تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۶)

3:15 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

(گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ کالم میں جوشی کا لونی کے مختصر حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو ملت کی زبوں حالی اور زوال پذیری کی ایک ایسی داستان ہے جسے پڑھ کر، سن کر کوئی بھی ملت کا درد مند فرد رو پڑے گا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے ’شرمناک کارنامے‘ وہ لوگ کر رہے ہیں جن پر دین داری کا لیبل لگا ہوا ہے اور وہ دین و ملت کے وسیع تر مفادات کے لیے کہیں تک جانے کا عزم بالجزم بھی رکھتے ہیں۔ ان کی پیشانیاں ان کی نیک عملی اور ان کا حلیہ ان کی درویشی کی گواہ ہیں کہ یہ اللہ کے محبوب بندے ہیں۔ ان کا جینا و مرنا سبھی اللہ کی خوشنودی اور رضامندی کے لیے ہے۔ 
اب آپ ایک واقعہ جعفرآباد (دہلی) کے معروف مدرسہ کے مہتمم کا سنیے۔ راقم کسی ضرورت سے مدرسہ کے مہتمم صاحب سے ملنے گیا۔ شعبہ اہتمام میں کئی حضرات موجود تھے جو آپس میں دوسرے فریق کو ناکام بنانے کی باتیں کر رہے تھے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ایک گروپ ہے جو مدرسہ کے مہتمم صاحب کو نکالنا چاہتا ہے اور ایک گروپ جو مولانا کے سحر میں گرفتار ہے اور جو سیاسی اور سماجی طو رپر بااثر بھی ہے، مولانا کے حق میں ہے اور وہ کسی بھی حال میں مولانا کو مدرسہ بدر نہیں ہونے دے گا۔ راقم سطور جب مدرسہ کی پہلی منزل سے گراؤنڈ فلور پر آیا تو وہاں مہتمم صاحب کے صاحبزادے موجود تھے، سلام کلام کے بعد فرمانے لگے۔ ’’اسلم صاحب! یہ لوگ ہمیں یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم اتنی آسانی سے چلے جائیں گے! اسی مدرسے کے ذریعے ہم نے 40 بیگھہ زمین خریدی ہے اور اسی کے ذریعے ایک نجی مدرسہ بھی چلا رہے ہیں اور دیگر ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں، آپ ہی بتائیں بھلا کیسے اسے چھوڑ دیں؟‘‘ یہ بات 1986 کی ہے، جب مدرسہ اپنے عروج کی منزلیں طے کررہا تھا۔ اس طرح کے واقعات نہ معلوم کتنے ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر ملت کے ان قلعوں میں دراڑیں کیوں پڑنے لگی ہیں؟ اور وہ کون لوگ ہیں جو انہیں منہدم کرنے پر مصر ہیں؟ انہیں ہمیں پہچاننا ہوگا اور ان سے چھٹکارے کے راستے بھی ڈھونڈنے ہوں گے۔ 
کچھ اسی طرح کے حالات علماء یہود کے بھی تھے جن کے بارے میں قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو نیکی و تقویٰ کی تعلیم دیتے ہیں اور خود ان پر عمل نہیں کرتے۔ (سورہ بقرہ) علماء یہود کے اسی منافقانہ طرز عمل سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے ان کے علماء کو ان لفظوں میں تنبیہ کی گئی ہے۔ ’’اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہ کرتے ہو۔‘‘ یقین کیجیے اگر دلوں میں خوف خدا ہو اور روز آخرت محاسبہ اعمال کا یقین ہو تو علماء اور قائدین ملت کی زبانیں گنگ ہوجائیں۔ ان پر ہمیشہ کے لیے مہرسکوت لگ جائے اور وعظ و تعلیم کی مجلسیں ویران ہوجائیں۔ کس عالم اور کس قائد میں یہ ہمت ہے کہ وہ مسلمانوں کو برّ و تقویٰ کا درس دے۔ ایک بھی عالم اور قائد ایسا نہیں ہے جو نفاق کے مرض سے محفوظ ہو، جس کی زندگی اس کے اقوال زریں کے خلاف نہ ہو۔ جو مال و زر اور تعیشات دنیوی کے دام سے آزاد ہو۔ جو غیر خدا سے کسی نفع کی توقع اور ضرر کا اندیشہ نہ رکھتا ہو کہ یہی چیز تو کل کی روح اور توحید کی اساس ہے۔ 
علماء کی دنیا پرستی کا نتیجہ دجل و فساد کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایک عالم دوسرے عالم سے لڑ تا جھگڑتا ہے اور ایک دوسرے کو گمراہ و بے دین بتانے لگتا ہے تو اس طرح ملت متعدد متحارب فرقوں اور جماعتوں میں بٹ جاتی ہے اور ان فرقوں او رجماعتوں کے دنیا پرست قائدین ملت اختلاف و فرقہ کو اپنے دنیوی مفادات کے تحفظ کا بہترین ذریعہ سمجھ کر اس کو باقی رکھنے میں ہر ممکن کوشش کرتے ہیں او راسے مزید مستحکم بنانے کے لیے اپنی زبان و قلم کی ساری قوتیں صرف کرتے رہتے ہیں۔ 
بہرحال موضوع ہمارا تعلیم ہے اور تعلیم کا اصل مقصد نئی نسل کی ذہنی و فکری تربیت کرنا ہے۔ ماہرین تعلیم کا کہنا تو یہ ہے کہ ’’جس طرح کا معاشرہ بنانا مقصود ہو اسی کے حسب حال نظام تعلیم کو ڈھال دو۔ نئی نسل کا ذہنی و فکری رجحان خود بخود بدل جائے گا۔ یہاں تک کہ مذہب کے معاملے میں بھی نقطہ نظر بدل جائے گا اور یہ نئی نسل نئے اقدار و روایات کے ساتھ ابھرے گی۔ اور غالب تہذیب کے سانچوں میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرے گی اور جب اس طرح کی صورت حال کسی نسل کی بن جاتی ہے تو وہ اپنے ماضی سے کٹ جاتی ہے یا کاٹ دیا جائے تو وہ نسل یا قوم خود بخود ہی مرجاتی ہے۔‘‘ کسی شاعر نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ: 
پگھلنا علم کی خاطر مثال شمع زیبا ہے
بغیر اس کے نہیں پہچان سکتے ہم خدا کیا ہے
راقم نے اپنے اس طویل مضمون میں دینی جماعتوں اور مدرسوں کے ذمہ داروں پر جو تنقید کی ہے اس کی غرض و غایت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنی فکری اور عملی کوتاہیوں سے باخبر ہوکر جلد سے جلد اصلاحِ احوال کی طرف مائل ہوں کہ مہلت انتظار بہت کم ہے۔ راقم کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس مضمون کو پڑ ھ کر بہت سے دوست و احباب ناراض بھی ہوں گے جن کا تعلق ان اداروں اور جماعتوں سے ہے اور خود ان اداروں کے لوگ بالخصوص اہل علم صاحب مضمون کو تحقیر و تعریض کا نشانہ بھی بنائیں گے۔ لیکن حق اور سچ کی خاطر اس عذاب جاں سوز سے گزرنے کے لیے راقم تیار ہے۔ خیر خواہی اور دینی تقاضے سے مجبور ہوکر یہ ناخوش گوار فریضہ انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس مضمون میں کہیں کہیں انداز بیان میں شاید تھوڑی بہت شدت بھی آگئی ہے لیکن حاشا کلّا اس سے کسی شخص یا ادارے کی تحقیر و تخفیف مقصود نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جو ضعف و کمزوری پیدا ہوگئی ہے جس سے خستہ حالی اور پامالی جیسی صورت حال بنتی جارہی ہے اس سے اور اس طرح کے مسلسل واقعات کے مشاہدے نے راقم کو سراپا سوز بنادیا ہے۔ 
میری یہ تنقید اس سرجن کی طرح ہے جو کسی مہلک پھوڑے پر پوری بے دردی کے ساتھ نشتر چلا دیتا ہے اور اس بات کی مطلق پروا نہیں کرتا کہ مریض پر وقتی طو رسے کیا گزرے گی۔ اس کی زندگی کی حفاظت کے لیے یہ انتہائی قدم ناگزیر ہوتا ہے۔ اس میں نرمی یا توقف کا مطلب اس کو موت کے منہ میں ڈھکیلنا ہوگا۔ اس مضمون میں مختلف ادارو ں کا جو ناقدانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے اسے اسی زاویہ نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے ورنہ مضمون اور صاحب مضمون دونوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ 
یاد رکھیں! اس ملت میں نہ مال و زر کی کمی ہے اور نہ علم کی۔ اگر کسی چیز کی فی الواقع قلت ہے تو وہ ہے حسنِ کردار کی، اس جوہر گراں مایہ کی سب قوموں سے زیادہ کمی مسلمانوں میں ہے۔ مستقبل ایک صاحب کردار کا منتظر ہے۔ اگر ہمارے رہنما خواب گراں سے اب بھی نہ جاگے تو قرعۂ فال کسی اور قوم کے حق میں ہی نکلے گا اور اس وقت کف افسوس ملنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔ ہماری مسجدیں، ہمارے مدارس روشنیوں کے ٹاور ہیں، تو محلے محلے کے مکاتب قمقمے ہیں، جنہیں روشن رکھنے کے لیے اخلاص دل کی ضرورت ہے۔ ( باقی آئندہ) 

0 comments: