اگرخدا نہ خواستہ ترکی کا انقلاب کامیاب ہو جاتا

10:21 AM nehal sagheer 0 Comments

پروفیسر محسن عثمانی ندوی


دنیا میں ترکی کے ناکام انقلاب پرکہیں غم کی اور کہیں مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے، کچھ حلقے ہیں جہاں نا کامی پر تشویش ہے اور آئندہ اسلام کی رفتارسے اندیشہ ہائے دور دراز میں میں لوگ گرفتار ہورہے ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگوں نے اطمنان کا سانس لیا ہے اور اللہ کاشکر ادا کیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کو سخت آزمائش سے اور بڑی طاقتوں کی سازش سے نجات اور ترکی کو نئی حیات عطا کی ، تاریخ کے آئینہ ایام پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ کا آفتاب اقبال جب طلوع ہوا اور خلافت عثمانیہ کا سورج ڈوبنے لگا تو ہر جگہ ایسے لوگ پیدا ہوئے جو فتحمندیورپ کی تہذیب کو اختیار کرنے میں ہی مسئلہ کا حل سمجھنے لگے اور پیروی مغرب کی دعوت دینے لگے، اس گروہ میں بعض ایسے اشخاص تھے جو انتہا پسند تھے اور مشرق ومغرب کی کشمکش میں مشرق کی ہار دیکھنا چاہ رہے تھے ،ترکی میں کمال اتاترک ایسے ہی ایک کردار کا نام ہ ترکی میں کمال اتاترک کا ہدف یہ تھا کہ ترک قوم ہیٹ اور پتلون پہنے اور عورتیں اسکرٹ پہننے لگیں، بھونڈی نقالی کو طاقت کے زور سے پھیلایاگیا ،ماڈرن اسلام کوجو اسلام نہ تھا اختیار کرنے کی دعوت دی گئی عربی زبان کمی تعلیم یک لیخت موقوف کردی گئی ،اذانیں ترکی زبان میں دی جانیں لگیں ،زیادہ تر مساجد میں تالے ڈال دئے گئے ۔ ترکی زبان کا رسم خط بدل دیا گیا حجاب ممنوع قرار پایا اختلاط مرد وزن کی ہمت افزائی کی گئی تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا، ہزاروں لاکھوں کتابیں جو عربی زبان میں تھیں یا عربی رسم خط میں لکھی گئی تھی لاطینی زبان یا سنسکرت زبان کی کتابوں کی طرح ناقابل مطالعہ ہو گئیں ہوگئیں ،قرآن کو بالائے طاق رکھاگیا ، ملحدانہ روش اختیار کی گئی خلافت کی قبا چاک کردی گئی ۔ ترکی کے پیراہن کو تار تار کرنے میں عالمی صہیونی اور برطانوی سازش کام کرہی تھی ۔ ترکی یورپ کا مرد بیما ر بن گیا تھا ، بے طاقت ،کمزور اوردرماندہ اور سائنس اور ٹکنولوجی میں پسماندہ ، غیرت اور حمیت کی رکھوالی کرنے والی تلوار اب نیام میں بھی نہیں تھی ،ورنہ اس سے پہلے اسلامی غیرتک کا حال یہ تھا کہ ترکی کے آخری خلیفہ کے دور میں یہودیوں کی عالمی تنظیم کی طرف سے یہ پیشکش ہوئی کہ خلیفہ یہودیوں کو فلسطین میں اپنی ریاست قائم کرنے کی اجازت دے دے تو اس کے مقابلہ میں ترکی کے تمام قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی اور اس کے علاوہ ایک خطیر رقم پیش کی جائے گی اور اس کے علاوہ جو بھی مطالبہ ہوگا پورا کیاجائے گا ترکی کو مالی امداد کی ضرورت تھی لیکن خلیفہ نے اس لقمہ تراور اس پیشکش کے قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور کہ دیا کہ فلسطین کی ایک ایک انچ زمین عالم اسلام کی امانت ہے اور اس امانت میں کوئی خیانت نہیں کی جاسکتی ہے ، خلیفہ نے جو کچھ کہا تھا وہ غیرت وحمیت کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔ لیکن غیرت وحمیت کے ساتھ طاقت کی تلوار کی بھی ضرورت ہوتی ہے اورترکوں کی یہ تلوار کند ہو گئی تھی ، یہودیوں نے برطانیہ سے مل کر سازش کی اور ترکی کے ایک یہودی قبیلہ دونمہ سے تعلق رکھنے والے شخص کمال اتاترک کو کھڑا کردیا گیا جس نے خلافت کا خاتمہ کردیا ۔ ’’ چا ک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا‘‘۔
اس وقت سارے عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ طاقت کی تلوار کند ہوگئی ہے جب کہ اسلام نے اس طاقت کو حاصل کرنے اور اس کو خارا شگاف بنانے اور صف شکن کرنے کا حکم دیا تھا، اسلام نے ایسی طاقت حاصل کرنے کا حکم دیا تھا جس سے تمام دشمن طاقتیں مرعوب اور دہشت زدہ ہوجائیں، ان کے دلوں پر خوف طاری ہوجائے ۔ جب ترکی کو فتح کیا گیاتھا اور سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ یعنی استنبول پر فوج کشی کی تھی تو طاقت کی وہ تلوار موجود تھی جس کو قبضہ میں کرنے کا حکم قرآن میں موجود ہے، یعنی یہ کہ تم سامان جنگ تیار کرو اور یہ تیاری اس معیار کی ہو کہ اللہ کے دشمن اور تمہارے دشمنوں پر رعب طاری ہو جائے ۔جن قوموں کے ہاتھ میں یہ طاقت ہوتی ہے وہ سرفراز اور سربلندہوتی ہیں۔اور جو اس طاقت سے محروم ہوتی ہیں وہ اسباب وعلل کی اس دنیا میں سرافگندگی اور سر بزیری ان کی قسمت بن جاتی ہے اور وہ سرنگوں اور شکست خوردہ رہتی ہیں۔
۱۴۵۳ ء میں سلطان محمد فاتح نے اپنی چوبیس سالہ عمر میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی بازنطینی سلطنت کے ناقابل تسخیر دار السلطنت قسطنطنیہ یعنی موجودہ استنبول کو فتح کرلیا اور مسلمانوں میں رومی شہنشاہیت کے اتنے بڑے مرکز پر قبضہ کرنے سے غیر معمولی جوش پیدا ہوگیا ۔ قسطنطنیہ کو فتح کرنا گویا دنیاکی سب سے بڑی طاقت کو زیر کرنا تھا جیسے آج کوئی لندن یا پیرس یا واشنگٹن پر قبضہ کرلے تو اسے بہت بڑا فاتح مان لیا جائے گا ۔ لیکن استنبول یعنی قسطنطنیہ پر قبضہ کرنا کوئی اتفاقی واقعہ نہ تھا ، اس کار عظیم کے لئے وہی طاقت حاصل کی گئی تھی جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے ۔ سلطان محمد فاتح جب قسطنطنیہ فتح کرنے چلا تو اس کی قیادت میں تین لاکھ سپاہی تھے اور زبردست توپ خانہ ،اس توپ خانہ میں ایسی توپ تھی جو تین سو کیلو گرام کا گو لہ ایک میل تک پھینک سکتی تھی، محمد فاتح کا بحری بیڑہ اس سو بیس جنگی کشتیوں پر مشتمل تھا اور اس جنگی بحری بیڑہ کو خلیج تک پہونچانے کے لئے لکڑیوں پر چربی بچھا کرخشکی پر جہاز چلائے گئے تھے اور زمینی راستہ سے محمد فاتح نے اس بیڑہ کو خلیج کے سمندر میں اتاردیا ۔ سلطان محمد فاتح سے پورا یورپ مرعوب اور خوف زدہ تھا ۔ عالم اسلام سے یہی طاقت مطلوب ہے ، اس کے بغیر نہ اسرائیل کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے اورنہ مسجد اقصی کو واگذار کرایا جاسکتا ہے اور نہ عالم عرب میں بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کو ختم کیاجاسکتا ہے ۔ عرب دنیا میں سیال سونے کا سیلاب آیا تھا اور قدرت نے یہ دولت اس لئے عطا کی تھی کہ اس پورے خطہ کو صنعتی اعتبارسے مسلمانوں کا طاقتور ترین علاقہ بنادیا جائے لیکن’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ‘‘ اس خطہ کے کور مغز اور کور چشم حکمرانوں نے اپنی پوری قوم کو صارفین کی قوم بناکے رکھ دیا جسے دنیا کا کوئی فن نہیں آتا ہے او خود ر عیش وعشرت میں مشغول ہوگئے عہد حاضر میں مسلمانوں کے زوال کا سب سے بڑا سبب مسلم حکمرانوں کا رویہ ہے جنہوں نے اس دولت کا غلط استعمال کیا جو اللہ نے انہیں عطا کی تھی ۔حرم کی توسیع مساجد کی تعمیر سخاوت اور صدقات وخیرات کی تقسیم اور کوئی بھی اچھا کام قرآن کے حکم سے روگردانی کا کفارہ نہیں ہوسکتا ہے اور قرآن میں اسلحہ سازی کا صراحتا حکم دیا گیا ہے ۔اگر حکمرانوں کو پ عقل اور بے شعور ہیں تو وہاں کے علماء کو کیا ہوگیا ہے جو نصیحت اور تلقین نہیں کرتے اگر وہاں ظل الہٰی کو نصیحت کرنا اور زبان کھولنا جرم ہے اگر ان کو اپنی جانوں کے لالے پڑجاتے ہیں تودنیا کے مختلف ملکوں کے علماء جو کانفرنسوں میں شرکت کے لئے عرب ملکوں میں اڑن کھٹولوں پر بیٹھ کر جاتے رہتے ہیں وہ حق گوئی سے کام کیوں نہیں لیتے ہیں کیا ان کا کام یہی رہ گیا ہے کہ اپنے اداروں کا پر وجکٹ وہاں داخل کریں اور فائل کی گردش کے ساتھ خود بھی گردشِ کوئے ریال میں مشغول رہیں ۔ عرب حکمرانوں نے اپنے اپنے ملک میں جو سیاسی نظام اختیار کیا ہے وہ دنیا میں اسلام کے تعارف کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ جس خطہ میں مسلمان اکثریت میں ہوتے ہیں وہاں کے خاکدان پرکوئی خلدآدم نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک خارزار ہوتا ہے اور وہان کے عوام وخواص بے زبان جانوروں کی طرح ہوتے ہیں جنہں اظہار خیال کی آزادی نہیں دی جاتی ہے اور حکومت کا خزانہ اور بیت المال حکمراں کی اپنی جاگیر ہوتا ہے ۔ایسے نظام کو دنیا کی کوئی قوم قبول نہیں کرسکتی ہے 

تمام مسلم ملکوں کے مقابلہ میں ترکی بسا غنیمت ہے اگر وہاں فوجی انقلاب کا میاب ہوگیا ہوتا تو تو کمال اتاترک کا دورپہلے سے زیادہ ہولناک شکل میں دوبارہ واپس آجطاتا، نماز اور روزہ پر بھی پابندی عائد کردی جاتی اور تہذیب ومعاشرت میں ترکی کو لندن او ر پیرس کا ہم رنگ بنادیا جاتا، اس کی اسلامی شناخت کھرچ کھرچ کا مٹانے کی کوشش ہوتی ۔یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ مغربی طاقتیں سب کچھ فراموش کرسکتی ہیں لیکن یہ بات کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہیں کہ عیسائیت کے سب سے بڑے مرکز قسطنطنیہ کو مسلمانوں نے فتح کرلیا تھا اورمشرقی یورپ کے بیشتر علاقے ترکی کے زیر نگیں تھے یہ ایسا جانگسل غم ہے جو یورپ کے رگ وپے میں سرایت کر چکا ہے ۔ اس بار اگرفوجی انقلاب کامیاب ہوجاتا تو مغربی طاقتوں کو دل کی بھڑاس نکالنے کا پورا موقعہ ملتا اور ترکی ایک طویل مدت تک اسلامی شناخت سے محروم ہوجاتا ۔مغربی طاقتوں کے کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہی کھیل ہے جو مصر میں کھیلا گیا اور یہی کھیل ہے جو الجزائرتیونس اور مراکش میں فراسیسی استعمار ایک مدت تک کھیلتا رہا ۔

0 comments: