قصہء تیمور کی حقیقت
۱۹ جنوری کے دعوت میں صفحہ ۷پرجناب سید احمد شعیب کا ایک مضمون’’خلیفہء راشدحضرت عمر بن خطاب ‘‘ شائع ہوا ہے جسمیں صاحب مضمون تیمور لنگ کی خوب تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’مسلمانوں کی تاریخ اپنوں کی غداری اور پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے بھری پڑی ہے۔یہی کچھ تیمور کے ساتھ بھی ہواایک مسلمان بادشاہ نے تیمور پر اسوقت حملہ کر دیاجب وہ بیمار تھا ۔اس کی بادشاہت ختم کردی گئی پھر تیمور کو زندہ ہی لوہے کے پنجرے میں رکھا گیا۔اور گلیوں میں گھما کر اسے بے عزت کیا گیا۔اور پھر اسی پنجرے میں تیمور کی موت واقع ہو گئی ‘‘اللہ تعالیٰ نے تیمور کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے یکساں کام لے سکتا تھا۔وہ اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ سے روانی سے نہ صرف لکھنے پر قادر تھا بلکہ تلوار بھی چلا سکتا تھا۔اسمیں ایک جنگجو کی پوری صلاحیتیں بدرجہء اتم موجود تھیں اس نے سکندر یونانی کی طرح دنیا فتح کرنے کا خواب دیکھا تھا۔اور کوشش بھی کی تھی مگر اسلام کو اس کا کیا فائدہ ہوا کسی مورخ نے یہ نہیں بتایا اور نہ خود تیمور کے پیش نظر یہ بات تھی ۔اس کے پیش نظر صرف اور صرف یہ بات تھی کے وہ فاتح دنیا کہلانا چاہتا تھا۔
صاحب مضمون نے تیمور کے تعلق سے جو کچھ لکھا ہے واقعات اس کے برعکس پیش آئے تھے ۔کسی نے تیمور پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ تیمور نے ترکی سلطان بایزیدیلدرم پر اسوقت حملہ کیا تھا جب وہ یوروپ میں عیسائیوں سے بر سر پیکار تھا۔ہم یہاں مورخ اسلام مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی تاریخ اسلام جلد سوم سے ان کے اقتباسات جستہ جستہ نقل کریں گے ۔کیونکہ تسلسل کے ساتھ پورا واقعہ بیان کرنے پر شاید دعوت کا پورا شمارہ بھی کافی نہ ہو۔
تیور اور بایزید یلدرم کی کشمکش کے تعلق سے جلد سوم صفحہ ۴۵۸پر لکھتے ہیں کہ ’’سلطان بایزید یلدرم جب یونان اور ایتھینز فتح کر چکا اور قیصر کا حال پتلا ہونے لگا تو اس نے ایک قاصد تیمور کی خدمت میں روانہ کیا۔‘‘ اس خط میں قیصر نے تیمور کو بایزید کے خلاف کچھ اس طرح بھڑ کایا کہ تیمور ہندوستانی فتوحات کو چھوڑ کر با یزید کی طرف روانہ ہوا۔۔مگر مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی لکھتے ہیں کہ ’’سلطان بایزید کو ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ تیمور قیصر کا حمایتی بن کر اس سے لڑنے آئے گا ۔۔۔۔کیونکہ وہ خود [یلدرم]مسلمان بادشاہوں سے لڑنے کا شوق نہ رکھتا تھا ۔۔۔۔با یزید یلدرم عیسائی طاقتوں کو دنیا سے نابود کرنے پر تلا ہوا تھااور تیمور بایزید کو نابود کرنے اور عیسائیوں کو بچانے پر آمادہ تھا۔
عام روش کے برخلاف مولانا نے تیمور اور یلدرم کی جنگ کا حال کافی تفصیل سے لکھا ہے ۔۔جسمیں تیمور غالب اور با یزید یلدرم مغلوب ہوا۔ظاہر ہے وہ تفصیل یہاں نقل کرناممکن نہیں۔۔ایک جگہ مولانا لکھتے ہیں’’تیمور نے سلطان بایزیدکو ایک آہنی قفس میں قید کیا اور اس لڑائی کے بعد اسی حالت قید میں اس کو اپنے ساتھ ساتھ سفر میں لئے لئے پھرا۔۔۔تیمور نے بایزید کو اس طرح کٹہرے میں رکھا جس طرح شیروں کو کٹہرے میں رکھا جاتا ہے۔۔۔وہ اس سخت و شدید قید میں آٹھ مہینے سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔
اب تیمور کے تعلق سے مولانا اکبر شاہ خاں کیا لکھتے ہیں یہ بھی سن لیجئے’’تیمور کی تمام ترک و تاز اور فتح مندیاں مسلمان سلاطین کو زیر کرنے اور مسلمانوں کے شہروں میں قتل عام کرانے میں محدود رہیں اور اس کو یہ توفیق میسر نہ آسکی کہ غیر مسلموں پر جہاد کرتا یا غیر مسلموں میں اسلام پھیلاتا۔با یزید کے فوت ہونے کے بعد تیمور بھی زیادہ دنوں تک نہ جیا ۔وہ سمرقند پہونچ کر چین پر چڑحائی کرنے کے ارادیسے روانہ ہوا ۔اور اس کی یہی چڑھائی ایسی تھی جو اس نے غیر مسلم علاقے پر کی تھی مگر خدائے تعالیٰ نے اس کو پورا نہ ہونے دیا۔اور راستے میں ہی اس کا انتقال ہو گیا۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صاحب مضمون کے ذہن میں تیمور اور بایزید کی تفصیلات گڈ مڈہوگئیں اور انھوں نے بایزید کی جگہ تیمور لکھ دیا ۔صرف ایک بات جو سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ کہ انھوں نے بار بار لکھا ہے تیمور داڑھی والا مسلمان بادشاہ تھا،یہ کیوں لکھا۔کیا مسلمانوں کی تاریخ میں داڑھی والے بادشاہ عنقا ہیں؟
0 comments: