ملک کا داخلی انتشار اور بلوچستان کی باتیں
نہال صغیر
پندرہ اگست کو وزیر اعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے قو م کو خطاب فرماتے ہوئے پاکستان کو خوب کھری کھری سنائیں نیز بلوچستان کا مسئلہ بھی اپنی گفتگو کا حصہ بنایا ۔اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوئے پتہ نہیں ۔بلوچستان کا معاملہ اٹھانے سے کشمیر کے معاملے میں پاکستان کس قدر اپنی موقف سے پیچھے ہٹا ۔اس کی بھی جانکاری ابھی نہیں مل پائی ہے اور اتنی جلدی کچھ معلوم بھی نہیں ہو سکتا ۔ہو سکتا ہے کہ کشمیر کے موجودہ خلفشار میں پاکستان کا ہاتھ ہو ۔کسی ایک نوجوان کو سلامتی دستوں نے گرفتار بھی کیا ہے اور اس نوجوان نے یہ قبول بھی کیا ہے کہ اسی نے موجودہ شورش کی معاونت کی ہے اور پاکستان سے آیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا کشمیر کی ہر شورش میں صرف ایک ہی شخص آتا ہے اور اس عوام اس کے کہنے یا کسی منصوبہ کے تحت اس تخریبی سرگرمیوں کے مددگار بن جاتے ہیں ۔اس سے قبل بھی کشمیر جب لمبے عرصے تک تشدد کی لپیٹ میں تھا اور کئی انسانی جانوں کا ضیاع ہو ا تھا ۔تب بھی سلامتی دستوں نے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہی شخص اس سارے فساد کا ماسٹر مائنڈ ہے اور اب پھر ایک نوجوان کو گرفتار کرکے ہمارے سلامتی دستے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے!کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہو تی ہے کہ وہ اپنے عوام کی زندگی کو سہل بنانے کی کوشش کرے ۔انہیں بنیادی انسانی ضروریات فراہم کرنے کی پالیسی وضع کرے ۔لیکن آزادی کے ستر سال بیت جانے کے باوجود ملک کے عوام کی نصف سے زائدتعداد خط مفلسی سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔آج بھی اکثر گاؤں ترقی کے موجودہ فوائد سے نا آشنا ہیں۔دو سال قبل چھتیس گڑھ سے خبر آئی تھی کہ ایک نوجوان اپنی حاملہ بیوی کو کئی کلو میٹر پیدل لے کر سڑک پر پہنچا جہاں سے اسے سواری کے ذریعہ ہسپتال پہنچایا گیا۔ابھی دو چار روز قبل بھی ایسی ہی ایک خبر اور اس کے تعلق سے ایک فوٹو نے مایوس کیا ۔ملک کی یہ حالت ہے اور ہمارے سیاست داں خصوصی طور پر وزیر اعظم دنیا جہان کی باتیں کرتے ہیں۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست داں ہمیں جذباتی باتوں میں الجھاتے ہیں اور ہم آسانی سے ان کے شکار ہو جاتے ہیں ۔
بات انتشار کی چلی ہے پڑوسی ملک کی زمین پر تشدد یا علیحدگی کی بات چلی ہے تو اس پر پتھر اچھالنے سے پہلے ہمیں اپنے جسم کا معائنہ ضرور کرنا چاہئے کہ کہیں ہم خود تو شیشے کے نہیں کہ مبادا جو پتھر ہم پڑوسی کے جسم پر مارنے کی کوشش کررہے ہیں وہ الٹا ہم پر ہی آکر پڑے اور ہم زخمی اور لہو لہان ہو جائیں ۔پاکستان کی سرزمین پر بلوچستان کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ پاکستان کی تاریخ ۔اتنی قدر یا اس سے کچھ کم یا زیادہ کشمیر کا معاملہ بھی ہے ۔کشمیر کا معاملہ پاکستان اور ہندوستان کے لئے جھگڑے کے بنیادی اسباب میں سے ہے ۔لیکن بلوچستان کا تعلق وطن عزیز سے اسے طرح نہیں ہے جس طرح ہمارے یہاں کے شمال مشرقی ریاستوں کی شورش سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔وزیر اعظم کا بلوچستان کا معاملہ اٹھانا اسے بحث کا موضوع بنانا غیر منطقی ہے ۔ہاں ہمیں ظلم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے ۔مظلوموں کی اشک سوئی سے کوئی ہمیں نہیں روک سکتا ۔لیکن اس سے پہلے ہمیں خود بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ آیا ہمیں یہ اخلاقی قوت حاصل ہے کہ ہم دنیا کے دیگر مظلومین کی حمایت میں ملکی یا بین الاقوامی فورم پر آواز اٹھائیں ۔اس وقت دنیا کی سب سے مظلوم قوم فلسطینی ہیں لیکن ہم نے تو ان سے اپنا دامن بچالیا ہے ۔الٹے ہماری حمایت اور دوستی کی پینگیں اسرائیلوں کے ساتھ بتدریج ترقی پر ہیں جبکہ فلسطینیوں کو اس حالت میں پہنچانے کا ذمہ دار اسرائیل ہے جس نے ان زمین چھین کر ان کی ہی سر زمین پر انہیں مہاجر بنادیا ہے ۔لیکن ہم وہاں ظالم کے ساتھ ہیں اور مظلوم کو اور ان کی اس تنظیم کو جو ان کی آزادی کے لئے سربکف میدان میں ہے ہمارا سرکاری میڈیا دہشت گرد کہتا ہے ۔جبکہ ابھی دو دہائیوں قبل تک ان کے لئے مزاحمت کار کا لفظ استعمال ہوتا تھا ۔ آخر یہ ایک دو دہائی میں ہی ملک جسکا سب سے بڑا حمایتی تھا انہیں کس کے اشاروں یا کن انسانی اقدار کی بنیاد پر ہمارا دشمن اور دہشت گرد قرار پایا؟یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات ہیں جو ہماری خارجی پالیسی کے تعلق سے ہیں۔اس کا جواب کون دے گا ؟
ملک میں داخلی طور پر بھی راوی چَین ہی چَین نہیں لکھتا ۔ہمیں درجنوں علیحدگی پسند تحریکوں اور تشدد کا سامنا ہے اور جہاں پاکستان دور دور تک نظر نہیں آتا ۔ہم ان قوتوں کو پہچانتے بھی ہیں کہ کون ہے جو ان تحریکوں کی پشت پناہی کررہا ہے ۔لیکن پتہ نہیں کن وجوہات کی بنا پر ہمارے لبوں پر خاموشی ہے ۔پوری شمالی مشرقی ریاستیں شورش زدہ ہیں ۔وہاں کئی علیحدگی پسند تنظیمیں سرگرم ہیں ۔اس کے بعد مغربی بنگال سے اتر پردیش کے نیپال کے بارڈر تک نکسل تحریک کا زور ہے ۔خصوصی طور پر مہاراشٹر کے کچھ حصے جھاڑ کھنڈ اور چھتیس گڑھ نیز بہار اور آندھرا پردیش میں نکسل تحریک نے حکومتی اداروں کا ناک میں دم کررکھا ہے ۔چھتیس گڑھ اور مہاراشٹرمیں تو وہ بدلہ چکانے میں دیر بھی نہیں کرتے ۔اگر سلامتی دستوں کے ہاتھوں کوئی نکسلی مارا جاتا ہے (حالانکہ نکسلیوں کی ہلاکت تنازعہ کا شکار رہتی ہے ۔جس کو سلامتی دستے نکسلی دہشت گرد کہہ کر انکاؤنٹر میں ہلاک کرتے ہیں دوسرے تیسرے دن ہی سوشل ایکٹیوسٹ اسے عام آدیواسی کہہ کر سلامتی دستوں کے الزام کی تردید کردیتے ہیں)تو اگلے کچھ دنوں میں وہ اس سے کئی گنا زیادہ سلامتی دستوں کے لئے موت کا سامان کردیتے ہیں۔جنوبی ہند کی بات بھی کی جانی چاہئے یہاں ندیوں کے پانی کے بٹوارے پر ایک ریاست دوسری ریاست سے دست گریباں رہتی ہے۔اس کے علاوہ اگر کبھی ہندی کی بات کی جاتی ہے تو ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے ۔شمال مشرقی ریاستوں کی علیحدگی پسند اور پر تشدد تحریک نیز نکسلائٹ کو کون مدد دے رہا ہے ۔اس کی خبریں اختصار کے ساتھ میڈیا میں آتی رہی ہیں۔حالانکہ ان خبروں کو جتنا کوریج ملنا چاہئے وہ نہیں مل پاتا ۔پتہ نہیں یہ حکومت کی پالیسی اور ایمرجنسی جیسی کوئی کیفیت ہے کہ انہیں کوئی حیثیت نہیں دی جاتی ۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب چین ہماری سرزمین میں در اندازی نہیں کرتا لیکن اس کی خبریں پتہ نہیں کیوں سینسر کی جاتی ہیں ۔اکثر انٹر نیٹ پر اس کی خبریں پوسٹ ہوتی ہیں لیکن اسی ویب سائٹ کی پرنٹ ایڈیشن سے یہ خبر غائب رہتی ہے ۔اس پر سیاست داں بھی خاموش ہی رہتے ہیں ۔پارلیمنٹ میں بھی کوئی آواز نہیں اٹھتی ۔کسی نے کوئی سوال کرلیا تو اس کا جواب دے دیا گیا اور بس ۔شاید ایک بار پارلیمنٹ میں پرزور طریقے سے جارج فرنانڈیز یا ملائم سنگھ کے دور وزارت دفاع میں اس پر کوئی بحث ہوئی تھی ۔اور یہی دونوں وزیر دفاع ہیں جنہوں نے علی الاعلان یہ کہا بھی کہ پاکستان نہیں چین ہے ہمارا اصلی دشمن ۔ ان کے علاوہ کسی سیاست داں کی آواز نہیں سنائی دی ممکن ہے کہ کسی اور نے بھی کوئی آواز کبھی بلند کی ہو ۔مجھے بھی خلش رہتی ہے کہ آخر ہمارے سیاست داں صرف پاکستان پاکستان کی گردان کیوں کرتے رہتے ہیں ۔ہر جگہ گفتگو میں اکثر میرا سوال رہتا ہے لیکن اس تسلی بخش جواب بہت کم مل پاتا ہے ۔ایک دلت لیڈر سے بھی میں سوال کیا کہ پاکستان سے ہمارا کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے سیاست دانوں کی زبان پر صرف پاکستان ہی کا نام رہتا ہے ایسا کیوں ؟ان کا جو جواب تھا وہ میں یہاں بیان نہیں کرسکتا حالانکہ ان کی طرف سے اجازت تھی کہ آپ اس کو ایسے ہی لکھ سکتے ہیں ۔لیکن اردو زبان کی تہذیب و سائشتگی ایسا جواب لکھنے سے منع کرتی ہے ۔کسی صحافی دوست نے اس سوال کا جواب یہ دیا کہ چین پر کوئی سیاست نہیں ہو سکتی نہ ہی اس بہانے کسی کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے لیکن پاکستان کو گھسیٹنے اور اس کے نام کی جاپ کرنے میں یہ فائدہ ہو تا ہے کہ اس سے سیاست گرماتی ہے اور مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے میں آسانی رہتی ہے ۔نیز یہاں کی اکثریتی آبادی کے سامنے ایک فرضی دشمن کی شبیہ بڑی آسانی سے بنائی جاسکتی ہے۔بہتر ی اسی میں ہے کہ وزیر اعظم سمیت دوسرے سبھی سیاست داں وطن عزیز کے عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں اور حقیقی دشمن کے لئے تیاریاں کریں ۔اس سے ملک اور اس کے عوام کا بھی فائدہ ہوگا اور ہمارے ہی جسم کے ایک ٹکڑے سے ہماری دشمنی دوستی میں بدل سکتی ہے جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ یہ خطہ کسی بھی بڑی قوت کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا ۔اس کا دفاع ،اس کی معیشت اور معاشرت سب پر اس کے انقلابی اثرات مرتب ہوں گے جس سے دنیا بھی فیضیاب ہو گی اور برسوں پرانا یہ خواب کہ ہندوستان دنیا کی رہنمائی کرے شرمندہ تعبیر ہو پائے گا۔
0 comments: