روبیضہ بولیں گے ....!
عمرفراہی
ہمارے دوست, اور سینیر قلم کار جو کئی اردو اخبارات اور رسائل کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں اب صحافت کی ان تمام الجھنوں سے آذاد ہو کر یا تو اپنے روایتی کالم نگاری تک محدود ہو چکے ہیں یا اپنے شاگردوں کی تحریروں پر ان کی نظر رہتی ہے- اکثر میل وغیرہ کے ذریعے وہ ہماری رہنمائی بھی کرتے رہتے ہیں -ابھی حال ہی میں انہوں نے ہمیں شام کے اندر سیدہ زینب کی مزار پر ہونے والے دھماکوں کی تصویر بھیجی ہے- ظاہر سی بات ہے یہ تخریبی کارروائی بشارالاسد کے مخالفین نے ہی انجام دی ہوگی - یہ تصویر ہمیں کیوں بھیجی گئی اور وہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پچھلے کچھ مضامین میں ہم مشرق وسطیٰ کے حالات پر اپنا تجزیہ اور تبصرہ پیش کرتے رہے ہیں اور یہ لکھنے کی جرات کی تھی کہ جزیرۃالعرب کی موجودہ صورتحال کا اصل ذمہ دار ایران ہے جس نے بشارالاسد کی مدد کرکے اس پورے خطے کو جہنم بنا ڈالا ہے- شاید ہمارے سینیر قلم کار ایران اور شام کی دہشت گردی کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں - مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ایران, شام اور عالمی طاقتیں نہتے مسلمانوں پر بم برسا رہی ہیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ نہیں ہے بلکہ ہولوکاسٹ ہے کیونکہ جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس ان عالمی طاقتوں کے مد مقابل جن کے اوپر بمباری کی جارہی ہے اگر وہ مزاحمت کر بھی رہے ہیں تو ان کے ہتھیار استعماری طاقتوں کے ہتھیاروں کے مقابلے میں دو فیصد کے برابر بھی نہیں ہیں - تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے باوجود شام کے عوام پچھلے پانچ سالوں سے تقریباً دس ملکوں کی باقاعدہ فوج اور فضائی حملوں کا مقابلہ کر رہے ہیں -اگر یہ معجزہ ہے تو پھر اس معجزے کا خالق اور رہبر کون ہے - ہم جیسے کم پڑھے لکھے لوگ بالآخر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ جنگ انسانوں اور انسانوں کے درمیان ہوتی تو اتنا طول نہیں پکڑ سکتی تھی - یہ جنگ حقیقی معنوں میں انسانیت کو رسوا کرنے والے بھیڑیوں اور انسانیت کے محافظ خالق حقیقی کے درمیان ہے - تاریخ گواہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا - ابراہیم کے پاس اگر کوئی سلطنت فوجی طاقت یا اسلحہ کا ذخیرہ ہوتا تو نمرود حضرت ابراہیم سے مقابلہ کرتا نہ کہ ابراہیم کے خدا سے جنگ کرنے کیلئے آسمان دنیا کا سفر کرنے کی احمقانہ جرات کرتا - آج کے نمرود بھی خدا سے جنگ کرنے نکلے ہیں اس کا انجام کیا ہوگا - اس کا انجام یقیناً وہی ہونا ہے جو فرعون و نمرود کا ہوا - یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ یہ جنگ ایک بار پھر اسی تاریخی سرزمین پر سمٹ کر آگئی ہے اور شام کا جو میدان کبھی یہود و نصاریٰ کیلئے مقدس ہوا کرتا تھا مسلمانوں کے دو دھڑوں کیلئے بھی مقدس جنگ کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور حالات اسی طرف بڑھ رہے ہیں جس کی پیشن گوئی پندرہ سو سال پہلے مسلمانوں کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی - یعنی مہدی کا ظہور, حضرت عیسیٰ کا نزول اور دجال کے خروج کا وقت قریب تر ہے - اس پیشن گوئی پر یقین کرنے والی قومیں اپنے اپنے مقامات مقدسہ کو لازم پکڑنا چاہتی ہیں - صورتحال یہ ہے کہ ہر فریق اپنے پروپگنڈے کے ذریعے دوسرے فریق کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے اور کوشس میں ہے کہ دوسرے پر اس کا نظریاتی غلبہ بھی برقرار رہے- اس کے لئے جدید میڈیا بھی کسی طاقتور ہتھیار سے کم نہیں ہے - بظاہر انسانوں پر طیاروں اور میزائلوں سے بم برسایا جانا اور اس کے ردعمل میں خودکش دھماکوں کے ذریعے انسانی جانوں کی تباہی اور تخریب میں کوئی واضح فرق تو دکھائی نہیں دیتا لیکن اس فرق کو بھی جدید میڈیا کے ذریعے Justify کرنے کی کوشس کی جارہی ہے- بدقسمتی سے یہ سماج کا وہ طبقہ ہے جس کے بارے میں ایک زمانے سے لوگوں کے ذہن میں پختہ یقین ہوتا تھا کہ یہ قوم جھوٹ نہیں بولتی - لیکن اب اس میں شامل صحافیوں دانشوروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے کچھ سوشل شخصیات بھی اپنے اپنے فریق کی نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں - ویسے فریق ہونا بھی کوئی بری بات نہیں ہے-اکثر ان میں بھی حق شناس لوگوں نے قومیت پر حق کو ترجیح دی ہے مگر اب جدید دور کا انسان فریق بھی نہیں رہاجبکہ ماضی میں اس فرق میں بھی انسانیت زندہ تھی-آج کا اصل فتنہ مادیت کا ہے - یعنی انسان ایک فرد ایک تحریک ایک قوم اور ملک کی حیثیت سے زیادہ سے زیادہ وسائل پر قبضہ کرکے طاقتور ہو جانا چاہتا ہے تاکہ اس کا دشمن یا مخالف اسے زیر نہ کرسکے- اب اکیسویں صدی میں یہ سوچ نہ صرف ملکوں کا آئین اور دستور بن چکی ہے اور دنیا کا ہر ملک اپنی محنت اور وسائل کا تیس فیصد حصہ اپنے دفاع پر خرچ کر رہا ہے - ایسے میں اگر دنیا کی کوئی آزاد اور صالح تنظیم یا تحریک بھی اپنے عقیدے اور مذہب کے دفاع کیلئے آمادہ خروج ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے - ایران خود بھی اسرائیل کی طرح مشرق وسطیٰ میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے ایک زمانے سے سرگرم ہے- حالانکہ وہ مغرب کی طرح اس کا اہل تو نہیں ہے لیکن ماضی کے عظیم فارس ,کسریٰ اور کسرویت کے جنون میں اس کے حکمراں تاریخ کو دہرانہ چاہتے ہیں اور بشارالاسد کے ساتھ مل کر اس کی فوجیں جو قتل عام کر رہی ہیں اس کی اس حرکت نے انسانیت کو بھی شرمسار کر دیا ہے- ہمیں نہ حیرت ہے اور نہ تعجب کہ ایران نواز صحافی اور ان کے زرخرید ایجنٹ اکثر ایران اور شام کا سفر کیوں کرتے ہیں- اتوار 12؍ جون کو اردو روزنامہ ممبئی اردو نیوز میں فرحان حنیف نے فیروز میٹھی بور والا کا ایک انٹرویو شائع کیا ہے جس میں میٹھی بور والا نے یک طرفہ طور پر ایران اور شام کی حمایت میں میٹھی میٹھی باتیں کی ہیں - سب کو اپنی بات رکھنے کا حق ہے لیکن اکثر عام قاری جھوٹوں اور جھوٹوں کے پروپیگنڈے کا بھی شکار ہو جاتا ہے - میٹھی بور والا جو پانچ بار شام کا دورہ کرچکے ہیں اس وجہ سے لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی پیدا کرنے کی کوشس کرتے ہیں کہ شام کے بارے میں انہیں زیادہ معلومات ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ یہ صاحب بھی صرف یک طرفہ محبت کے شکار ہیں اور ان کا ہر دورہ شامی حکومت یا حکومت کے نمائندوں کی ملاقات تک ہی محدود ہے اور یہ اسی حکومت کے ترجمان کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر بشارالاسد کے خلاف عوامی تحریک کے نمائندوں تک نہ ان کی رسائی ہے اور نہ ہی یہ اس مرتبے کے اہل ہیں- ہو سکتا ہے یہ صاحب اپنی تحریک میں مخلص بھی ہوں اور بغیر معاوضے کے قوم و ملت پر احسان کر رہے ہوں لیکن ایک شخص کے خلوص پر یقین کرنے کیلئے اس کے دین اور عقیدے کا منکشف ہونا بھی لازمی ہے - ان کی اپنی قومیت, اپنا دین اور عقیدہ کیا ہے ہمیں تو نہیں معلوم لیکن ہماری معلومات کے مطابق اسلام اور اسلامی شعار سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے - جہاں تک شام اور فلسطین کا مسئلہ ہے یہ خالص اسلام اور اسلامی تاریخ سے مربوط ہے اور یہ مسئلہ صرف اور صرف علماء اسلام اور تحریکات اسلامی کی توجہ کا محتاج ہے -ویسے مسلمان اسلام اسلامی ریاست اور مسلمانوں کے تعلق سے کسی بھی معلومات کیلئے بہت محتاط ہے-
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آخری دور میں روبیضہ بولیں گے حدیث کی تشریح کی گئی ہے کہ لوگوں کے قائد رہنما یا آج کے دور میں لوگوں تک خبروں کی ترسیل کرنے والے جھوٹے اور مکار ہونگے- اوریا مقبول جان نے موجودہ حالات کے تناظر میں اپنے کسی مضمون میں اس حدیث کا حوالہ دیا تو ہمیں حیرت نہیں ہوئی کیونکہ اب پنچانوے فیصد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی باگ ڈور باطل ابلیسی اور دجالی طاقتوں کے ہی ہاتھ میں ہے لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ہمارے علما اور کچھ مسلم دانشور بھی ان اخبارات کی خبروں پر بغیر کسی تحقیق اور تبصرے کے یقین کرتے ہوئے حق اور ناحق کی تصدیق کر دیتے ہیں - جبکہ قرآن نے بھی ہمیں آگاہ کیا ہے کہ فاسق کی خبروں کی تحقیق کر لی جائے -
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آخری دور میں روبیضہ بولیں گے حدیث کی تشریح کی گئی ہے کہ لوگوں کے قائد رہنما یا آج کے دور میں لوگوں تک خبروں کی ترسیل کرنے والے جھوٹے اور مکار ہونگے- اوریا مقبول جان نے موجودہ حالات کے تناظر میں اپنے کسی مضمون میں اس حدیث کا حوالہ دیا تو ہمیں حیرت نہیں ہوئی کیونکہ اب پنچانوے فیصد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی باگ ڈور باطل ابلیسی اور دجالی طاقتوں کے ہی ہاتھ میں ہے لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ہمارے علما اور کچھ مسلم دانشور بھی ان اخبارات کی خبروں پر بغیر کسی تحقیق اور تبصرے کے یقین کرتے ہوئے حق اور ناحق کی تصدیق کر دیتے ہیں - جبکہ قرآن نے بھی ہمیں آگاہ کیا ہے کہ فاسق کی خبروں کی تحقیق کر لی جائے -
0 comments: