featured

مکمل آزادی کے بغیر ہی جشن آزادی

10:23 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر

یوم آزادی کو گزرے ہوئے کئی دن ہوگئے ۔اسی کے ساتھ ہی جشن آزادی کا خمار بھی بہت حد تک اتر چکا ہے۔خبروں کے مطابق اترپردیش میں یوگی حکومت نے ان مدرسوں کی فہرست سازی شروع کردی جنہوں نے یوم آزادی پر ترنگا نہیں لہرایا ۔آج جمعہ 18 ؍کو 71 ؍ویں آزادی کے جشن کو منائے تین دن گزر چکے ہیں ۔ہند چین سرحد پر دونوں فوجیں آمنے سامنے ہیں ۔وہاں کیا ہو رہاہے اس پر کوئی خاص دھیان نہیں دیا جارہا ہے ۔اندرون ملک بے فیض وطن پرستی پر گفتگو کی جارہی ہے ۔حد یہ ہے کہ یہ بحث ان لوگوں کی جانب سے کی جارہی ہے جن کے آباء و اجداد نے انگریزوں کے تلوے چاٹے اور معافی تلافی کرکے ان کے لئے جاسوسی کی اور یوں ان سے مراعات حاصل کی۔اس بیچ ملک میں دلتوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک جاری ہے ۔آج پھر ایک خبر مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع کے رینوجھاگائوں سے آئی ہے کہ ایک دلت خاتون کی ناک ایک اونچے ذات کے ہندوئوں نے کاٹ لی ۔اونچی ذات والے ہندو اس خاتون سے بندھوامزدوری کرنے کا مطالبہ کررہے تھے ۔انکار کرنے پر اس کے شوہر کو بری طرح مارا پیٹا گیا ۔ جب خاتون اپنے شوہر کو ہسپتال لے کر جارہی تھی راستے میں اونچی ذات کے ان دبنگوں نے اس کی ناک کاٹ لی ۔خاتون نے مدھیہ پردیش خواتین کمیشن میں شکایت درج کروائی جس کے بعد پولس میں خواتین کمیشن کی نگرانی میں ایف آئی آر درج ہوئی ۔دلت خاتون کا خواتین کمیشن میں مدد کیلئے جانا ہی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ پولس تھانے میں دلتوں کی کوئی سنوائی نہیں ہے لہٰذا مجبور ہو کر وہ خواتین کمیشن میں گئی ۔خواتین کمیشن نے یقین دہانی تو کرائی ہے کہ اس سنگین مجرمانہ حرکت پر سخت کارروائی کی جائے گی ۔لیکن موجودہ صورتحال میں اس پر کم ہی یقین کرنے کو جی چاہتا ہے ۔
مذکورہ بالا واقعہ یہ بتاتا ہے کہ ستر سال بیت جانے کے باوجود بھی معاشرتی عدم مساوات کے دائرے سے ہندوستان کو آزادی نہیں ملی ہے ۔مدھیہ پردیش ،راجستھان میں دلتوں کے ساتھ توہین آمیز رویہ کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں ۔کہیں دلتوں کی بارات میں دولہے کو گھوڑی سے اتار کر مارا جاتا ہے کہ ان کی یہ مجال کے وہ اونچے ذات کے ہندوئوں کے سامنے شان سے گزریں ۔کہیں کنویں میں زہر ملا دیا جاتا ہے کہ وہ اس کنویں سے پانی نہ لے سکیں ۔گجرات کے پرائمری اسکولوں میں دلت بچوں کو کھانا الگ دیا جاتا ہے ۔وہ ایسی جگہوں پر بیٹھتے ہیں جو انسانوں کے بیٹھنے کے قابل نہیں ہوتی ۔انہی حالات کے مدنظر اور اسی ادھوری آزادی پر وامن میشرام کہتے ہیں کہ ’آزادی تو ہمارے لئے ایک افواہ ہے ‘۔  دلت تحریک سے جڑے اکثر قائدین کا کہنا ہے کہ 1947 میں ہمیں آزادی نہیں ملی ہے بلکہ حکومت کا تبادلہ ہوا ہے ۔اسی بات پر بعض اردو کے مضمون نگار اکثر لکھتے ہیں کہ 15 ؍اگست 1947 کو گورے انگریزوں سے حکومت کالے انگریزوں کو منتقل ہو ئی ۔لیکن ہم ہر سال جشن یوم آزادی مناتے ہیں جبکہ آزادی ہنوز ایک خواب ہی ہے ۔ستر کی دہائی میں ملک میں بڑھتی بدعنوانی اور ظلم و جبر کے کیخلاف جے پرکاش نارائن اور لوہیا وغیرہ کو دوسری آزادی کے نام سے تحریک چھیڑنے کی ضرورت پڑی ۔اس تحریک کو انہوں نے ’مکمل آزادی ‘ کا نام دیا تھا ۔ہوا یہ کہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں حصہ بڑھ چڑھ کر تو مسلمانو ں نے لیا لیکن اسے بعد میں ہائی جیک کیا برہمنوں نے ۔اونچی ذات کے ہندوئوں جس میں برہمن خاص ہیں کے اسی رویہ اور بد نیتی کے سبب کولہا پور کے راجا شاہو اور دلتوں معروف لیڈر ڈاکٹر امبیڈکر نے ہمیشہ سماجی نابرابری کیخلاف تحریک میں حصہ لیا لیکن نام نہاد انگریزوں سے آزادی پر انہوں نے کوئی دھیان نہیں دیا ۔شاہو مہاراج پر اکثر لوک مانیہ تلک اپنے اخبار کیسری میں شاہو مہاراج کو انگریزوں کا حاشیہ بردار کہتے تھے اور ان کے آزادی کی تحریک میں حصہ نہیں لینے پر تنقید کیا کرتے تھے تو انہوں نے ہمیشہ اس کے جواب میں ایک ہی بات کہی کہ ہمارے لئے انگریزوں سے سیاسی آزادی سے زیادہ دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی سماجی آزادی کی اہمیت ہے اور انہوں نے اپنی ساری زندگی میں اسی پر عمل کیا ۔
ملک میں بڑھ رہی ہندو دہشت گردی ،مسلمانوں پر بیف کے نام پر حملے اور دلتوں کے خلاف ہتک آمیز رویہ کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر ضرورت آن پڑی ہے کہ مسلمان اور دلت مل کر رام منوہر لوہیا اور جئے پرکاش نرائن کی طرح تیسری آزادی کی تحریک چھیڑیں ۔یہ تحریک پوری ہو مکمل ہو اور جوش و جذبات سے الگ ہٹ کر مسلمانوں ،دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو مشترکہ طور پر چھیڑنی ہو گی ۔کہیں کہیں سے اس کی آواز اٹھنے لگی ہے ۔لیکن اس پر ابھی تک مکمل حکمت عملی تیار نہیں ہوئی ہے ۔ملک پر موجودہ طبقہ کی برتری نے اسے کمزور کیا ہے اور دنیا میں دوسری آبادی رکھنے اور ایک بڑے جغرافیائی خطہ رکھنے کے باوجود اس ملک کی وہ حیثیت نہیں جو اس کا حق ہے ۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی کھلے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی حکمت عملی نافذ کی گئی اور در پردہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کو بھی اسی لپیٹ میں لیا گیا ۔صرف پندرہ فیصد آبادی کے مفاد کی کوشش کی گئی ۔جب ملک کی پچاسی فیصد آبادی کو نظر انداز کیا جائے گا تو ملک کہاں ترقی کرسکتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ آج چین ہمیں آنکھیں دکھانے کی جرات کررہا ہے ۔

0 comments: