کچھ لوگ موقعہ کی تاک میں رہتے ہیں!

7:24 PM nehal sagheer 0 Comments

ابوارسلان ۔ ممبئی
تقریبا دس روز قبل پاکستان کے عروس البلاد کراچی کے لیاقت آباد میں قوالی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ صابری برادران کے امجد صابری کو کچھ نامعلوم پیشہ ور قاتلوں نے اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔ قتل خواہ کسی عام انسان کا ہو یا خواص کا ۔ اسلام بغیر حق کے قتل کو پسند نہیں کرتا ہے۔ میں قرآن کی وہ تعلیم نہیں سناؤں گا جس میں کسی بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر دی گئی ہے۔ کیوں کہ وہ پیغام ہزار بار سنایا جاتا ہے اور تقریباً سبھی کو ازبر ہے ۔ یہاں تک کہ اب تو قرآن کی یہ آیت غیر مسلموں کو بھی یاد ہو گئی ہے- قتل وہ بھیانک جرم ہے جو سوسائٹی کے امن امان کو درہم برہم کردیتا ہے اس لئے اسلام اس معاملے میں بہت سخت ہے اور اس کے مجرم کے لئے بھی اس کا حکم یہی ہے کہ اسے بھی قصاص میں قتل کیا جائے. قرآن قصاص کو معاشرے کی زندگی سے تعبیر کرتا ہے ۔
ایسے بہیمانہ واقعات پر جہاں سنجیدگی سے غور کرنے اور اس کو انجام دینے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ معاشرہ بے فیض قتل و غارت گری سے محفوظ ہو جائے ۔ وہیں کچھ خاص لوگ جو چنندہ اسلامی تحریکات سے ادھار کھائے بیٹھے رہتے ہیں انہیں موقعہ مل جاتا ہے اپنی خباثت دکھانے کا چنانچہ اس بہیمگی پر بھی انہوں نے دل کے غبار کو خوب جی بھر کے نکالا ۔ بغیر تحقیق کسی نے فون پر یا ای میل سے یہ قبول کیا کہ یہ دھماکہ انہوں نے کیا ہے ۔ پھر کیا ہے امریکی اور روسی پیسوں پر پلنے والے سیکولر مجاہد میدان میں کود پڑتے ہیں ۔ انہوں نے سیدھے طالبان کو نشانہ بنایا اور ان کے سہارے دیگر دینی فکر رکھنے والی تنظیموں اور افراد کو بھی برا بھلا کہنے کا انہیں گویا نادر موقعہ مل گیا۔

ایک صاحب نے تو سماجی ویب سائٹس کے ایک گروپ پر ضیا الحق 
کو اس کا ذمہ دار قرار دیا نیز انہوں نے ایک قوال کی ہمدردی کا ناٹک کرتے ہوئے یہ تک لکھ ڈالا کہ اگر ہندوستان میں اولیاء کرام ڈھول تاشہ لے کر نہیں آتے تو یہاں اسلام نہیں پھیلتا ۔ ان صاحب کی معلومات انتہائی ناقص اور سطحی معلوم ہوتی ہے ۔ ہر چند کے یہاں اسلام کی ترویج و اشاعت کس طرح ہوئی یہ گفتگو کا موضوع نہیں ہے لیکن یہ نہیں بتانا کہ ہندوستان میں اسلام اولیاء کرام کے ظہور سے کافی پہلے ابتدائے اسلام میں ہی عرب تاجروں کے ذریعے آگیا تھا جن میں صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم اور تابعین بھی تھے اور وہ نفوس قدسیہ ڈھول تاشوں کے ساتھ نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم مساوات کو ساتھ لے کر آئے تھے۔ انہوں نے اسلامی مساوات کو نافذ کرنے میں کسی حیلے اور بہانوں کا سہارا نہیں لیا تھا ۔ انہوں نے سیدھے یہاں کے عام باشندوں کو اسلامی مساوات کی عملی تعلیم دی وہ ان کے دل پر اثر انداز ہوا اور انہوں نے مسلمانوں کو اپنے نجات دہندہ کے طور پر قبول کیا- انہیں کسی قوالی اور محفل سماع کی ضرورت نہیں پڑی ۔ پتہ نہیں یہ قوالی اور محفل سماع کب اور کس کے ذریعے اسلامی شعار کا حصہ بنا؟ اس پر گفتگو کا ابھی وقت نہیں ہے ۔  لیکن فی الوقت ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کا سہرا صرف اولیاء کرام کے سر باندھنا ان ہزاروں صحابی رسولۖ اور تابعین کی قربانیوں اور انکی جانفشانیوں کی بے قدری اور نفی ہے۔ بے شک ہند میں اسلام کی اشاعت میں اولیاء کرام کا بھی بہت بڑا تعاون ہے ۔ لیکن اس کا سارا کریڈٹ ان کو ہی دینا ٹھیک نہیں ہے۔ ایسا سوچنا اور اس کی تشہیر کرنا تاریخی حقائق سے منھ موڑنے کے برابر ہے۔

اب آتے ہیں اس طرف کہ پاکستانی قوال امجد صابری کو کس نے قتل کیا ؟ اور کون ہے اس کا ذمہ دار ؟ امجد صابری کو جس طرح قتل کیا گیا وہ کسی تحریک کا تو طریقہ کار نہیں لگتا ہاں پاکستان میں سرگرم قاتل گروہ جس میں امریکہ کا بلیک واٹر بھی ہے کا طریقہ جیسا لگتا ہے ۔ پاکستانی حکومت نے بھی اس سلسلے میں تحقیقات کے بعد ہی کسی نتیجہ کا عندیہ دیا ہے ۔ لیکن ہمارے سیکولر مجاہد تو بس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب کوئی ایسا واقعہ ہو اور اسلامی تحریکات کو نشانہ بنائیں شاید اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اسلامی تحریکات نے نام نہاد سیکولروں کے چہرے پر پڑے امن و مساوات کے نقاب کو نوچ کر پھینک دیا ہے اور ان کے دو دو سرپرستوں یا ان کے شیطان بزرگ روس و امریکہ کو دن میں تارے دکھادئے اور اب ان کی سرپرستی کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا ہے۔ اس لئے وہ ادھار کھائے بیٹھے ہیں اور موقعہ ملتے ہی شروع ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے فسادات اور قتل غارت گری یہی سیکولر مجاہد اپنے آقاؤں کے باقی ماندہ قوت کو یکجا کرکے انجام دیتے ہیں تاکہ اسلام اور اس کے ہمنواؤں کو بدنام کیا جاسکے اور اپنی کارستانی کو اسلام پسندوں کے سر ڈال دیا جائے کیوں اسلامی قوتوں نے تو اپنی اخلاقی قوت سے ان کے سارے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا ۔  
اس طرح کی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا مقصد مسلمانوں میں مسلکی اختلافات کو بڑھاوا دینا بھی ہوتا ہے اور مقصد بہت واضح طور پر نظر بھی آتا ہے ۔ اوپر جس سوشل میڈیا گروپ کا حوالہ دیا گیا ہے وہاں بھی یہی مقصد معلوم ہوتا ہے - ان کا مقصد واضح طور پر بریلوی طبقہ کو دیوبندی اور اہل حدیث سے لڑانا نظر آتا ہے ۔ دو ماہ قبل مولانا توقیر رضا کی جانب سے دیوبند جاکر اتحاد کی کوشش میں پیش قدمی کو کئی لوگ ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ رہے  ہیں ۔ توقیر رضا کی اس کوشش کے خلاف ایک اردو روزنامہ میں بیان بھی آچکا ہے۔ حالانکہ وہی لوگ اتحاد کی سب سے زیادہ باتیں کرتے ہیں اور مخالف مسلک کے امام کے پیچھے نماز ادا کرکے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ پھر توقیر رضا کی پیش قدمی سے یہ لوگ کیوں بوکھلا گئے ہیں؟ جنرل ضیاءالحق بھی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے بھلا اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ حالانکہ  جنرل ضیاءالحق وہ ہستی ہے جس نے سرخ آندھی کو افغانستان کے قبرستان میں دفن کردینے کا کام مکمل کیا ۔ کیا صرف اسی وجہ سے انہیں برا بھلا کہا جاتا اور ہر فساد کا ذمہ دار مانا جاتا ہے ؟

قابل غور بات یہ بھی ہے کہ آخر اسلامی تحریکوں کے پاس دوسرا کوئی کام نہیں ہے یا وہ جس کے نفاذ کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں وہ انہوں نے پورا کرلیا جو اس طرح کے تطہیری کام انجام دینا شروع کریں ۔ دوسری بات یہ کہ ڈھول تاشہ کی مخالفت کا مطلب سیکولر مجاہدوں کے سوا بھی کسی نے نکالا ہے کہ اس کی حمایت کرنے یا اس کو بجانے والوں کو قتل کردیا جائے ۔ جس جرم میں اسلام سخت سزا بھی تجویز نہیں کرتا اس کے بارے میں یہ سیکولر مجاہد کیوں بھرم پھیلا رہے ہیں کہ انہیں قتل کردیا جائے ۔ اگر اسلامی نظام حکومت ہو اورکوئی شخص اس کی تنبیہہ کے بعد بھی ایسی حرکت کرے تو اسلامی حکومت کا قاضی زیادہ سے زیادہ دو یا تین کورے مارنے سے زیادہ کی سزا نہیں دے سکتا ۔ پھر اسلامی تحریکوں کے سر پر یہ کس نے الزام دھر دیا کہ اس کو بجانے والے کو قتل کردیا جائے ۔ آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ براہ کرم آپ بھرم نہ پھیلائیں اپنے جرائم پر پردہ رکھنے کے لئے اسلامی تحریکوں کو بدنام نہ کریں ۔ ایک بات اور کہ طالبان یا اس جیسی زیر زمین تنظیموں سے متعلق بیانات میڈیا کی وساطت سے خفیہ ایجنسیوں کے کارنامے ہوتے ہیں۔ آئے دن ماضی کے خفیہ کارکن والوں کی روداد ان کی خود کی لکھی کتابوں کی صورت میں ہمارے سامنے آتی رہتی ہے جس میں یہ وضاحت ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے خفیہ مشن میں کب کب کیسے کیسے کارنامے انجام دئے اوراس کے الزامات کس پر لگے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس پر کھل کر کو ئی گفتگو نہیں ہوتی ۔ اسی طرح طالبان یا دیگر تنظیموں کی جانب سے میڈیا کی زینت بننے والے بیانات محض کچھ شاطر خفیہ ایجنسیوں کا اپنا ڈرامہ ہوتا ہے ۔ اس کا مقصد حکومتوں کو غیر مستحکم اور ملک میں انارکی پھیلاکر اپنے ملک کے لئے بہتر راہیں تلاش کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی ہوتا ہے کیا؟ 

0 comments: