تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۷)

3:20 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

(گزشتہ سے پیوستہ)
پچھلی باتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قوموں کی ترقی کا راز نظام تعلیم میں پنہاں ہے اور تعلیم دراصل شعور و آگہی کا نام ہے جو قومو ں کی ترقی میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ آج تقریباً ستّر سال گزرنے کے بعد بھی ہم نظام تعلیم کی تجربہ گاہ میں زیر عتاب ہیں۔ ہمارے مدارس جو کبھی زمانے میں معیار کی ضمانت سمجھے جاتے تھے آج آکسیجن ٹینٹوں میں یا جھگی جھونپڑیوں میں آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کی بھرمار سے تعلیم ایک منافع بخش کاروبار بن گئی ہے ۔ اس طرح اسلامی تعلیمی نظام کی روح مسخ ہوتی جارہی ہے۔ خصوصاً وہ مدارس جو مسلمانوں کے محلوں میں پائے جاتے ہیں جہاں چند مقامی اور چند غیر مقامی تعلیم کی غرض سے جمع ہوتے ہیں اور ان مدارس کے نام جامعات ہیں وہاں عموماً تعلیم سے کہیں زیادہ چندہ وصولی کا کام ہوتا ہے۔ بچوں کا ذہن تعلیم سے کہیں زیادہ چندے کے پھندے میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور وہ پھر اپنا مستقبل اسی راہ میں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ دہلی کے جمناپار میں مسلمانوں کی ایک بیلٹ ترلوک پوری سے کلیان پوری، ونود نگر، جوشی کالونی، منڈاولی فضل پور، غازی پور، کھچڑی پور، شکرپور، لکشمی نگر، خریجی، آزاد نگر، کانتی نگر اور سیلم پور تک پھیلی ہوئی ہے۔ اتنی بڑی آبادی میں کوئی بھی مسلمانوں کا مرکزی تعلیمی ادارہ نہیں ہے جبکہ یہاں اشد ضرورت ہے عام مسلمانوں میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت کو عام کرنے کی۔ اگر چند لوگ یا پھر ملی جماعتیں جو کبھی کبھار تعلیمی کارواں نکال کر یہ فریضہ انجام دیتی رہتی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنا حقیقی رول ادا کریں۔ ایسے کئی علاقوں میں راقم نے گھوم پھر کر دیکھا ہے جہاں مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہیں جس کے نتیجے میں کاروباری لوگ ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ 
ہماری ملی جماعتیں اور ان کے ذمہ داران اگر اپنے گھروندوں سے باہر نکل کر مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کی زحمت گوارہ کریں تو انہیں ایسی صورتِ حال کا بھی سامنا ہوگا جہاں تعلیم سے کہیں زیادہ گداگری سکھائی جاتی ہے اور اس کا روبار میں وہ لوگ شا مل ملیں گے جو اپنے ملک و سماج میں بوجوہ نہ صرف یہ کہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں بلکہ جنہوں نے کئی عنوان سے اُمت یتیمؐ کی دست گیری کا ٹھیکہ بھی سنبھال رکھا ہے۔ یہ بات ذرا تلخ ہے اور بہت سے لوگوں کو ناگوار بھی گزرے گی لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ لوگ جو ایسے مدرسوں کے نام پر جن کا کوئی وجود ہی نہیں، مسجدوں کے نام پر اور مختلف دیگر ایسے ناموں پر ملت سے رقوم حاصل کر رہے ہیں اور من مانی خرچ کر رہے ہیں۔ آج سے تیس چالیس سال قبل تک تو مدارس کے ذمہ داران ایک ایک پیسہ کا حساب گوشوارہ آمد و خرچ کے ذریعہ پیش کرتے تھے لیکن یہ سلسلہ یکایک علی الحساب ہوگیا اور اب یہ لوگ کسی بھی حساب و کتاب سے آزاد ہیں۔ 
کاش کہ یہ لوگ یہ محسوس کرتے کہ مسلمانوں کے گھر گھر سے حاصل کی ہوئی رقوم سے اپنی پرشکوہ عمارات اور آرام دہ سواریوں سے سفر کرنے اور اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے قیمتی سامان اکٹھا کرنے سے کہیں زیادہ بہتر بات یہ ہوسکتی تھی کہ وہ صدق دل سے اپنی محنت اور لوگوں کی مدد سے دین و ملت کی خدمت اور دینی علوم کی ترو یج و اشاعت کا کام کرتے اور ان بوریا نشینوں کی سنت پر عمل کرتے جو ہمیشہ ہی اس ملت کا سب سے گراں قدر اثاثہ رہے ہیں اور جن کی فہم و فراست، جن کے ایثار، جن کی حکمت و خوش تدبیری اور جن کی بے پناہ قرانیوں کے نتیجے میں ہی ملک کی ملت اسلامیہ کسی حد تک سربلند او رایک ممتاز مقام کی حامل ہے۔ 
گزشتہ دنوں ایک نوجوان چندہ لینے کے لیے میرے پاس پہنچا، میں نے پوچھا کہ کس ا سکول کے لیے چندہ کر رہے ہو؟ لڑکے نے کہا جامعہ اسلامیہ کے لیے۔ حیرت سے میں نے کہا، کیا کہا جامعہ ملیہ اوکھلا سے؟ کہا نہیں، یہ جامعہ یہیں ہے۔ میں نے اسے چندہ دینے سے انکار کردیا تو وہ جانے لگا اور پھر مجھے مڑ کر دیکھا، اس کے چہرے پر مایوسی دیکھ کر مجھے رحم آگیا، بلایا اور اسے کچھ روپے دے دیے۔ اس دوران اس سے سوال کیا کہ جامعہ کے معنی جانتے ہو؟ لڑکے نے کہا یہی ہمارا مدرسہ! ایک روز اسی مدرسہ میں راقم بھی پہنچ گیا۔ وہاں کا منظر دیکھ کر تعجب ہوا کہ بچوں کے لیے تو ٹین شیڈ پڑا ہوا ہے اور مہتمم صاحب کے لیے لینٹر کی چھت اور ضروری سامانِ تعیش! راقم نے بچوں کی حالت اور ٹین شیڈ کے بارے میں جب کسی سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اس صورت حال سے متاثر ہوکر ہی تو اہل خیر حضرات بلڈنگ کی تعمیر میں حصہ لیں گے اور ضروری تعاون بھی دیں گے اور جب بلڈنگ کی تعمیر ہوجائے گی تو کسی اور جگہ دوسرا مدرسہ کھول کر اس سلسلے کو آگے بڑھادیا جائے گا۔ غور کیجیے، ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ 
سورہ توبہ 24کا حوالہ ہم پہلے بھی دے چکے ہیں کہ ’’اے ایمان والو! اکثر احبار (علماء) اور رہبان (درویش) لوگوں کا مال غلط طریقے سے کھاتے ہیں او ران کواللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔‘‘ 
کاش کہ ہمارے علماء اور نام نہاد قائدین مذکورہ بالا آیت کو پیش نظر رکھتے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ سارے علماء اور درویش یکساں نہیں ہوتے۔ بہت سے علماء اور درویش نہ صرف عام لوگوں کا مال غلط طریقوں سے کھاتے ہیں بلکہ انہیں گمراہ بھی کرتے ہیں جیسے کہ آج دیکھے اور پائے جاتے ہیں او رایسے لوگوں سے تو پوری تاریخ بھری پڑی ہے جن کے کالے کرتوتوں اور کارناموں سے دین و ملت کا شدید نقصان ہوتا رہا ہے۔ 
یہ بات بھی عام طور سے سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کے دینی اداروں اور جماعتوں میں شخصیت پرستی کی بیماری عام ہوتی جارہی ہے۔ حاشیہ برداری، خوشامد پسندی کو مستقل ایک مقام حاصل ہے۔ یہ صحیح ہے کہ علماء و امراء کی اطاعت ضروری ہے لیکن معروف یعنی اچھے کاموں میں۔ منکرات یعنی خلاف شرع کاموں میں کسی بھی مسلمان کی اطاعت جائز نہیں۔ ایسے میں یہ بتایا بھی جائے کہ مسلمانوں کے درمیان جو باہمی رشتہ ہے وہ اخوت دینی کا ہے۔ اسلام میں کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہے اس کی نظر میں سب مسلمان برابر ہیں۔ عالم اور غیر عالم عزت و حقوق میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ فرائض کے اعتبار سے فرق ہے۔ عالم کا کام عام لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانا ہے جب تک وہ نیکی و خیر کا حکم دے عام مسلمانوں پر اس کی پیروی واجب ہے، لیکن تعظیم اور محبت کے اصل مستحق صرف اللہ اور اس کے رسول ہیں۔ 
ایک بات یہ بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ مسلم علماء میں بھی پاپائیت جیسی بیماری پیدا ہوچلی ہے، وہ جن باتوں پر عمل کرنے کا مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں وہ خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ جبکہ ان کی زندگیاں آئیڈیل ہونی چا ہیے تھیں۔ اس کے باوجود وہ مسلمانوں کی عقیدت و محبت کا مرجع بن جاتے ہیں یا بننے کی کوشش کرتے ہیں جو سراسر غیر اسلامی طریقہ ہے۔ یہ برہمنیت اور پاپائیت نہیں تو اور کیا ہے؟ 
معاف کیجیے، آج سردار الانبیاءؐ کے علمی وارثین علماء کرام کا طرز زندگی اس کے بالکل خلاف ہے۔ وہ خادم کے بجائے مخدوم بنے ہوئے ہیں، اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کے بجائے دوسروں سے کراتے ہیں، خواہ وہ غیر معذور ہوں۔ ہمارے اساتذہ، علماء و قائدین ملت کو اس خلاف سنت عمل کو اب چھوڑ دینا چاہیے۔ ا للہ ہم سب کو ہدایت دے اور نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری مسجدیں اور ہمارے مدرسے دین کے قلعے ہیں، اے اللہ ان کی حفاظت فرما اور دین و ملت کے نام پر جو لوگ تجارت کرتے ہیں انہیں اپنے حقیقی فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین! (مضمون کا آخری حصہ بعنوان ’اسلام کا نظریۂ تعلیم‘ اگلے ہفتے ملاحظہ فرمائیں) 

0 comments: