نوجوان سوشل میڈیا سے دور رہیں!
نہال صغیر
سوشل میڈیا کے تعلق سے آج کل نوجوانوں کو ہر چہار جانب سے نصیحتیں مل رہی ہیں بزرگوں کا کام عزیزوں کو آنے والے خطرات سے آگاہ کرنا ہے جو ایک مستحسن قدم ہے - لیکن کیا ناصح کو ان حالات کا ادراک بھی ہے جن سے وہ عزیزان قوم کو خبردار کررہے ہیں۔ پچھلے جمعہ کو مسجد کے منبر سے بھی اس پر نصیحتیں سننے کو ملیں خطیب صاحب فرما رہے تھے گوگل سے کوئی معلومات حاصل مت کیجئے کسی بھی طرح کی معلومات کے لئے اپنے آس پاس کے معتبر علماء سے رجوع ہوں - خطیب یہ بھی فرمارہے تھے کہ محض اردو میں چند کتابیں پڑھ کر یا عربی سیکھ کر دین کو نہیں سمجھا جاسکتا - ان کا اشارہ شاید ذاکر نایک جیسے لوگوں کی جانب تھا ۔ ان ساری تقریروں اور نصیحتوں میں کچھ باتیں معقول بھی ہیں جیسے علماء سے رجوع ہونے والی بات ۔ اس پر نوجوانوں کو توجہ دینی چاہئے اور اگر ان کی باتیں ٹھیک ہوں قرآن و سنت کے مطابق ہوں تو اسے قبول کرنے میں کیا حرج ہو سکتا ہے- لیکن یہ نصائح کیا اتنے آسان اور شفافیت پر مبنی ہیں کہ آپ نے دے دی اور نوجوانوں نے قبول کرلی - میں نے جس مسجد کے خطبہ کا ذکر کیا تھا ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ گوگل کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے اور نوجوانوں کو سیدھے ان سرچ انجنوں سے دور رہنے کی صلاح دے رہے ہیں جس نے ہمارا کام آسان کردیا ہے - ہاں اس کی دی گئی معلومات کو پرکھنے کے بعد ہی قبول کرسکتے ہیں اور نوجوان اندھے بن کر اسے قبول بھی نہیں کرتے الا ماشاء اللہ- ہماری اپنی اولاد جس دور میں ہماری بات سننے کو راضی نہیں وہاں ہمارےعلما عام نوجوانوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ جس سے رکنے کے لئے کہہ دیں وہ رک جائیں اور جسے کرنے کو کہیں وہ آنکھ بند کرکے اس پر عمل پیرا ہوجائیں - ایسا ممکن ہوتا اگر انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہوتی نوجوانوں کو مسلک کے بجائے اسلام سمجھایا ہوتا - مذکورہ خطیب صاحب یا ایسے سبھی علماء جنہوں نے نوجوانوں سے سوشل میڈیا پر احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے ان کی نصیحت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نوجوان علمائے اسلام سے دور ہوئے ہیں - ہاں یہ ٹھیک ہے کہ نوجوان علماء سے دور ہوئے ہیں لیکن یہ بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہمارے مستقبل ستارہ اسلام سے دور نہیں ہوا ہے بلکہ وہ اسلام کے اور زیادہ قریب ہوا ہے ۔ مستقبل کی اس امید کو انہوں نے مسلک کے جھمیلوں میں الجھایا انہیں اسلام نہیں بتایا انہیں رفع یدین اور آمین بالجہر کے جھگڑوں میں پھنسایا لیکن اس کی فطرت میں اسلام تھا وہ امت کے حالات سے اور اسلام کی مغلوبیت سے حیران تھا جو سارے ادیان پر غالب ہونے آیا تھا وہ اسلام کی برتری موجودہ دور کے عظیم فتنوں جمہوریت سیکولرزم اور کمیونزم پر عقلی دلائل سے ثابت کرنا چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ علما نے جو کچھ عربی سے راست حاصل کیا ہے اس میں اس کو بھی شامل کریں اس کو فہم دین سے آشنا کریں اور وہ تیار ہو کر اپنے ہم مذہب سے مناظرہ کرنے کے بجائے موجودہ دور کے فتنوں کو باطل اور خلاف فطرت ثابت کرے لیکن انہوں نےاس کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ اکثر نے یہ کہہ کر اس کی تذلیل کی کہ اسلام یا قرآن کو سمجھنا تمہارے بس کی بات نہیں یہ صرف ہمارا کام ہے اس نے علما کا اعتبار بھی کیا لیکن اس کا اعتبار متزلزل ہوتا گیا وہ دیکھ رہا تھا باطل نظریات حاوی ہوتے جارہے ہیں اسلام سمٹ رہا ہے اور یہ مسلکی مناظروں میں اپنا وقت برباد کررہے ہیں۔ اس نے خود کو اس صحرا میں تنہا محسوس کیا بالآخر جب وہ علما سے مایوس ہوگیا اس نے خود ہی اس میدان میں صحرا نوردی کی ٹھانی بیسویں صدی میں اس نے عربی کتب سے اکتساف کیا اکیسویں صدی کی اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی انقلاب آفرینی نے اس کو موقعہ دیا کہ راست اسلام کو قرآن و سنت سے سمجھے کیونکہ وہ ان مسلکی جھگڑوں سے اکتاچکا تھا - اب یہ حضرات اس سے یہ کہتے ہیں کہ آؤ ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک اسلام بتائیں گے لیکن اسے ان کی یقین دہانی پر بھروسہ نہیں وہ بہت زخم خوردہ ہے- یہ کہتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرے یا ہوشیار رہے کیوں کہ ملک کی خفیہ ایجنسیاں وہاں برابر نظر رکھے ہوئی ہیں ۔ یہ خوفزدہ ہیں گویا اسلام کو سمجھنا دوسروں کو سمجھانا لوگوں کی اسلام کے تئیں غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ان کی خوفزدگی کی وجہ سے غیر قانونی ٹھہرا یعنی ان کا مسئلہ مسلم نوجوانوں کو صحیح اسلام کی رہنمائی نہیں ہے بلکہ مسئلہ خفیہ ایجنسیوں کا خوف ہے - جمعہ کے خطاب میں خطیب صاحب کہہ رہے تھے گوگل آپ کو گمراہ کرتا ہے یا غلط معلومات دیتا ہے - مجھے ان خطیب صاحب سے جزوی اتفاق ہے اور اس کی وجہ گوگل یا انٹرنیٹ کے تعلق سے ان کی ناقص معلومات ہے - انہیں پتہ ہی نہیں کہ گوگل کوئی اپنے ابا کے گھر سے کوئی معلومات فراہم نہیں کرتا - ہم اور آپ اپنی ویب سائٹ بلاگس ای میل وغیرہ پر جو گفتگو یا بحث و مباحثہ یا تحریر و تقریر ساجھا کرتے ہیں وہی باتیں سوال کے جواب میں حاضر کردیتا ہے اس میں غلط معلومات بھی ہوتی ہیں اور صحیح بھی ۔ اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ کیا قبول کرتے کسے قبول کرتے اور کسے خارج کرتے ہیں ۔ کل ملاکر وہی سب کچھ ہماری روایتی زندگی میں بھی ہیں مثال کے طور پر اگر آپ کسی لائبریری میں جاتے ہیں تو وہاں کتابوں کا انبار ہے دینی بھی ہے لادینی بھی تعمیر انسانیت کی بھی کتابیں ہیں اور تخریبی ذہنیت بنانے والی بھی اسی طرح اگر علماء کی بات کریں تو یہاں بھی معاملہ ویسا ہی ہے یہاں علمائے سو کی سنامی میں علمائے حق کھو گئے ہیں ۔ یہ تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام چاہتے ہیں یا لادینیت توحید کے صاف و شفاف چشمہ سے فیض حاصل کرنا پسند کرتے ہیں یا شرک و بدعت کے تعفن زدہ نالوں کی گندگی میں ہی مقید رہنا چاہتے ہیں یہی حالت تو یہاں عالموں کی دنیا میں بھی ہے ایسی صورت میں اگر نوجوان راست قرآن و سنت سے رجوع ہوکر اس فتنہ انگیز دور میں چشمہ توحید میں غوطہ زن ہونا چاہتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے نوجوان تو کسی ابن تیمیہ اور کسی غزالی کی جستجو میں تھا لیکن اے بسا آرزو خاک شد ۔ علما سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ میری باتوں سے نالاں نہ ہوں بلکہ اس میں جو پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر حالات کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کریں ۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ جس کے تعلق سے متنبہ کرنا چاہ رہے ہیں اس کی پوری معلومات لیجئے پھر اس کے مطابق انتہائی شفقت بھرے لہجے میں نوجوانوں سے مخاطب ہوں ۔ میرا تجربہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ آج بھی علما کی قدر کرتا ہے اور ان کی باتوں کو سن کر اس پر عمل کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن موجودہ حالات میں آپ کی باتوں سے مایوس ہوتا جارہا ہے ۔ اس جانب توجہ دیں کیونکہ اس دور میں امت کی کشتی کو منجدھار سے علما اور نوجوان ہی نکال سکتے ہیں ۔ آپ کی دانش و حکمت اور نوجوان کے جوش جذبے باہم مل کر قوم کی قوت بنیں گے ۔ کیا اس کے لئے آپ تیار ہیں ؟
0 comments: