اردو میڈیا اور بنیاد پرستی

10:30 AM nehal sagheer 0 Comments

ابو ارسلان ۔ ممبئی abuarsalan03011970@gmail.com


موجودہ دنیا میں بنیاد پرستی ایک ایسا لفظ ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں یا مسلمانوں کے تعلق سے تنظیموں یا ان کی زبان کے اخبارات جو ہندوستان میں اردو اخبارات تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں،کو گالیاں دینا انہیں برا بھلا کہنا ان کی توہین کرنا دانشور طبقہ کا محبوب مشغلہ ہے ۔حالانکہ میری نظر میں بنیاد پرستی کوئی بری چیزنہیں ہے ۔کسی بھی انسان کو جو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہے اسے بنیاد پرست ہی ہونا چاہئے ۔اس سے نہ تو دنیا میں کبھی کوئی فساد ہوا ہے اور آئندہ بھی اس سے کوئی فساد ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ بنیاد پرستی حقیقت میں کیا ہے اور اسے کس رنگ میں دیکھا جاتا ہے۔بنیاد پرستی کا سیدھا سا مطلب ہے بنیاد سے جڑا ہوا خواہ وہ کسی مذہب ،عقیدہ یا تہذیب کی بنیاد ہو۔بھلا اس میں کیا برائی ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص اپنی بنیاد سے چمٹا رہے۔یہ لفظ کمیونسٹوں کی ایجاد ہے کیوں کہ ان کے یہاں مذہب پر عمل کرنا یا مذہب اور اللہ کی بات کرنا تنگ نظری اور بنیاد پرستی کہلاتی ہے ۔جبکہ کمیونسٹ بھی ایک نظریہ یا عقیدہ ہے اور وہ اس کی بنیادوں سے چمٹے رہنے کی جد و جہد کریں تو انہیں کوئی بنیاد پرست نہیں کہتا اور اس کی شدت میں وہ کسی قوم ملک یا افراد کو تباہ و برباد کردیں یہ بنیاد پرستی کسی کو نظر نہیں آتی کسی کی آنکھ میں کھٹکنے والا نظریہ صرف اسلام اور اس کی پیروی کرنے والے ہیں ۔شاید یہ مخالفت اس لئے ہے کہ اسلام ہی وہ نظریہ ہے جو انہیں ٹکر دے سکتا ہے اور اس نے دیا بھی ہے ۔افغانستان کی پہاڑیوں میں اس نظریہ کا قبرستان اسلام پسندوں نے ہی بنایا ۔اسی لئے ان کے سامنے یہی نظریہ اور اس پر عمل پیرا افراد سب سے بڑے مجرم ہیں۔ اس دور کے انداز نرالے ہیں یہاں جو کوئی ذرا سی مذہب کی بات کرے اس پر بناید پرستی کا ٹھپہ لگادیا جاتا ہے ۔ خواہ وہ اس مذہب کی پیروی پوری طرح کرتا ہو یا نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں غالب قوتوں کی جانب سے بنیاد پرستی کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے اور دہشت گردی کے تار اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ دیئے گئے۔دہشت گردی بھی عجیب بلا ہمارا مخالف کرے تو دہشت گردی اور ہم کریں یا ہماری حکومت یا ہمارا نظریاتی شراکت دار کرے تو اس کے خلاف جنگ ٹھہری۔بہر حال آج ہم نے بنیاد پرستی ، شدت پسندی یادہشت گردی کو موضوع اس لئے بنایا ہے کہ 14 ؍اگست کو حیدر آباد میں اپنی کتاب ’’جہاد ی ہندوستان کے لئے خطرہ‘‘(Jihadist Threat to India )کی رسم اجراء میں بی بی سی اردو کے سابق صحافی طفیل احمد نے الزام عائد کیاکہ اردو میڈیا بنیاد پرستی (شدت پسندی اور دہشت گردی )کو بڑھاوا دینے کا ذمہ دار ہے۔انہوں نے اسلامی مبلغین کے خلاف سخت ایکشن لینے کا مطالبہ بھی کیا۔حیدر آباد کے ایک اردو صحافی کے بموجب اس پروگرام میں کوئی اردو صحافی مدعو نہیں تھے۔ اس غالبا نیو ایج اسلام نام کی ایک ویب سائٹ نے آرگنائز کیا تھا جس کے فاؤنڈر ایڈیٹر سلطان شاہین ہیں ۔اسے صرف نیو انڈین ایکسپریس نے رپورٹ کیا اس کے علاوہ کہیں اور یہ رپورٹ نظر نہیں آئی ہاں نیو ایج اسلام کی ویب سائٹ پر بھی یہ خبر موجود ہے اس کی وجہ بھی شاید یہ ہے کہ اس اجلاس کو نیو ایج اسلام نے ہی آرگنائز کیا تھا ۔اگر آپ مذکورہ ویب سائٹ پر جائیں اور مختصراً اس کے مشمولات کا معائنہ کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کس قبیل کی ویب سائٹ ہے اور اس سے وابستہ افراد کون ہیں ۔اس میں کناڈین نژاد پاکستانی طارق فتح کے بھی مضامین نظر آئیں گے ۔طارق فتح تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کی حمایت کرتا ہے۔اسلام کی من مانی تاویل کرتا ہے ۔اس کے بارے میں اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ میرے ایک ایسے دوست جو مسلمانوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے عالموں کا محبوب مشغلہ مسلمانوں کو کافر بنانا ہے ان کا بھی اس شخص کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ جب کوئی بات کرتا ہے تو وہ اتنی غیر منطقی ہوتی ہے کہ من کرتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔!اب جس ویب سائٹ پر طارق فتح جیسے لوگ ہوں جس نے تسلیمہ کی مدح سرائی کی ہو اور جو سلمان رشدی جیسوں کی حمایت کرتا ہو اس سے امت مسلمہ کے کیا توقعات ہو سکتے ہیں یہ بخوبی سمجھا جاسکتا ہے ۔
اوپر کے سطور میں بی بی سی کے جس سابق صحافی کے الزامات کی بات کی گئی ہے ہم اس کا تجزیہ کرتے ہیں کہ کیا واقعی اردو اخبارات بنیاد پرستی (دہشت گردی اور شدت پسندی )کوفروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں ۔اس پر آگے بات کرنے سے پہلے ایک بات اور کہہ دینا مناسب معلوم ہو تا ہے ایک اجلاس میں جس میں میڈیا سے مسلمانوں کے تعلقات پر گفتگو ہو رہی تھی ، کسی نے الزام لگایا کہ اردو اخبارات یا اردو میڈیا صرف مسلمانوں کی بات کرتے ہیں اور ان ہی مسائل میں الجھے رہتے ہیں ۔اس پر ایک مشہور روزنامہ کے صحافی قطب الدین شاہد نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ اردو اخبارات کے قاری اب مسلمانوں کے سوا کون ہے ؟ہم مسلمانوں کی بات اس لئے کرتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان بنادی گئی ہے ۔اردو اخبارات صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں ‘‘۔لیکن یہ جھوٹ ہے کہ اردو اخبارات صرف مسلمانوں کے مسائل ہی اٹھاتے ہیں ۔ اردو اخبارات کے تعلق سے غلط فہمیوں کو فروغ دینے کے لئے طفیل احمد اور سلطان شاہین جیسے لوگ ذمہ دار ہیں ۔جو اردو دنیا کے تعلق سے غیر اردو دنیا میں غلط خبریں اور تجزیے ارسال کرتے ہیں ۔غیر اردو داں طبقہ میں اس غلط فہمی کے پھیلنے کا سبب یہ بھی ہے کہ وہ اردو سے ناواقف ہیں ۔وہ راست اردو دنیا کی باتیں نہیں سمجھ سکتے ۔انہوں نے کچھ لوگ بٹھا رکھیں ہیں جو منفی باتیں ہی غیر اردو دنیا کو پہنچاتے ہیں ۔اردو اخبارات اور ان کے ایڈیٹر جو کہ واقعی ایڈیٹر ہیں ان کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وہ غیر اردو داں صحافیوں اور ادیبوں سے زیادہ قابل اور حالات پر زیادہ باریک بینی سے نگاہ رکھنے والے ہوتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ ہماری نام نہاد جمہوریت میں غیر اردوداں صحافی یا ادیب کو جو کچھ بولنے کی آزادی ہے وہ آزادی اردو کے صحافیوں یا ادیبوں کو حاصل نہیں ہے ۔اگر اردو کے صحافی یا ادیب اتنی جرات دکھائیں گے تو انہیں واقعی پاکستان بھیجنے کی ساری کارروائی انجام دے دی جائے گی ۔
طفیل احمد اور سلطان شاہین جیسے لوگ اردو اخباروں یا اردو میڈیا پر ایسے گھٹیا الزامات کیوں لگاتے ہیں ؟اس کے لئے ان کی نفسیات کو سمجھنا ضروری ہے ۔اردو عوام چونکہ اسلام کے داعی ہیں اور اسلام انہیں برائیوں سے خود بھی بچنے کی تلقین کرتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ اپنے خاندان اور معاشرے کو بھی اس برائی سے بچائیں ۔جبکہ طفیل احمد اور سلطان شاہین جیسے لوگ اس مادر پدر آزادی کی بات کرتے ہیں جس کا انجام ہم اپنے سامنے ہر روز دیکھ بھی رہے ہیں اور اخبارات میں اس کے تعلق سے خبریں بھی پڑھ رہے ہیں ۔یہ لوگ چونکہ خدا بیزار ہیں انہیں عقیدہ آخرت سے انکار ہے اس لئے وہ اگر اخلاق کی بات بھی کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں انسان کو خود ہی کوشش کرکے سماجی برائیوں سے بچنا چاہئے ۔لیکن ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں کہ آخر انسان خود سے ہی بغیر کسی خدائی قانون اور عقیدہ آخرت کے برائی سے کیوں نہیں بچ پارہا ہے ۔امریکہ اور روس اپنے یہاں بہتر انتظامی صلاحیت رکھنے کے باوجود جرائم پرکیوں قابو نہیں کر پاتے کیوں امریکہ ایک مثالی ریاست ہونے کے باجود عوتوں کے خلاف جرائم میں دنیا میں سب سے آگے ہے؟اس کے برعکس سعودی عرب میں جرائم کی تعداد کیوں انتہائی کم ہے اور پاکستان جیسے دہشت گرد !ملک میں بھی جرائم کی وہ تعداد نہیں جو کسی بھی ترقی یافتہ یا دیگر ترقی پذیر ملکوں کا خاصہ ہے ۔کسی نے ایسے لوگوں کے بارے میں ایک بار کہا تھا یہ لوگ عورتوں کی آزادی کی آڑ میں عورتوں تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں۔اگر مسلمانوں اور کمزوروں کے حقوق کی بات کرنا ۔انسان کو اخلاقیات کا سبق دینا ۔مسلمانوں کو ان کے بھولے ہوئے اسباق یاد دلانا بنیاد پرستی (شدت پسندی دہشت گردی)کو فروغ دینا کہلاتا ہے تو بلاشبہ اردو اخبارات یہ کام کررہے ہیں اور انہیں اس کے لئے کسی بد دین اور مادر پدر آزاد معاشرے کے مبلغ کے نصیحت کی ضرورت نہیں ۔اگر کسی کی آنکھ کھلی ہو اس میں دیکھنے کی صلاحیت ہو اور دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا ہو تو وہ آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے اور محسوس کرسکتا ہے کہ اردو اخبار کا ہی کام ہے کہ اس نے ظلم و ستم کی ساری حدوں کے باوجود مسلم نوجوانوں کو تشدد کے راستوں پر جانے سے روک رکھا ہے ۔ورنہ جس قدر فرقہ پرست اور اس کے ہمنوا ہمارے حکومتی اہلکار وں نے مسلمانوں کی آبادی ان کے روزگار ان کے مستقبل کی امید نوجوانوں کو نقصان پہنچایا ہے اگر یہ اردو کے اخبارات ان کی رہنمائی نہ کرتے تو ملک اب تک خانہ جنگی میں گھر چکا ہوتا ۔بجائے اس کے کہ اس کے لئے اردو اخبارات کے وطن کے تئیں ان احسانات کوبنظر تحسین دیکھا جاتا انہیں ایسے دلال قسم کے صحافیوں اور بدکار سماجی کارکنوں اور مادر پدر آزاد اسکالر کی جانب سے ہدف تنقید بنانا ۔انہیں بدنام کرنا شرمناک ہے ۔اس کے لئے اردو اخبارات ،قارئین اور مسلم تنظیموں کو نوٹس لینا چاہئے تاکہ اردو اخبارات کو بدنام کرنے والوں کو دفاعی پوزیشن میں جانا کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئے۔
مذکورہ بالا اشخاص کا یہ بھی خیال ہے کہ اردو اخبارات خبریں کم اور خدائی احکامات زیادہ شائع کرتے ہیں ۔ اس کے لئے وہی جواب ہے جو قطب الدین شاہد نے دیا تھا ۔اردو اخبارات میں کئی ایسی چیزیں شائع ہوتی ہیں جو مسلم معاشرے میں تنقید کا نشانہ بنتے ہیں ۔ہمارے کئی دین دار حضرات جو کہ صاحب ثروت بھی ہیں وہ بھی اس پر صرف تنقید کرکے رہ جاتے ہیں لیکن انہیں یہ سوجھتا کہ آخر آپ کی زبان آپکی آواز اردو کے اخبار ات کی مالی مدد کرنے کے لئے جبرئیل امین نہیں آئیں گے یہ آپ کی ہی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنی زبان اور کلچر کی خود ہی حفاظت کریں اور جس پر اس کی ذمہ داری ہے یا وہ ازخود اس ذمہ داری کو نبھا رہا ہے اس کی مدد کریں ۔ آپ کو ضرورت ہو کہ نہیں اپنے پروڈکٹ کا اشتہار اردو اخبارات کو دے کر ان کی مدد کریں تاکہ آپ کی آواز محفوظ رہ سکے ۔اس پرایسا ک کوئی حاوی نہ ہوسکے جس کا مقصد ہی آپ کی آخری آواز بھی دبا دینا ہے۔ 

0 comments: