شام اور ایران کے بارے میں زمینی حقائق پر پردہ کیوں؟
ابو ارسلان
ممبئی
فیروز میٹھی بور والا ایک خود ساختہ تنظیم بھارت بچاؤ آندولن کے روح رواں ہیں ۔انہوں نے جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کے کاندھوں پر سوار ہو کر مسلم عوام میں مسیحا جیسی امیج بنانے کی کوشش کی ۔ٹھیک اسی طرح جس طرح اور دوسرے نام ہیں جو مسلمانوں کی لڑائی لڑنے کے نام پراپنی قوت بناتے ہیں اور پھر مسلمانوں کے ایمان پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔مسلم عوام میں گھس پیٹھ بنانے کے بعد انہوں نے اپنی اصلیت دکھانا شروع کی ۔حالانکہ بہت پہلے جب جماعت اسلامی مہاراشٹر سے ان کا میل جول چل ہی رہا اور فلسطین کے تعلق سے ایک پروگرام میں اسلم غازی کے بار بار اسلام کا نام لینے پر یہ صاحب چڑ گئے اور اپنی تقریر کی شروعات میں ہی انہوں نے صاف صاف اسلام کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔یہ بھی بتادیں کہ وشو ہندو پریشد اور سنگھ کو قرآن پر جس طرح کے اعتراضات ہیں اسی طرح انہیں بھی ہے۔ ان کی اصل شکل اس وقت سامنے آئی جب شام میں بشار الاسد کا چل چلاؤ تھا اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا تھا۔جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر غلیظ الزامات کے تحت بنگلہ دیش حکومت ایک فرضی جنگی جرائم ٹریبونل کے ذریعہ پھانسی کی سزا سنانے کا سلسلہ شروع کررہی تھی ۔اس پر ممبئی میں مسلم تنظیموں نے سخت اعتراض جتایا تھا اور ایک پریس کانفرنس میں اپنی بات رکھی تھی ۔اس کے دوسرے دن فیروز میٹھی بور والا ،گجراتی صحافی جتن دیسائی اور ایڈووکیٹ نیلوفربھاگوت نے ایک پریس کانفرنس میں مسلم دانشوروں کی اسلام پسندوں کی حمایت پر اپنے ناک بھوں چڑھائے ۔اسی پریس کانفرنس میں فیروز میٹھی بور والا نے قبولا تھا کہ بشارالاسد نے شامی عوام پر طاقت کا بیجااستعمال کیا ہے۔میرا پہلا مڈبھیڑ فیروز میٹھی بور والا سے وہیں ہوا ۔بنگلہ دیش کے تعلق سے جب میں نے کہا کہ یہ ایک فرضی ٹریبونل کی مدد سے فرضی الزامات لگائے جارہے ہیں اس کے ثبوت کے لئے میں نے کئی حقوق انسانی کی تنظیموں کا حوالہ دیا جنہوں نے بنگلہ دیش حکومت پر سخت تنقید کی تھی ۔لیکن فیروز میٹھی بور والا کے نزدیک یہ حقوق انسانی کی تنظیمیں نا قابل اعتماد تھیں جبکہ بنگلہ دیش حکومت کی ویب سائٹ پر دی گئی جانکاری ان کے نزدیک کارل مارکس کے قول کی طرح تھا۔یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب جماعت اسلامی مہاراشٹر کے اسلم غازی نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی ۔لیکن میرے خیال میں اب تک سانپ کو دودھ پلا کر مضبوط و توانا کیا جاچکا تھا۔ہمیں کسی کا ساتھ لینے یا کسی کے ساتھ آنے سے پہلے اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ اس کا منشا کیا ہے ۔ہم کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ کوئی ہماری سلامتی کی فکر مندی کا اظہار کرے اور بعد میں ہمارے دین و ایمان پر حملہ آور ہو۔ابھی حال ہی میں حاجی علی درگاہ کا معاملہ کافی میڈیا میں رہا اور اس میں بھی یہی صاحب شامل رہے ۔اس شخص کو مسلم عوام اور اسلامی قوانین میں اب خامیاب ہی خامیاں نظر آتی ہیں ۔اس کا اگلا نشانہ مساجد ہیں اس میں ان کے خیال کے مطابق مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی ساتھ ساتھ نماز پڑھنے اور امامت کی اجازت ہونی چاہئے ۔
اوپر یہ مختصر سا تعارف اس شخص کا ہونا ضروری تھا تاکہ مسلمان یہ جان لیں کہ جو ایران یا بشار کا حامی ہے اس کا کردار و عمل کیا ہے ۔بہر حال ان کے پورے انٹر ویو میں جو بات کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ اس کا سچ اور زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس جھوٹ بے جا طرف داری اور ایران و بشار کے ایجنٹ کی حیثیت سے ساری باتیں کہی گئی ہیں ۔ہم اس کے کچھ نکات پر آپکو توجہ دلاتے ہیں ۔انٹر ویو کے شروع میں انہوں نے کہا ہے کہ بھارت کے سیکولر اور مسلم انٹلیکچول کو آپس میں ملاکر تبادلہ خیال کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے ۔عرض ہے کہ یہ کام ہو رہا ہے لیکن اس میں کمی تھی تو صرف یہ کہ ایرانی اور شامی بشاری ایجنٹ کی سو وہ اس کی ضرورت پوری کردیں گے ۔آگے کہتے ہیں کہ شام مسلم ممالک کے لئے ایک سیکولر اور لبرل مثال بن چکا ہے ۔ہمارا کہنا ان سے یہ ہے کہ اسلام سے زیادہ روادار اور لبرل دنیا میں کوئی مذہب نہیں ہے اور مسلمانوں سے زیادہ روادار اور انصاف پسند بھی کوئی نہیں ہے ۔اس کی مثال اس سے لے لیجئے کہ مسلم دنیا میں مسلمان محفوظ ہو یا نہ ہو لیکن دوسری مذہبی اقلیتیں پوری طورح محفوظ ہیں۔اور اگر چار لاکھ سے زیادہ عوام کا قتل عام سیکولر لبرل ہونے کی واضح مثال ہے تو پھر ایسا لبرل نظام ایران شام اور فیروز میٹھی بور والا کو ہی مبارک ہو ۔ ایسا لبرل نظام جس میں چار لاکھ سے زائد انسانوں کو بارود کے ڈھیر کے نیچے دبا دیا جائے ۔ایسا لبرل نظام انسانوں کے کس کام کا ۔بشار الاسد کے باپ حافظ الاسد نے 1982 میں بغاوت کو فروع کرنے کے نام پر حماۃ شہر کو تباہ کردیا جس میں اسی ہزار سے زیادہ لوگ شہید کردئے گئے مساجد ڈھادی گئیں ۔شہر کھنڈر بنادئے گئے ۔اسی دور میں ایک خاتون یونیورسٹی طالبہ کو صرف پانچ منٹ کے لئے خفیہ محکمہ والے لے گئے تھے اور نو سال بعد وہ رہا ہوئیں ۔انہوں نے اس شہر کے کھنڈر بننے اور اپنی روداد قفس ’’صرف پانچ منٹ ‘‘کے نام سے لکھی ہے ۔
ایران حزب اللہ اور شام کو ہمیشہ اسرائیل مخالف اور فلسطینیوں کا حمایتی بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔لیکن یہ محض پروپگنڈہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔اسی ایران نے بشار الاسد کی تنقید کرنے پر فلسطینی امدادی رقم روک دی اور بشارالاسد نے فلسطینی دفتر بند کروادیا ۔یہ کیسی فلسطین نوازی ہے ۔کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ فلسطین نوازی محض مسلمانوں میں بھرم قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ۔اگر شام اور ایران فلسطین کے تعلق سے مخلص اور اسرائیل کے خلاف اتنے ہی سخت ہیں تو پھر آج تک اسرائیل سے ان کی جھڑپ کیوں نہیں ہوئی ۔بڑی جنگیں تو جانے دیجئے ۔اس کے برعکس اسرائیلی پارلیمنٹ میں ایک بحث زیر غور تھی کے بشار الاسد کو ان کے حمایتیوں اور خاندان والوں سمیت گولان کی پہاڑیوں پر بسا دیا جائے تاکہ بوقت ضرورت وہ اسرائیل کی بھرپور مدد کرسکے۔اسرائیل کا ظلم اور فلسطینیوں کی مظلومیت بعض مسلم ملکوں کے لئے بچاؤ اور پردہ داری کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔خواہ کچھ بھی کرو لیکن بس فلسطینیوں سے زبانی ہمدردی اور اسرائیل کی زبانی مذمت کردو سارے گناہ معاف ۔گویا اسرائیل اور فلسطین وطن عزیز کی گنگا ندی کے مماثل ہے کہ اس میں ڈبکی لگاتے ہی سارے پاپ دھل جاتے ہیں ۔چار سال میں شام میں ایران کی مدد سے بشارالاسد نے اتنے لوگوں کا خون بہایا ہے جس کے لئے اسرائیل بھی کبھی جرات نہیں کرسکتا ۔لیکن پھر بھی ہم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہم ایران اور بشار الاسد کی جانب سے آنکھیں بند کرلیں ۔کیونکہ اگر اتنے لوگوں کو نہیں مارا جاتا تو امریکی مداخلت کا راستہ صاف ہو جاتا ۔گویا امریکہ کو روکنے کے لئے انسانوں کا بے دریغ قتل جائز ہے ۔یہ تو وہی بات ہوئی نا جس طرح اسرائیلی لابی کے اشارے پر امریکہ دنیا میں جمہوریت نافذ کرنے نکلتا ہے اور لاکھوں افراد کو کیڑے مکوڑوں کی طرح ختم کردیتا ہے ۔پھر مجھے بتایا جائے کہ امریکہ پر تو لعنت کیا جائے اور ایران کے قصیدے گائے جائیں آخر کیوں ؟آخر کیوں نہیں ہم ایران پر شام کے چار لاکھ سے زائد افراد کے قتل کے لئے الزام دھریں؟
فیروز میٹھی بور والا کا جھوٹ اتنا زیادہ ہے کہ پورے مضمون کو پڑھ کر کئی جگہ بے ساختہ ہنسنے کو دل چاہا لیکن شام کے مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں نے ان ہنسی کو روکنے پر مجبور کیا۔وہ کہتے ہیں کہ 2014 کے الیکشن میں وہ وہاں تھے ستر سے اسی فیصد عوام بشارالاسد کے ساتھ تھے اور اب 2016 میں اسی سے نوے فیصد عوام بشارالاسد کے ساتھ ہیں ۔دنیا کا بڑے سے بڑا جھوٹا اور مکار شخص بھی اتنا بڑا جھوٹ نہیں بول سکتا ۔ہم سنگھ پریوار اسرائیل اور گوئبلز کے جھوٹ کی باتیں کرتے ہیں لیکن شاید اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹا شخص میٹھی بور والا کے علاوہ اور کون ہو گا؟پورے ملک کو جس حکومت کی فوجیوں نے کھنڈر بنادیا ہو ۔ چار لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک کئے جاچکے ہوں اور ایک کروڑ کے آس پاس افراد رفیوجی کیمپوں میں پڑے ہوں وہاں کے ظالم صدر کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسی سے نوے فیصد عوام اس کے حمایتی ہیں۔آخر یہ میٹھی بور والا کی کون سی ریاضی ہے جس کے تحت انہوں نے یہ ہندسے پیش کئے ہیں۔لکھنے اور کہنے کے لئے اس انٹرویو میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اگر سبھی باتوں کا جواب دیا جائے تو یہ سلسلہ کئی قسطوں میں جاکر ختم ہو گا ۔لیکن سعودی اور قطر جیسے ملکوں کے بارے میں اور ایران کی شمولیت کے بارے میں کچھ باتیں لکھ کر بات ختم کروں گا ۔کہا یہ جاتا ہے کہ شام میں سعودی اور قطر جیسے ممالک شامل ہیں ۔لیکن ان کی شمولیت کے کوئی ثبوت تو نہیں آئے البتہ ایران کی مداخلت کے شروع سے ہی ثبوت ملتے رہے ہیں ۔ایران کے کئی اعلیٰ فوجی کمانڈر ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ایسا سمجھ لیں کہ یہ جنگ جو شام میں بشار الاسد اور شامی عوام کے درمیان ہے وہ ایران کے وقار کی جنگ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔یہی سبب ہے کہ اس نے اپنے سارے اعلیٰ فوجی قیادت کو شام میں جھونک رکھا ہے ۔اس جنگ کا سلسلہ اگر مزید طویل ہو گیا تو ایران اپنے آزمودہ کار جنرلوں سے خالی ہو جائے گا جس کا خمیازہ اسے مستقبل میں بھگتنا پڑے گا۔شام کے محاذ سے آنے والی خبروں میں کوئی بھی ایسی خبر نہیں آئی کہ سعودی یا قطر کا کوئی معمولی فوجی بھی ہلاک ہواہو ۔سعودی یا قطر جیسے ملک نے اخلاق طور پر سپورٹ ضرور کیا ہے ۔لیکن خود کو اس جنگ کا حصہ نہیں بنایا ہے ۔دنیا کا ہر حریت پسند شام کے حریت پسندوں کی صرف حمایت ہی نہیں ان کی ہر طرح سے مدد کرنے میں کوئی آڑ محسوس نہیں کرے گا ۔آخر میں فیروز میٹھی بور والااور ان جیسے نام نہاد جمہوریت اور سیکولرزم کے مجاہد سے صرف ایک سوال ہے کہ داعش والے صرف چند سو مجرموں کو مار نے کے جرم میں جب دہشت گرد قرار دئے جاسکتے ہیں تو پھر بشارالاسد جیسے غنڈے چار لاکھ سے زیادہ قتل عام کے بعد بھی ایک مہذب اور عوام دوست حکمراں کیوں ؟
0 comments: