featured
آج عید قرباں ہے ۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں قربانی کی عظیم روایت کو دہرانے اور یہ عزم کرنے کا دن کہ ہم صرف اللہ کیلئے ہیں ۔ اسی کے حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہیں ۔ ہمارا جینا مرنا اور ہماری تمام مراسم عبودیت اسی اللہ رب العالمین کیلئے ہے جو زبردست ہے ۔ جو واحد ہے ۔جس کا کوئی شریک نہیں ۔جو فائدہ پہنچانا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔ اور اگر اس زبردست قدرت والے نے ہی کسی کو نقصان پہنچانے اور نیست نابود کرنے کا ارادہ کرلیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اس سے بچا لے ۔ طوفان نوح کے موقعہ پر نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو غوطہ کھاتے دیکھا تو اسے بچانے کیلئے کہا کہ آجاؤ اس کشتی میں سوار ہو جاؤ لیکن وہ نافرمان تھا اس نے کہا کہ ہم پہاڑ پر جا کر محفوظ ہو جائیں گے ۔ لیکن نوح علیہ السلام نے کہا کہ آج اس کشتی کے علاوہ کوئی محفوظ جگہ نہیں ۔ اللہ سے التجا کی کہ وہ میرا بیٹا !لیکن اللہ نے بھی کہا کہ وہ ظالم اور نافرمان ہے ۔ سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے ہمیں بجائے اپنی قربانی میں ریا کاری کرنے کہ ابراہیم علیہ السلام کی ان قربانیوں کو ضرور یاد کرنا چاہئے جو خالص اللہ کیلئے تھی اور جس کے عوض میں اللہ نے اتنا بڑا رتبہ دیا کہ اپنا خلیل کہا اور رہتی دنیا تک کیلئے ان کے نام کو زندہ و جاوید کردیا ۔ خواہ حج ہو یا جانوروں کی قربانی دو نوں ہی جگہوں پر ابراہیم علیہ السلام کی وہی خلوص و للٰہیت دکھتی ہے ۔
قربانی سے ہمیں درس ملتا ہے کہ ہم بھی اسوہ ابراہیمی کو اپنائیں ۔ اللہ نے قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کو تمام انسانوں کیلئے قابل عمل بتایا ۔ یہاں نمونہ کیلئے کئی باتیں ہیں ، جس میں سب سے اول اور سب سے مضبوط یہ ہے کہ اللہ پر کامل یقین اور اسی کی ذات پر بھروسہ ۔ یہ اس ذات یکتا پر ایمان کا ہی تو معاملہ ہے کہ بڑھاپے کے سہارا اپنے شیر خوار بچہ اور عزیز بیوی کو اللہ کے حکم پر ایک ایسی جگہ چھوڑ آنا جہاں کوئی سایہ ہے اور نہ پانی اور پھر قرآن کے مطابق وہی لاڈلا بیٹا جب ان کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوتا ہے تو اسے اللہ کیلئے ہی قربان کردینے کے خواب کو سچ کردکھانا ۔ کیا ہم قربانی کرتے ہوئے اس وقت کا تصور کرتے ہیں ؟ اس جذبہ اور اس اخلاص کا اپنی قربانی سے تجزیہ کرتے ہیں ؟ اسمٰعیل علیہ السلام کی اطاعت و فرمانبرداری پر غور کرتے ہیں کہ آخر انہوں نے کون سے مدرسہ کون سے اسکول سے یہ سیکھا تھا ۔ ان کے اس طرز عمل پر غور کرنے سے ہمارے جسم پر لرزہ طاری ہوتا ہے ؟ آخر وہ کون سے مکتب کی کرامت تھی جس نے اسمٰعیل علیہ السلام سے کہلوائے کہ انشاء اللہ مجھے فرمانبرداروں میں سے پائیں گے ۔ علامہ اقبال نے بھی ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی / سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی
اگر ہم آج اسوہ ابراہیمی اور اسوہ اسمٰعیل کو اپنا شعار بنا لیں تو ہمارے سارے گلے شکوے ختم ہو جائیں گے کیوں کہ وہاں صبر ہے ،شکر ہے اور قناعت ہے ۔یہ چیزیں زندگی میں آجائیں تو پھر کس کا خوف اورکس کی فکر ؟ اس سے ہمیں یہ بھی پیغام ملتا ہے کہ وقت کی باطل قوتوں کے سامنے کس طرح سینہ سپر ہوا جاتا ہے ۔ کس طرح بت پرستی سے خود کو علیحدہ کیا جاتا ہے ۔ آج ہمارے درمیان کئی بت نام اور مقام بدل کر خوشنما لباس ملبوس ہیں اور ہم ان بتوں کی بلا چوں چرا پرستش کرتے ہیں لیکن ہمیں احساس نہیں ہوتا !ابراہیم علیہ السلام کی زندگی جو اللہ کی کامل اطاعت پر تھی اس سے یہ بھی سبق لینا چاہئے کہ کس طرح اس آگ کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی جس کے اوپر سے بھی کوئی گزر جائے تو جل کر بھسم ہو جائے ۔ لیکن وہ اس میں ڈالے بھی گئے اور اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے گلزار بنادیا ۔ ابراہیم علیہ السلام کی کس کس اد ا کا تذکرہ کیا جائے سب کی اپنی دلربائی ہے ۔سب کی اپنی چاشنی ہے ۔یہ بس محسوس کرنے اور اس پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔قرآن نے انسانوں کو غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے ۔ لہٰذا ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ سے کائنات پر غور کرکے اللہ کو پہچاننے کا بھی سبق ہے ۔پہلے ستارے پھر چاند اور پھر سورج لیکن اس کے غروب ہوجانے کے بعد اللہ کی ذات اس کی قدرت اور اس کے نظام کائنات سے اس کی ذات کو پہچاننے کا درس جس کا ذکر قرآن بار بار کرتا ہے اور اس پر غور کرنے اور اپنے مالک حقیقی اور رب کائنات کو پہچاننے کی دعوت دیتا ہے ۔ یونہی کسی کے کہنے پر یا باپ دادا کی رسم کو نبھانے کا نام اسلام یا توحید پرستی نہیں ہے ۔ قرآن یہاں بھی باپ دادا کی رسموں کی مذمت کرتا ہے اور راہ راست کی طرف بلاتا ہے ۔ کیا ہم قرآن کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ؟
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی
نہال صغیر
آج عید قرباں ہے ۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں قربانی کی عظیم روایت کو دہرانے اور یہ عزم کرنے کا دن کہ ہم صرف اللہ کیلئے ہیں ۔ اسی کے حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہیں ۔ ہمارا جینا مرنا اور ہماری تمام مراسم عبودیت اسی اللہ رب العالمین کیلئے ہے جو زبردست ہے ۔ جو واحد ہے ۔جس کا کوئی شریک نہیں ۔جو فائدہ پہنچانا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔ اور اگر اس زبردست قدرت والے نے ہی کسی کو نقصان پہنچانے اور نیست نابود کرنے کا ارادہ کرلیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اس سے بچا لے ۔ طوفان نوح کے موقعہ پر نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو غوطہ کھاتے دیکھا تو اسے بچانے کیلئے کہا کہ آجاؤ اس کشتی میں سوار ہو جاؤ لیکن وہ نافرمان تھا اس نے کہا کہ ہم پہاڑ پر جا کر محفوظ ہو جائیں گے ۔ لیکن نوح علیہ السلام نے کہا کہ آج اس کشتی کے علاوہ کوئی محفوظ جگہ نہیں ۔ اللہ سے التجا کی کہ وہ میرا بیٹا !لیکن اللہ نے بھی کہا کہ وہ ظالم اور نافرمان ہے ۔ سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے ہمیں بجائے اپنی قربانی میں ریا کاری کرنے کہ ابراہیم علیہ السلام کی ان قربانیوں کو ضرور یاد کرنا چاہئے جو خالص اللہ کیلئے تھی اور جس کے عوض میں اللہ نے اتنا بڑا رتبہ دیا کہ اپنا خلیل کہا اور رہتی دنیا تک کیلئے ان کے نام کو زندہ و جاوید کردیا ۔ خواہ حج ہو یا جانوروں کی قربانی دو نوں ہی جگہوں پر ابراہیم علیہ السلام کی وہی خلوص و للٰہیت دکھتی ہے ۔
قربانی سے ہمیں درس ملتا ہے کہ ہم بھی اسوہ ابراہیمی کو اپنائیں ۔ اللہ نے قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کو تمام انسانوں کیلئے قابل عمل بتایا ۔ یہاں نمونہ کیلئے کئی باتیں ہیں ، جس میں سب سے اول اور سب سے مضبوط یہ ہے کہ اللہ پر کامل یقین اور اسی کی ذات پر بھروسہ ۔ یہ اس ذات یکتا پر ایمان کا ہی تو معاملہ ہے کہ بڑھاپے کے سہارا اپنے شیر خوار بچہ اور عزیز بیوی کو اللہ کے حکم پر ایک ایسی جگہ چھوڑ آنا جہاں کوئی سایہ ہے اور نہ پانی اور پھر قرآن کے مطابق وہی لاڈلا بیٹا جب ان کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوتا ہے تو اسے اللہ کیلئے ہی قربان کردینے کے خواب کو سچ کردکھانا ۔ کیا ہم قربانی کرتے ہوئے اس وقت کا تصور کرتے ہیں ؟ اس جذبہ اور اس اخلاص کا اپنی قربانی سے تجزیہ کرتے ہیں ؟ اسمٰعیل علیہ السلام کی اطاعت و فرمانبرداری پر غور کرتے ہیں کہ آخر انہوں نے کون سے مدرسہ کون سے اسکول سے یہ سیکھا تھا ۔ ان کے اس طرز عمل پر غور کرنے سے ہمارے جسم پر لرزہ طاری ہوتا ہے ؟ آخر وہ کون سے مکتب کی کرامت تھی جس نے اسمٰعیل علیہ السلام سے کہلوائے کہ انشاء اللہ مجھے فرمانبرداروں میں سے پائیں گے ۔ علامہ اقبال نے بھی ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی / سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی
اگر ہم آج اسوہ ابراہیمی اور اسوہ اسمٰعیل کو اپنا شعار بنا لیں تو ہمارے سارے گلے شکوے ختم ہو جائیں گے کیوں کہ وہاں صبر ہے ،شکر ہے اور قناعت ہے ۔یہ چیزیں زندگی میں آجائیں تو پھر کس کا خوف اورکس کی فکر ؟ اس سے ہمیں یہ بھی پیغام ملتا ہے کہ وقت کی باطل قوتوں کے سامنے کس طرح سینہ سپر ہوا جاتا ہے ۔ کس طرح بت پرستی سے خود کو علیحدہ کیا جاتا ہے ۔ آج ہمارے درمیان کئی بت نام اور مقام بدل کر خوشنما لباس ملبوس ہیں اور ہم ان بتوں کی بلا چوں چرا پرستش کرتے ہیں لیکن ہمیں احساس نہیں ہوتا !ابراہیم علیہ السلام کی زندگی جو اللہ کی کامل اطاعت پر تھی اس سے یہ بھی سبق لینا چاہئے کہ کس طرح اس آگ کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی جس کے اوپر سے بھی کوئی گزر جائے تو جل کر بھسم ہو جائے ۔ لیکن وہ اس میں ڈالے بھی گئے اور اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے گلزار بنادیا ۔ ابراہیم علیہ السلام کی کس کس اد ا کا تذکرہ کیا جائے سب کی اپنی دلربائی ہے ۔سب کی اپنی چاشنی ہے ۔یہ بس محسوس کرنے اور اس پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔قرآن نے انسانوں کو غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے ۔ لہٰذا ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ سے کائنات پر غور کرکے اللہ کو پہچاننے کا بھی سبق ہے ۔پہلے ستارے پھر چاند اور پھر سورج لیکن اس کے غروب ہوجانے کے بعد اللہ کی ذات اس کی قدرت اور اس کے نظام کائنات سے اس کی ذات کو پہچاننے کا درس جس کا ذکر قرآن بار بار کرتا ہے اور اس پر غور کرنے اور اپنے مالک حقیقی اور رب کائنات کو پہچاننے کی دعوت دیتا ہے ۔ یونہی کسی کے کہنے پر یا باپ دادا کی رسم کو نبھانے کا نام اسلام یا توحید پرستی نہیں ہے ۔ قرآن یہاں بھی باپ دادا کی رسموں کی مذمت کرتا ہے اور راہ راست کی طرف بلاتا ہے ۔ کیا ہم قرآن کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ؟
0 comments: