سینئر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے آج میدیا کے نام مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے۔
پریس ریلیز
سرینگر ؍۳ مئی ۲۰۱۶ء
سینئر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے آج میدیا کے نام مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے۔
کشمیر سول سوسائٹی (Civil Society) عوامی خدمت کیلئے اہم رول ادا کر سکتی ہے: سوز
’’جرمن سفیر مارٹن نیے(Martin Ney) نے کل شام میری رہائش گاہ پر مجھ سے ایک مختصر مگر جامع ملاقات کی ۔ملاقات کے دوران جو باتیں ہوئی ان سے میرا یہ احساس پھر سے میرے ذہن میں اجاگر کیا کہ کشمیر سول سوسائٹی معاشرے کے مختلف شعبوں میں اپنی خدمت سے ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
خیالات کا تبادلہ کرتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مسائل کے ساتھ بہتر طریقے سے نمٹنے کے لئے مدد کر سکتے ہیں ۔میرا خیال ہے کہ عام حالات میں ہمیں ہر ایک چیزکیلئے حکومت کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔میں مثال کے طور پر صرف دو شعبوں پر سول سوسائٹی کی توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔
مسٹر مارٹن نیے (Martin Ney )اپنے آپ میں ماہر تو نہیں ہیں مگر ان کو یقین ہے کہ باغبانی میں جرمن تجربے سے کشمیر کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً جرمن سیب بڑے ، رنگین اور رسیلے ہوتے ہیں اور فی ایکر پیداوار بھی وہاں بہت زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے سیب چھوٹے ، کم رنگ والے اور کم رسیلے ہیں۔ پھر ہمارے یہاں گریڈنگ نہیں ہے جس سے میوہ صنعت کو نقصان ہی ہوتا ہے۔
ہمارا ہارٹیکلچر شعبہ جرمنی سے کافی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں جگہ جگہ جرمنی اپیل کلینک (Apple Clinic) قائم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ جہاں ہارٹیکلچر صنعت سے وابستہ لوگ میوے کے درخت لگانے ، انکی نشونما، دوا پاشی کے استعمال کی پوری جانکاری حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں ،میں یہ کہنا چاہوں گا کہ سول سوسائٹی کو اس امر پر غور کرنا چاہئے کہ اگر ہم پڑھے لکھے ، کم سے کم پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں جرمنی بھیجیں اور وہ ہارٹیکلچر کی صنعت میں موجودہ زمانے کی پیش رفت کا تجربہ کریں تو وہ ہارٹیکلچر صنعت کو کشمیر میں خاصا بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ اس طرح ہم پڑے لکھے مگر بے روزگار نوجوانوں میں اس صنعت سے وابستہ ہونے کی تحریک پیدا کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت یہ حالت ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان ہارٹیکلچر صنعت کے ساتھ وابستہ نہیں ہونا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ بے کار بیٹھے ہیں۔ وہ ہر حالت میں یاتو سرکاری نوکری چاہتے ہیں ، جو دستیاب نہیں ہے یا کسی ایسی نوکری کو پانا چاہتے ہیں جس میں اُن کو کرسی ملے اور وہ قلم کا استعمال کریں۔ اگر سول سوسائٹی متوجہ ہوتی ہے تو ہم مستقبل قریب میں نوجوانوں کو ہارٹیکلچر صنعت سے وابستہ کر کے میوے اگانے، باغات میں میوہ چننے ، گریڈنگ اور پیکنگ سے متعلق نوجوانوں کو جانکاری دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اس طرح میوے کی صنعت کو بھی فائدہ ہوگا اور نوجوانوں کو روزگار بھی فراہم ہوگا۔
اس سلسلے میں ، میں سول سوسائٹی سے مودبانہ درخواست کروں گا کہ وہ اپنا دائرہ بڑھائیں اور صحافیوں کو بھی اپنے ساتھ ملائیں اور میری تجویز پر بھی غور کریں۔
میرا خیال ہے کہ یہ کام ہوسکتا ہے اور ہم کو ایسا کرنا چاہئے۔ یہ خاکسار بھی کچھ تعاون دے سکتا ہے۔ ‘‘
بلال نذرہ انچارج پبلسٹی
سرینگر ؍۳ مئی ۲۰۱۶ء
سینئر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے آج میدیا کے نام مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے۔
کشمیر سول سوسائٹی (Civil Society) عوامی خدمت کیلئے اہم رول ادا کر سکتی ہے: سوز
’’جرمن سفیر مارٹن نیے(Martin Ney) نے کل شام میری رہائش گاہ پر مجھ سے ایک مختصر مگر جامع ملاقات کی ۔ملاقات کے دوران جو باتیں ہوئی ان سے میرا یہ احساس پھر سے میرے ذہن میں اجاگر کیا کہ کشمیر سول سوسائٹی معاشرے کے مختلف شعبوں میں اپنی خدمت سے ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
خیالات کا تبادلہ کرتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مسائل کے ساتھ بہتر طریقے سے نمٹنے کے لئے مدد کر سکتے ہیں ۔میرا خیال ہے کہ عام حالات میں ہمیں ہر ایک چیزکیلئے حکومت کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔میں مثال کے طور پر صرف دو شعبوں پر سول سوسائٹی کی توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔
مسٹر مارٹن نیے (Martin Ney )اپنے آپ میں ماہر تو نہیں ہیں مگر ان کو یقین ہے کہ باغبانی میں جرمن تجربے سے کشمیر کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً جرمن سیب بڑے ، رنگین اور رسیلے ہوتے ہیں اور فی ایکر پیداوار بھی وہاں بہت زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے سیب چھوٹے ، کم رنگ والے اور کم رسیلے ہیں۔ پھر ہمارے یہاں گریڈنگ نہیں ہے جس سے میوہ صنعت کو نقصان ہی ہوتا ہے۔
ہمارا ہارٹیکلچر شعبہ جرمنی سے کافی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں جگہ جگہ جرمنی اپیل کلینک (Apple Clinic) قائم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ جہاں ہارٹیکلچر صنعت سے وابستہ لوگ میوے کے درخت لگانے ، انکی نشونما، دوا پاشی کے استعمال کی پوری جانکاری حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں ،میں یہ کہنا چاہوں گا کہ سول سوسائٹی کو اس امر پر غور کرنا چاہئے کہ اگر ہم پڑھے لکھے ، کم سے کم پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں جرمنی بھیجیں اور وہ ہارٹیکلچر کی صنعت میں موجودہ زمانے کی پیش رفت کا تجربہ کریں تو وہ ہارٹیکلچر صنعت کو کشمیر میں خاصا بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ اس طرح ہم پڑے لکھے مگر بے روزگار نوجوانوں میں اس صنعت سے وابستہ ہونے کی تحریک پیدا کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت یہ حالت ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان ہارٹیکلچر صنعت کے ساتھ وابستہ نہیں ہونا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ بے کار بیٹھے ہیں۔ وہ ہر حالت میں یاتو سرکاری نوکری چاہتے ہیں ، جو دستیاب نہیں ہے یا کسی ایسی نوکری کو پانا چاہتے ہیں جس میں اُن کو کرسی ملے اور وہ قلم کا استعمال کریں۔ اگر سول سوسائٹی متوجہ ہوتی ہے تو ہم مستقبل قریب میں نوجوانوں کو ہارٹیکلچر صنعت سے وابستہ کر کے میوے اگانے، باغات میں میوہ چننے ، گریڈنگ اور پیکنگ سے متعلق نوجوانوں کو جانکاری دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اس طرح میوے کی صنعت کو بھی فائدہ ہوگا اور نوجوانوں کو روزگار بھی فراہم ہوگا۔
اس سلسلے میں ، میں سول سوسائٹی سے مودبانہ درخواست کروں گا کہ وہ اپنا دائرہ بڑھائیں اور صحافیوں کو بھی اپنے ساتھ ملائیں اور میری تجویز پر بھی غور کریں۔
میرا خیال ہے کہ یہ کام ہوسکتا ہے اور ہم کو ایسا کرنا چاہئے۔ یہ خاکسار بھی کچھ تعاون دے سکتا ہے۔ ‘‘
بلال نذرہ انچارج پبلسٹی
0 comments: