featured

ذہنی دھند: دماغ کی بغاوت یا جدید زندگی کی المیاتی پیداوار؟ کیا ہم واقعی اسمارٹ ہو رہے ہیں یا ذہنی طور پر کمزور؟



اسماء جبین فلک

علی کو وہ لمحہ اپنی روح پر ایک نقش کی طرح یاد ہے۔ وہ اپنے کیریئر کی بلند ترین عمارت کے کانفرنس روم میں تھا، جہاں ہر نظر ایک عدسے کی طرح اس پر مرکوز تھی۔ اچانک، اس کے ذہن میں کچھ ٹوٹ گیا۔ جیسے کسی نے شعور کی ہارڈ ڈرائیو پر فارمیٹ کا بٹن دبا دیا ہو۔ وہ الفاظ جو اس کی زبان پر تھے، بھاپ بن کر اڑ گئے۔ وہ اعداد و شمار جن پر اس کی کامیابی کا انحصار تھا، ایک بے معنی گورکھ دھندے میں تبدیل ہو گئے۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے خیالات کا بہاؤ منجمد ہو گیا ہے اور وہ ایک خالی، گونجتی ہوئی خاموشی میں قید ہے۔ کمرے کی روشنیاں ناقابلِ برداشت حد تک تیز محسوس ہونے لگیں اور کانوں میں ایک ہلکی سی سنسناہٹ نے ہر دوسری آواز کو دبا دیا۔ یہ محض یادداشت کی ناکامی نہیں تھی؛ یہ اس کے وجود کا اپنے ہی دماغ سے رابطہ منقطع ہوجانے کا ایک دہشت ناک تجربہ تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب علی نے پہلی بار "برین فاگ" کو ایک طبی اصطلاح کے طور پر نہیں، بلکہ اپنی ذات کے انہدام کی ایک زندہ حقیقت کے طور پر محسوس کیا۔

علی کی یہ کہانی محض ایک فرد کی داستان نہیں، بلکہ یہ جدید دور کے انسان کا اجتماعی المیہ ہے۔ ہم ایک ایسی تہذیب میں جی رہے ہیں جو رفتار، پیداواریت اور ہر لمحہ "آن لائن" رہنے کے جنون میں مبتلا ہے۔ اس تناظر میں، ذہنی دھند یا برین فاگ (Brain Fog) کوئی خرابی یا بیماری نہیں، بلکہ یہ ہمارے حیاتیاتی وجود کی طرف سے ایک بغاوت ہے۔ یہ ہمارے جسم اور دماغ کا اس غیر فطری رفتار کے خلاف ایک انتباہی نظام ہے، ایک چیخ ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم اپنی فطری حدود سے بہت تجاوز کر چکے ہیں۔

اس ذہنی بغاوت کی جڑیں ہمارے سونے کے کمروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کارپوریٹ کلچر اور مسابقت کی دوڑ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ نیند ایک عیاشی ہے، جسے کم کر کے پیداواریت بڑھائی جا سکتی ہے۔ علی کی کہانی اس کی ایک تلخ مثال ہے، جو اکثر رات گئے تک ای میلز اور پریزنٹیشنز میں الجھا رہتا، اور بچا کھچا وقت اسکرین پر گزار دیتا۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ نیند دماغ کے لیے محض آرام نہیں، بلکہ ایک فعال صفائی کا عمل ہے۔ معروف نیوروسائنٹسٹ مائیکن نیڈرگارڈ (Maiken Nedergaard) نے 2012 میں "گلیمفیٹک سسٹم" (Glymphatic System) کو دریافت کر کے یہ ثابت کیا کہ گہری نیند کے دوران دماغی اسپائنل فلوئیڈ ہمارے دماغ کو دھو کر ان زہریلے پروٹینز (مثلاً بیٹا ایمیلوائڈ) کو صاف کرتا ہے جو دن بھر کے ذہنی کاموں کے نتیجے میں جمع ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنی نیند پوری نہیں کرتے تو یہ کچرا ہمارے نیورانز کے درمیان جمع ہوتا رہتا ہے، جو اگلے دن سوچنے کی رفتار کو سست کردیتا ہے، توجہ کو منتشر کرتا ہے اور یادداشت کو کمزور بناتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شہر کا صفائی کا نظام رات کو کام کرنا چھوڑ دے اور اگلی صبح ہر گلی کوڑے کے ڈھیر سے بھری ہو۔

اگر نیند کی کمی اس مسئلہ کا ایک پہلو ہے تو ڈیجیٹل دور کا معلومات کا سیلاب اس کا دوسرا، اور شاید زیادہ خطرناک، پہلو ہے۔ ہم ایک "توجہ کی معیشت" (Attention Economy) میں جی رہے ہیں، جہاں ہماری توجہ ایک قیمتی شے ہے جسے ہر قیمت پر خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے نیوروسائنٹسٹ ڈاکٹر اینڈریو ہیوبرمین (Andrew Huberman) وضاحت کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا، نوٹیفکیشنز اور لامتناہی اسکرولنگ ہمارے دماغ کے ڈوپامین سسٹم کو ہائی جیک کر لیتے ہیں۔ ہر لائیک، کمنٹ یا نئی پوسٹ ڈوپامین کا ایک چھوٹا سا جھٹکا دیتی ہے، جو ہمیں بار بار اپنے فون کی طرف کھینچتا ہے۔ اس مسلسل خلفشار کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ طویل مدتی، گہری توجہ کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور چھوٹی چھوٹی، فوری تسکین کا عادی ہو جاتا ہے۔ علی کو یہ احساس نہیں تھا کہ رات کو بستر پر لیٹ کر "صرف پانچ منٹ" کے لیے فون دیکھنا دراصل اس کے دماغ کو اگلے دن کی ناکامی کے لیے تیار کر رہا تھا۔ یہ صرف نیلی روشنی کا مسئلہ نہیں، یہ دماغ کو ایک مستقل اضطراب اور بے چینی کی حالت میں مبتلا رکھنے کا عمل ہے جو ذہنی وضاحت کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ کیا یہ ترقی ہے یا ذہنی انحطاط، کہ تاریخ کی سب سے زیادہ معلومات تک رسائی رکھنے والی نسل اپنی توجہ کو چند سیکنڈز سے زیادہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت کھو رہی ہے؟

یہ ذہنی دھند صرف ہمارے سروں میں ہی نہیں، بلکہ ہمارے پورے وجود میں جڑیں رکھتی ہے، جس کا مرکز ہماری آنتیں ہیں۔ علی، اپنی طویل کام کی شفٹوں کے دوران، کافی، انرجی ڈرنکس اور پروسیسڈ اسنیکس کو اپنا ایندھن سمجھتا تھا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا یہ "ایندھن" دراصل اس کے جسم کے اندر ہی ایک آگ بھڑکا رہا تھا۔ حالیہ تحقیق نے "گٹ-برین ایکسس" (Gut-Brain Axis) کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ یہ غذائیں آنتوں میں جو سوزش پیدا کرتی ہیں، وہ اعصابی راستوں کے ذریعے براہِ راست دماغ تک پہنچ کر "نیورو-انفلیمیشن" (اعصابی سوزش) کا باعث بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لانگ کووِڈ-19 کے لاکھوں مریض، وائرس کے جسم سے نکل جانے کے مہینوں بعد بھی شدید برین فاگ کا شکار رہے۔ کووِڈ نے دراصل اس خاموش وبا کو عالمی منظرنامے پر نمایاں کردیا اور اس حقیقت کو تسلیم کروایا کہ جسمانی سوزش براہِ راست ہماری سوچنے کی صلاحیت پر حملہ آور ہو سکتی ہے۔ ہمارا جسم ایک پیچیدہ ماحولیاتی نظام ہے، اور جب ہم ناقص خوراک، ورزش کی کمی اور دائمی دباؤ کے ذریعے اس کا توازن بگاڑتے ہیں، تو دماغ اس کی قیمت ادا کرتا ہے۔

علی کے لیے وہ میٹنگ ایک المیہ نہیں، بلکہ ایک نعمت ثابت ہوئی۔ اس نے اسے رکنے اور سوچنے پر مجبور کیا۔ اس نے پہلی بار اپنے جسم کے بھیجے گئے انتباہی سگنلز کو سنجیدگی سے لیا۔ اس کا حل کسی جادوئی گولی میں نہیں تھا، بلکہ اپنی زندگی کے طرزِ عمل کو بدلنے میں تھا۔ اس نے صبح اٹھ کر فون چیک کرنے کی بجائے دس منٹ صرف اپنی سانسوں پر توجہ مرکوز کرنا شروع کی۔ اس نے ملٹی ٹاسکنگ کو خیرباد کہا اور ایک وقت میں ایک کام کرنے کے قدیم اصول کو دوبارہ اپنایا۔ اس نے رات کو سونے سے ایک گھنٹہ پہلے ٹیکنالوجی سے ناطہ توڑ کر کتاب پڑھنے کی عادت ڈالی۔ اس نے اپنی میز سے انرجی ڈرنکس ہٹا کر پانی کی بوتل اور پھل رکھ لیے۔ یہ تبدیلیاں معمولی تھیں، لیکن ان کے اثرات گہرے تھے۔ مہینوں کی مسلسل کوشش کے بعد، اس نے محسوس کیا کہ اس کے ذہن کا اندرونی موسم بدل رہا ہے۔ دھند چھٹ رہی تھی، اور سوچ کا نیلا آسمان دوبارہ نظر آنے لگا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ ذہنی وضاحت کوئی ایسی چیز نہیں جسے حاصل کیا جاتا ہے، بلکہ یہ ہماری فطری حالت ہے جسے ہم نے جدید زندگی کے شور میں کھو دیا ہے۔

آخر میں، برین فاگ کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ ہم سے ایک بنیادی سوال پوچھتا ہے: ہم کیسی دنیا تعمیر کر رہے ہیں؟ ایک ایسی دنیا جو انسانی ذہن کی حیاتیاتی حقیقت کا احترام کرتی ہے، یا ایک ایسی دنیا جو اسے ایک مشین سمجھ کر اس کی آخری حد تک نچوڑ لینا چاہتی ہے؟ اس دھند سے نکلنے کا راستہ مزید تیز رفتار ایپس یا بایوہیکنگ گیجٹس میں نہیں، بلکہ سست ہونے، قدرت سے جڑنے، حقیقی انسانی تعلقات استوار کرنے اور اپنے جسم کی دانائی کو سننے میں ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو اپنے آقا کے طور پر نہیں، بلکہ اپنے انسانی مقاصد کے حصول کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کریں۔ علی کی طرح، ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں اس لمحے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے جب ہمارا دماغ کام کرنا چھوڑ دے، بلکہ آج ہی سے ان خاموش سگنلز پر توجہ دینی ہوگی جو ہمیں ایک زیادہ متوازن اور حقیقی زندگی کی طرف بلا رہے ہیں۔ شاید تب ہی ہم بحیثیتِ مجموعی اس ذہنی دھند سے نکل کر ایک روشن اور واضح مستقبل کی طرف دیکھ پائیں گے۔

0 comments:

International

جوہری ہتھیاروں کی نئی دوڑ: سرد جنگ کا خوف اکیسویں صدی میں واپس



  اسماء جبین فلک  

عالمی استحکام کی نازک عمارت، جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بڑی مشکلوں سے تعمیر کی گئی تھی، آج ایک بار پھر لرز رہی ہے، کیوں کہ دنیا جوہری ہتھیاروں کی ایک نئی، پیچیدہ اور پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک دوڑ میں داخل ہو چکی ہے۔ اس بحران کے مرکز میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ دھماکا خیز اعلان ہے جس میں انہوں نے 33 سال کے طویل وقفے کے بعد امریکہ کے جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ فیصلہ محض ایک پالیسی کی تبدیلی نہیں، بلکہ یہ اس بات کا علامتی اعتراف ہے کہ ہتھیاروں پر قابو پانے کا وہ دور، جس نے کئی دہائیوں تک دنیا کو ایک خوف ناک تباہی سے بچائے رکھا، اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ یہ صورتِ حال کسی ایک ملک کے اقدام کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ عالمی سطح پر بداعتمادی، ٹوٹتے ہوئے معاہدوں اور ایک نئے کثیر قطبی عالمی نظام کی ابھرتی ہوئی حقیقتوں کا ایک سنگم ہے، جہاں طاقت کا توازن اب صرف واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان نہیں، بلکہ بیجنگ سمیت کئی نئے کھلاڑیوں کے گرد گھوم رہا ہے۔
اس نئی جوہری دوڑ کا تجزیہ ڈونلڈ ٹرمپ کی "امریکہ فرسٹ" کی حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کے گہرے فلسفے کو سمجھے بغیر نامکمل ہے۔ ان کا یہ اعلان کہ "وہ کر رہے ہیں، اس لیے ہم بھی کریں گے" دراصل ایک ایسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو بین الاقوامی معاہدوں اور سفارتی نزاکتوں پر ٹھوس، دکھائی دینے والی طاقت کو ترجیح دیتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اس اقدام کا جواز روس، چین، پاکستان اور شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی جوہری سرگرمیوں کو قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ ممالک خفیہ طور پر زیرِ زمین تجربات کر رہے ہیں، جن کے بارے میں دنیا کو لاعلم رکھا جا رہا ہے۔ یہ بیانیہ ایک ایسی دنیا کی تصویر کشی کرتا ہے جہاں امریکہ کے حریف خفیہ طور پر اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں، اور ایسے میں امریکہ کے لیے یک طرفہ طور پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا قومی سلامتی سے غداری کے مترادف ہوگا۔ اس فیصلے کا فوری محرک روس کے جدید ترین ہتھیاروں، خاص طور پر "پوسائیڈن" سپر ٹارپیڈو اور "بوریوسٹنک" ایٹمی توانائی سے چلنے والے کروز میزائل کے کامیاب تجربات ہیں۔ یہ 'قیامت خیز' ہتھیار، جو روایتی میزائل دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں، انہوں نے مغربی دفاعی حکمتِ عملی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور واشنگٹن کے پالیسی سازوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ کیا ان کے موجودہ جوہری ہتھیار اس نئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اگرچہ امریکی وزیر توانائی نے وضاحت کی ہے کہ ان تجربات میں فی الحال جوہری دھماکے شامل نہیں ہوں گے، لیکن محض تجربات کی بحالی کا اعلان ہی ایک ایسا علامتی قدم ہے جو ہتھیاروں کی دوڑ کو ایک نئی مہمیز دینے کے لیے کافی ہے۔
تاہم، یہ بحران صرف امریکہ اور روس کے درمیان روایتی دشمنی کا تسلسل نہیں ہے۔ اس نئی دوڑ کی سب سے خطرناک اور غیر متوقع جہت چین کا ایک کلیدی جوہری کھلاڑی کے طور پر ابھرنا ہے۔ سرد جنگ کے دوران، چین نے ایک محدود جوہری مزاحمت کی پالیسی اپنائے رکھی، لیکن صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین اب ایک عالمی معیار کی فوجی طاقت بننے کی خواہش رکھتا ہے، اور اس کے لیے ایک وسیع اور جدید جوہری ذخیرہ ناگزیر ہے۔ 2025 کے اعداد و شمار کے مطابق، چین اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 600 تک لے آیا ہے اور امریکی محکمہ دفاع کا اندازہ ہے کہ اس دہائی کے آخر تک یہ تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے، جو عالمی طاقت کے توازن کو یکسر تبدیل کر دے گی۔ چین کے نئے میزائل سائلوز کی تعمیر اور اس کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اسے وہ وسائل فراہم کر رہی ہے جو کبھی صرف امریکہ اور سوویت یونین کے پاس تھے۔ اس طرح، دنیا اب دو قطبی جوہری مقابلے سے نکل کر ایک انتہائی پیچیدہ 'سہ فریقی' مسئلے میں داخل ہو چکی ہے، جہاں تین بڑی طاقتوں کے درمیان غلط فہمی اور حساب کی غلطی کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ عالمی کشیدگی علاقائی سطح پر بھی سنگین اثرات مرتب کر رہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں، بھارت اور پاکستان کے درمیان جوہری توازن ہمیشہ سے نازک رہا ہے۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی ہتھیاروں کی دوڑ ان دونوں ممالک پر بھی اپنے ہتھیاروں کو جدید بنانے کے لیے دباؤ ڈالے گی۔ بھارت (180 ہتھیار) اپنی 'پہل نہ کرنے' کی پالیسی پر قائم ہے، لیکن چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور پاکستان (170 ہتھیار) کے ساتھ روایتی دشمنی اسے اپنی صلاحیتوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ دوسری طرف، پاکستان اپنے جوہری ہتھیاروں کو بھارت کی بڑی روایتی فوج کے خلاف ایک توازن کے طور پر دیکھتا ہے، اور اس کی حکمت عملی علاقائی استحکام کے لیے ہمیشہ ایک سوالیہ نشان بنی رہتی ہے۔ اسی طرح، شمالی کوریا (50 ہتھیار) کا جوہری پروگرام مشرقی ایشیا میں ایک مستقل خطرہ ہے، جب کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی غیر اعلانیہ جوہری صلاحیت (90 ہتھیار) اس خطے کی پہلے سے پیچیدہ سیاست میں ایک اور غیر یقینی عنصر کا اضافہ کرتی ہے۔ یوکرین کی مثال نے دنیا بھر کے چھوٹے ممالک کو یہ تلخ سبق سکھایا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے بغیر ان کی خود مختاری ہر وقت خطرے میں رہتی ہے، جس سے مستقبل میں جوہری پھیلاؤ کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
اس بحران کی جڑیں ہتھیاروں پر قابو پانے کے اس عالمی ڈھانچے کے ٹوٹنے میں پیوست ہیں جسے کئی دہائیوں کی محنت سے بنایا گیا تھا۔ 'جامع جوہری تجربہ پر پابندی کے معاہدے' (
CTBT) جیسے معاہدے، جن پر 187 ممالک نے دست خط کیے، آج اپنی افادیت کھو رہے ہیں کیوں کہ امریکہ جیسی بڑی طاقتوں نے کبھی اس کی توثیق ہی نہیں کی۔ امریکہ کا آخری جوہری تجربہ 1992 میں ہوا تھا، جس کے بعد ایک غیر رسمی پابندی قائم رہی، لیکن ٹرمپ کے اعلان نے اس پابندی کو توڑ دیا ہے۔ اس سے نہ صرف امریکہ اور روس کے درمیان باقی ماندہ معاہدوں، جیسے کہ 'نیو سٹارٹ'، پر دباؤ بڑھے گا، بلکہ یہ چین اور روس کو بھی کھلی چھوٹ دے گا کہ وہ بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے تجربات دوبارہ شروع کریں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ جب شفافیت اور تصدیق کے بین الاقوامی طریقہ کار ختم ہو جاتے ہیں، تو ہر ملک بد ترین صورتِ حال فرض کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، جس سے ایک ایسا شیطانی چکر شروع ہوتا ہے جہاں ہر اقدام جوابی اقدام کو جنم دیتا ہے۔
آج دنیا جس موڑ پر کھڑی ہے، وہ سرد جنگ کے مقابلے میں شاید زیادہ خطرناک ہے۔ اس وقت دشمن واضح تھا اور رابطے کے راستے موجود تھے۔ آج کی کثیر قطبی دنیا میں دشمنیاں زیادہ پیچیدہ ہیں اور غلط فہمیوں کا امکان کہیں زیادہ ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی، بشمول ہائپر سونک میزائل اور مصنوعی ذہانت، اس خطرے کو مزید بڑھا رہی ہے۔ جوہری تباہی کا وہ خوف، جسے بیسویں صدی کی تاریخ کا ایک باب سمجھ کر بھلا دیا گیا تھا، آج اکیسویں صدی کی ایک زندہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ یہ صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ عالمی برادری صرف ہتھیاروں کی گنتی پر توجہ نہ دے، بلکہ اس اعتماد اور تعاون کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کرے جو اس خطرناک دوڑ کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔

اسسٹنٹ پروفیسر، یشونت رائو چوان آرٹس و سائنس مہاودیالیہ، منگرول پیر، ضلع واشم، مہاراشٹر


0 comments:

News,

ذہنیت میں تبدیلی کے بغیر ذات پات کا خاتمہ ممکن نہیں : ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

 

 


            نئی دہلی، 4 نومبر: انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی (ISRD) نے ابوالفضل انکلیو، اوکھلا کے اسکالر اسکول ہال میں لیکچر سیریز کے تحت ”ہندوستان میں ذات پات کے نظام کی تاریخی، ثقافتی اور موجودہ صورتحال: دلت کمیونٹی کے حوالے سے“ ایک پروگرام منعقد کیا، جس میں ماہرینِ سماجیات نے ہندوستانی سماج میں ذات پات کے نظام پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ قانون سازی اور تعلیم نے اس کے اثرات کسی حد تک کم کیے ہیں، تاہم ذات پات کی جڑیں آج بھی سماجی ذہنیت میں گہرائی سے پیوست ہیں۔

            جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے صدارتی خطاب میں زور دیا کہ جب تک ذہنیت (mindset) تبدیل نہیں ہوگی، ذات پات کا نظام ختم نہیں ہوگا۔ انھوں نے واضح کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں میں جو ذات پات کا تصور پایا جاتا ہے، وہ اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں بلکہ ہندوستانی سماج کے اثرات کا نتیجہ ہے۔" انھوں نے کہا کہ ہندومت میں ذات پات مذہبی بنیاد رکھتا ہے، لیکن اسلام میں اس کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں۔ مسلمانوں میں یہ تصور صرف سماجی اثرات کے ذریعے آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام میں تمام انسان برابر ہیں، اور رسول اللہ نے اعلان فرمادیا کہ کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔ برتری صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ انہوں نے حضرت بلال? کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب مکہ فتح ہوا تو ایک حبشی غلام کو خانہ کعبہ کی چھت پر اذان دینے کا حکم دیا گیا۔ یہ اسلام کی حقیقی مساوات کا عملی مظہر تھا۔

            انھوں نے کہا کہ صرف قوانین بنانے یا بدلنے سے سماجی رویے نہیں بدلتے۔ جیسے کینسر کے مریض کو صرف درد کم کرنے کی دوا دی جائے، تو مرض ختم نہیں ہوتا۔ اسی طرح ذات پات کے مسئلے کا بھی سطحی علاج کافی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی بھی کافی نہیں جب تک دلوں سے تعصب نہ مٹے۔ بہت سے دلت لوگ اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے کے باوجود سماجی قبولیت اور عزت نہیں مل پاتی ، کیونکہ لوگوں کی ذہنیت وہی رہتی ہے۔

            مولانا ندوی نے قرآن کی آیات اور نبی کریم کے ارشادات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اللہ نے انسانوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ جب سب کا خالق ایک ہے تو کسی کو اشرف اور کسی کو ارزل نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام جہاں پہنچا، اس نے برابری اور عدل کا کرشمہ دکھایا۔ لاکھوں لوگ اسی تعلیم سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوئے۔ مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اپنی اصل تعلیمات سے دور ہو گئے ہیں۔

            انھوں نے ختلاف کیا کہ کاسٹ سسٹم انگریزوں کی پیداوار ہے۔انہوں نے وضاحت کی سچ بات یہ ہے کہ انگریزوں نے اس نظام کو قائم نہیں کیا بلکہ باقی رکھا۔ یہ ہزاروں سال پرانا ہندوستانی سماجی ڈھانچہ ہے جسے ختم کرنا آسان نہیں۔ انہوں نے مقرر پروفیسر ششی شیکھر کے اس قول سے اتفاق کیا کہ ذات پات ہندوستانی سماج ایک حقیقت ہے۔ ڈاکٹر رضی الاسلام نے مزید کہا شہری زندگی اور تعلیم کے باوجود ذات پات کا اثر کم نہیں ہوا۔ آج بھی تعلیم یافتہ اور شہری طبقے میں یہ تقسیم کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ ڈاکٹر ندوی نے اس خیال کی تردید کی کہ مختلف مذاہب کے درمیان شادیوں سے ذات پات کا نظام ختم ہو جائے گا۔ اسلام تو واضح طور پر دوسرے مذاہب میں شادی کو حرام قرار دیتا ہے۔

            تقریب کے افتتاحی کلمات میں جماعت اسلامی ہند، دہلی کے امیر سلیم اللہ خان نے کہا قرآن پڑھنے والا سب سے پہلے یہ مانتا ہے کہ انسان کا احترام اس لیے ہے کہ وہ انسان ہے.۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں باہمی احترام کے لیے دوطرفہ ذمہ داری ضروری ہے۔"اگر ہم اپنا احترام چاہتے ہیں تو دوسروں کا احترام کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کو جانیں، کیونکہ لا علمی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔"

ISRD کے سیکریٹری آصف اقبال نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ اس سیریز کا مقصد محض علمی بحث نہیں بلکہ "سماج کو سمجھنا اور سماج کے ساتھ جڑنا" ہے۔انہوں نے کہا "ہم چاہتے ہیں کہ دہلی جیسے متنوع شہر کے سماجی تانے بانے کو علمی بنیادوں پر سمجھا جائے تاکہ ہم ایک مثبت اور بامقصد کردار ادا کر سکیں۔"

            جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پردیپ کمار شندے نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ"کاسٹ اس ملک سے ختم ہونا بہت مشکل ہے۔ میں یہ پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ذات پات انگریزوں سے پہلے بھی ہمارے ملک میں موجود تھی۔ ہاں، انگریزوں کی مردم شماری نے اسے مستقل حیثیت ضرور دے دی۔"انہوں نے وضاحت کی کہ برطانوی دور میں مردم شماری کے ذریعے ہر شخص کی ذات کی درجہ بندی نے اس تصور کو ادارہ جاتی شکل دی، جس کے بعد یہ نظام مستقل صورت اختیار کر گیاا۔ ان کے مطابق:"انگریزوں سے پہلے ذات پات کا اثر مقامی سطح پر تھا، لیکن مردم شماری نے اس کو باقاعدہ شناخت دے دی۔ سماج میں کسی کی ذات پیدائش سے طے ہوتی ہے، اس کے بعد یہ طے ہوتا ہے کہ وہ کیا کھائے گا، کس سے شادی کرے گا، اور کس کے ساتھ میل جول رکھے گا۔"

ڈاکٹر شنڈے نے تاریخی حوالوں سے بتایا کہ ڈاکٹر بھیم راو  امبیڈکر نے 1930 کی دہائی میں اپنے لیکچر "Relations of Caste" میں یہ واضح کیا تھا کہ:"ذات پات کا نظام ہندو مذہبی صحیفوں سے آیا ہے۔ یہ مسئلہ اسلام یا عیسائیت میں نہیں پایا جاتا۔"

            انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ کچھ سماجی علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ چھوت چھات اور امتیاز میں کمی آئی ہے، لیکن زمینی سطح پر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

"آج بھی ہم سنتے ہیں کہ کسی دلت کو مندر میں داخل ہونے نہیں دیا گیا، یا شادی میں گھوڑے پر بیٹھنے پر تشدد کیا گیا۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ذات پات کا اثر کم نہیں ہوا، بلکہ یہ نئے روپ میں ابھرا ہے۔"

            انہوں نے راجستھان، دہلی اور اتر پردیش کے حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اور عدلیہ جیسے ادارے، جو بظاہر ذات سے ماورا ہیں، اکثر امتیازی رویہ اختیار کرتے ہیں۔"ہاتھرس (Hathras) کیس میں دلت طبقے کو صرف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے طویل جدوجہد کرنی پڑی۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ بیوروکریسی اور عدلیہ پر بھی ذات پات کا اثر قائم ہے۔"

ڈاکٹر شندے نے زور دیا کہ:"ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ ذات پات کے خاتمے کے لیے سیاسی طاقت ضروری ہے۔ مگر آج سیاست خود ذات پات کی بنیاد پر تقسیم ہے۔ ذات پات اب ہر ادارے اور طبقے میں سرایت کر چکی ہے۔"

انہوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ ذات پات کا مسئلہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہا بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے"برطانیہ میں دلتوں نے ’اینٹی کاسٹ بل‘ پیش کیا، اگرچہ وہ مسترد ہوگیا، لیکن اس سے واضح ہوا کہ ہندوستانی ذات پات کا مسئلہ اب عالمی سطح پر بحث کا موضوع ہے۔ امریکہ میں بھی ایک دلت انجینئر خاتون نے کاسٹ ڈسکریمنیشن کی شکایت درج کرائی۔"

انہوں نے مزید کہاکہ یہ کہنا کہ سب ہندو ہیں، اس لیے ذات پات کا مسئلہ ختم ہو جائے گا — ایک سیاسی فریب ہے۔ یہ سوچ اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔

            پروفیسر ششی شیکھر، دہلی یونیورسٹی ، نے اپنے خطاب میں زور دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ذات پات ہندوستانی معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان میں آپ اپنا مذہب بدل سکتے ہیں، لیکن ذات نہیں بدل سکتے، کیونکہ ذات پیدائش سے وابستہ ہے۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی اعلیٰ ذات کا مرد نچلی ذات کی عورت سے شادی کر لیتا ہے، تو عورت کو اپنی ذات کے مطابق سرکاری کوٹا ملتا، مگر ان کے بچے کو یہ حق نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ قوانین اور اصلاحی اقدامات کے باوجود ذات پات پر مبنی امتیاز آج بھی ایک زندہ حقیقت ہے۔

            پروفیسر شیکھر نے مزید کہا کہ ذات کے اندر بھی ذاتیں موجود ہیں۔ برہمنوں میں بھی اونچی اور نیچی ذاتیں دیکھی جا سکتی ہیں، جیسے آر ایس ایس کے سربراہ ایک چت پون برہمن ہیں، جنہیں سب سے اعلیٰ برہمن مانا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ذات کا نظام اس لیے مضبوط ہے کیونکہ یہ انسان کے سوچنے اور سمجھنے کے طریقے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جب تک ذہنیت نہیں بدلے گی، ذات پات کا خاتمہ ممکن نہیں۔

            انہوں نے وضاحت کی کہ تعلیم اور شہری زندگی (Urbanisation) نے ذات پات کے نظام کو کمزور ضرور کیا ہے، مگر یہ آج بھی دیہاتوں میں بہت مضبوطی سے قائم ہے۔ شہروں میں اگرچہ اس کی شکل مختلف ہے، لیکن وہاں بھی ذات کی بنیاد پر شناخت اور سیاسی وابستگی برقرار ہے۔ پروفیسر نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھاتے وقت یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون کس ذات سے ہے — حالانکہ تدریس میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے۔ مگر جب الیکشن کا وقت آتا ہے، تو وہی ذات پات کی سیاست دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے۔

 

0 comments: