Books
قافلہ کیوں لٹا؟
عالم اسلام کی دو صدیوں پر محیط داستان زوال جو ہنوز جاری ہے نے ہر سنجیدہ
طبقہ کو اضمحلال میں مبتلا کررکھا ہے ۔ہر وہ شخص جو حساسیت کی نعمت سے مالا
مال ہے وہ اس جانب توجہ ضرور دیتا ہے کہ آخر ہمارے زوال کی وجہ کیا ہے اور
اس کا سلسلہ دراز سے دراز تر کیوں ہوتا جارہا ہے ۔زوال کا یہ سلسلہ خلافت
عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد کچھ زیادہ ہی مہیب ہو گیا ہے ۔اہل قلم اس کی وجہ
تلاش کرتے ہوئے کتابیں تحریر کررہے ہیں ۔علماء اپنی تقاریر میں اس پر روشنی
ڈال رہے ہیں ۔صحافی اخبارات میں کالم کے کالم سیاہ کئے دے رہے ہیں لیکن یہ
زوال کی سیاہ رات ہے کہ اس کی سحر ہوکے ہی نہیں دیتی ۔ایسے ہی ایک فکر مند
مصنف تمیم انصاری ہیں جو افغان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کا بچپن افغانستان
کی ان ہی وادیوں اور دروں میں گذرا ہے جہاں کے سخت چٹانوں سے ٹکرا کر تاج
برطانیہ نے اس جانب دیکھنے سے بھی توبہ کرلیا تھا اور اس کے بعد دو سوپر
پاور لہو لہان ہو چکی ہیں ۔روس تو خیر ایسا لہو لہان ہوا کہ اس کو اپنے
وجود کی برقراری بھی مشکل ہو گئی اور وہ یو ایس ایس آر سے صرف روس رہ گیا
۔قریب تھا کہ امریکہ بھی پاش پاش ہو جاتا لیکن اس کو اوبامہ جیسا صاحب فہم
صدر ملا جس نے بڑی خاموشی سے عالم اسلام سے ٹکراؤ کی صورتحال سے امریکی
فوجیوں کو نکال لیا اور یوں امریکہ ریزہ ریزہ ہونے سے بچ گیا ۔تمیم انصاری
نے اس کے بعد امریکہ کے سان فرانسسکو میں سکونت اختیار کی جہاں وہ شعبہ
تعلیم و تعلم سے منسلک ہوئے ۔ان کی ہی تحریر Destiny Disrupted کو’’ قافلہ
کیوں لٹا ؟‘‘نام سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے محمد ذکی کرمانی نے اور یوں
ہم اردو داں محمد ذکی کرمانی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ایک بہترین کتاب
کو اردو کے قالب میں ڈھال کر ہم پر احسان کیا ورنہ اردو تو اب وہ زبان ہے
جس میں علمی تحقیقی کتابوں پر بھی قوم مسلم کی طرح زوال کے سائے ہیں۔انہوں
نے بیس صفحات پر مشتمل مقدمہ بھی تحریر کیا ہے جس میں مختصراً کتاب کے تعلق
سے اور مسلم امہ کے عروج و زوال کی مختصر روداد ہے ۔پوری کتاب میں تاریخ
کو سرسری طور پر بیان کیا گیا ہے اور ہر حکومت اور اس کے زوال کے بارے میں
مختصراً رائے پیش کی گئی ہے کہ کس کے زوال میں کون سی سوچ یا نظریہ کارفرما
رہا ۔اسے اپنوں نے ڈبویا یا وہ دنیا کی تبدیلی سے ہم آہنگ نہ ہو سکی اور
یوں خود ہی زوال کی جانب اس کا سفر تمام ہوا۔ذکی کرمانی نے اپنے مقدمہ میں
بھی جہاں مختلف تحریکات کے ابھرنے اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے وہیں
انہوں نے ان تحریکوں پر ناقدانہ نظر بھی ڈالی ہے ۔جیسا کہ کتاب کے سر ورق
پر عنوان ’’قافلہ کیوں لٹا ؟‘‘ کے نیچے تحریر ہے ’عالم اسلام کی تاریخ پر
ایک مجتہدانہ نظر‘سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے زوال کے اسباب بلا کم و کاست
ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے ۔مقدمہ میں ذکی کرمانی نے امام غزالیؒ ،ابن
تیمیہؒ اور احمد بن حنبل ؒ کی فکروں پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالی ہے جس کی
تفصیل کے ساتھ ان کی تنقید کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا ان
کی تنقید درست ہے یا نا درست نیز یہ کہ وہ اپنے نکتہ نظر کو بیان کرنے میں
کہاں تک کامیاب ہو سکے ہیں یا اس میں مزید وضاحت کی ضرورت ہے ۔دور جدید
یعنی بیوسویں صدی کی دو عظیم تحریکوں عالم عرب میں سید قطب ؒ کی اخوان
المسلمون اور بر صغیر میں سید مودودی ؒ کی جماعت اسلامی پر بھی ذکی کرمانی
نے میری ذاتی رائے کے مطابق آزادانہ تنقیدی نگاہ ڈالی ہے ۔ان کے مطابق یہ
دونوں تحریکیں کچھ جزوی خامیوں کی وجہ سے جہاں حاکم وقت کے عتاب کا شکار
بنیں وہیں ان سے فائدہ یہ ہوا کہ ’ان تحریکات کا سب سے بڑا عطیہ امت کے لئے
یہ تھا کہ قوم پرستی کے بڑھتے رجحان کے باوجود امت واحدہ کا تصور مضبوط
ہوا ۔قرآن اور مسلمانوں کے درمیان جو تاریخ حائل ہو گئی تھی اور درس و
تدریس اور روایت کا ایک طویل سلسلہ جسے قائم رکھنے پر مصر تھا ،اسے ان
تحریکوں نے توڑ دیا اور اب مسلمان با لعموم قرآن سے براہ راست مستفید ہونے
کے لئے کوشاں نظر آنے لگے ۔ان دونوں گروہوں میں علم کو اصل اہمیت حاصل تھی
‘۔آگے انہوں نے لکھا ہے کہ ’لیکن ایک بڑی تعجب خیز صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ
اخوان المسلمون میں سید قطبؒ اور جماعت اسلامی میں مولانا مودودیؒ کے
بعد علمی روایت معدوم ہو تی گئی ‘۔ذکی کرمانی کی اس بات سے اہل علم اور
خصوصا جماعت اسلامی کے لوگ کہاں تک متفق ہیں یہ تو وہی بتائیں گے کہ آیا
واقعی ایسا ہے جیسا کہ مترجم نے بیان کیا ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو یہ
قابل غور پہلو ہے ۔ویسے جماعت اسلامی میں مولانا مودودی ؒ کے بعد علمی
روایت کے معدوم ہونے پر اور بھی اہل علم حلقوں کی جانب سے اظہار خیال کیا
گیا ہے ۔بہر حال جماعت اسلامی کے ارباب حل وعقد کو اس پہلو پر ضرور غور
کرنا چاہئے ۔
کسی کے خیال ،نظریہ سے مکمل اتفاق ہونا ضروری نہیں ہے اور نا اللہ نے انسان کی تخلیق اس نہج پر کی ہے کہ وہ ایسا کرے ۔ اختلاف اور صحت مند اختلاف سے تحقیق کیلئے راہیں کھلتی ہیں ۔مسلمانوں میں صحت مند اختلاف کی روایت بہت پرانی ہے ۔یہی سبب ہے کہ جدید سائنس میں بھلے ہی مسلمانوں کا کوئی کردار نہ ہو لیکن اس بات کو تو اہل مغرب بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بنیاد مسلمانوں نے ہی ڈالی تھی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب یوروپ اور اس کی اقوام تاریکی میں تھے ۔اس کتاب کے بھی مکمل مشمولات سے اتفاق ضروری نہیں ہے ۔اتفاق ویسے بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ مصنف نے جن کتابوں سے استنباط کیاہے وہ ساری انگریزی میں ہیں اور ان کے مصنف اہل مغرب ہی ہیں ۔ظاہر سی بات ہے کہ اہل مغرب نے اسلام کے عقائد اور اس کی تاریخ کو اپنے مفروضوں کی مدد سے ہی بیان کیا ہوگا ۔بلکہ اکثر یت نے ایسا ہی کیا ہے ۔خود مترجم نے مصنف کی کئی باتوں سے اختلاف کیا ہے اور اسے انہوں نے حاشیہ میں بیان کردیا ہے ۔ لیکن اس کتاب سے ہمیں غور کرنے کا جذبہ تو مل ہی سکتا ہے ،یہ کتاب ہمیں بے فکری سے نکال اضطراب میں مبتلا کرسکتی ہے کہ ’’قافلہ کیوں لٹا ؟‘‘۔ چار سو صفحات پر مشتمل تفتیش و تجزیہ کے جذبہ کو ابھارنے والی کتاب کی قیمت پیپر بیک میں 400/= اور مجلد کی قیمت 500/= روپئے ہے جسے ممبئی میں مکتبہ جامعہ سے حاصل کرسکتے ہیں ۔ جامعہ کا رابطہ نمبر 8108307322 ۔ کتاب کی ٹائپنگ میں کئی معمولی خامیاں ہیں ۔پرنٹنگ کو عمدہ تو نہیں کہہ سکتے لیکن یہ کوئی ایسی خامی نہیں کہ مطالعہ میں حائل ہویعنی یہ کتاب قابل مطالعہ ہے ۔ آخر ہم ہی اس قافلہ کے افراد ہیں جو دوسو برسوں سے منتشر ہے تو پھر ہمیں ضرور اس انتشار کے سبب کی تلاش میں جٹ جانا چاہئے ۔ سبب جانے بغیر مرض سے افاقہ ممکن نہیں۔
کسی کے خیال ،نظریہ سے مکمل اتفاق ہونا ضروری نہیں ہے اور نا اللہ نے انسان کی تخلیق اس نہج پر کی ہے کہ وہ ایسا کرے ۔ اختلاف اور صحت مند اختلاف سے تحقیق کیلئے راہیں کھلتی ہیں ۔مسلمانوں میں صحت مند اختلاف کی روایت بہت پرانی ہے ۔یہی سبب ہے کہ جدید سائنس میں بھلے ہی مسلمانوں کا کوئی کردار نہ ہو لیکن اس بات کو تو اہل مغرب بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بنیاد مسلمانوں نے ہی ڈالی تھی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب یوروپ اور اس کی اقوام تاریکی میں تھے ۔اس کتاب کے بھی مکمل مشمولات سے اتفاق ضروری نہیں ہے ۔اتفاق ویسے بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ مصنف نے جن کتابوں سے استنباط کیاہے وہ ساری انگریزی میں ہیں اور ان کے مصنف اہل مغرب ہی ہیں ۔ظاہر سی بات ہے کہ اہل مغرب نے اسلام کے عقائد اور اس کی تاریخ کو اپنے مفروضوں کی مدد سے ہی بیان کیا ہوگا ۔بلکہ اکثر یت نے ایسا ہی کیا ہے ۔خود مترجم نے مصنف کی کئی باتوں سے اختلاف کیا ہے اور اسے انہوں نے حاشیہ میں بیان کردیا ہے ۔ لیکن اس کتاب سے ہمیں غور کرنے کا جذبہ تو مل ہی سکتا ہے ،یہ کتاب ہمیں بے فکری سے نکال اضطراب میں مبتلا کرسکتی ہے کہ ’’قافلہ کیوں لٹا ؟‘‘۔ چار سو صفحات پر مشتمل تفتیش و تجزیہ کے جذبہ کو ابھارنے والی کتاب کی قیمت پیپر بیک میں 400/= اور مجلد کی قیمت 500/= روپئے ہے جسے ممبئی میں مکتبہ جامعہ سے حاصل کرسکتے ہیں ۔ جامعہ کا رابطہ نمبر 8108307322 ۔ کتاب کی ٹائپنگ میں کئی معمولی خامیاں ہیں ۔پرنٹنگ کو عمدہ تو نہیں کہہ سکتے لیکن یہ کوئی ایسی خامی نہیں کہ مطالعہ میں حائل ہویعنی یہ کتاب قابل مطالعہ ہے ۔ آخر ہم ہی اس قافلہ کے افراد ہیں جو دوسو برسوں سے منتشر ہے تو پھر ہمیں ضرور اس انتشار کے سبب کی تلاش میں جٹ جانا چاہئے ۔ سبب جانے بغیر مرض سے افاقہ ممکن نہیں۔
0 comments: