان نہیں۔تو وہ میرا شکریہ ادا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا کہ آپ مہربانی فرما کر دوسری پارٹی سے صلح کروادیں۔اس کے مقابلے میں مسلمان کلائنٹ کا جواب بڑا دلچسپ ہوتا تھا۔وہ کہتا تھا کہ وکیل صاحب آپ کیس دائر کریں میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا ۔میرا تجربہ ہے جو قومیں اپنی نسلوں کو ورثہ میں مقدمے اور مسئلے دیتی ہوں وہ ترقی نہیں کر سکتیں۔اور تیسری اور آخری وجہ آمریت ہے۔آپ کے ملک میں فوج مضبوط اور سیاستداں کمزور ہیں اور مجھے پوری دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ملا جس نے فوجی آمریت میں رہ کر ترقی کی ہو‘‘۔
ایسا لگتا ہے کہ جناب جاوید چودھری کو اس واقعے کو quoteکرنے کی غلطی کا احساس تھا اسلئے انھوں نے اس پورے واقعے کو نقل کرنے کے بعد یہ کہہ کر اس سے پلہ جھاڑ لئے کہ یہ لی کوان یو کاوژن تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر انھوں نے یہ پورا واقعہ لکھا ہی کیوں؟شاید ان کے لاشعور میں لی کوان یو کی کامیابی نے ان کی عظمت اسلام سے بھی بڑھادی ہے ۔کیا دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی تباہی اور پھر چند دہائیوں میں اس کا معاشی سپر پاور نمبر ۱ یک بن جاناسنگاپور سے بڑی کامیابی نہیں ہے۔کس کس کو گنائیں دنیا میں ایسی کامیابیاں بہت ہیں۔بھائی !بینظیر، زرداری اور نواز شریف جیسے حکمراں لی کوان یو جیسوں کے سامنے چپ ہی رہ سکتے ہیں جواب نہیں دے سکتے مگر آپ کیوں بھول گئے۔اگر اسلام دنیا کو اہمیت نہ دیتا تو پھر قرآن کے نزول کی ضرورت ہی کیا تھی ۔دین صرف اسلام ہے اور دین کا مطلب کیا ہوتا ہے۔یہ بھی غلط ہے کہ مسلمانوں نے دنیا کو خوبصورت نہیں بنایا ہے بلکہ جیسا خوبصورت مسلمانوں نے بنایا ہے ایسا کسی اور نے نہیں بنایا۔آج تو معاملہ اس حدیث کی مانند ہو گیا ہے جسمیں مسلمانوں کو مال کے فتنے سے خبردار کیا گیا تھا ۔کیا یہ دنیا کی محبت کے بغیر ممکن ہے۔دراصل معاملہ بالکل برعکس ہے۔
اب آئیے دوسری وجہ کی طرف جو وکیل اور کلائنٹ کے تعلق سے ہے۔یہی واقعہ ہم گاندھی جی کی خود نوشت میں بالکل انہی الفاظ میں پڑھ چکے ہیں۔اب ہم شک میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ یہ حقیقت ہے یا افسانہ۔مگر مسلمانوں کی یہ ذہنیت ،فطرت ،عادت بہرحال ایک حقیقت ہے۔آج سے تقریباً ۱۸ سال پہلے ممبئی میں ایک مسلمان پولس آفیسرنے ہم سے کہا تھا کہ پورا پولس ڈپارٹمنٹ یہ سمجھتا ہے کہ دوران فساد مسلمانوں پر فائرنگ کرو تو وہ بھاگتے نہیں بلکہ پولس سے مقابلے پر اتارو ہو جاتے ہیں اور غیر مسلم بھیڑ اسوقت حملہ کرتی ہے جب پولس اپنی جگہ سے ہٹ جائے یا ان کی حمایت پر کمر بستہ ہو جائے۔آخر میں ہم اپنی مثال دیتے ہیں۔۲۱ سال پہلے ہم بھی اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ٹاڈا کے تحت سنت یوسفی سے سرفراز ہو چکے ہیں۔جب ہم نے جیل میں قدم رکھا تو جیل میں موجود ٹاڈا کے ماہرین نے ہمیں صلاح دی کہ اب سال ڈیڑھ سال تک جیل میں چپ چاپ پڑے رہو، پھر ڈیڑھ سال بعد اس کی ضمانت کی عرضی عدالت میں داخل کرنا جس پر پولس سب سے کمزور چارج لگائے۔باہر بالکل یہی حال ہمارے وکلاء کا بھی تھا مگر ہمارے والدنے کہا کہ وکیل صاحب آپ کو کیا فرق پڑتا ہے ۔آپ کو تو ہر بار ضمانت کے لئے لڑنے کی فیس ملے گی۔چارو ناچار وکیل نے ضمانت رکھی اور اللہ کا کرنا کہ ہم سب کے سب۴ ماہ میں جیل سے باہر آگئے۔اب مسلمانوں کی یہ ذہنیت اچھی ہے یا بری اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں۔لی کوان یو کی بتائی ہوئی تیسری وجہ کے تعلق سے ہم کیا کہیں یہ تو آفاقی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہر حالت میں حکمراں فوج ہی ہوتی ہے چاہے وردی میں رہے یا بغیر وردی کے۔چاہے مارشل لاء لگائے یا فرنٹ مین کسی سیاستداں کو بنائے رکھے۔اور یہ بات تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ وجہ حکمرانی بھی آپ کے بھائی بند ہی ڈھونڈ کر دیتے ہیں اور اس کی حکمرانی کوآگے بھی بڑھاتے ہیں۔گو کہ یہ بات آپ بھی جانتے ہونگے کہ ابھی ایک دہائی پہلے تک داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر سب سے طاقتور فوج ترکی کی ہوا کرتی تھی۔آپ کے یہاں تو سیاستدانوں کو جیل میں یاجلا وطن کردیا گیا ۔اس سے زیادہ آپ کی فوج کی اوقات نہیں تھی ۔مگر ترکی میں وزیر اعظم کو دار تک چڑھا دیا گیا ۔آپ کی فوج خارجی معاملات میں ہمیشہ پھسڈی ثابت ہوئی ہے پھر بھی پاکستان کے کسی سیاستداں کی مجال نہیں کہ جرنیلوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے جبکہ ترکی ایک دہائی سے زیادہ ہوگئے سیاستدانوں نے فوج کو بیرکوں میں واپس بھیج دیا ہے۔تمام پاکستانیوں کو غور کرنا چاہئے کہ وہاں ایسا کیوں ہوا اور آپ کے یہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
چودھری صاحب!مسلمانوں کو سدھارنے کے لئے نہ باہر سے کسی شخصیت کو درآمد کر نے کی ضرورت ہے نہ آئیڈیالوجی کی ۔اگر نبیﷺ کے صفائی کو نصف ایمان قرار دینے کے باوجودکوئی گندہ رہنا پسند کرے توکوئی اور ایسے کو کیسے سدھار سکتا ہے۔ایسے لوگوں کے لئے ہی تو اسلام نے سخت سزائیں رکھی ہیں۔چونکہ اسلام کی ہیں اسلئے وحشیانہ ہیں ورنہ کوئی کچھ بھی کرتا پھرے۔پیٹریاٹ لاء بنا کر شہریوں کے بنیادی حقوق غصب کرلے ،مجال ہے کسی کی کہ چوں بھی کردے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب ہم میں کا ہر شخص اپنی پسند کا اسلام چاہتا ہے،چاہے اس کے نتائج کیسے ہی نکلیں۔اور ا سی لئے کبھی بے نظیر (مرحوم) تو کبھی زرداری تو کبھی نواز شریف کوتخت پیش کئے جاتے ہیں۔ادخلوا فی السلم کافۃ کی بات کرنے والوں کو مسند اقتدار سے دور رکھنے کے لئے غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی ہر قسم کے ہتھکنڈے اپنانے کو تیار رہتے ہیں۔اسیلئے گذشتہ ۶۸ سالوں میں پاکستان کو اچھی حکمرانی کا ایک دن بھی میسر نہ آسکا۔چلتے چلتے علامہ اقبالؒ کا یہ شعر چودھری صاحب کی خدمت میں پیش ہے ۔غور فرمائیے۔ اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر ۔خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ممتاز میر۔ 07697376137

0 comments: