ہیں کواکب کچھ۔
ممتاز میر ۔ برہانپور
با خبر حضرات یہ بات جانتے ہونگے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ ان کی خفیہ دستاویزات وقتاً فوقتاً عوام الناس کے علم کے لئے عام کی جاتی ہیں جسے وہ Declassify کرنا کہتے ہیں ۔روزنامہ امت کراچی کی ۵ جون کی ایک خبر کے مطابق منظر عام پر آنے والی نئی امریکی خفیہ دستاویزات نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اسلامی انقلاب کے نام پر ایران پر روح اللہ خمینی اور ان کے ساتھیوں کا قبضہ امریکی مدد سے ہوا تھا۔امریکہ کو شیطان بزرگ قرار دینے والے ایرانی رہنما امریکی مدد سے جلا وطنی ختم کرکے وطن پہونچے تھے۔اسرائیل سمیت ہر اس ملک کو تیل کی فراہمی کا عندیہ دیا گیا جواچھی قیمت ادا کریگا۔ہمیں یہاں ایران عراق جنگ کے دوران ایران کو اسرئیلی اسلحے کی فراہمی بھی یاد آتی ہے موجودہ رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے بی بی سی کے اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا ہمارے ساتھ رویہ ہمیشہ معاندانہ رہا ہے اور امریکہ نے دستاویز میں تبدیلی کی ہے۔خطے میں امریکہ اور ایران کے عزائم بالکل مختلف ہیں(یہاں وہ تقیہ کر رہے ہیں۔م م)
منظر عام پر آنے والی دستاویزات ،سفارتی پیغامات ،پالیسی میموز و میٹنگ ریکارڈس پر مشتمل ہے جن سے امریکہ کے خمینی سے خفیہ رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکہ کو شیطان بزرگ کہنے والوں نے امریکی صدر کارٹر سے اپیل کی تھی کہ اگر کارٹر افواج ایران پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اقتدار پران کے قبضے کی راہ ہموار کردیں تو وہ امریکی مفادات کا خیال رکھیں گے۔ان دستاویزات کے مطابق یہ امریکی صدر کارٹر ہی تھے جنھوں نے ایرانی بادشاہ کو چھٹیاں منانے کے نام پر ملک سے فرار کروایا۔مفرور بادشاہ اپنے پیچھے ملک میں غیر مقبول وزیر اعظم اور ۴لاکھ بکھری ہوئی فوج چھوڑ گیا تھا ۔جس کا تمام تر انحصار امریکی اسلحہ و مشاورت پر تھا۔ ہڑتالوں اور عوامی بے چینی کی وجہ سے مغرب کو تیل کی ترسیل بند تھی جس سے مغرب کا مفاد جڑا ہوا تھا ۔ان حالات میں خمینی نے امریکہ کو آفر دی کہ ہم بھی آپ کے دوست رہیں گے۔امریکی مفادات اور شہریوں کو تحفظ ملے گا۔اسلامی جمہوریہ امریکہ کے خلاف کوئی خاص عناد نہیں رکھے گی۔ایران کی فوجی جنتا تو تمھاری بات سنے گی لیکن ایرانی عوام صرف میرا حکم مانیں گے۔
اتنا سب پڑھ کر ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کے ذہنوں میں ایران میں ان دنوں ہونے والے بم دھماکوں اور دہشت گردانہ واقعات تازہ ہوجائیں۔تو صاحب اس کے لئے امریکہ کی مشہور سابق وزیر خارجہ میڈیلین البرائیٹ سے استفادہ کرنا چاہئے ۔انھوں نے اس طرح کے نقصانات کے لئے ایک اصطلاح گڑھی تھی Collateral Damage عراق میں مرنے والے بچے اگر صدام سے چھٹکارہ پانے کے لئے collateral damageتھے تو ظاہر ہے یہ بھی وہی سب کچھ تھا۔اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔ دشمن پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے ۔دشمن کا تو کام ہی دوستوں کو آپسمیں لڑانا ہوتا ہے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایران اور اس کے اسلامی انقلاب کے تعلق سے یہی کہا ہے اور بہت پہلے کہا ہے جو آج بی بی سی کی رپورٹ امریکہ کی خفیہ دستاویزکے تعلق سے کہہ رہی ہے۔بزرگ ایرانی اخوانی قائد شیخ محمد احمدالراشدجنوری ۲۰۱۴ میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’آزادی سے فرار‘مصری فوجی انقلاب کے تعلق سے ایک باب قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں‘’’یہ ایران ہی ہے جس نے عرب کے تمام شیعوں کو مرسی کے خلاف متحد اور قتل غارت گری پر آمادہ کر لیا‘‘ اور یہ اس کے باوجود ہوا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار مرسی نے ایران کے بحری بیڑے کو نہر سوئز سے گزرنے کی اجازت دی تھی۔مزید ایک جگہ وہ ایران کے تعلق سے لکھتے ہیں’’انھوں نے حزب اللہ کو لبنان میں اگایا شام میں نصیریوں کی حکومت قائم کردی یمن میں رافضی انقلابات کو جنم دیا اور مصر پر قبضہ کرنے کے لئے اس کے قدم آپڑے۔اس کے علاوہ انھوں نے عراق کی شیعی جماعتوں کو ہر طرح کا تعاون دیا اور عراق میں شیعی حکومت قائم کردی‘‘۔پھر ایک جگہ لکھتے ہیں ۔’’مرسی نے کچھ مصری ہتھیار شامی مجاہدین کو دینے کی کوشش کی تو اس پر ایران بہت زیادہ بھڑک گیا ۔آخر میں شیخ ۳۵ سال پرانے امریکی ایرانی گٹھ جوڑ کے بارے میں لکھتے ہیں ’’امریکہ نے شاہ کو نصیحت کی جس نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ بادشاہوں کو بادشاہ سائرس ثانی ہے اور نئی کسرویت کو ابھارنے والا ہے ۔اس نے امریکی نصیحت کو ماننے سے انکار کر دیا اور خلیج پر (تیل کے لئے)قبضہ کرنے کا پختہ ارادہ ظاہر کیا توامریکہ نے فوراًشاہ کے مخالف خمینی کا کھڑا کر دیا ۔امریکہ نے خمینی کو مال رپورٹ اور میڈیائی سہارا فراہم کیا ۔امریکہ نے خمینی انقلاب کی منصوبہ بندی کی اور امریکہ نے جب فرانس کو اس کی مدد و معاونت سپرد کی تو انقلاب رو نما ہو گیا ۔اور جب شاہی فوج کی مشین گنیں خمینی کے حامی ہزاروں مظاہرین کو پھاڑنے لگیں تو اطلسی معاہدے کا قائد فوراً ایران پہونچ گیا اور شاہ کو قطعی طور پر قوت کے استعمال سے روک دیا ‘‘ شیخ نے اور بھی بہت کچھ لکھا ہے ہم بس اسی پر اکتفا کریں گے۔
آئیے کچھ حج کی ایرانی سیاست پر بھی روشنی ڈالیں۔سب سے پہلے ایران نے جولائی ۱۹۸۷ کے حج میں سیاست گھسیڑی تھی ۔اور غالباً حج کی جدید تاریخ میں اسی سال دوران حج خون خرابہ ہوا تھا ۔جبکہ تاریخ یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں بھی مشرکین ایام حج کا احترام کرتے تھے پچھلے سال بھی منیٰ میں جو حادثہ ہوا تھا اس کے تعلق سے بھی بہت سارے اخبارات اور خود عازمین حج کی رپورٹیں تھیں کہ یہ حادثہ ایرانی حجاج کے بے تکے احتجاج کی بدولت رونما ہوا تھا اور اس میں مرنے والے بھی زیادہ تر ایرانی حجاج ہی تھے۔اور اس بار بھی اب تک ایران و سعودی عرب میں اگر معاہدہ نہ ہوپایا ہے تو اس میں بھی ایران کی گندی سیاست ہی وجہ ہے ۔سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا ہے کہ ایران نے معمول سے ہٹ کر کچھ مظاہرہ کرنے اور کچھ ایسی مراعات کا مطالبہ کیا تھا جس سے حج کے دوران افرا تفری مچ سکتی ہے ۔ایران ایسی شرائط پر اصرار کر رہا ہے جو حج کے معروف مناسک کے ذیل میں نہیں آتی۔
ہم نے زندگی میں جب پہلی بار یہ پڑھا تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان کا تنازعہ پہلے حضورﷺ پھر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس گیا دونوں جگہ فیصلہ مسلمان کے خلاف آیاآخر میں مسلمان نے یہودی کو حضرت عمرؓ کے پاس لے گیاساری سرگذشت سننے کے بعد حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ کیا کہ گھر کے اندر سے تلوار لا کر مسلمان کا سر تن سے جدا کردیا ۔آج بھی ایسے ہی شدید فیصلوں کی ضرورت کل سے زیادہ ہے وہ لوگ جو دین کی مٹی پلید کر رہے ہوں،قوم میں انتشار پیدا کر رہے ہوں انھیں کافر نہ سہی منافق کا درجہ کب دیا جائے گا؟
07697376137
0 comments: