Politics

آئین ہند پر منڈلاتے خطرات

9:10 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

سولہویں پارلیمانی انتخابات کے نتائج آتے ہی ملک کے لوگوں نے ایک نئے انقلاب کی دستک محسوس کی۔ کچھ نے اگر اس نئی فضا میں خوشی اور جشن منایا تو کچھ نے تشویش اور تشکیک بھی ظاہر کی اور پھر چند مہینوں میں ہی ملک کا جو سیاسی منظرنامہ بنا اس نے ملک کے مستقبل کے حوالے سے خصوصاً مسلمانوں کو اندیشوں اور تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ انتخابی عمل کے دوران اور پھر اس کے نتائج کے آجانے کے بعد مسلمانوں کے ذہنی اور جذباتی کیفیت کا ایک اندازہ روزمرہ کے اخباری مضامین اور قا ئدین کے بیانات، جلسے اور پرو گراموں کی خبروں سے بھی ہوتا رہا ہے۔
پارلیمانی انتخابات میں بھاری کامیابی کے بعد تابڑ توڑ اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی کو ناقابل یقین کامیابیوں نے فرش سے اٹھاکر عرش پر پہنچادیا۔ صدر جمہوریۂ ہند کا عہدہ ملک کا سب سے بلند و بالا اور باوقار عہدہ ہے۔ اس منصب پر بھی بی جے پی کو ہی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور سیکولر پارٹیوں کی مسلسل ہزیمت سے یہ اندازہ لگانا اب کوئی مشکل نہیں رہا کہ ملک کے عوام سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی غیر متوقع کامیابی کے بعد صدارتی انتخاب کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی گئی وہ تمام سیکولر جماعتوں کے لیے باعث عبرت ہے۔
ملک بھر میں اقتدار کی تبدیلی کے لیے زیرزمین جس طرح کی لہر چلائی گئی یہ کوئی اچانک رونما ہونے والی لہر نہیں تھی بلکہ یہ منصوبہ بند اور دور رس حکمت عملی تھی۔ اس لہر نے تقریباً نصف صدی تک حکومت کرنے والی کانگریس کے ساتھ ساتھ دیگر سیکولر پارٹیوں کے بھی پایۂ سلطنت کو اکھاڑ ڈالا۔ اس تباہ کن لہر یا اس انقلابی آندھی کے اثرات سے تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ملک ایک ایسے انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے جو ملک کے اتحاد و یک جہتی کے لیے سم قاتل ہے۔
کتنی شرم ناک بات ہے کہ مرکزی اقتدار سے محرومی کے بعد ملک کی سب سے اہم ریاست اترپردیش اسمبلی الیکشن میں شکست فاش اور پھر صدارتی الیکشن میں بھی ایسی منہ کی کھانی پڑی کہ جس نے ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو کہیں بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ اس کے باوجود ان میں بے فکری اور بے حسی ہی ہر طرف چھائی دکھائی دے رہی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ اقتدار کی تبدیلی میں ان کی بھی مرضی شامل ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ موجودہ حکمراں طبقہ ازدہے کی مانند سیکولر قوتوں کو چن چن کر نگلتا جارہا ہے اور سب کے سب تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر ہماری سیکولر جماعتوں کا یہی حال رہا تو عین ممکن ہے ملک کا سیکولر آئین تباہ ہوجائے اور اس کی جگہ ایک ایسے آئین کا نفاذ عمل میں آجائے جو ملک کی سیکولر اور جمہوری قدروں کے لیے زہرہلاہل بن جائے اور اب تو بی جے پی کے سامنے صرف ہمارا سیکولر آئین ہی ہے جو اس کے لیے رکاوٹ ہے۔ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد اس کا پہلا کام یہی ہوگا کہ وہ آئین میں تبدیلی لے آئے کیونکہ بی جے پی کی ماں آرایس ایس نے اسے اول وقت سے ہی تسلیم نہیں کیا ہے۔ تو ظاہر ہے جب سارے ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھوں میں آجائے گی تو سب سے پہلے اپنے خوابوں کی تکمیل ہندو راشٹر کے قیام کے طور پر ہی کرے گی اور آرایس ایس کی کارگاہ میں فکر و نظر کے جو سانچے ڈھالے جاتے ہیں ان کی نظروں میں ملک کی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلق سے ان کے کیا کیا عزائم ہیں، اس کا اندازہ ان کی ملک بھر میں پھیلی ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
یاد رکھیے! جس دن بھی دنیا کے سب سے بڑے و عظیم جمہوری ملک کے سیکولر آئین میں کوئی تبدیلی لائی گئی اسی دن سمجھئے کہ جمہوریت کی پوری عمارت زمین بوس ہوگئی اور اس کی اصل ذمہ دار ہماری سیکولر پارٹیاں ہی ہوں گی کیونکہ ان کے نااہل سربراہوں اور خود غرض و مفاد پرست نیتائوں کی نااہلی کی وجہ سے ہی پورا ملک آج انتہائی خطرناک حالات سے دوچار ہے۔
مسائل ہر ملک میں ہوتے ہیں، ہر حکومت کے خلاف عوام میں ناراضی پائی جاتی ہے۔ مسائل کے حل اور تبدیلی کے لیے بہت سے ملکوں میں عوامی تحریکیں بھی چلیں اور حکومت کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں مگر وہ سب کے سب وقتی اور عارضی ہوتے ہیں۔ تاہم ہمارے ملک میں جو تبدیلی کی تحریک چلائی گئی یا چلائی جارہی ہے اس کے پیچھے ایک نئے نظام (منواسمرتی) کا نفاذ ہے اور یہ وہ نظام ہے جو ملک کی اقلیتوں، دلتوں اور کمزور طبقوں کو دوسرے طبقوں سے کم تر قرار دیتا ہے اور بعض حالات میں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک بھی کیا جاتا ہے۔
اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اگر کسی نے گہری دلچسپی لی ہے اور پل پل بدلتے حالات اور لمحہ لمحہ بدلتی صورت حال پر نظر رکھی ہے تو وہ ہے ہمارا عالمی میڈیا۔ اس لیے کہ موجودہ حکمرانوں کے نظریات جو کہ مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں نظریاتی طور پر دونوں میں بڑی ہم آ ہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی مسلمانوں کے دشمن ہیں، جہاں بھی اور جب بھی کوئی ایسا موقع ملا جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو، فوراً ان کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیتے ہیں۔ یا وہ رویہ اپناتے ہیں جس سے مسلمانوں کو ٹھیس پہنچے۔
جیسا کہ مذہب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے یا جوڑے رکھنے کی ایک بین الاقوامی سازش جاری ہے اور مغربی میڈیا اس میں قائدانہ رول ادا کر رہا ہے اور مغرب کے زیراثر ہندوستان میں بھی مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور ہمارے ملک کا میڈیا بھی اس ضمن میں اہم ر ول ادا کر رہا ہے۔ جھوٹی اور من گھڑت رپورٹیں تیار کرکے مسلمانوں کو اس سے جوڑ دیتے ہیں جس سے برادران وطن میں غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اور لوگ شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔
بہرحال اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے حالات سنگین رخ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس کے پس پردہ جو طاقتیں سرگرم عمل ہیں وہ وہی ہیں جن کے روابط اسلام اور مسلمانوں کے عالمی دشمنوں سے ہیں۔ حالات اب اس مقام پر پہنچ رہے ہیں کہ اگر ملک کے سیکولر اور انصاف پسند اور مخلص لوگ ان کے خلاف فوری طور پر صف بستہ نہیں ہوئے تو عین ممکن ہے کہ ملک ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے۔ قوم دشمن طاقتیں عوام میں نفرت کے بیج بو رہی ہیں اور اپنی اگائی ہوئی فصل اقتدار کے گلیاروں میں کاٹ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری سب سے بڑی لائق احترام عدلیہ بھی متاثر ہوتی جارہی ہے۔
یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ کشمیر سے کنیاکماری تک جو دہشت اور یورش کی لہر چل رہی ہے اور اس کے بہانے جن لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے اور جن لوگوں کو دہشت گرد اور ملک دشمن قرار دے کر پولیس انکائونٹر میں ہلاک کردیا جاتا ہے ان میں بیشتر وہ مسلم نوجوان ہوتے ہیں جن کے چہروں پر داڑھیاں ہوتی ہیں یا وہ کرتہ پاجامہ کے ساتھ ٹوپی بھی اوڑھے ہوتے ہیں یا پھر ان کا کوئی بھی عمل ایسا ہوتا ہے جس سے اسلامی شناخت کا اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا اسلامی نام یا شناخت کا باجا ہمارا قومی میڈیا خصوصاً بے ضمیر الکٹرانک میڈیا بڑی مہارت و پورے زور و شور سے بلکہ پورے جوش خروش سے بجانا شروع کردیتا ہے تاکہ حقیقت پر دبیز پردہ بھی پڑا رہے اور ان کا مقصد بھی پورا ہوجائے۔
دیکھا تو یہی جارہا ہے کہ جب سے مرکز پر اور دوسری ریاستوں خصوصاً اترپردیش پر بی جے پی کا قبضہ ہوا ہے، فسطائیت کے علمبرداروں نے مختلف عنوانوں سے پورے ملک کے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بنادینے کی ٹھان لی ہے۔ ملک کے مختلف صوبوں میں مختلف بہانوں سے جس طرح مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ آنے والے دن مسلمانوں کے لیے اور بھی کٹھن ہوں گے۔
ان حالات میں ملک کے سیکولر اور جمہوریت پسند عوام اور قائدین ملت پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ملک و ملت او راپنے سیکولر آئین کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ بصورت دیگر ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں جمہوری اور سیکولر جماعتوں پر زیادہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں اور کمزور طبقوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ پوری قو ت کے ساتھ فاشزم کا مقابلہ کرسکیں۔ اسی میں ملک کا بھی بھلا ہے اور ہندوستانی سماج کا وسیع تر مفاد بھی اسی بات کا متقاضی ہے۔

0 comments: