مزاحمتی قائدین پر حکومت کی یلغار

7:29 PM nehal sagheer 0 Comments




گذشتہ مہینہ سے خاموش اکثریت والی ریاست میں تمام مزاحمتی قائدین پر حکومت نے قافیہ تنگ کیا ہوا ہے ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ریاستی حکومت نے کشمیر کے اندر جو فوجی کالونیوں اور پنڈتوں کے لئے علیحدہ ٹاؤن شپ کا منصوبہ بنا لیا ہے اس نے کشمیری عوام اور مزاحمتی قائدین کو فکر و تشویش میں مبتلا کیا ہے۔ کیونکہ اس طرح کا حکومتی اقدام کسی بھی طور قابل قبول نہیں جس میں ریاسست جموں و کشمیر کو فلسطین کے نقشہ میں پیوستہ کیا جائے۔جس طرح فلسطین میں اسرائیل کے قیام 1948 کے وقت کیا صورتحال تھی اور اب فلسطینیوں کی کیا حالت ہے ۔غاصب اسرائیلیوں اور ان کے آقاؤں امریکہ و یوروپ نے دنیا کی تاریخ کا سب بڑاغیر منصفانہ قدم اٹھا کر پوری دنیا کا امن و چین چھین لیا۔ حکومت کے اس طرح کے غیر فطری اقدامات کے خلاف یقینی طور وقتاً فوقتاً وادی کے اندر ناگفتہ بہ حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ عوام اپنی ناراضگی کا اظہار احتجاجی مظاہرے کے طور پرکرتے ہیں ۔جو کہ آج کی دنیا کا معروف طریقہ ہے ۔ لیکن حکومت نے ہمیشہ ناعاقبت اندیشی میں افہام و تفہیم کے بجائے آمریت کو ترجیح دی ۔جو کہ حکومت کے متکبرانہ کرادار کا کھلا ثبوت ہے۔اور اسی حکومت کی چھترچھایہ میں سلامتی دستوں نے جنت نظیر کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں کیں۔ اس غیرمنصفانہ اور ظالمانہ عمل کے خلاف اگرچہ انسانی حقوق کے علمبرداروں اور مزاحمتی قائدین نے آواز بلند کی تو اسرائیلی طرز پر حریت قائدین کے کئی کارکنان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاجاتا ہے ۔حکومت ہند اسرائیل کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کررہی ہے ۔بلکہ اب پالیسیز بھی اسرائیل کے اشارے پر بنائے اور اپنائے جارہے ۔منموہن حکومت میں وزیر خارجہ شری کرشنا نے اسرائیلی دوروں کے دوران ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل اور بھارت فطری اتحادی ہیں۔ا گرچہ اس طرح کی حرکت کا ارتکاب کرنا حکومت کی فطرت میں شامل ہے جو نِت نئے بہانے ڈھونڈھنے کی کوشش میں ہوتی ہے۔ اب کی بار ریاستی قائدین پر حکومت کی یلغار ناقابل برداشت ہے۔ کیونکہ ریاستی حکومت ریاست جموں و کشمیر کے مہذب سماج میں انتشاری بیانات کا شوشہ ڈال کے کشمیر کے مسلم طبقہ اور پنڈت برادران کے سالہا سال کے بھائی چارے کے رشتوں کو زک پہنچانے کی کوشش کررہی ہے۔ اتنا ہی نہیں المیہ یہ ہے کہ ریاست کے وزیر خزانہ حسیب در ابو جو کہ ایک مسلم اکثریت سے تعلق رکھتا ہے، انہوں نے کرسی کی خا طر اسلام کے منافی بیان دیا ۔ گذشہ کئی مہینوں سے کئی سرکردہ اخباروں میں شراب پہ پابندی کا تذکرہ کیا گیا تھا ۔ عوام کا ماننا ہے کہ ریاست کے اندر جو بھی برائیاں اور فواہشات نے جنم لیا ہے اسکا براہ راست تعلق شراب سے ہے۔اور سچائی یہ ہے کہ دنیا میں زیادہ خرابیوں کی جڑ شراب ہی ہے ۔لوگ اس کو مانتے بھی ہیں ۔حکومتیں بھی اس خرابی سے واقف ہیں اسی لئے اس پر قانونی تنبیہ بھی جاری کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود حکومتیں محض اپنی کمائی کے لئے اسے بند نہیں کرکے بلکہ اس کو پروموٹ کرکے انسانی صحت و اخلاق کا جنازہ نکال رہی ہیں ۔ جب بہار، ناگا لینڈ،گجرات،منی پور جیسی ریاست میں شراب جیسی زہریلی شے پہ حکومت کی طرف سے پابندی عائد کی جا سکتی ہے جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے ۔اسکے برعکس ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریت والی ریاست ہے جہاں بآسانی ریاست کی حکومت اس لعنت پر پابندی عائد کر سکتی تھی لیکن اس سنگین معاملے میں بھی حکومت کا رویہ جانبدارانہ رہا۔ جس میں ہرذی ہوش شخص کے ذہن میں یہ بات گونج رہی ہے کہ آ خر کن بنیادوں پر ریاست کے وزیر خزانہ نے شراب جیسی لعنت پر پابندی عائد کرنے کے بجائے اسے فری اسٹیٹ قرار دے کر شراب پر پابندی کی نفی کی۔ عوامی سطح پر جب بھی حکومت کے خلاف آواز بلند کیا جاتا ہے تو حکومت جمہوریت کا نقاب اتار کر آمرانہ رویہ اختیار کرتی ہے۔جبکہ جس عوام نے انہیں منتخب کیا ہے اسے آمریت نہیں جمہوری حقوق چاہئیں۔ کشمیر کے تقدس کو بحال کرنے کے لئے کشمیر اکنامک الائنس نے کئی بار حکومت کی ناقص پالیسی کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں بھی حکومت کے اسی آمرانہ رویہ کا شکار ہونا پڑا نیز نے قید میں ڈال دیا گیا۔ جو اس بات کا عندیہ ہے کہ ریاستی حکومت سماجی خرافات کو خود ہی ناسوربنانے کا ہر ممکن موقع فراہم کرتی ہے ۔ ایک طرف حکومت خود اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ کشمیر میں سماجی برائیاں حد پار کر گئی ہیں جس کے باعث کئی جرائم میں اضافہ ہو چکا ہے۔ توپھر دو رُخی پالیسی کیوں؟برائیوں کے خلاف حکومت کا رویہ سخت کیوں نہیں ہوتا ؟وہ کیوں نہیں ایسے اقدامات کرتی ہے کہ جس سے جرائم میں کمی آئے اور ریاستی عوام میں خوش حالی کا بول بالا ہو۔جس سے بیروں ریاست اور بین الاقوامی پیمانے پر بھی ریاست کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔ اتنا ہی نہیں کشمیر کے وراثت کی حفاظت، جس کا باضابطہ حکومت کی ہی جانب سے انکشاف ہوا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی ملکیتی زمین کس طرح ریاست سے باہر کئی ریاستوں میں تقسیم ہو چکی ہیں۔ سیاسی سطح پر کتنا خرد برد ہوا ہے۔ لیکن ان کا احتساب کون کرے گا۔کیوں کہ عوام کو تو جمہوری طور پر حکومت منتخب کرکے ایک ایسا لالی پاپ دے دیا گیا ہے کہ وہ کریں تو کیا کریں اور جائیں تو کہاں جائیں ۔حکومت منتخب تو جمہوری طور پر ہوتی ہے اور بعد میں اس کا رویہ آمرانہ ہوجاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جمہوری حکومت کے انتخاب میں عوام کی شمولیت کتنی ہوتی ہے یہ بھی آج کے لبرل نظام کا ایک معمہ ہے جو شاید مستقبل قریب میں تو حل ہونے سے رہا۔ عوام اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اس حساس معاملے میں حکومت نے جانبدارانہ رول ادا کیا ہے ۔اس نے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے ۔ سماج میں پل رہے خرافات کو ختم کرنے کے لئے کسی نہ کسی کو تو پہل کرنی ہے جس پر سارے مزاحمتی قائدین ایک جُٹ ہو کر حکومت کو جواب دہ بنانا چاہتے ہیں ۔ لیکن ا س تناظر میں ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اپنے گریباں میں جھانکنے کے بجائے حریت قائدین پر برس پڑیں کہ مزاحمتی قائدین کو سیاست میں مداخلت کرنے کے بجائے سماجی برائیوں کے لئے پیش رو ہونا چاہئے جس کے لئے وہ عوام میں اتحاد دیکھنا چاہتی ہیں۔ لیکن وہ صرف ایسے بیانات تک ہی محدود رہتی ہیں۔ ایک طرف حکومت حریت قائدین کو سماجی برائیاں ختم کرنے کے لیے کام کرنے کادرس دے رہی ہیں اور حکومت وادی میں منشیات کے استعمال پھیلاؤ پر رونا رو رہی ہیں۔جبکہ سماج کے اس پنپتے ناسور کو ختم کرنے کے لئے مزاحمتی قائدین نے آواز بلند کی تو طاقت کے نشے میں اُنکی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ انہیں گھروں میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے یا نظر بند کیا جاتا ہے۔
حریت قائدین کی کسی بھی جدوجہد چاہے وہ انسانی حقوق کی پامالیاں کے خلاف ہو،خواہ وہ حکومت کی غلط پالسیوں کے خلاف ہو،یا وہ سماج میں شراب،منشیات ،یا عوام کے بنیادی مسائل کے خلاف ہو الغرض حریت قائدین حکومت کے نشانے پر ہوتے ہیں ۔اب کی بار جو حریت قائدین نے حکومت کے خلاف مورچہ سنبھالا ہے یہ جدوجہد حقائق پر مبنی تھی جن میں پنڈ توں کے لیے علیحدہ کالونی، غیر ریاستی باشندوں کا وادی پر قبضہ،نئی صنعتی پالیسی ،سماج میں شراب اور منشیات کا استعمال قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ سیاسی کارکنوں اور معصوم نوجوانوں کی رہائی کے مسائل لیکن فرعونی کرسی کے نشے میں ریاست کی حکومت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ریاست کے عوام کیا چاہتے ہیں ۔حکومت سے یہ بھی پوشیدہ نہیں کہ وادی کے جس اعضاء کو علیحدہ بسانا چاہتے ہیں وہ ریاست کا ایک اہم جُزتصور کیا جاچکا ہے جس کا دو ٹوک اعتراف بھی پنڈتوں کے ایک گروپ نے کیا تھا ۔انہوں نے عوام کے سامنے اس حقیقت کو واضح کیاجو صحیح اور منطقی ہے۔ یعنی حکومت کے اُن سارے شوشوں کا مفہوم خالص سیاست ہے جس سے ریاست کا ہر فردو بشر واقف ہے ۔

0 comments: