ایران اسرائیل کے نقشِ قدم پر

3:41 PM nehal sagheer 0 Comments

عمر فراہی ،جوگیشوری،ممبئی ۔موبائل: 9699353811
ایران اسرائیل کے نقشِ قدم پر
جماعت اسلامی پاکستان کے جنرل سکریڑی عبدالغفار نے اپنے ایک ویڈیو ریکارڈنگ بیان میں یمن کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پورے فساد کا ذمہ دار یمن کا سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح اور اس کی وفادارملیشیا ہے۔جو ایک بار پھر یمن کے حوثی قبیلے کے شیعہ باغیوں سے مل کر اقتدار پر قابض ہونا چاہتا ہے اور انہوں نے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر کے سعودی عربیہ کو بھی دھمکی دینا شروع کر دیا تھا۔سعودی حکومت نے یمن کے صدر کی درخواست اور سرحد پر موجود باغیوں کے اسی خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے سخت کاروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ تنازعہ علی عبداللہ صالح کا باغیوں کے ساتھ مل کر بغاوت اور سعودی عربیہ کے درمیان کھڑا ہوا یہاں پر ایران کا نام کیوں لیا جا رہاہے۔عبد الغفار عزیز کے اس بیان پر اس لئے بھی ہنسی آتی ہے جیسے کہ دنیا کے سارے مسلمان بیوقوف ہیں اور وہ انہیں بچوں کی طرح بہلا رہے ہیں۔ انہیں پتا ہونا چاہئے کہ جماعت اسلامی خود پچاس سال سے اپنے لاکھوں افراد کے باوجود سرمائے کی قلت سے دو چار ہے اور اسی قلت کی وجہ سے وہ فلاح و بہبود کے اتنے بھی مراکز نہیں قائم کرسکی ہے کہ کم سے کم بڑے شہروں میں ہی اس کی کوئی شناخت باقی ہو۔کیا علی عبد اللہ صالح بغیر کسی ملک کی حمایت اور امداد کے لاکھوں کروڑوں روپئے کے ہتھیار اور فوجوں کی تنخواہ کا نظم کرسکتا ہے؟ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اسی بیان میں انہوں نے بشار الاسد کی سفاکیت اور درندگی کا تذکرہ تو کیا مگر جس گناہ کو قبول کرنے میں خود ایران اور اس کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو شرم نہیں آتی ،آخر جماعت اسلامی کے ذمہ داران بار بار ایران کا دفاع کیوں کررہے ہیں؟جیسا کہ تقریبا ایک سال پہلے جماعت اسلامی ہند کے ترجمان اخبار دعوت بھی اپنے تبصرے میں ایران کا دفاع کرتے ہوئے لکھ چکا ہے کہ ’’اگر سعودی عربیہ کو شام میں مداخلت کا حق ہے تو ایران کو کیوں نہیں ‘‘؟ ایران کہاں تک بے قصور ہے اور اسے کہاں تک اپنا دفاع کرنے کا حق ہے اور کیا وہ اس تعلق سے کسی تنظیم اور اخبار کی حمایت کا محتاج ہے اس تعلق سے علی میاں ؒ نے اپنی تصنیف انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کے اثرات ،میں لکھا ہے کہ ’’مغلیہ سلطنت کے بعد مشرق میں ایران کی صفوی حکومت جو ایک بڑی متمدن اور ترقی یافتہ سلطنت تھی لیکن شیعیت کے غلو اور ترکی حکومت سے نبر د آزمائی نے اس کو کسی اور کام کی فرصت نہ دی اور وہ بہترین زمانہ (جو یوروپ کی تعمیر و تنظیم کا تھا)بھی ترکی حکومت کے حد ود پر حملہ کرنے اور کبھی اپنی حفاظت اور مدافعت میں گذر گیا ۔علی میاں ؒ آگے لکھتے ہیں کہ اس دور خزاں میں بھی ٹیپو سلطان اور حضرت سید احمد شہید جیسے صاحب عزیمت مجاہد پیدا ہوئے اور ممکن تھا کہ وہ خلافت راشدہ کے اصول و منہج کی یاد تازہ کردیتے لیکن قومی انحطاط اجتماعی پراگندگی ،بے نظمی اور سیاسی بے شعوری اس درجہ کو پہنچ چکی تھی کہ ایسی عظیم المرتبت اور طاقتور شخصیتیں بھی مسلمانوں کے حالات اور ان کے تنزل و انحطاط کی رفتار میں کوئی بڑی تبدیلی نہ پیدا کرسکیں ‘‘۔اس کا مطلب صاف ہے کہ ٹیپو سلطان،سید احمد شہید اور سراج الدولہ سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے آخری جانباز خلیفہ عبد الحمید ثانی جیسے غیرتمند اور بہادر سپاہیوں کی ناکامی اور شکست کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ بزدل نااہل یا جاہل تھے ۔بلکہ تاریخ کے اوراق کو پلٹنے کے بعد جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان جانبازوں نے ہمیشہ اپنی صفوں میں شامل میر جعفروں اور میر صادقوں سے دھوکہ کھایا ہے اور مسلمانوں کی اکثریت بھی اکثر آستین کے ان سانپوں کو اپنا مسیحا اور ہمدرد سمجھتی رہی ہے۔شاہ فیصل مرحوم ،ضیا ء الحق اور صدام حسین کی شہادت میں یہی کردار کام کررہے تھے۔حال میں اخوان اور ڈاکٹر مرسی کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ وہ عبد الفتاح السیسی کے منافقانہ کردار کو سمجھ نہیں سکے اور خطے کے وہ ممالک جو بظاہر اخوانی حکومت سے اپنی حمایت اور ہمدردی کا اظہار کررہے تھے ،انہوں نے بھی ایک ملک کی حیثیت سے اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کیا ۔یمن کی موجودہ صورتحال بیشک یمن کے سابق ڈاکٹر علی عبد اللہ صالح کی منافقت کی وجہ سے خراب ہوئی ہے مگر اس فساد سے ایرانی حکومت کو بری الزمہ قرار دینا ایران سے مسلسل دھوکہ کھانے کے مترادف ہے۔جو ایک زمانے سے عظیم تر اسرائیل کے نقش قدم پر عظیم تر ایران کا خواب دیکھ رہا ہے ۔فرق اتنا ہے کہ اسرائیل مسیح و دجال کا منتظر ہے ایران منجملہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کی طرح مہدویت کے منتظر ہونے کا دعویدار ہے ۔اب یہ فیصلہ تو مہدی کے ظہور کے بعد ہی ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے کس گروہ اور عقیدے کی نمائندگی کرتے ہیں۔یہ بات سچ بھی ہے کہ امام مہدی کا ظہور عراق اور شام کے ہی علاقوں میں ہونا ہے اور وہ وقت بھی عنقریب ہو سکتا ہے ایسے میں مسلمانوں کے تمام بہتر فرقے ایک دوسرے کی مذمت اور لعنت ہی کرتے رہ جائیں گے مگر جو لوگ مشرق وسطیٰ یا جزیرۃ العرب کی صورتحال کو بدلنے کے لئے سرگرم ہیں ،کہیں نہ کہیں ان میں کے ہی کسی گروہ کو مہدی کے ساتھ ہونے کی توفیق اور سعادت حاصل ہو گی۔عرب کے موجودہ انقلابی اپنی خلافت قائم کرکے یہ دعویٰ پیش بھی کر چکے ہیں ۔اسرائیل دجال کا منتظر ہے اس بات پر مسلمانوں کے تمام علماء متفق ہیں ۔ایران اپنے اسی مقصد کے لئے شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے ذریعے بشار الاسد کی کھلے عام مدد کررہا ہے اور بشار الاسد سنی مسلمانوں کو کافر سمجھ کر ذبح کرنے پر اتارو ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عربیہ کے حکمراں دودھ کے دھلے نہیں ہیں مگر سعودی حکومت نے ایران کی طرح مسلکی عصبیت اور مذہبی جنون میں مبتلا ہو کر اپنی سرحدوں کو وسعت دینے کا خواب کبھی نہیں دیکھا اور جس طرح وہ چند مسلم ممالک سے بھاڑے کی فوج لے کر حکومت کررہے ہیں انہیں صرف اپنا اقتدار عزیز ہے اور وہ اس مدد کی فوج سے کسی ملک پر قبضہ کرنا تو دور کی بات ہے اپنا دفاع کرنے کے بھی اہل نہیں ہیں۔شاید اسی لئے یہ بحث بھی کی جارہی ہے کہ اگر سعودی حکومت کو مستقبل میں کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان اس کی مدد کرے گا ۔یہ بھی سچ ہے کہ اگر وہ مسلکی عصبیت میں مبتلا ہوتا جیسا کہ ان پر وہابی سلفی ہونے اور ان کی مدد کا الزام لگایا جاتا ہے تو وہ اپنے مسلک سے وابستہ سنی سیاسی تحریک اخوانی حکومت جسکی وہ ماضی میں مدد اور حمایت بھی کر چکے ہیں ۔السیسی سے مل کر معزول نہ کرواتے اور ان سے مل کر ایران کی خبر لیتا ۔اور دوسرا ثبوت سنی تحریک داعش کے خلاف اس کی فوجی کارروائی ہے۔اس کے بر خلاف ایران اور حزب اللہ کے لیڈران جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں اور جیسے کہ ان کے عزائم ہیں یہ محسوس کیا جاسکتا ہے ،ایران اسلام سے بھی پہلے کی مملکت فارس کی شکل میں عظمت رفتہ کے جنون میں مبتلا ہے ۔اور امریکہ کو بار بار یہ لوگ اس لئے لعنت ملامت کرتے ہیں کیوں کہ یہ رومی اور عیسائی نسل سے ہیں جنہوں نے کبھی فارس کی سلطنت کا خاتمہ کردیا تھا۔سوال یہ ہے کہ ایران کی طرح اگر سعودی عربیہ اور دیگر سنی ممالک بھی اخوان اور داعش کی شکل میں اپنے ماضی کو تلاش کرنے لگیں اور منافقت کی روش اختیار کرنے لگیں تو کیا ایران کا اپنا وجود بھی قائم رہ سکے گا ؟ کم سے کم سعودی حکمرانوں کی اس اچھائی کا اعتراف تو کرنا ہی چاہئے کہ وہ منافق نہیں ہیں اور انہوں نے ماضی میں صدام حسین کے خلاف جو کچھ بھی کیا وہ خواہ امریکہ کی مدد ہی کیوں نہ لینی پڑی ہو ان کا چہرہ واضح تھا۔انہوں نے مصر اور شام میں بھی اپنی مداخلت کو واضح طور پر سامنے رکھا جبکہ ایران جو کہ شروع میں شام کی مددسے انکار کرتا رہا ہے بعد میں کھل کر سامنے آگیا اور اب یمن میں بھی اپنی مداخلت سے انکار کرتے ہوئے غیر اعلان شد ہ جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ یہ بھی دیکھئے کہ اس کے لوگ پوری دنیا کے سامنے مگر مچھی آنسو بہارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم معصوم اور مظلوم ہیں۔تین لاکھ لوگوں کو ذبح کرنے کے بعد بھی اگر یہ معصوم ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی یہ اور خون کے پیاسے ہیں ۔دنیا کے ان بد معاش ملکوں کی مکاری عیاری اور معصومیت پر سے نقاب اٹھاتے ہوئے دی گارجین لندن کے کالم نگار Owen Jones اوون جونس لکھتے ہیں کہ ’’طیاروں اور ہیلی کاپٹروں سے زمین پر گرائے جارہے بیرل بموں کی تباہی کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے ہی مگر جس بلندی سے یہ بم گرائے جارہے ہیں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ اپنے اصلی نشانے کو نہ پہنچ کر معصوموں اور بے گناہوں کے قتل کا سبب بھی بن جاتے ہیں ۔شام کا صدر انہیں ہتھیاروں کا استعمال کررہا ہے جس کی زد میں آکر تقریباً چھ ہزار لوگ ہر سال موت کا شکار ہو جاتے ہیں مگر بشار الاسد کی اس درندگی اور سفاکیت کی نہ تو کوئی ویڈیو جاری کی جاتی ہے اور نہ ہی وہ خود پروپگنڈے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ اپنی معصومیت ثابت کرنے کے لئے انہوں نے بھی افسوس اور ندامت کے اظہار کا وہی طریقہ اختیار کررکھا ہے جو عراق اور افغانستان وغیرہ میں ناٹو کی فوج کی حکمت عملی رہی ہے ۔اس کے بر عکس عراق اور شام میں داعش کا اپنا چہرہ بالکل واضح ہے اور وہ اپنے ذریعے ہوئے قتل عام کوخفیہ بھی رکھنا نہیں چاہتے ۔مگر جس انداز سے ہم ان کے عزائم کو شدت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں ،ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ نازی ازم کے بعد یوروپ نے بھی عہد کیا تھا کہ اب یوروپ کی طرف سے ایسا گناہ کبھی نہیں ہوگا ۔مگر اس کے بعد صرف 1960 میں انڈونیشیا کے اندر دس لاکھ انسانوں کا خون بہایا گیا اور پھر کانگو ،ویتنام ،صومالیہ ،کمبوڈیا اور عراق وغیرہ میں امریکی طیاروں سے گرائے گئے کارپیٹ بموں سے ساٹھ لاکھ کے قریب انسانوں کاخون بہایا گیا۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ افغانستان میں ہمیں نے جہاد کی شروعات کی تھی اور اب ہماری ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے ہی داعش جیسی تنظیموں کو عروج حاصل ہوا ہے۔انہیں برا کہنے سے پہلے ہمیں اپنے منافقانہ کردار پر بھی غور کرنا چاہئے ‘‘ہندوستان ٹائمز 7 ؍مارچ 2015 ۔یہ سبق دنیا کے مسلم حکمرانوں کے لئے بھی ہے کہ وہ اپنی منافقانہ روش سے باز آجائیں اور عوام کو جمہوری طور پر اپنے حکمراں منتخب کرنے کا حق دیں ورنہ حالات تو بہر حال بدلیں گے اور بدل رہے ہیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لوگ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی گنوا بیٹھو ۔خود مسلم تنظیموں کے ذمہ داران اور علماء دین کو بھی حق کی ترجمانی کرنی چاہئے چاہے یہ بات ان پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے۔
عمر فراہی ،جوگیشوری،ممبئی ۔موبائل: 9699353811

0 comments: