تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۴)
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
(گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ شمارے میں مشرقی اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے معروف قصبہ چاندپٹی کے اسکول مولانا محمد علی جوہر انٹرکالج کا ذکر کیا گیا ہے جو بعض خود غرضوں اور علم دشمنوں کی وجہ سے موت و حیات کی کشمکش سے گزر کر اب پھر نئے عزم و حوصلہ، نئے اسباب و وسائل کے ساتھ نئے لوگوں کے ممکنہ تعاون سے نئی زندگی کا ثبوت پیش کرنے لگا ہے۔ اسکول کی نئی منتظمہ کمیٹی علاقہ کے چند ہونہار اور پُرعزم نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں وقت کے تقاضوں اور مستقبل کے خطرناک چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا جوش و جذبہ بھی ہے اور ایسے حالات میں علم و ہنر کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنے کی اہلیت و صلاحیت بھی ہے۔
علم کیا ہے؟ انسان کے لیے اللہ رب العالمین کی طرف سے نایاب تحفہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل علم کے بارے میں فرمایا ہے: روئے زمین پر ان کی مثال ستاروں کے مانند ہے جن سے بحر و بر کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ اگر یہ ستارے روپوش ہوجائیں تو راستہ پانے والوں کے بھٹک جانے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ گھٹاٹوپ تاریکیوں میں اس کی مثال نور کے مانند ہے۔ یہ خدا کا نور ہے۔ اسی لیے اس کا حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔
علم ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اس کا سیکھنا ایک ایسا عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ یہ عبارت ہے عمل پیہم اور جہد مسلسل سے۔ یہ ایک اتھاہ سمندر ہے۔ غواص جتنی گہرائی میں جائے گا اتنے ہی جواہرات لے کر نکلے گا۔ یہ سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ گود سے گور تک انسان کی حیثیت طالب علم ہی کی رہتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی، ایک طالب علم کی، دوسرا طالب دنیا کی۔ حصول علم کا یہ ہمہ گیر اور جامع تصور صرف ہمارے مذہب اسلام کا ہی شانِ امتیاز ہے، اسلامی تصور علم کے مطابق انسانی زندگی کا بنیادی جوہر ہے۔ ایک مثالی سوسائٹی یا معاشرہ کی تشکیل کے لیے ہر فرد انسانی کا اس جوہر اساسی سے آراستہ ہونا نہ صرف ضروری ہی ہے بلکہ فرض قرار پایا ہے۔
مولانا محمد علی جوہر انٹرکالج ہو یا ملک کے دوسرے اسکول و کالج ہر ایک کا مقصد تعلیم نئی نسل کی ذہنی و فکری تربیت کرنا ہے۔ ماہرین تعلیم کا قول ہے کہ جس طرح کا معاشرہ بنانا مقصود ہو اسی کے حسب حال نظامِ تعلیم کو ڈھال دو، نئی نسل کا ذہنی و فکری رجحان خود بخود بدل جائے گا۔ اس تبدیلی سے طلبا کا طرز فکر، عقائد و نظریات، کردار کا معیار و مزاج اور تہذیبی مراسم میں تبدیلی یقیناًواقع ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ مذہب کے معاملے میں بھی نقطۂ نظر بدل جائے گا۔ اسی کے ساتھ اگر نئی نسل سے اس کی زبان چھین لی جائے جس میں اس کا ماضی محفوظ ہے تو پھر تو نئے حالات میں یہ نئی نسل نئی اقدار کے ساتھ ابھرے گی اور ماضی سے اپنا رشتہ بالکل ہی منقطع کرلے گی، اور غالب تہذیب کے سانچوں میں اپنے آپ کو ڈھالنے میں فخر محسوس کرے گی۔ اس لیے زندہ قومیں اپنی مذہبی و تہذیبی روایات اپنی نئی نسل کو منتقل کرنے کے لیے سب سے زیادہ زور نظامِ تعلیم پر دیتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی انفرادیت صرف اس کے مذہبی عقائد، تہذیبی روایات اور زبان پر منحصر ہے۔ اگر نئی نسل کا رشتہ ان چیزوں سے کٹ جائے یا کاٹ دیا جائے تو وہ قوم خود بخود مرجاتی ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ جس قوم کی ابتدا ہی لفظ اقرا ء سے ہو وہی قوم آج سب سے پیچھے ہو، اس کے بچے ایسی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں جہاں وہ دوسروں کے عقائد و تہذیب و روایات سیکھنے اور حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ ہمارے پاس وسائل و ذرائع ہونے کے باوجود بھی ایسے ادارے قائم نہیں کر پا رہے ہیں جہاں ہمارے بچے دینی و عصری تعلیمات سے بہرہ ور ہوں اور تمام تر ترقیوں کی دوڑ میں دوسروں کے شانہ بشانہ دوڑ سکیں۔ جبکہ ہمیں قدرتی طور سے مدارس و مساجد کا ایک ایسا نیٹ ورک حاصل ہے جس کے ذریعہ ہم تعلیمی دنیا میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ مدارس اور مساجد کے کردار کے تعلق سے گزشتہ سطور میں بہت سی باتیں واضح کردی گئیں ہے کہ اگر چاہیں تو اس نیٹ ورک کے ذریعے ملک گیر مشترکہ تعلیمی نظام بھی قائم کرسکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ مدرسوں اور مسجدوں پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جو ذاتی مفاد اور خود غرضی سے آگے کچھ سوچتے ہی نہیں۔ بعض بعض جگہوں میں تو یہ ادارے ہمارے لیے نزاع اور تفرقے کا سبب بھی بنے ہوئے ہیں۔ ظا ہر ہے جب کسی قوم کا زوال ہوتا ہے تو اسے ایسے ہی حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اسے ترقیوں کے بجائے تنزلیوں کے گھنے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ملتا۔ جو قوم علم کے اصل مقصد سے انحراف کرتی ہے اس کا حشر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا آج مسلمانوں کا ہے۔ جہاں کہیں کچھ لوگ معیاری دینی و عصری تعلیمی ادارے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ لوگ اسے محض اس لیے ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں منتظمہ کمیٹی کا صدر، سکریٹری یا خزانچی کا عہدہ نہیں دیا گیا اور یہ لوگ عموماً وہ ہوتے ہیں جن کا علم و ہنر سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ جہالت میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ دوسرا وہ مہذب گروپ جن کا پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ ہمارے اکثر مدارس و مساجد پر وہ علما قابض ہیں جو اپنے پاؤں وہاں جمائے رکھنے کے لیے محلہ یا علاقہ کے لوگوں میں دو گروپ بنادیتے ہیں، انہیں نہ علاقے کے لوگوں میں تعلیمی و اخلاقی زوال کی فکر ہوتی ہے نہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی۔ کیونکہ یہ زبان سے تو ضرور اللہ کو رازق، خالق و مالک مانتے ہیں لیکن دل سے نہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن سے پوری ملت جوجھ رہی ہے۔
آج سارے عالم میں مسلمانوں کی بربادی اور ذلت و خواری کی وجہ یہی ہے کہ علم و کردار دونوں سے ہی بے بہرہ ہوچکے ہیں اور اس کے اصل ذمہ دار ہمارے یہی نام نہاد علما ہیں۔ مسلمانوں میں جتنی جماعتیں کام کر رہی ہیں خواہ وہ سیاسی ہوں یا دینی، سب کی سب (معدودے چند افراد سے قطع نظر) مرض نفاق یعنی تضاد قول و فعل میں مبتلا ہیں۔ ان کی زبان و دل میں ادنیٰ درجہ کی بھی مطابقت نہیں ہے۔
ان حالات میں اب بھلا ملت کے سرمائے کا حساب کتاب کون کرے! دنیا کو دونو ں ہاتھوں سے سمیٹنے میں ہمارے یہ قائدین ملت عام دنیا پرستوں سے بھی دوقدم آگے ہیں۔ دینی ادارے اور جماعتیں ان کی آبائی جاگیریں بنتی جارہی ہیں، کسی مسلمان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ان سے آمد و خرچ کے گوشوارے کی اشاعت کا مطالبہ کرے۔ ابھی حال ہی میں ملک کے معروف دینی ادارہ مدرسہ مظاہرالعلوم کا تعارفی نمبر ایک کارپوریٹ گھرانے کے اخبار نے شائع کیا جس پر لاکھوں روپے محض تشہیر میں خرچ کردیے گئے جسے ملت نے دینی تعلیم کے فروغ کی مد میں ادارے کو دیے تھے، اب ان بزرگوں سے کون پوچھے کہ امانت میں خیانت کسے کہتے ہے۔ اس طرح کا عمل صرف مدرسہ مظاہرالعلوم تک ہی محدود نہیں بلکہ دوسرے مدرسوں کا بھی ہے جو تشہیر کے سمندر میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ انہیں اپنے مقاصد و مناصب اور غرض و غایت ہی نہیں بلکہ وحی الٰہی ’اقراء‘ کی روح کے مسخ ہوجانے کی بھی کوئی فکر نہیں رہی۔ ایسے ہی موقع پر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات
پیڑ جس طرح اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح ایک عالم دین کی پہچان اس کے اعمال ہیں۔ وہ اپنے اچھے یا برے عمل سے ہی عوام الناس میں جانا پہچانا جائے گا اور یہ بات تو ہمارے یہ علما بھی جانتے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے ملت کے مدارس و مساجد پر قابض ہیں۔ (باقی آئندہ)
0 comments: