featured
کیا موجودہ حکومت نازیوں کی راہ پر گامزن ہے؟
نہال صغیر
گوا کے ایک چرچ کے ترجمان مجلہ نے موجودہ مودی حکومت کا موازنہ جرمنی کی
نازی سے کی ہے ۔ساتھ ہی اس نے گوا نے رائے دہندگان سے ایسے لوگوں کو ووٹ
نہیں دینے کی اپیل کی ہے ۔ یہ عام بات ہے کہ جب بھی حکومتی ظلم و ستم اور
جبرکی بات کی جاتی ہے تو نازی یا ہٹلر کی مثال پیش کی جاتی ہے ۔حالانکہ یہ
پوری طرح ٹھیک نہیں ہے ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ ہٹلر نے ظلم و ستم کے وہ پہاڑ
یہودیوں پر نہیں توڑے جس کا آجکل ذکر کیاجاتا ہے ۔یہ سچ ہے لیکن یہ بھی سچ
ہے کہ جرمنی کو اقتصادی کساد بازاری میں دھکیلنے اور اپنے سرمایہ کی مدد سے
یہودیوں نے جرمنی ہی کیا یوروپ کے اور بھی ممالک میں عدم استحکام پیدا
کرنے کی کوشش کی نیز انہوں نے سرمایہ کی مدد سے ذرائع ابلاغ پر قبضہ کیا
اور اس کی مدد سے شخصیت اور قوموں کی شبیہ داغدار کرنے کی بھی کوشش کی
۔ہٹلر اس کے ردعمل میں ابھرنے والا نام ہے ۔ہاں لیکن وہ ردعمل ظالمانہ رخ
اختیار کرگیا ۔ یہ غلط تھا ،ہمیں یہ حق کہیں سے بھی نہیں ملتا کہ چند
سرمایہ داروں یا مجرموں کے جرم کی سزا پوری قوم کو دی جائے ۔لیکن یہودیوں
کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ان لوگوں کیلئے مشکلات کھڑی
کیں جنہوں نے انہیں امن امان سے رہنے دیا ۔اس میں مسلم حکومتوں کا نام اول
ہے ،جہاں وہ پورے اطمینان اور امن کے ساتھ رہے لیکن انہوں نے اپنی سازشی
روش کو کبھی نہیں بدلا ۔ یہانتک کہ اس کی مدد سے وہ مسلمانوں کے خطہ ارض
مقدس فلسطین و بیت المقدس پر قبضہ کرلیا ۔ہٹلر میں خواہ کچھ کمی رہی ہو
لیکن وہ بہر حال سازشی نہیں تھا ۔اس نے محسوس کیا کہ یہودی سرمایہ دار
جرمنی کو دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کررہے ہیں ۔اس لئے اس نے انتقام کے
طور پر اس ہولو کاسٹ کو انجام دیا جس کے بیشتر قصے محض مفروضے ہیں ۔لیکن
یوروپ کے ارباب اقتدار کی مجبوری یہ ہے کہ وہ یہودیوں کے تئیں اپنے جرائم
پر پردہ ڈالنے کیلئے صرف جرمنی ،نازی اور ہٹلر کے ناموں کی گردان کرکے خود
کو پوری دنیا کے سامنے امن و انصاف کا علمبردار قرار دینے کی کوشش کررہے
ہیں۔یوروپ کا جرم یہ ہے کہچونکہ ان کی اکثریت عیسائیت کا عقیدہ رکھتی ہے
اس لئے انہوں نے یہودیوں کو عیسیٰ علیہ السلام کا قاتل قرار دے کر ان کو
واجب القتل قرار دیا اور یوں پورے یوروپ میں انہیں کہیں بھی امن و سکون
نہیں ملا اس دوران انہیں کہیں امن نصیب ہوا تو وہ مسلمانوں کی حکومت یا
آبادی تھی جیسا کہ قبل بیان کیا گیا ۔ہولو کاسٹ پر کوئی سوال نہ اٹھائے اور
دیگر یوروپی اقوام کے جرائم کسی کے سامنے نہ آئیں اس کیلئے انہوں نے ایک
قانون بھی بنوا رکھا ہے کہ کوئی بھی شخص ان کے ان مفروضوں یعنی فرضی
ہولوکاسٹ پر سوال نہیں اٹھائے ۔ایسے کئی صحافی اور دانشور اس قانون کی زد
میں آچکے ہیں جنہوں نے یہودیوں کے خلاف فرضی ہولوکاسٹ کی کہانیوں پر سوالات
کھڑے کئے ۔
موجودہ حکومت کو نازیوں کے ہم پلہ یا اس سے زیادہ خطرناک قرار دینا اصل میں یا تو موجودہ حکومت کو کہیں نہ کہیں اخلاقی طور پر فائدہ پہنچانے جیسا ہے یا نازیوں کو پوری طرح سے انسانیت مخالف قرار دینے کی کوشش ہے ۔اب ہمارے دور کا دستور بھی یہی بن گیا ہے کہ جس دھڑے پر لوگ سوچ رہے ہیں اسی پر کہتے جائیے یا لکھتے جایئے الگ سے آپ کو کچھ لکھنے یا سوچنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ ویسے موجودہ ہندوستانی حکومت کی دماغی کیفیت سے تضادات کا اظہار ہوتا ہے جیسے یہ جبر اور تشدد اور حکومت پر قبضہ کرنے کیلئے ہٹلر کو آئیڈیل قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب ہٹلر کے کٹر دشمن یہودیوں سے بھی دوستی گانٹھنے میں انہیں کوئی عار نہیں ۔یہاں معاملہ حب علی کا نہیں بغض معاویہ کا ہے۔موجودہ حکومت فی الحال دو مذہبی گروہوں سے نفرت جیسی حالت میں ہے ۔اس میں مسلمان اور عیسائی شامل ہیں ۔ویسے انہیں محض اونچی ذات کے ہندوؤں کے علاوہ کسی سے دوستی یا ہمدردی نہیں ہے ۔یہ لوگ اپنی کارروائیوں سے بھی یہی کچھ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ملک میں دو ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اکثر حملے ہوتے ہیں مسجد اور گرجا گھر اور فی الحال گائے کے نام پر یہ مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کو تشد کا نشانہ بنارہے ہیں ۔حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ چرچ کے ترجمان مجلہ کے مضمون میں کہا گیا کہ اس تو بہتر بدعنوانی والی حکومت ہی اچھی تھی جہاں ہمیں اپنی باتیں رکھنے اور اپنی پسند کی غذا کھانے پر کوئی پابندی نہیں تھی ۔یعنی پچھلے ساڑھے تین برسوں کی قلیل مدت کی ان کی حکومت میں احمقانہ اقدام سے عوام اتنے پریشان ہو گئے ہیں کہ وہ ایسے اچھے دن سے توبہ کرنے اور پرانے خراب دنوں میں ہی لوٹ کر جانا چاہتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ یہ حکومت جرمنی کی نازی حکومت کی طرح ہی خراب ہے ؟ میرا ماننا یہ ہے کہ یہ اس سے زیادہ بری ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ہٹلر کا رویہ یہودیوں کی برائی کی وجہ سے تھا لیکن یہاں جو دو قوموں کے خلاف موجودہ حکومت کی پروپگنڈہ مشنری مصروف ہے اس نے ہندوستان کو بگاڑا نہیں بنایا ہے ۔وہ اس سے لُوٹ کر لے جانے کے بجائے اس کے بنیادی ڈھانچے کو درست کرنے کی کوشش کی ہے ۔مسلم بادشاہوں نے جہاں یہاں خوبصورت عمارتوں کشادہ سڑکوں اور عوامی سہولیات کا جال بچھایا وہیں انگریزوں نے ہندوستان کو ریل اور یہاں کی پسماندہ اقوام کو قانونی تحفظ فراہم کیا ۔اس لئے موجودہ حکومت کے رویہ کو ہم جرمنی کے نازی سے زیادہ ظالمانہ سمجھتے ہیں ۔ان کے منحوس سایے جہاں جہاں پہنچ رہے ہیں وہاں فسادات کی آگ پھیل رہی ہے ۔حالیہ مثال بہار کی دی جاسکتی ہے جہاں جب تک حکومت میں لالو پرشاد کی پارٹی شامل رہی تب تک ریاست میں امن و امان کا ماحول رہا لیکن جیسے ہی نتیش نے اپنی سیاسی وفاداری میں تبدیلی کرتے ہوئے بی جے پی کا دامن تھاما گؤ دہشت گردوں کا ننگا ناچ شروع ہو گیا ۔ ایک بات اور ہٹلر کو جھوٹ پھیلانے والا کہا جاتا ہے لیکن اگر وہ ہمارے وزیر اعظم کی تقریر سن لیتا تو اسے دل کا دورہ پر جاتا کہ کوئی اس دنیا میں اس کا بھی باپ ثابت ہو سکتا ہے ۔موجودہ حالات میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ملک کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟ جیسا کہ عوام کو یا دنیا کو بتایا جارہا ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے ملک کو صرف نقصان ہی ہوگا فائدہ کا کہیں کوئی امکان نہیں ہے ۔کوئی پاگل بھی اس بات سے اتفاق نہیں کرے گا کہ اس ہیجانی کیفیت اور پاگل پن والی پالیسی سے ملک یا قوم کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے ۔ہاں صرف اس تنظیم کو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے جس کی مدد اور جھوٹے پروپگنڈے کی مدد سے موجودہ حکومت کا ووجود ہے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو دوسروں کو غدار کہہ کر انہیں پاکستان بھیج دینے کی بات کررہے ہیں انکے کارناموں نے انہیں غدار ثابت کردیا ہے اور اب انہیں پورے ملک کے عوام کو مل کر پاکستان اور چین بھیج دینا چاہئے ۔چین سے جاری حالیہ تنازعہ میں ہندوستانی قوم کو چینی افواج کا ترجمان ہر روز ذلیل کررہا ہے لیکن اس نام نہاد دیش بھکت حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ۔پتہ نہیں وہ لوگ کہاں مر گئے جو ملک کے وقار کی بات کرتے ہوئے مرنے مارنے کی باتیں کرتے تھے ۔
موجودہ حکومت کو نازیوں کے ہم پلہ یا اس سے زیادہ خطرناک قرار دینا اصل میں یا تو موجودہ حکومت کو کہیں نہ کہیں اخلاقی طور پر فائدہ پہنچانے جیسا ہے یا نازیوں کو پوری طرح سے انسانیت مخالف قرار دینے کی کوشش ہے ۔اب ہمارے دور کا دستور بھی یہی بن گیا ہے کہ جس دھڑے پر لوگ سوچ رہے ہیں اسی پر کہتے جائیے یا لکھتے جایئے الگ سے آپ کو کچھ لکھنے یا سوچنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ ویسے موجودہ ہندوستانی حکومت کی دماغی کیفیت سے تضادات کا اظہار ہوتا ہے جیسے یہ جبر اور تشدد اور حکومت پر قبضہ کرنے کیلئے ہٹلر کو آئیڈیل قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب ہٹلر کے کٹر دشمن یہودیوں سے بھی دوستی گانٹھنے میں انہیں کوئی عار نہیں ۔یہاں معاملہ حب علی کا نہیں بغض معاویہ کا ہے۔موجودہ حکومت فی الحال دو مذہبی گروہوں سے نفرت جیسی حالت میں ہے ۔اس میں مسلمان اور عیسائی شامل ہیں ۔ویسے انہیں محض اونچی ذات کے ہندوؤں کے علاوہ کسی سے دوستی یا ہمدردی نہیں ہے ۔یہ لوگ اپنی کارروائیوں سے بھی یہی کچھ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ملک میں دو ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اکثر حملے ہوتے ہیں مسجد اور گرجا گھر اور فی الحال گائے کے نام پر یہ مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کو تشد کا نشانہ بنارہے ہیں ۔حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ چرچ کے ترجمان مجلہ کے مضمون میں کہا گیا کہ اس تو بہتر بدعنوانی والی حکومت ہی اچھی تھی جہاں ہمیں اپنی باتیں رکھنے اور اپنی پسند کی غذا کھانے پر کوئی پابندی نہیں تھی ۔یعنی پچھلے ساڑھے تین برسوں کی قلیل مدت کی ان کی حکومت میں احمقانہ اقدام سے عوام اتنے پریشان ہو گئے ہیں کہ وہ ایسے اچھے دن سے توبہ کرنے اور پرانے خراب دنوں میں ہی لوٹ کر جانا چاہتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ یہ حکومت جرمنی کی نازی حکومت کی طرح ہی خراب ہے ؟ میرا ماننا یہ ہے کہ یہ اس سے زیادہ بری ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ہٹلر کا رویہ یہودیوں کی برائی کی وجہ سے تھا لیکن یہاں جو دو قوموں کے خلاف موجودہ حکومت کی پروپگنڈہ مشنری مصروف ہے اس نے ہندوستان کو بگاڑا نہیں بنایا ہے ۔وہ اس سے لُوٹ کر لے جانے کے بجائے اس کے بنیادی ڈھانچے کو درست کرنے کی کوشش کی ہے ۔مسلم بادشاہوں نے جہاں یہاں خوبصورت عمارتوں کشادہ سڑکوں اور عوامی سہولیات کا جال بچھایا وہیں انگریزوں نے ہندوستان کو ریل اور یہاں کی پسماندہ اقوام کو قانونی تحفظ فراہم کیا ۔اس لئے موجودہ حکومت کے رویہ کو ہم جرمنی کے نازی سے زیادہ ظالمانہ سمجھتے ہیں ۔ان کے منحوس سایے جہاں جہاں پہنچ رہے ہیں وہاں فسادات کی آگ پھیل رہی ہے ۔حالیہ مثال بہار کی دی جاسکتی ہے جہاں جب تک حکومت میں لالو پرشاد کی پارٹی شامل رہی تب تک ریاست میں امن و امان کا ماحول رہا لیکن جیسے ہی نتیش نے اپنی سیاسی وفاداری میں تبدیلی کرتے ہوئے بی جے پی کا دامن تھاما گؤ دہشت گردوں کا ننگا ناچ شروع ہو گیا ۔ ایک بات اور ہٹلر کو جھوٹ پھیلانے والا کہا جاتا ہے لیکن اگر وہ ہمارے وزیر اعظم کی تقریر سن لیتا تو اسے دل کا دورہ پر جاتا کہ کوئی اس دنیا میں اس کا بھی باپ ثابت ہو سکتا ہے ۔موجودہ حالات میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ملک کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟ جیسا کہ عوام کو یا دنیا کو بتایا جارہا ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے ملک کو صرف نقصان ہی ہوگا فائدہ کا کہیں کوئی امکان نہیں ہے ۔کوئی پاگل بھی اس بات سے اتفاق نہیں کرے گا کہ اس ہیجانی کیفیت اور پاگل پن والی پالیسی سے ملک یا قوم کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے ۔ہاں صرف اس تنظیم کو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے جس کی مدد اور جھوٹے پروپگنڈے کی مدد سے موجودہ حکومت کا ووجود ہے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو دوسروں کو غدار کہہ کر انہیں پاکستان بھیج دینے کی بات کررہے ہیں انکے کارناموں نے انہیں غدار ثابت کردیا ہے اور اب انہیں پورے ملک کے عوام کو مل کر پاکستان اور چین بھیج دینا چاہئے ۔چین سے جاری حالیہ تنازعہ میں ہندوستانی قوم کو چینی افواج کا ترجمان ہر روز ذلیل کررہا ہے لیکن اس نام نہاد دیش بھکت حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ۔پتہ نہیں وہ لوگ کہاں مر گئے جو ملک کے وقار کی بات کرتے ہوئے مرنے مارنے کی باتیں کرتے تھے ۔
0 comments: