featured
مرزا غالب نے ایسے ایسے اشعار کہے ہیں یا غزلیں لکھی ہیں جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ شاید ہمارے آس پاس ہی کہیں موجود ہیں اور حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں ۔ اب اسی شعر کو لے لیجئے جس کے مصرعہ کو ہم نے مضمون کا عنوان بنایا ہے ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق ۔۔نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی ۔آج وطن عزیز کے حالات پر کتنا فٹ بیٹھتا ہے ۔ہر دن کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا ہے ۔میڈیا اس پر کہیں ماتمی لباس پہن کر خاموش ہو جاتا ہے اور کہیں بندروں کی طرح اچھل کود شروع کردیتا ہے ۔دو دن سے دہلی ،ہریانہ، پنجاب ،راجستھان اور مغربی اتر پردیش میں ایک بابا کو عدلیہ کی جانب سے زنا بالجبر کا مجرم قرار دیئے جانے کے بعد ان کے عقیدتمندوں کی جانب سے ملک سے بغاوت جیسی صورتحال ہے ۔فیصلہ آنے سے قبل ہی بابا گرمیت رام رحیم کے دو لاکھ سے زائد عقیدتمند اس اطراف میں جمع ہوگئے تھے ۔صرف ایک زنا بالجبر کے مجرم کو سزا سنانے کیلئے حکومت کو نیم فوجی دستوں کا سہارا لینا پڑا ۔اس کے باوجود حالات اتنے بگڑے کہ دو درجن سے زائد افراد کی موت واقع ہو گئی اور کئی سو زخمی ہیں ۔اس طرح کے واقعات ملک کی اندرونی سلامتی کیلئے ایک الارمنگ پوزیشن کی حیثیت رکھتے ہیں اگر حکومت حقیقی معنوں میں استحکام کیلئے کام کرنا چاہتی ہے۔موجودہ صورتحال پر سماجی رابطے کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر بھی پراکسی وار جیسا سماں ہے ۔
مذکورہ بابا گرمیت سنگھ کی حمایت کرتے ہوئے ہریانہ کے سنگھی وزیر اعلیٰ نے اپنے ٹوئٹر میں لکھا کہ ’’سنت گرمیت رام رحیم جی غریب مریضوں کی خدمت ،صفائی مہم ،تعلیم کے فروغ کیلئے اور نشہ مخالف سمیت سماجی رفاہی کاموں میں مصروف ہیں‘‘۔ایک مجرم کیلئے ریاست کا وزیر اعلیٰ دل میں کتنی عقیدت رکھتا ہے ۔مجرمانہ سوچ یہ رکھتے ہیں اور حب الوطنی کا درس مسلمانوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ٹوئٹر پر اچھے دن نام کے ایک صارف نے ایک تصویر منسلک کی ہے جس میں بابا گرمیت کو اہم بی جے پی لیڈروں کے ساتھ دکھایا گیا ہے ۔واضح ہو کہ یہ ساری تصویریں اصلی ہیں کسی فوٹو شاپ کا کمال نہیں ہے ۔فوٹومیں بابا کے ساتھ منوج تیواری ،کیلاش وجئے ورگی ،سید شاہنواز حسین اور ہریانہ کے وزیر اعلیٰ مسٹر کھٹر ہیں ۔یہ بی جے پی کا وہ چہرہ ہے جو انتہائی گھناؤنا ،مکروہ اور ناپسندیدہ ہے ۔لیکن اس کے ہاتھوں میں ہندوتوا کا علم ہے جس کے سہارے اس نے یہاں کے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا رکھا ہے ۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہاں کے لوگ بیوقوف ہی ہیں یہی سبب ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے بار بار ٹھگے جاتے ہیں ۔بابا کو عدلیہ کے ذریعہ مجرم قرار دیئے جانے کے بعد دو لاکھ سے زائد عقیدتمندوں کا یوں افراتفری کا ماحول پیدا کرنا آخر یہ بیوقوفی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے ؟ابھی تو نچلی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے ۔آگے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ باقی ہے ۔جب تک یقین رکھیں کہ بابا ،با عزت بری ہو جائیں گے ۔آخر اس بھیڑ کا اور اس کے ذریعہ برپا کئے جانے والے فسادات کا کچھ تو دباؤ بنے گا ہی ،ویسے بھی جمہوریت میں ایک ایک ووٹ قیمتی ہوتا ہے ۔یہاں تو لاکھوں ووٹوں کا سوال ہے ۔اوپر حقائق بتایا جاچکا کہ بی جے پی کہ اہم لیڈر کس طرح اس زنا بالجبر کے مرتکب بابا کے بھکت بنے ہوئے ہیں ۔بھلا اتنی قوت والوں سے بھی کوئی سیاسی پارٹی مخالفت مول لے سکتی ہے ؟بی جے پی تو بالکل بھی نہیں لے سکتی اسے توابھی 2019 میں انتخاب جیتنا ہے ۔سوائے ان سیاسی پارٹیوں کے جن میں کچھ ضمیرجیسی کسی شئے کی موجودگی ہے ۔ان کے علاوہ کسی نے بھی اس پر کھل کر اظہار رائے نہیں کی ہے ۔ بیشک لالو پرشاد کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ وہ کسی ایسے معاملے میں خاموش نہیں رہتے ۔چنانچہ انہوں نے ہریانہ میں حالات کے بگڑنے پر اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’’ یہی کوئی مولانا کرتاتب دیکھتے سارے میڈیا والے جو مودی کے پالتو ہیں سفید ساڑی پہن کر بیواؤں کی طرح ماتم کرتے ‘‘۔ بالکل ٹھیک کہا لالو پرشاد نے ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے الزام میں قید ٹھاکر پرگیہ اور کرنل پروہت کے ساتھ بی جے پی کے کئی اہم لیڈروں کی تصاویر شائع ہوئیں ۔خود اڈوانی سادھوی پرگیہ کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ۔بابا گرمیت سے قبل بابا رام پال کے ساتھ بھی بی جے پی کے تعلقات کی بات سامنے آئی تھی ۔اس کے بعد اب بابا گرمیت کے ساتھ بھی یہی معاملہ ۔آشا رام باپو کے ساتھ بھی امیت شاہ اور مودی کی تصاویر ہیں ۔لیکن کسی نے آج تک اس پر سوال نہیں اٹھائے ۔لیکن ذاکر نائک کا میٹر، محض بنگلہ دیش میں ایک شدت پسند کے فیس بک پر ذاکر نائک سے متاثر ہونے کی بات کیا سامنے آئی کہ انہوں نے مختلف بہانوں سے انہیں شکار کر ہی لیا ۔ٹوئٹر پر کِنجَل نام کی ایک صارف نے لکھا ’’بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے کہنے والے ملک کے غدار ہیں ،صحیح بات ہے ۔لیکن ،اگر بابا کو کچھ ہوا تو انڈیا کا نام و نشان مٹا دیں گے کہنے والے کون ہیں ؟‘‘ ۔اس طرح کے سوالات اب تعلیم یافتہ نوجوانوں کی جانب سے اٹھائے جانے لگے ہیں ۔ یہ وہ جوان ہیں جو واقعی نیا ہندوستان بنانا چاہتے ہیں ۔صرف مودی یا ریاست بدر کی سزا پانے والے شاہ کی طرح وہ محض الیکشنی جملہ نہیں بولتے ہیں ۔
بابا گرمیت کوئی پہلا مسئلہ نہیں ہے اور جس طرح کا معاشرہ یہاں ہے اور جیسی سوچ ہے اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ آخری معاملہ ہے ۔اوپر بتا دیا گیا کہ کوئی بھی اس طرح کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے ہزاروں چاہنے والے پیدا ہو جاتے ہیں ۔اس سے ایسا بھی محسوس ہو تا ہے کہ یہاں شاید روحانیت کا خانہ بالکل خالی ہے یہی سبب ہے کہ کوئی بھی ڈھونگی جب روحانی نجات کی بات کرتا ہے تو عوام کا ایک بڑا حصہ اس پر لبیک کہتا ہے۔ تقریبا ایک سال قبل بابا رام پال کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا ایسا ہی متھرا کا بھی کوئی معاملہ تھا ۔مسلمانوں کو ایک گروہ یہ بتاتے نہیں تھکتا کہ اسلام اور قرآن سے اوپر وطن پرستی اور یہاں کا مروجہ رواج یا قانون ہے۔ قومی ترانہ پر آئے دن وبال ہوتا رہتا ہے ۔لیکن کوئی انہیں نہیں بتاتا کہ یہاں ایک قانون ہے اس ملک کا ایک دستور ہے جس کے تحت فیصلے ہوتے ہیں ۔کسی کو عدلیہ نے مجرم قرار دے کر اگر سزا کا مستحق قرار دیا ہے تو اس میں اس قدر تشدد کی کیا ضرورت ہے ۔ابھی تو عدلیہ کے کئی مرحلے ہیں ۔اگر باباکے عقیدتمندوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے تو ابھی دو عدالتیں ہیں اس میں اپنا موقف رکھئے ۔حالانکہ مسلمانوں کے ساتھ حقیقی معنوں میں ناانصافی ہوتی ہے ۔کئی معاملہ میں انہیں فرضی طور پر پھنسایا جاتا ہے وہ نچلی عدالت کے فیصلے پر قانون کے دائرے میں نکتہ چینی کرتے ہیں تو انہیں ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔ ہمارے سامنے کئی ایسے معاملے ہیں جن میں ہمیں عدالت عظمیٰ سے بھی انصاف نہیں ملا لیکن یہاں ہم اس کو بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔ہم پولس اور انتظامیہ سے سوال کرتے ہیں کہ یعقوب میمن کے جنازے میں شامل ہونے سے عام مسلمانوں کو روکنے کیلئے جگہ بجگہ رکاوٹیں کھڑی کی جاسکتی ہیں ۔یعقوب مرحوم کے رشتہ داروں پر جنازے کے وقت کا اعلان نہیں کرنے کا دباؤ بنایا جاتا ہے، لیکن گرمیت سنگھ کو مجرم قرار دینے سے قبل ان کے عقیدتمندوں کو روکنے کیلئے کوئی ٹھوس کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ جس کی وجہ سے دو درجن سے زائد انسانوں کی جان گئی اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ۔کیا امن و قانون کی پاسداری کی ٹھیکیداری صرف مسلمانوں کے سر ہے ؟ہم یہ دیکھتے ،محسوس کرتے ہیں کہ یہاں فیصلہ،انتظامیہ کی کارروائی اور حکومت کی پالیسی سامنے والے کی ذات اس کا مذہب اور اس کی قوت کے زیر اثر ہے ۔ نہ آززاد عدلیہ آزاد ہے نہ جمہوری میڈیا بے لاگ ہے اور انتظامیہ کا تو پوچھنا ہی کیا اس کا تو کوئی جواب ہی نہیں ۔جس طرح سے بابا گرمیت اور اس سے قبل رام پال اور کچھ حد تک آشا رام جیسوں نے جرم کرنے کے بعد اپنے عقیدتمندوں کے ذریعہ حالات کو دھماکہ خیز بنایا ہے ملک کی سلامتی تئیں فکر مندلوگوں کیلئے انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے کیوں کہ یہ ایک ٹائم بم ہے کسی دن بہت بری طرح پھٹے گا اور ایسا خطرناک رخ اختیار کر ے گا کہ حالات بے قابو ہو جائیں گے اور ملک کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔کوئی مانے یا نا مانے لیکن یہ بات طے ہے کہ ایسے مسائل سیاست دانوں کی جانب سے ملک پر تھوپے جارہے ہیں تاکہ غیر ملکی خطرہ جو ہماری سلامتی کیلئے چیلنج ہے اس جانب سے عوام کے ذہن کو ہٹا کر اس طرح کے خانگی مسائل میں الجھایا جاسکے ۔
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق ۔۔۔!
نہال صغیر
مرزا غالب نے ایسے ایسے اشعار کہے ہیں یا غزلیں لکھی ہیں جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ شاید ہمارے آس پاس ہی کہیں موجود ہیں اور حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں ۔ اب اسی شعر کو لے لیجئے جس کے مصرعہ کو ہم نے مضمون کا عنوان بنایا ہے ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق ۔۔نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی ۔آج وطن عزیز کے حالات پر کتنا فٹ بیٹھتا ہے ۔ہر دن کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا ہے ۔میڈیا اس پر کہیں ماتمی لباس پہن کر خاموش ہو جاتا ہے اور کہیں بندروں کی طرح اچھل کود شروع کردیتا ہے ۔دو دن سے دہلی ،ہریانہ، پنجاب ،راجستھان اور مغربی اتر پردیش میں ایک بابا کو عدلیہ کی جانب سے زنا بالجبر کا مجرم قرار دیئے جانے کے بعد ان کے عقیدتمندوں کی جانب سے ملک سے بغاوت جیسی صورتحال ہے ۔فیصلہ آنے سے قبل ہی بابا گرمیت رام رحیم کے دو لاکھ سے زائد عقیدتمند اس اطراف میں جمع ہوگئے تھے ۔صرف ایک زنا بالجبر کے مجرم کو سزا سنانے کیلئے حکومت کو نیم فوجی دستوں کا سہارا لینا پڑا ۔اس کے باوجود حالات اتنے بگڑے کہ دو درجن سے زائد افراد کی موت واقع ہو گئی اور کئی سو زخمی ہیں ۔اس طرح کے واقعات ملک کی اندرونی سلامتی کیلئے ایک الارمنگ پوزیشن کی حیثیت رکھتے ہیں اگر حکومت حقیقی معنوں میں استحکام کیلئے کام کرنا چاہتی ہے۔موجودہ صورتحال پر سماجی رابطے کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر بھی پراکسی وار جیسا سماں ہے ۔
مذکورہ بابا گرمیت سنگھ کی حمایت کرتے ہوئے ہریانہ کے سنگھی وزیر اعلیٰ نے اپنے ٹوئٹر میں لکھا کہ ’’سنت گرمیت رام رحیم جی غریب مریضوں کی خدمت ،صفائی مہم ،تعلیم کے فروغ کیلئے اور نشہ مخالف سمیت سماجی رفاہی کاموں میں مصروف ہیں‘‘۔ایک مجرم کیلئے ریاست کا وزیر اعلیٰ دل میں کتنی عقیدت رکھتا ہے ۔مجرمانہ سوچ یہ رکھتے ہیں اور حب الوطنی کا درس مسلمانوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ٹوئٹر پر اچھے دن نام کے ایک صارف نے ایک تصویر منسلک کی ہے جس میں بابا گرمیت کو اہم بی جے پی لیڈروں کے ساتھ دکھایا گیا ہے ۔واضح ہو کہ یہ ساری تصویریں اصلی ہیں کسی فوٹو شاپ کا کمال نہیں ہے ۔فوٹومیں بابا کے ساتھ منوج تیواری ،کیلاش وجئے ورگی ،سید شاہنواز حسین اور ہریانہ کے وزیر اعلیٰ مسٹر کھٹر ہیں ۔یہ بی جے پی کا وہ چہرہ ہے جو انتہائی گھناؤنا ،مکروہ اور ناپسندیدہ ہے ۔لیکن اس کے ہاتھوں میں ہندوتوا کا علم ہے جس کے سہارے اس نے یہاں کے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا رکھا ہے ۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہاں کے لوگ بیوقوف ہی ہیں یہی سبب ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے بار بار ٹھگے جاتے ہیں ۔بابا کو عدلیہ کے ذریعہ مجرم قرار دیئے جانے کے بعد دو لاکھ سے زائد عقیدتمندوں کا یوں افراتفری کا ماحول پیدا کرنا آخر یہ بیوقوفی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے ؟ابھی تو نچلی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے ۔آگے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ باقی ہے ۔جب تک یقین رکھیں کہ بابا ،با عزت بری ہو جائیں گے ۔آخر اس بھیڑ کا اور اس کے ذریعہ برپا کئے جانے والے فسادات کا کچھ تو دباؤ بنے گا ہی ،ویسے بھی جمہوریت میں ایک ایک ووٹ قیمتی ہوتا ہے ۔یہاں تو لاکھوں ووٹوں کا سوال ہے ۔اوپر حقائق بتایا جاچکا کہ بی جے پی کہ اہم لیڈر کس طرح اس زنا بالجبر کے مرتکب بابا کے بھکت بنے ہوئے ہیں ۔بھلا اتنی قوت والوں سے بھی کوئی سیاسی پارٹی مخالفت مول لے سکتی ہے ؟بی جے پی تو بالکل بھی نہیں لے سکتی اسے توابھی 2019 میں انتخاب جیتنا ہے ۔سوائے ان سیاسی پارٹیوں کے جن میں کچھ ضمیرجیسی کسی شئے کی موجودگی ہے ۔ان کے علاوہ کسی نے بھی اس پر کھل کر اظہار رائے نہیں کی ہے ۔ بیشک لالو پرشاد کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ وہ کسی ایسے معاملے میں خاموش نہیں رہتے ۔چنانچہ انہوں نے ہریانہ میں حالات کے بگڑنے پر اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’’ یہی کوئی مولانا کرتاتب دیکھتے سارے میڈیا والے جو مودی کے پالتو ہیں سفید ساڑی پہن کر بیواؤں کی طرح ماتم کرتے ‘‘۔ بالکل ٹھیک کہا لالو پرشاد نے ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے الزام میں قید ٹھاکر پرگیہ اور کرنل پروہت کے ساتھ بی جے پی کے کئی اہم لیڈروں کی تصاویر شائع ہوئیں ۔خود اڈوانی سادھوی پرگیہ کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ۔بابا گرمیت سے قبل بابا رام پال کے ساتھ بھی بی جے پی کے تعلقات کی بات سامنے آئی تھی ۔اس کے بعد اب بابا گرمیت کے ساتھ بھی یہی معاملہ ۔آشا رام باپو کے ساتھ بھی امیت شاہ اور مودی کی تصاویر ہیں ۔لیکن کسی نے آج تک اس پر سوال نہیں اٹھائے ۔لیکن ذاکر نائک کا میٹر، محض بنگلہ دیش میں ایک شدت پسند کے فیس بک پر ذاکر نائک سے متاثر ہونے کی بات کیا سامنے آئی کہ انہوں نے مختلف بہانوں سے انہیں شکار کر ہی لیا ۔ٹوئٹر پر کِنجَل نام کی ایک صارف نے لکھا ’’بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے کہنے والے ملک کے غدار ہیں ،صحیح بات ہے ۔لیکن ،اگر بابا کو کچھ ہوا تو انڈیا کا نام و نشان مٹا دیں گے کہنے والے کون ہیں ؟‘‘ ۔اس طرح کے سوالات اب تعلیم یافتہ نوجوانوں کی جانب سے اٹھائے جانے لگے ہیں ۔ یہ وہ جوان ہیں جو واقعی نیا ہندوستان بنانا چاہتے ہیں ۔صرف مودی یا ریاست بدر کی سزا پانے والے شاہ کی طرح وہ محض الیکشنی جملہ نہیں بولتے ہیں ۔
بابا گرمیت کوئی پہلا مسئلہ نہیں ہے اور جس طرح کا معاشرہ یہاں ہے اور جیسی سوچ ہے اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ آخری معاملہ ہے ۔اوپر بتا دیا گیا کہ کوئی بھی اس طرح کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے ہزاروں چاہنے والے پیدا ہو جاتے ہیں ۔اس سے ایسا بھی محسوس ہو تا ہے کہ یہاں شاید روحانیت کا خانہ بالکل خالی ہے یہی سبب ہے کہ کوئی بھی ڈھونگی جب روحانی نجات کی بات کرتا ہے تو عوام کا ایک بڑا حصہ اس پر لبیک کہتا ہے۔ تقریبا ایک سال قبل بابا رام پال کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا ایسا ہی متھرا کا بھی کوئی معاملہ تھا ۔مسلمانوں کو ایک گروہ یہ بتاتے نہیں تھکتا کہ اسلام اور قرآن سے اوپر وطن پرستی اور یہاں کا مروجہ رواج یا قانون ہے۔ قومی ترانہ پر آئے دن وبال ہوتا رہتا ہے ۔لیکن کوئی انہیں نہیں بتاتا کہ یہاں ایک قانون ہے اس ملک کا ایک دستور ہے جس کے تحت فیصلے ہوتے ہیں ۔کسی کو عدلیہ نے مجرم قرار دے کر اگر سزا کا مستحق قرار دیا ہے تو اس میں اس قدر تشدد کی کیا ضرورت ہے ۔ابھی تو عدلیہ کے کئی مرحلے ہیں ۔اگر باباکے عقیدتمندوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے تو ابھی دو عدالتیں ہیں اس میں اپنا موقف رکھئے ۔حالانکہ مسلمانوں کے ساتھ حقیقی معنوں میں ناانصافی ہوتی ہے ۔کئی معاملہ میں انہیں فرضی طور پر پھنسایا جاتا ہے وہ نچلی عدالت کے فیصلے پر قانون کے دائرے میں نکتہ چینی کرتے ہیں تو انہیں ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔ ہمارے سامنے کئی ایسے معاملے ہیں جن میں ہمیں عدالت عظمیٰ سے بھی انصاف نہیں ملا لیکن یہاں ہم اس کو بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔ہم پولس اور انتظامیہ سے سوال کرتے ہیں کہ یعقوب میمن کے جنازے میں شامل ہونے سے عام مسلمانوں کو روکنے کیلئے جگہ بجگہ رکاوٹیں کھڑی کی جاسکتی ہیں ۔یعقوب مرحوم کے رشتہ داروں پر جنازے کے وقت کا اعلان نہیں کرنے کا دباؤ بنایا جاتا ہے، لیکن گرمیت سنگھ کو مجرم قرار دینے سے قبل ان کے عقیدتمندوں کو روکنے کیلئے کوئی ٹھوس کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ جس کی وجہ سے دو درجن سے زائد انسانوں کی جان گئی اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ۔کیا امن و قانون کی پاسداری کی ٹھیکیداری صرف مسلمانوں کے سر ہے ؟ہم یہ دیکھتے ،محسوس کرتے ہیں کہ یہاں فیصلہ،انتظامیہ کی کارروائی اور حکومت کی پالیسی سامنے والے کی ذات اس کا مذہب اور اس کی قوت کے زیر اثر ہے ۔ نہ آززاد عدلیہ آزاد ہے نہ جمہوری میڈیا بے لاگ ہے اور انتظامیہ کا تو پوچھنا ہی کیا اس کا تو کوئی جواب ہی نہیں ۔جس طرح سے بابا گرمیت اور اس سے قبل رام پال اور کچھ حد تک آشا رام جیسوں نے جرم کرنے کے بعد اپنے عقیدتمندوں کے ذریعہ حالات کو دھماکہ خیز بنایا ہے ملک کی سلامتی تئیں فکر مندلوگوں کیلئے انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے کیوں کہ یہ ایک ٹائم بم ہے کسی دن بہت بری طرح پھٹے گا اور ایسا خطرناک رخ اختیار کر ے گا کہ حالات بے قابو ہو جائیں گے اور ملک کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔کوئی مانے یا نا مانے لیکن یہ بات طے ہے کہ ایسے مسائل سیاست دانوں کی جانب سے ملک پر تھوپے جارہے ہیں تاکہ غیر ملکی خطرہ جو ہماری سلامتی کیلئے چیلنج ہے اس جانب سے عوام کے ذہن کو ہٹا کر اس طرح کے خانگی مسائل میں الجھایا جاسکے ۔
0 comments: