featured
دعا مومن کا ہتھیار ہے لیکن۔۔۔۔!
نہال صغیر
حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جارہے ہیں لیکن ہم اتنے سادگی پسند ہو گئے ہیں
کہ ان شدید ترین دور میں بھی آسان اور بہت ہی آسان راستوں کے انتخاب میں
کوئی کنجوسی نہیں کرتے ۔انہی میں سے ایک ہے کسی بھی مشکل کے وقت دعا کا
اہتمام ۔قارئین میرے ان جملوں سے یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ میں دعا کا مخالف
ہوں ۔ دعا کے بارے کہا گیا ہے کہ یہ مومن کا ہتھیار ہے اور اللہ سے قربت کا
ذریعہ بھی ۔ آج کے دور میں ہم ہر معاملہ میں دعا تو کرتے ہیں ۔لیکن ہماری
دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں ۔ ہم آہ و زاری بھی کرتے ہیں اللہ کو اس کی
رحمت کا واسطہ دے کر بھی دعائیں کی جارہی ہیں لیکن حالات بدل ہی نہیں رہے
۔دعا کی قبولیت کی شرائط میں سے چند باتیں بتائی گئی ہیں ان میں حلال رزق
بھی ایک ہے ۔آج اس کسوٹی پر ہی ہم خود کو پرکھ کر دیکھ لیں تو ہم میں کون
ہے جو کھرا اترے گا؟جب یہ صورتحال ہو تو ہم خواہ جتنی دعائیں مانگ لیں اور
اس کے لئے جتنے یوم دعا کا چاہیں اہتمام کرلیں اور اس کیلئے جبہ دستار کی
لمبائی چوڑائی دیکھ کرخواہ کتنے ہی لوگوں سے دعائیں کروائیں ،حالات وہی
رہیں گے جو آج ہیں ۔پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ مولانا
حالی نے اپنی مشہور زمانہ مسدس میں ایک جگہ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
کہا ہے کہ نہیں چلتی توپوں پر تلوار انکی ۔ ہمارے عالم دین گلہ پھُلا
پھُلا کر تقریروں میں قرن اول کے مسلمانوں کے کارنامے بیان کرتے ہیں ۔ لیکن
ان مسلمانوں کے کارناموں میں ہمارے لئے چھپے ہوئے اسباق پر ہم میں سے شاید
ہی کسی کا ذہن جاتا ہے ۔اسلام کی پہلی جنگ بدر کے میدان میں سن دو ہجری میں
لڑی گئی تھی ۔نبی ﷺ اپنے تین سو تیرہ جانثاروں کو لے آئے اور اللہ کے
سامنے گریہ و زاری کی کہ اگر یہ آج کام آگئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر
تیرا نام لینے والا نہیں رہے گا۔پھر زمانے نے دیکھا کہ اللہ نے ان تین سو
تیرہ کو اپنے سے کئی گنا اور طاقت میں بھی زیادہ گروہ پر فتحیاب کیا۔اس کے
بعد صدیوں تک مسلمانوں کو محض ایک دو جنگوں کو چھوڑ کر کہیں بھی ہزیمت کا
سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس پر ہم کبھی غور کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ کیا ان
کی پوری دنیا پر برتری کا سبب محض دعا یا ان کا پکا سچا مسلمان ہو نا ہی
تھا ؟
یہ دنیا اسباب سے چل رہی ہے اللہ نے اسے اسی نہج پر بنایا ہے ۔قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ چھ دن میں اس زمین و آسمان کی تخلیق کی۔جبکہ اللہ تعالیٰ کیلئے صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ہو جا اور وہ چیز ہو جاتی ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے زمین آسمان کی تخلیق سے لے کرانسان کی پیدائش تک قدرت کاملہ کا استعمال تو کیا لیکن ساتھ ہی اس میں اسباب کا استعمال بھی کیا جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کیلئے مٹی سے ایک پتلہ بنا کر اس میں روح پھونکی ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہی بات دنیا میں جینے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے اسباب کو اختیار کیا جائے ۔جنگ بدر میں مسلمان کمزور ضرور تھے ،تعداد میں کم بھی تھے لیکن کفار مکہ کے پاس جو ہتھیار تھے انہی ہتھیارو ں سے مسلمان بھی لیس تھے ۔جیسے سواری کیلئے اونٹ ،گھوڑے وغیرہ اور ہتھیار کے طور پر تلوار ،تیر و کمان اور ان سے محفوظ رہنے کیلئے زرہ ،ڈھال وغیرہ ۔گو یہ سامان مسلمانوں کے پاس انتہائی قلیل سہی لیکن تھے ۔اس کے بعد بھی مسلمان انہی ہتھیاروں سے جنگوں میں شامل ہو تے رہے اور فتحیاب ہوتے رہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے مسلمانوں نے جنگی سازو سامان میں نئی اختراعات بھی کیں ۔جیسے منجنیق جو اس دور میں توپ کے طور پر استعمال ہوتی تھی ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں بحری بیڑہ کو مضبوط کیا جو اس دور کے لحاظ سے سبھی اقوام کی جنگی قوت پر بھاری تھا ۔یہی طریقہ کار سلطان صلاح الدین ایوبی نے بھی عیسائیوں کو فیصلہ کن ہزیمت سے دوچار کرنے کیلئے استعمال کیا ۔وہ طریقہ کار تھا دشمن سے زیادہ چست اور ہتھیاروں سے لیس فوجی اور دیگر دفاعی نظام جن میں منجنیق میں مزید جدت بھی شامل ہے ۔صلاح الدین ایوبی نے ایک خود کش دستہ بھی تیار کیا تھا جو آتش گیر سیال مادہ سے لیس ہوتا تھا وہ دشمنوں کے بیچ میں گھس کر وہ تباہی پھیلاتا تھا کہ دشمن اس کے خوف سے راتوں کو کیمپوں میں ٹھیک سے سو بھی نہیں پاتا تھا ۔یہ سب اس لئے بھی کرنا ضروری تھا کہ مسلمانوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ۔صلاح الدین ایوبی کا دور تو آج کے ہی طرح خلفشار کا دور تھا لیکن اس دور میں بھی وہ اس لئے فتحیاب ہوئے کہ انہوں نے جنگی ہتھیارو ں اور طریقہ جنگ میں جدت پیدا کی۔وہ بھی وہاں میدان جہاد میں پہنچ کر ہی دعائیں کرتے تھے اور انتہائی گریہ و زاری کے ساتھ مانگتے تھے ۔اس دور کے بہت بعد عثمانیوں کے دور میں بھی اگر عثمانی خلافت کا دائرہ پھیلتا گیا اور وہ اس وقت سے آج سے سو سال قبل تک دنیا کی واحد سوپر پاور تھے تو اس لئے کہ وہ بھی محض دعاؤں پر تکیہ نہیں کرتے تھے دعاؤں کے ساتھ انہوں نے اپنی جنگی اختراعات کو بھی جاری رکھا تھا ۔انہوں نے بارود والی توپ کا استعمال کرکے اس دور کی بڑی بڑی باطل قوتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔ہم نے تاریخ میں یہ بھی پڑھا ہے کہ بابر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا اس کے پاس ایک نیا ہتھیار بندوق تھا جس کی مدد سے صرف دس ہزار فوجیوں سے ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ کی فوجیوں پر فتحیاب ہوا ۔
دعاؤں کی عدم مقبولیت اور اس کے رد ہونے کیلئے ایک اور حدیث نظر سے گذری ہے ’’جب لوگوں کا یہ حال ہو جائے کہ وہ برائی دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں ،ظالم کو ظلم کرتے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں ،تو قریب ہے کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے ۔اللہ کی قسم تم پر لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کومسلط کردے گا ،جو تم میں سب سے بدتر ہوں گے ،وہ تم کو سخت تکلیف دیں گے اور پھر تمہارے نیک لوگ دعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوں گی(جامع ترمذی ،سنن ابو داؤد)۔ہم نے آج کے بلا خیز دور میں جہاں مسلمان ہر طرف ظلم و جبر کا شکار ہیں اس دور میں محض دعاؤں کو ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا حق حاصل کیا ہے۔ہماری نظروں کے سامنے سے ایک خبر یہ بھی گذری کہ مسجد اقصیٰ میں نماز پر اسرائیلی پابندی ہٹنے میں ہماری دعاؤں کے اثرات کو دخل تھا ۔جبکہ میرا ماننا ہے کہ اسرائیل نے مسجد اقصیٰ میں نماز کی پابندی اٹھائی اس کی واحد وجہ ہمارے ان فلسطینی جانبازوں کی دن و رات کی قربانیاں ہیں ۔وہ میدان جہاد میں ہیں ۔وہاں اللہ مجاہدین کی دعائیں ان کی کوششیں کبھی رد نہیں کرتا ۔ان کی کوششوں کا تو پہلا اور عام طور پر دیکھا جانے والا صلہ یہی ہے کہ کوئی فلسطینی کبھی ذلت کی موت نہیں مرتا وہ پیٹھ پر گولی نہیں کھاتا ۔وہ لوگ اس دور میں مجاہدین اسلام کی بہترین مثال ہیں ۔ان کی دعاؤں کے طفیل اور ان کی ہی جانثاری اور جانبازی کے طفیل کئی جگہ کے مسلمان محفوظ ہیں ورنہ وہ بھی اسی لپیٹے میں آجاتے ۔ہم ان کے لئے دعائیں ضرور مانگیں لیکن یہ امید کہ ہم لوگ جو بدترین غلامی کے دور سے گزر رہے ہیں جس نے ہمارے ضمیر کو بھی مردہ کردیا ہے یہ توقع قطعی نہ رکھیں اور نا ہی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوں کہ ہماری دعائیں اللہ قبول کرے گا۔ویسے وہ رب العالمین اور مالک الملک ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے لیکن اسی خالق و مالک نے کچھ اصول بھی ترتیب دیئے ہیں ۔ بھلا اس روئے زمین پر محمد ﷺ سے بھی زیادہ کوئی اللہ کے قریب ہو سکتا ہے لیکن آپ ﷺ نے کبھی گھر میں یا اپنے حجرہ میں بیٹھ کر یا مسجد نبی سے دعاؤں کا اہتما م نہیں کیا ۔آپ ﷺ بدر کے میدان اترے ، احد کی وادی میں چہرہ انور پر زخم کھائے ،مدینہ میں خندق کھدوائے اس کی کھدائی میں خود بھی شامل ہوئے اور اپنے جانثار صحابہ سے اس خندق کی نگرانی کروائی پھر کافروں پر فتح کی دعائیں مانگیں اور اللہ نے دعائیں قبول کی اور ایسی قبولیت بخشی کہ نصف سے زائد دنیا کی حکومت عطا کی اور وہ بھی ہزار سال سے زائد عرصہ تک ۔
یہ دنیا اسباب سے چل رہی ہے اللہ نے اسے اسی نہج پر بنایا ہے ۔قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ چھ دن میں اس زمین و آسمان کی تخلیق کی۔جبکہ اللہ تعالیٰ کیلئے صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ہو جا اور وہ چیز ہو جاتی ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے زمین آسمان کی تخلیق سے لے کرانسان کی پیدائش تک قدرت کاملہ کا استعمال تو کیا لیکن ساتھ ہی اس میں اسباب کا استعمال بھی کیا جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کیلئے مٹی سے ایک پتلہ بنا کر اس میں روح پھونکی ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہی بات دنیا میں جینے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے اسباب کو اختیار کیا جائے ۔جنگ بدر میں مسلمان کمزور ضرور تھے ،تعداد میں کم بھی تھے لیکن کفار مکہ کے پاس جو ہتھیار تھے انہی ہتھیارو ں سے مسلمان بھی لیس تھے ۔جیسے سواری کیلئے اونٹ ،گھوڑے وغیرہ اور ہتھیار کے طور پر تلوار ،تیر و کمان اور ان سے محفوظ رہنے کیلئے زرہ ،ڈھال وغیرہ ۔گو یہ سامان مسلمانوں کے پاس انتہائی قلیل سہی لیکن تھے ۔اس کے بعد بھی مسلمان انہی ہتھیاروں سے جنگوں میں شامل ہو تے رہے اور فتحیاب ہوتے رہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے مسلمانوں نے جنگی سازو سامان میں نئی اختراعات بھی کیں ۔جیسے منجنیق جو اس دور میں توپ کے طور پر استعمال ہوتی تھی ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں بحری بیڑہ کو مضبوط کیا جو اس دور کے لحاظ سے سبھی اقوام کی جنگی قوت پر بھاری تھا ۔یہی طریقہ کار سلطان صلاح الدین ایوبی نے بھی عیسائیوں کو فیصلہ کن ہزیمت سے دوچار کرنے کیلئے استعمال کیا ۔وہ طریقہ کار تھا دشمن سے زیادہ چست اور ہتھیاروں سے لیس فوجی اور دیگر دفاعی نظام جن میں منجنیق میں مزید جدت بھی شامل ہے ۔صلاح الدین ایوبی نے ایک خود کش دستہ بھی تیار کیا تھا جو آتش گیر سیال مادہ سے لیس ہوتا تھا وہ دشمنوں کے بیچ میں گھس کر وہ تباہی پھیلاتا تھا کہ دشمن اس کے خوف سے راتوں کو کیمپوں میں ٹھیک سے سو بھی نہیں پاتا تھا ۔یہ سب اس لئے بھی کرنا ضروری تھا کہ مسلمانوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ۔صلاح الدین ایوبی کا دور تو آج کے ہی طرح خلفشار کا دور تھا لیکن اس دور میں بھی وہ اس لئے فتحیاب ہوئے کہ انہوں نے جنگی ہتھیارو ں اور طریقہ جنگ میں جدت پیدا کی۔وہ بھی وہاں میدان جہاد میں پہنچ کر ہی دعائیں کرتے تھے اور انتہائی گریہ و زاری کے ساتھ مانگتے تھے ۔اس دور کے بہت بعد عثمانیوں کے دور میں بھی اگر عثمانی خلافت کا دائرہ پھیلتا گیا اور وہ اس وقت سے آج سے سو سال قبل تک دنیا کی واحد سوپر پاور تھے تو اس لئے کہ وہ بھی محض دعاؤں پر تکیہ نہیں کرتے تھے دعاؤں کے ساتھ انہوں نے اپنی جنگی اختراعات کو بھی جاری رکھا تھا ۔انہوں نے بارود والی توپ کا استعمال کرکے اس دور کی بڑی بڑی باطل قوتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔ہم نے تاریخ میں یہ بھی پڑھا ہے کہ بابر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا اس کے پاس ایک نیا ہتھیار بندوق تھا جس کی مدد سے صرف دس ہزار فوجیوں سے ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ کی فوجیوں پر فتحیاب ہوا ۔
دعاؤں کی عدم مقبولیت اور اس کے رد ہونے کیلئے ایک اور حدیث نظر سے گذری ہے ’’جب لوگوں کا یہ حال ہو جائے کہ وہ برائی دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں ،ظالم کو ظلم کرتے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں ،تو قریب ہے کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے ۔اللہ کی قسم تم پر لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کومسلط کردے گا ،جو تم میں سب سے بدتر ہوں گے ،وہ تم کو سخت تکلیف دیں گے اور پھر تمہارے نیک لوگ دعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوں گی(جامع ترمذی ،سنن ابو داؤد)۔ہم نے آج کے بلا خیز دور میں جہاں مسلمان ہر طرف ظلم و جبر کا شکار ہیں اس دور میں محض دعاؤں کو ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا حق حاصل کیا ہے۔ہماری نظروں کے سامنے سے ایک خبر یہ بھی گذری کہ مسجد اقصیٰ میں نماز پر اسرائیلی پابندی ہٹنے میں ہماری دعاؤں کے اثرات کو دخل تھا ۔جبکہ میرا ماننا ہے کہ اسرائیل نے مسجد اقصیٰ میں نماز کی پابندی اٹھائی اس کی واحد وجہ ہمارے ان فلسطینی جانبازوں کی دن و رات کی قربانیاں ہیں ۔وہ میدان جہاد میں ہیں ۔وہاں اللہ مجاہدین کی دعائیں ان کی کوششیں کبھی رد نہیں کرتا ۔ان کی کوششوں کا تو پہلا اور عام طور پر دیکھا جانے والا صلہ یہی ہے کہ کوئی فلسطینی کبھی ذلت کی موت نہیں مرتا وہ پیٹھ پر گولی نہیں کھاتا ۔وہ لوگ اس دور میں مجاہدین اسلام کی بہترین مثال ہیں ۔ان کی دعاؤں کے طفیل اور ان کی ہی جانثاری اور جانبازی کے طفیل کئی جگہ کے مسلمان محفوظ ہیں ورنہ وہ بھی اسی لپیٹے میں آجاتے ۔ہم ان کے لئے دعائیں ضرور مانگیں لیکن یہ امید کہ ہم لوگ جو بدترین غلامی کے دور سے گزر رہے ہیں جس نے ہمارے ضمیر کو بھی مردہ کردیا ہے یہ توقع قطعی نہ رکھیں اور نا ہی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوں کہ ہماری دعائیں اللہ قبول کرے گا۔ویسے وہ رب العالمین اور مالک الملک ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے لیکن اسی خالق و مالک نے کچھ اصول بھی ترتیب دیئے ہیں ۔ بھلا اس روئے زمین پر محمد ﷺ سے بھی زیادہ کوئی اللہ کے قریب ہو سکتا ہے لیکن آپ ﷺ نے کبھی گھر میں یا اپنے حجرہ میں بیٹھ کر یا مسجد نبی سے دعاؤں کا اہتما م نہیں کیا ۔آپ ﷺ بدر کے میدان اترے ، احد کی وادی میں چہرہ انور پر زخم کھائے ،مدینہ میں خندق کھدوائے اس کی کھدائی میں خود بھی شامل ہوئے اور اپنے جانثار صحابہ سے اس خندق کی نگرانی کروائی پھر کافروں پر فتح کی دعائیں مانگیں اور اللہ نے دعائیں قبول کی اور ایسی قبولیت بخشی کہ نصف سے زائد دنیا کی حکومت عطا کی اور وہ بھی ہزار سال سے زائد عرصہ تک ۔
0 comments: