جدید تعلیم کے ساتھ اخلاقی تعلیم کی اہمیت اور افادیت

7:37 PM nehal sagheer 0 Comments

عمر فراہی
تعلیم ایک ایسا موضوع ہے جو اٹھارہویں صدی کے بعد سے ہی ہمارے درمیان ایک سنجیدہ بحث اور تحقیق کا عنوان بن چکا ہے -اس لئے جب ہم اس موضوع پر بحث کرنے کی جرات کرتے ہیں توہمیں ہندوستان میں جدید درس وتدریس اور تعلیمی قافلے کے روح رواں سرسید احمد خان, صابو صدیق, مولانا شبلی, مولانا حمیدالدین فراہی اور مولانا علی میاں ندوی  سے لیکر ڈاکٹر رفیق ذکریا غلام وستانوی, ولی رحمانی , ڈاکٹر ذاکر نایک اور مبارک کاپڑی کی کاوشیں بھی ذہن میں ضرور رکھنی چاہیںےاور یہ بات بھی ذہن میں ضرور رہے کہ دنیا میں ایک مسلمان کی اپنی حیثیت اور شناخت ایک داعی اور قائد کی طرح ہے-قائد اگر تعلیم یافتہ اور بیدار نہ ہو تو وہ کسی قوم اور قافلے کی رہنمائی کبھی نہیں کر سکتا-ایک مسلمان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ انسان کی اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہونی ہے - مگر یہ زندگی بھی اسی وقت خوبصورت ہو سکتی ہے جبکہ اس کی دنیا خوبصورت ہو- دنیا کو خوبصورت اور پرامن بنانے کیلئے لازمی ہے کہ انسان اپنے پیدا ہونے کی حقیقت اور خالق سے بھی ضرور واقف ہو - علم غیب کی اس حقیقت کو چاک کرنے کیلئے یہ بھی لازمی ہے کہ انسان ایسے لوگوں اور ماحول کو اختیار کرے جو اسے حالات حاضرہ سے واقف کرانے میں مدد کرے - یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ تعلیم بذات خود نہ تو کوئی مقصد ہے اور نہ ہی اسلام بلکہ یہ ایک ہتھیارہے جو انسانی ذہن سے جہالت اور اندھیرے کے پردے کو چاک کرکے انسان کو صراط مستقیم یا صحیح رخ کے تعین کا فیصلہ کرنے میں مدد کرتی ہے - آج کے دور میں انسانی ضروریات اور ایجادات نے جس طرح  صنعت وتجارت اور ٹکنالوجی کے شعبے کو وسعت دی ہے علم و ہنر اور تحقیق و جستجو کے  زاویے میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے بلکہ گلوبلائزیشن اور  جیومیٹری کی زبان میں ایک دائرے کے  360ڈگری کا زاویہ جو اٹھارہویں صدی کے پہلے تک نامکمل یا ابتدائی مراحل کے دور میں تھا اب اکیسویں صدی میں تقریباً مکمل ہونے کے قریب ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ انسان  اپنی ترقی اور علم کی اس انتہا کو پہنچ چکا ہے جسے اگر انسانی اخلاق و اقدار کے پیرہن میں نہیں ڈھالا گیا تو اس پورے معاشرے کی تباہی یقینی ہے اور کسی حد تک ہم اس اندھی ترقی کے تباہ کن نتائج سے آشنا بھی ہو رہے ہیں - ایسے میں ایک طالب علم کے پاس جبکہ بچپن سے بڑھاپے تک کسی بھی سبجیکٹ یا عنوان پر عبور حاصل کرنے کیلئے صرف شروع کے  تیس سال کا وقفہ ہی درکار ہوتا ہے اور اس وقفے میں بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہی ہوجائے اور جس طرح اس کے بعد اس کی پوری زندگی معاشی اور گھریلو زندگی کی جدوجہد اور ضروریات کی تکمیل میں ہی  سرف ہوجاتی ہے یہ ناممکن ہے کہ  وہ جدید دور کے 360 ڈگری کے تحقیقی اورعلمی  زاویے کو طئے کر پائے - ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس تیس سال کے تعلیمی وقفے کے دوران اگر بچے کو کوئی ٹھوس اخلاقی تعلیم نہیں دی گئی یا وہ انسانی اقدار اور اپنے پیدا ہونے کے مقصد یعنی اقراء بسم ربک الذی خلق سے غافل اور محروم رہ جاتا ہے تو وہ اپنی باقی کی زندگی میں  اپنی اس غیر اخلاقی دنیاوی اور مادی تعلیم کی کامیابی اور ناکامیابی دونوں ہی صورتوں میں جو فسادات برپا کریگا اس کا تصور آج کے اس مادہ پرست مسابقت اور سرمایہ دارانہ نظام میں بخوبی کیا جاسکتا ہے جہاں ہر شخص اپنے ہاتھ میں تحریر و تقریر کی شکل میں سازش اور بارود کی شکل میں پتھر لئے کھڑا ہے اور اس موقع کی تلاش میں ہے کہ اگر کوئی بات اس کے مزاج اور توقع کے خلاف ہو تو وہ اس پتھر کو اپنے مخالف کے سر پر دے مارے - یا ناکامی کی صورت میں اسی ہتھیار کو اپنے سر پر دے مارے -
ایسے میں علمبرداران اسلام کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ انسان کے اندر سے اس جانور کو ختم کرنے اور اسے تباہی کے ہتھیار میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی اسلامی اخلاق و اقدار کی تعلیم سے روشناس کرائیں- ہمارے ملک میں دعوت و تبلیغ میں مصروف مختلف تنظیمیں یہ کام کر بھی رہی ہیں اور جو لوگ ان تنظیموں سے جڑے ہیں اس کے فائدے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا مگر ادیان باطل یا خالص مادہ پرست طاقتوں کے مقابلے میں یہ تحریکیں اگر پر اثر نہیں ثابت ہورہی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باطل طاقتوں کو اقتدار حاصل ہے اور وہ جہاں اپنی تمام جدید حکومتی ذرائع اور وسائل کے ساتھ  اپنے استعماری عزائم کی تکمیل کیلئے اسلامی تعلیمات اور اصول پر حملہ آور ہیں مسلمانوں کے قافلے کا بھی ایک کثیر گروہ نادانستہ یا اپنی مادی کمزوری کی بنیاد پر ان کی جماعت کا سپاہی ہے - ہمارا یعنی مسلم علماء اور اہل دانش کا مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح ارباب اقتدار اپنے باطل نظریات کو باقاعدہ اسکولوں اور کالجوں کے ذریعے مشتہر کر رہے ہیں ہمارے پاس بھی دعوت و تبلیغ کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے اور ہم  آج بھی گلی کوچوں میں لیٹریچر بانٹ کر یا نماز کی دعوت دے کر  مطمئن ہیں - جبکہ ہمارے انبیاء کرام کی  سنت یہ رہی ہے کہ  انہوں نے سب سے پہلے اپنے اس اخلاق و اقدار کی دعوت کو وقت کے نمرود , فرعون اور سرداران قوم کے سامنے پیش کیا -اس کی وجہ یہ ہے کہ  سماج اور معاشرے کے بگاڑ میں وقت کے عالم و حاکم اور سرداران قوم کا اس لئے بھی اہم کردار ہوتا ہے کیوں کہ عوام  پر ان کی گرفت ہوتی ہے -چونکہ حالات میں بدلاؤ آچکا ہے اور معاشرے کی باگ ڈور اور قسمت کا فیصلہ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ کالجوں کے پروفیسر اور اسکولوں کے ٹیچر, اخبارات کے  ایڈیٹر اور قلمکار کرنے لگے ہیں اس لئے موجودہ دور میں یہ کام اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں اخلاق و اقدار کی اسلامی تعلیم کی شمولیت کے ذریعے کیا جاسکتا ہے تاکہ ان اسکولوں سے فارغ ہوکر جب ایک مسلمان بچہ کالج یا یونیورسٹی کی دہلیز پر قدم رکھے تو غیر مذاہب کے پختہ اور ذہین بچوں کے سوالوں کا  باآسانی جواب دے سکے - ہندوستان جیسے کثیر المذاہب سماج میں چونکہ کالجوں کی سطح تک اسلامی نصاب تعلیم کو شامل کروانا بہت مشکل ہے مگر مسلمان اپنے ذاتی اداروں میں پری پرائمری اور سیکنڈری تک اسلام کی بنیادی  تعلیمات پر مبنی ایسا تعلیمی نصاب تیار کریں تاکہ اس تعلیم کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکول بورڈ کے ہم جہتی نصاب کو بھی مکمل کروانا مشکل نہ ہو -
ممبئ میں آجکل کئی ایسے اسکول کھل چکے ہیں جو جدید تعلیم کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر بھی بھر پور محنت کر رہے ہیں جس کی شروعات سب سے پہلے ڈاکٹر ذاکر نایک کی طرف سے ہوئی ہے اور اب تو ایسے دسیوں اسکول وجود میں آچکے ہیں اورغالباً اس طرح کے ہائی پروفائل اسکولوں کی شروعات ساؤتھ افریقہ پاکستان اوردبئ وغیرہ سے ہوئی ہے جسے ممبئ میں سب سے پہلے ڈاکٹر ذاکر نایک نے اسلامک انٹرنیشنل اسکول کے نام سے شروع کیا اور وہ کامیاب بھی رہے اور اب ہماری معلومات کے مطابق ممبئ میں کم سے کم ایسے دسیوں اسلامک اسکول کھل چکے ہیں جو ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت اور 9/11 کے بعد عالمگیر سطح پر اسلام کی مقبولیت نے خود مسلمانوں کو بھی ایک بار پھر اسلام کی طرف راغب ہونے پر آمادہ کیا - اسی سلسلے میں ایک بار ہماری ملاقات برطانیہ کے ایک ہم عصر اسلامی اسکالر عیسںٰ منصوری صاحب سے بھی ہو چکی ہے جو برطانیہ میں مقیم مسلمانوں میں اسلامی بیداری پیدا کرنے کیلئے ایسے کئی اسکول قائم کر چکے ہیں اور وہ اپنے اس مقصد کی تکمیل کیلئے دنیا کے دیگر اسلامی ممالک کا دورہ بھی کرتے رہتے ہیں - خاص طور سے پاکستان میں ان کے اس منصوبے پر بہت ہی وسیع پیمانے پر کام ہو رہا ہے - اب ضرورت اس بات کی ہے کہ  پچھلے پندرہ سالوں میں جہاں دس سے بارہ اسکول امیر وکبیر گھرانے کے بچوں کیلئے کھولے گئے ہیں جس کی ماہانہ فیس تقریباً چار سے پانچ ہزار ہے ایسے اسکول بھی قائم ہوں جہاں پسماندہ اور اوسط آمدنی کے لوگ بھی جو اپنے بچوں کو کانونٹ اور مشنری اسکولوں میں بھیجنے کیلئے مجبور ہیں انہیں بھی اسلامی اور اخلاقی تعلیمات کے ساتھ متبادل راستہ مل سکے - جوگیشوری میں ملت اور اسلامک اسکالر کے نام سے کچھ ایسے اسکول قائم ضرور ہوئے ہیں لیکن کانونٹ کے مطلوبہ معیار کو نہ پہنچنے کے سبب ان کی شہرت میں کچھ گراوٹ آئی ہے - ضرورت اس بات کی ہے کہ جو وقت اور سرمایہ ہمارے لوگ دعوت و تبلیغ کیلئے باہر کی دنیا اور اجتماعات میں سرف کر رہے ہیں ان اسکولوں کے معیار بلند کرنے میں بھی لگایا جائے تاکہ ہمارے بچوں میں ڈراپ آوٹ کی کمی ہو اور یہ بچے زیادہ سے زیادہ اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہو کر کالجوں میں داخل ہوں اور  وقت کے روہت وومیلا اور کنہیاؤں کی ذہن سازی کر سکیں ۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے عام مبلغین کا جو پیغام ہندو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پہنچنا ناممکن ہو رہا ہے ان بچوں کے ذریعے پہنچانے میں آسانی ہو - اسلامک انٹرنیشنل ہائی اسکول کے مالک  ڈاکٹر ذاکر نایک اور صفا اسلامک ہائی اسکول کے مالک مرحوم  شہاب بھائی کیلئے یہ کام اس لئے ممکن ہو سکا کیوں کہ وہ جدید تعلیم یافتہ اور بچپن سے ہی دیندار تھے اللہ نے ان کے والدین کو بے شمار دولت سے بھی نوازہ تھا - ہندوستان میں مرحوم  شہاب اور ذاکر نایک  کی طرح اور بھی شخصیات ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان کی نظر میں اس طرح کے اداروں کی افاریت کا علم اور اندازہ نہ ہو اس لئے میں دعوت و تبلیغ میں مصروف ہندوستان کی تمام تحریکوں سے کہنا چاہونگا کہ وہ اس طرح کے تعلیمی منصوبوں کے ساتھ وقت کے شہاب و ثاقب کے سامنے اپنی دعوت پیش کریں-اس طرح نہ صرف دعوت کے فرائض بھی ادا ہوں گے۔ اس کوشس سے ہندوستان کے پسماندہ علاقوں میں بھی قائم ہونے والے اسکولوں سے دیگر پسماندہ مسلم طبقات بھی مستفید ہو سکیں گے نیز ان اسکولوں سے نکلنے والے بچے کالجوں میں  دیگر برادران وطن کی ذہن سازی میں معاون ہو سکتے ہیں -ایک سستی اور اسلامی ماحول میں تعلیم کا یہ کام  مسجدوں کے ذریعے بھی انجام دیا جاسکتا ہے جو کہ نماز کے باقی اوقات میں خالی ہی رہتی ہیں جیسا کہ بنگلور اور چنئی کی کچھ مسجدوں کو جدید تعلیم کیلئے استعمال میں لیا جا چکا ہے-


0 comments: