اے خا کِ وطن قر ض ادا کیوں نہیں ہوتا
عفیفہ مطیع الرحمن (ممبئی)
آزادی اور جمہوریت دو ایسے لفظ ہیں جو کسی بھی ملک کے شہری کے لئے کافی اہمیت رکھتے ہیں ۔کتنی خوشی سے ہم اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم ایک آزاد جمہوری ملک کا حصہ ہیں۔ جمہوریت کی بنیادیہ ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کوان کا بنیادی حق اس طرح ملے کہ وہ آزادی کے ساتھ زندگی گذارسکیں۔ سب کواختیار ہو کہ وہ دستور میں دئیے گئے حقوق سے مستفید ہوسکیں۔
تاریخ کے صفحات اور ہندوستان کی سر زمین گواہ ہے کہ ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں مسلمانوں نے بھی اپنی جا ن کا نذرانہ پیش کیا تب کہیں جا کر ہندوستان اور اس میں بسنے والوں کو آزادی نصیب ہوئی ۔ یہی نہیں بلکہ انگریزوں کے خلاف ہندو مسلم ساتھ ساتھ رہے۔ لیکن آج کے حالات کچھ اس طرح ہیں کہ اس ملک کے امن و امان اور بھائی چارے کے ماحول کو فرقہ پرست خاک میں ملا دینا اور یہاں کی گنگاجمنی تہذیب کو ختم کر دینا چا ہتے ہیں۔
کسی بھی قوم کی تاریخِ عروج و زوال میں حکمرانوں کا اہم رول ہوتا ہے ۔ قائد اگر اپنے عوام کیلئے واقعی مخلص ہو تو یہیں سے اس قوم کے عروج کا آغاز ہوتا ہے مگر جب قائد خودہی خائن ورہزن بن جائے تو ملک کا زوال یقینی ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان کی سب سے بڑی بد نصیبی یہی رہی ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک کوئی ایسا رہبر نہیں ملا جو ملک یا اس کے عوام کے تعلق سے مخلص ہو۔ آزادی سے قبل اس ملک میں انگریزوں نے ظلم کی کھیتی کی تو آزادی کے بعد امن کے ٹھیکہ داروں نے اس کھیتی کو اپنے جرم کے پانی سے سیراب کیا۔ جب الوطنی کی تاریخ شاید بہت قدیم ہو مگر قومییکجہتی کی کوشش ہندوستان میں ہمیشہ شعوری رہی ہے۔ خاص کر انگریزوں کی حکومت میں جنہوں نے لڑ اؤ اور حکومت کرو کافار مولہ اپنایا اور ہندوستان کی دو بڑی قوموں کو ہمیشہ آپس میں لڑایا اور حکومت کی۔ بر صغیرکی آزادی کے وقت یہ آگ بہت زیادہ بھڑ کی اور مذاہب کے نام پر ملک کی تقسیم عمل میں آئی جس کا خمیازہ آج بھی بھگتنا پڑرہا ہے اور گاہے گاہے ہندوستانی مسلمانوں کو اس کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے جبکہ ۔
ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن
اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
ملک میں جگہ جگہ فر قہ وارانہ فسادات فرقہ پرستوں کی زہر یلی سیاست کا نتیجہ ہے۔فرقہ پرست عناصر اس ملک کو فسادات کی آگ میں جھو نکنا چاہتے ہیں ۔ کہیں بھی کسی بھی طرح کے معاملات ہوں اسے فوراََ ہندو مسلم فسادات کا رنگ دے دیا جاتا ہے اور پھر مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو لٹتے دیر نہیں لگتی۔ ہماری تہذیب گنگا جمنی کے عنوان سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اسی جذبۂ ا خوت کو پھر سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کیو نکہ اگر ایسا نہیں کیاگیا تو یہ ملک بدامنی اور خانہ جنگی کی آ ما جگا ہ بن جائے گا۔
جمہوریت اور آزادی کا خواب ہمارے ہندوستانی عوام نے بڑے ذوق و شوق سے دیکھا تھا جو ادھورا ہے ، تشنۂ تعبیر ہے۔ اسے پورا کرنے کے لئے سخت جد و جہد اور بے لوث سیاسی و معاشی قیادت کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہمارے سروں پر مسلط خود غرض اور استحصالی حکمرانوں کی حکومت ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں احساسِ عدمِ تحفظ پایا جا تا ہے۔ کر سی کیلئے ضمیروں کو بیچ کھانے والے حکمرانوں نے اپنے حقیر سیاسی اغراض کے لئے پورے ملک کو ذات برادریوں میں تقسیم کر رکھا ہے جس سے قومی یکجہتی خطر ے میں ہے۔
اقتد ا ر کی ہو س رکھنے والے سیاست داں اپنا اُلّو سید ھا کرنے کے لئے گلا پھاڑ پھاڑ کر قومی اتحاد کے ڈنکے بجاتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ اس ملک میں انسانی حقوق پا مال ہور ہے ہیں۔ گجرات سے لے کر کشمیر اور مظفر نگر تک کی تاریخ کس قدر خاک و خون میں لتھڑی ہوئی ہے۔ اس ملک میں خواتین کی عزت و آبرو کے بھی دو پیمانے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبر دار جہاں دلی کی عصمت دری کے واقعہ پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ملک کے مختلف مقامات پر کینڈل مارچ کرتے ہیں وہیں یہ لوگ احمد آباد، مظفر نگراور کشمیر کی سینکڑوں مسلم خواتین کی عصمت دری پر کوئی آواز نہیں اٹھتی ۔
شہری آزادیاں غارت ہو رہی ہیں، معصوم و بے گناہ لو گ دن دہا ڑے ما رے جا رہے ہیں، بے گناہ تختۂ مشق بن رہے ہیں اور مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہا یا جا رہا ہے۔ مجرموں کی خود غر ضانہ سیاست کی پشت پناہی نے حکام کی زبانوں پر تالے، آنکھوں پر پٹیاں اور ضمیر پر لا پرواہی کی دھول جما دی ہے۔ یہ سب ان خوابوں کی نفی ہے جو عوام نے انگریز سا سراج کے خلاف دیوانہ وار جد و جہد کے دوران دیکھے تھے اور مسلمانوں نے آزادی کی لڑائی میں جس طرح اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا وہ قابل تعریف ہیمگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ:
جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خون ہم نے دیا
اب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
مذہبی عدمِ رواداری سے دنیا بھر میں ہندوستان کی شبیہ بگڑگئی ہے۔ سینکڑوں ہندوستانی ادیبوں، شاعروں اور سماجی خدمت گاروں نے اپنے ایوارڈ س صرف اس لئے لو ٹا دئے کہ یہاں عدمِ رواداری کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
مودی کی حکومت مسلمانوں کیلئے کسی ڈراؤ نے خواب سے کم نہیں ۔ گائے کی محبت میں انسانوں کا قتل اور صرف شک کی بنیاد پر ہنستے کھیلتے گھرانوں کو تبا ہ و بربا د کرنا یہ وہ وحشیانہ حرکتیں ہیں جو مذہب کی آڑ میں کی جا رہی ہیں۔ فرقہ پرست اتنے دلیر ہو چکے کہ وہ چھپ چھپا کر واردات انجام دینے کے بجائے اب کھل کر اقلیتوں کے خلاف میدان میں آ چکے ہیں۔
اسلام رواداری ، محبت ، شا ئستگی ، شرافت اور انسانیت کی تعلیم تو ضرور دیتا ہے لیکن ایسی عاجزی ، بے بسی ، مجبوری و لا چاری کا درس نہیں دیتا جس سے دشمنوں کے حوصلے بلند ہوں اور وہ ظلم و بر بریت میں بے پاک ہو جائیں بلکہ ان کے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور ان کے تناسب سے جواب دینے کا بھی حکم دیتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دفاع مد مقابل کو اقدام کرنے سے باز رکھتا ہے اور دفاع انسانی،فطر ی اور جمہوری حق ہے۔ پانی کا سر سے اونچا ہو جانا اور خاموش تما شائی بنے رہنا کوئی عقلمند ی کی بات نہیں بلکہ جمہوری طریقے سے اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ اپنے ہم وطنوں کو فرقہ پرستی کی آگ سے نجات دلانا ہماراوطنی وانسانی فریضہ بھی ہے۔ اپنے ملک کو نفرت و عناد پرستی کے زہر سے پاک کرنا اور اسلام کی تعلیم کے مطابق اخوت و مساوات، عدل و انصاف اور امن و اما ن کی فضا پروان چڑھا نا، بحیثیت خیرِ ا مت ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب شفاف انتخابات کے لئے آئینی، سیا سی اور قانونی اصلاحات کی جائیں۔ ان اصلاحات کے بغیر انتخاب عوام اور وطن سے فراڈ ہے ، انتخابات ہر حال میں آزادانہ
او رمنصفانہ ہونے چاہئے عوام اپنی بہتری کے لئے ووٹ کا استعمال ضرور کرے اور سوچ سمجھ کرکرے کیونکہ انتخابات کے ذریعہ ہی ملک میں تبدیلی آسکتی ہے۔ شفاف انتخابات کے ذریعہ ہی ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہو سکتی ہیں اور تبھی اس کا فائدہ عوام النا س کو پہنچ سکتا ہے۔
ملک میں قانونی اصلاح اور عوام کی بہتری کے لئے خاموش انقلاب ووٹ کی طاقت سے ہی برپا کیا جا سکتا ہے۔ بشر طیکہ یہ ووٹ کسی خوف، تر غیب و تحر یص ، اقرباء پروری، ذات برادری اور ذاتی پسند و نا پسند کی بنیاد پر نہ دی جائے بلکہ ضمیر کی آواز پر اپنی آزاد مرضی سے اس کا استعمال کیا جائے۔
یاد رکھیں!حکومت کفر کے ساتھ چل سکتی ہے ظلم کے ساتھ نہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جب تک ہندوستان میں مسلما نوں کی حکومت رہی ظلم و ستم کے بجائے عدل و انصاف کو روارکھا گیا اور ملک کے باشندوں کو بلا تخصیصِ مذہب و ملت ہمیشہ ایک آنکھ سے دیکھا گیا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کسی طرح کا امتیازی سلوک نہیں کیا گیا ۔ اگر مسلمانوں نے امن و انسانیت کو مقدم نہیں رکھا ہوتا تو آج ایک بھی غیر مسلم نظر نہیں آتا۔
اسلام وہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات میں امن و سلامتی کا عنصر زیادہ ہے ۔ وہ تمام معاملات میں ان پہلوؤں کو اختیار کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے جس میں نہ خود کوئی زحمت اٹھانی پڑے اور نہ دوسروں کو کوئی تکلیف ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ حکمت اور صلح جوئی کو تر جیح دیتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب فر یق ثانی سے زیادتی اور جھگڑ ے کا اندیشہ ہو۔
بلا شبہ آج بھی مسلمانوں کے ذریعہ ہی پوری دنیا میں امن و امان پیدا ہوسکتا ہے اس لئے کہ اسلام اپنے حسنِ اخلاق اور ہمہ گیر نظام سے دنیا کو پھر امن سے بھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور امیر و غریب، کمزورو قوی کو اپنا گرویدہ بنانے کی خصوصیت رکھتا ہے ۔لیکن جب ہم اسلام کی تمام خوبیاں اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کریں گے تو یقیناًپھر اللہ ہمارے ساتھ ہے اور غلبہ تو اللہ کے اختیار کی چیز ہے ۔ ہماری تو بس پرخلوص کوشش ہی اللہ کو درکا رہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان جہاں بھی ستائے جارہے ہیں ان تمام مسلمان بھائی بہنوں کو امن و امان کی زندگی نصیب ہو اور ظلم و بر بریت کی زندگی سے نجات ملے (آمین)
ہند کی زمیں ہے یہ ، ہم ہیں قدر داں اس کے
ہم ہی اس کے والی ہیں ہم ہیں پاسباں اس کے
اپنے خوں سے سینچا ہے ہم نے اس کی مٹی کو
ہندو بھی مسلما ں بھی سب ہیں باغباں اس کے
0 comments: