تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۵)

7:06 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

(گزشتہ سے پیوستہ)
تعلیم کی اہمیت اور اس کی افادیت پر پچھلے کالموں میں جہاں بہت ساری باتیں سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے وہیں ایسی باتیں بھی در آئی ہیں جو مدارس کے قیام اور عصری تعلیمی اداروں کی تشکیل میں رکاوٹ کا بڑا سبب لوگوں کے نجی مفادات اور خود غرضی رہی ہے جس کی وجہ سے مسلم علاقوں میں بچے دینی و عصری تعلیمات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ 
دہلی جو نہ صرف ملک کی راجدھانی ہی ہے بلکہ ملک کی تمام سیاسی، سماجی اور دینی جماعتوں کے مراکز بھی ہیں، یہاں کا ایک معروف علاقہ ہے اوکھلا، جہاں مسلمانوں کی دینی سماجی و سیاسی جماعتوں کے علاوہ تعلیمی مراکز بھی ہیں۔ مسلمانو ں کا یہ علاقہ بھی آبادی کے لحاظ سے بڑا علاقہ ہے جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے بھی خاصے ادارے قائم ہیں، لیکن افسوس کہ ان اداروں کی انتظامیہ کی بھی وہی کاروباری سوچ کام کر رہی ہے جس کا مقصد محض پیسہ حاصل کرنا ہے۔ وہاں کا غریب طبقہ اس عظیم نعمت سے محروم رہ جاتا ہے جسے اللہ نے بلا امتیاز سبھی کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ ان تعلیمی اداروں میں غریب بچوں کے لیے خصوصی رعایت کے ساتھ توجہ دی جاتی۔ 
اسی طرح مسلمانوں کی دوسری بڑی آبادی جمناپار کی ہے جو جمنا کے کنارے سے غازی آباد تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کے چند علاقوں میں تو تعلیم کی طرف توجہ ہے جہاں دینی و عصری تعلیم کا اہتمام و انتظام ہے جیسے کہ نیوجعفرآباد، موج پور اور گھونڈہ وغیرہ۔ لیکن ان علاقوں کے عصری اداروں میں بھی تجارتی سوچ پائی جارہی ہے جس کی وجہ سے غریب مسلمانوں کے بچے اچھی تعلیم و تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ میرے ایک ساتھی نے ایک انگلش میڈیم اسکول کی بھاری فیس اور عدم سہولتوں کی شکایت کی اور کہا کہ متوسط طبقے کے بچے بھی اس اسکول میں بہتر تعلیم سے محروم ہیں تو نچلے طبقے کے بچے بھلا کیسے اچھی تعلیم سے فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ جبکہ اس وقت غریب بچوں کی طرف ہی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور اس کے لیے علاقہ کے ہمدرد اور ملی و دینی اور اجتماعی مفاد کا جذبہ رکھنے والے لوگ گھر گھر بیداری کی مہم اگر چلاتے ہیں تو ایک بڑا کام ہوگا۔ 
ہاں بعض علاقوں میں اپنوں میں ہی کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ذات سے آگے کی سوچ ہی نہیں رکھتے۔ جن کی وجہ سے ملت کا اجتماعی نقصان ہوتا رہا ہے یہ لوگ کسی بھی اجتماعی ملی کام میں نہ صرف رخنہ ہی بنتے رہے ہیں بلکہ ملت کو شدید حالات سے دوچار بھی کرتے رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ راقم سطور کے ساتھ بھی ہوا ہے، جب راقم 1982 میں کلیان و اس سے جوشی محلہ منڈاولی، فضل پور بغرض رہائش منتقل ہوا تویہاں محدود تعداد میں ہمارے ہم وطنوں کے گھر موجود تھے۔ میرے ساتھ میرے دو ساتھی بھی تھے جو اپنی ذات اور ضرورتوں سے آگے کی سوچ ہی نہیں رکھتے تھے۔ اسی دوران مسلمانوں کے چند گھر اور بھی آباد ہوگئے جو دینی اور معاشرتی طور سے بہت پچھڑے لوگ تھے۔ یہاں تک کہ ان کے نام بھی دو دو تھے جو حسب حال یعنی مسلمانوں میں مسلم نام اور غیر مسلموں میں غیر مسلم نام استعمال کرتے تھے۔ ایسے حالات میں ہم جیسوں کے لیے کسی ملی یا اجتماعی کام کی انجام دہی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور تھی۔ اس بے آب و گیاہ بستی میں جہاں پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں تھا وہاں کسی فلاحی یا تعلیمی ادارے کا تصور کسی دیوانے کے خواب سے کم نہ تھا۔ لیکن اس بنجر اور اوبڑ کھابڑ سوکھی زمین کو اپنے خونِ جگر سے سیراب کرنے کی کوششیں جاری رہیں، لوگوں کو پینے کا پانی بھی ملا اور زندگی کی ضروری سہولتیں بھی ملیں لیکن علم و ہنر کے لیے یہ سرزمین سوکھی کی سوکھی ہی رہی۔ 
ایک روز جب میں اپنے چھوٹے بیٹے ذیشان احمد کے داخلے کے لیے نرسری اسکول کی تلاش میں منڈاولی گاؤں کی طرف جارہا تھا کہ نالندہ پبلک اسکول جو اپنی بستی سے تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا نظر آیا۔ وہاں پہنچ کر اسکول کی ایک ٹیچر سے معلوم کیا کہ اسکول کے مالک یا پرنسپل کون ہیں۔ اس نے کہا کہ وہ اندر کلاس روم میں بچوں کو پڑھا رہے ہیں، آپ اندر جاکر مل لیں۔ اتنے میں پرنسپل صاحب تشریف لائے اور گویا ہوئے کہ کیا کام ہے؟ راقم نے عرض کی کہ کیا آپ کے اسکول میں اردو پڑھانے کا انتظام ہے؟ پرنسپل صاحب نے کہا نہیں، فی الحال نہیں ہے۔ اور میں خاموش ہوگیا۔ اتنے میں دیکھا کہ پرنسپل کا چہرہ آنسوؤں سے بھرا پڑا ہے۔ راقم کو بڑی حیرت ہوئی، وجہ دریافت کی تو حکم ہوا کہ تم بولتے رہو۔ یہ زبان جو تم بول رہے ہو ملک کے بٹوارے کے بعد جب سے میں پاکستان سے ہندوستان آیا ہوں پہلی بار سن رہا ہوں او ریہ زبان سن کر میں اپنے ماضی میں کھو گیا تھا اور اپنی اور اپنے آبا و اجداد کی زبان سن کر میرا دل روپڑا تھا۔ تو ہاں، ابھی تک تو اردو کا یہاں کوئی نظم نہیں تھا لیکن اگر تم 10 بچے لادو تو میں ایک اردو ٹیچر رکھ لوں گا اور اگر کوئی ٹیچر نہیں ملا تو میں خود پڑھاؤں گا۔ راقم اس وعدے کے ساتھ کہ ایک ہفتے کے اندر اندر 10 بچوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا، وہاں سے گھر لوٹ آیا۔ 
یہاں یعنی بستی میں جتنے مسلم گھر تھے ہر ایک کے یہاں دستک دی اور بچوں کو اردو تعلیم دلانے اور اس کی اہمیت و ضرورت بتانے کی کوشش کی۔ لوگوں نے اپنے بچوں کواردو پڑھانے کے لیے داخلے کے زبانی وعدے بھی کیے مگر عملاً مایوسیوں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ اور جب میں پندرہ بیس روز گزر گئے تو ایک روز اُسی راستے سے منہ چھپائے اپنے دفتر جارہا تھا کہ نالندہ اسکول کے پرنسپل صاحب کی عبقری نگاہیں مجھ پر پڑگئیں اور چپراسی کو بھیج کر اپنی عدالت میں مجھے طلب کرلیا۔ اور پوچھا کہ کیا ہوا تم تو ایک ہفتے میں 10 بچے لا رہے تھے؟ میں نے کہا کہ حضرت میں شرمندہ ہوں، میرے بچے کے علاوہ اور کوئی بچہ نہیں جو اردو پڑھنے کے لیے تیار ہو۔ ان کے والدین خود اس نعمت سے محروم ہیں تو وہ اپنے بچوں کو کیسے اردو کی تعلیم دلائیں گے! 
تو اب سنیے، پرنسپل صاحب فرماتے ہیں کہ کیا تم نے خوریجی کی جو نئی نئی مسجد تعمیر ہوئی ہے، دیکھی ہے؟ (یہ 1982 کی بات ہے) میں نے عرض کیا جی ہاں۔ وہاں کیا کیا دیکھا؟ وہاں مسجد کے علاوہ اور کیا ہے! شرماجی نے کہا۔ کیا تم نے اس کا فلک بوس مینارہ بھی دیکھا؟ میں نے کہا جی ہاں! شرماجی نے پھر فرمایا کہ مسجد میں تم نے اور کچھ بھی دیکھا؟ میں نے عرض کیا وہاں مسجد کے علاوہ اور کچھ تو نظر نہیں آیا۔ شرماجی نے مسکراتے ہوئے کہا تم ابھی کچے صحافی ہو۔ کیا تمہیں وہاں ایک چھپر نظر نہیں آئی؟ جس میں ایک مولانا صاحب چند بچوں کو قاعدہ، سیپارہ پڑھا رہے ہیں، اور وہ چھپر ایسی ہے کہ جس پر اوپر سے دس بوندیں پڑیں تو نو نیچے آجائیں اور ایک اوپر ٹکی رہ جائے۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شرماجی نے کہا۔ ’’میاں، تمہاری یہ قوم زوال پذیر قوم ہے۔ اسی طرح جس طرح پہاڑ سے پانی گرتا ہے جسے آبشار کہتے ہیں۔ تم اگر اس کے نیچے آگئے تو بہہ جاؤگے۔ تم سوچو ذرا، جہاں سے دنیا و آخرت کے لیے علم و آگہی حاصل ہوتی ہے وہاں تو ایک سڑی چھپر ہے اور جہاں صرف نماز کے لیے ایک پرسکون جگہ چاہیے وہاں لاکھوں روپے صرف کیے گئے ہیں، یہ زوال پذیری کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟ تم ملت کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے سوچو، اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔‘‘ 
میں شرما جی کی باتیں سن کر حیرت میں پڑگیا اور سوچنے لگا کہ دوسرے ہمارے بارے میں کتنی گہری نظر رکھتے ہیں اور ہم ہیں کہ ہمیں اپنی ہی خبر نہیں۔ ہم کہاں جا پڑے ہیں۔ اس واقعے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ راقم نے جوشی کالونی میں آنے کے دو برس بعد ہی یہ سوچ کر کہ آج ہم چند گھر ہیں، کل سینکڑوں میں ہوں گے تو لوگوں کو دینی و معاشرتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مسجد، مدرسہ اور اسکول کے علاوہ قبرستان کی بھی ضرورت لازمی ہوگی، اپنے ہم وطنوں کے تعاون سے یہ تمام چیزیں حاصل کیں اور اپنے لوگوں کے حوالے کردیں۔ جس کے نتیجے میں مسجد تو اللہ کے فضل سے اب تک قائم ہے مگر مدرسہ اسکول اور قبرستان کی زمینیں ملت کے بدخواہوں کی نذر ہوگئیں۔ 
جوشی کالونی کی کہانی ایک طویل کہانی ہے جسے اخبار کے کالموں میں اس وقت سمیٹنا مشکل ہے۔ البتہ ایک واقعہ کا ذکر جو مدرسہ سے تعلق رکھتا ہے، کرنا ضروری ہے۔ دو مولوی جس میں ایک سیاسی مولوی تھا، مدرسہ کی زمین کے لیے اس علاقہ میں سرگرداں تھے۔ کالونی کے کسی شخص نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ خاکسار راقم سے مل کر مدرسہ کی زمین جو ابھی تک خالی پڑی ہے دے دیں، ہم مدرسہ کی زمین کے لیے ہی ادھر ادھر پھر رہے ہیں۔ میں نے سیاسی مولوی کے نام پر جب منع کردیا تو پھر خالص مولوی کو میرے پاس بھیجا گیا جو یقیناًدین دار تھے، ان کی ذات سے متاثر ہوکر میں نے رضامندی ظاہر کردی اور پھر ان لوگوں نے اس زمین کو مدرسہ کے نام سے پاور آف اٹارنی بنوائی اور تقریباً دو برس تک مدرسہ میں تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا او رپھر نہ معلوم کب مدرسہ کی زمین اپنے نام منتقل کرلی۔ اس طرح ڈیڑھ ہزار گز زمین مین روڈ کی دنیا پرست مولویوں کے شکم سیری اور عیش پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی اور اب نہ کوئی زمین ہے نہ مدرسہ اسکول۔ مسلمانوں کے بچے ایک ایسے اسکول میں تعلیم پا رہے ہیں جہاں استاد کے پاؤں چھونے، بندے ماترم پڑھنے پر مجبور ہیں۔ شرمناک بات تو یہ ہے کہ یہاں کے ’رئیس زادوں‘ کو ذرا بھی اس کی پروا نہیں، یہاں ایسے بہت سے دولت مند ہیں جو مال و دولت اور زمین و جائداد کے مالک بنے بیٹھے ہیں جن کی کہانی بیان کرنا خود کو شرمندہ کرنا ہے۔ (باقی آئندہ) 

0 comments: