سنا ہے کہ تو بے وفا ہو گیا
ممتاز میر ۔ برہانپور
دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں؍یاد اتنا بھی کوئی نہ آئے۔اتوار ۲۶ جون کے ممبئی اردو نیوز میں محترم عمر فراہی کا مضمون ’’روبیضہ بولیں گے ‘‘۱۲ سال کی یادوں کو نظر کے سامنے بکھیر گیا۔ان کے استاد ہمارے بھی دوست ،استاد اور بزرگ تھے اور ہیں بھی ۔بس اتنا ہوا کہ جس رشتے سے ہم ایک دوسرے کے قریب آئے تھے ایک دوسرے سے بندھے تھے ایک دوسرے کو مضبوط کیا تھا اب وہ نہ رہا۔شاگردتو ہیں استاد داغ مفارقت دے گئے ہیں ۔انھیں غم روزگار کھا گیا۔ہم کل بھی مسلمان تھے صرف مسلمان۔آج بھی مسلمان ہیں صرف مسلمان۔جبکہ ہمارے دوست ،بزرگ ،استاداب صرف مسلمان نہیں رہے۔ایسا لگتا ہے کہ اب وہ صرف ایرانی ہو گئے ہیں۔ہو سکتا ہے اور بھی کچھ ہو گئے ہیں جو بھی ہو اب وہ بات مولوی مدن کی سی نہیں رہی۔کل جب ہم ایران کی زلف گرہ گیر کے اسیر تھے توان سے زیادہ ایرانی تھے ۔آج مشرق وسطیٰ میں ایرانی کرتوتوں کی بدولت ہم تو ایران کے اسی طرح دشمن ہو گئے ہیں جیسے کے سعودی عرب کے تھے اور ہیں مگر استاد !استاد کو معلوم نہیں کیا ہو گیا ۔ایران کے خلاف ان کا منہ ہی نہیں کھلتا۔ایسے میں دوستی کیسے برقرار رہ سکتی تھی۔ہم تو اللہ کو جواب دہ ہیں صرف اللہ کو ۔اسی لئے رجب طیب اردگان میں لاکھ خوبیوں کے باوجود ہمیں ڈر لگتا ہے کہ وہ کہیں ڈکٹیٹر نہ بن جائے اور صرف اس اندیشے کے تحت اپنی بساط بھر مضامین اس کے خلاف لکھ چکے ہیں ۔کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو یہ ملت کا بہت بڑا نقصان ہوگا استاد کی خدمت میں عرض ہے کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے ۔میری امت کی نشاۃالثانیہ میرے طریقے پر چل کر ہی ہو سکے گی ۔ایک اور حدیث یہ کہتی ہے کہ مومن قاتل ہو سکتا ہے زانی ہو سکتا ہے چور ہو سکتا مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا ۔استاد کی خدمت میں دوبارہ عرض ہے کہ وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس کے یہاں تقیہ مذہبی اہمیت رکھتا ہو ۔دوسری طرف رجب طیب اردگان کو ڈکٹیٹر بننے سے روکنا ہم اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔کیونکہ حضور ﷺ نے اپنے کئی فیصلے صحابہء کرام سے مشوروں کے بعد بدل دئے تھے۔ استاد سے پہلی ملاقات اردو ٹائمز کے ان کے دفتر میں اکتوبر ۲۰۰۴ میں ہوئی تھی۔اور اس ملاقات کا صد فی صد کریڈٹ معروف صحافی جناب سعید حمید کو جاتا ہے۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس ملاقات کے تعلقات میں تبدیل ہونے پر سب سے زیادہ تکلیف جناب سعیدحمید کو ہی ہوئی۔اس ملاقات کے بعد ہمارے تعلقات بڑھنے شروع ہوئے اور یہاں تک پہونچے کہ استاد جب حج کو گئے تو Nominee ہمیں بنا کر گئے ۔ شاید یہ بات ان کے کچھ پرانے چمچوں کو بری لگی اور وہ ہمیں اپنا حریف گرداننے لگے ۔ہماری پرورش کچھ یوں ہوئی ہے کہ کسی سے مرعوب نہیں ہوتے جب ہمارا مطالعہ کسی قابل ہوا تو والد محترم نے خود اپنے آپ سے اختلاف کرنے کی آزادی دی ۔اسی ذہنیت نے ہمیں استاد سے کئی بار اختلاف پر مجبور کیا ۔اپریل ۲۰۱۱ میں جب ہم نے استاد کے ایک مضمون پر تنقید کی تو استاد کو تو برا نہیں لگا مگر ان کے ایک چمچے کو برا لگ گیا ۔اسے ہی کہتے ہیں نا۔ دیگ سے زیادہ چمچہ گرم۔
ہمیں یاد آتا ہے کہ ایک محفل میں ممبئی یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہء اردو جناب معین الدین جنابڑے نے استاد سے کہا تھا کہ انھوں نے اپنے ارد گرد بڑی زبردست ٹیم جمع کرلی ہے ۔اسی ٹیم کے چند ممبران نے استاد کی خواہش پر استاد کی قیادت میں صحیفہء والدین نامی ایک میگزین نکالا تھا ۔ہمیں پہلے ہی دن سے معلوم تھا کہ اسے جلد یا بدیر بند ہونا ہے کیونکہ ہم جس قسم کے مضامین لکھتے ہیں ایسے لوگوں کو کوئی اشتہارات کیوں دیگا اور دیگا تو حکم زباں بندی بھی دیگا۔بہرحال ایک سال میں یہ میگزین ایک لاکھ کا نقصان کروا کر بند ہوگیا ۔اس میگزین کی میٹنگ ہر ماہ ہمارے غریب خانے پر ہوتی تھی ۔تیسری یا چوتھی میٹنگ میں جناب دانش ریاض نے استاد کے تعلق سے کہا کہ وہ شیعہ ہیںیہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ ہم گنگ رہ گئے۔غصہ ہمیں بہت آیا مگر ہم خاموش رہ گئے۔پھر ۳؍۴ سال بعدیہ بات ہمارے دوست ہمارے پیر بھائی محترم عمر فراہی نے بھی دہرائی۔تب تک شکوک ہمارے اندر بھی جڑ پکڑ چکے تھے ۔مگر ہم حسن ظن سے کام لیتے رہے اور محترم عمر فراہی کوبھی حسن ظن سے کام لینے کی تلقین کی ۔ا س وقت شام کا مسئلہ شروع ہو چکا تھا ۔ہم یہ سمجھتے تھے کہ ایران جو اس دنیا میں اسلامی انقلاب کا سب سے بڑا ٹھیکیدار ہے شام میں اخوان المسلمون کا ساتھ دے گا بلکہ تخت پر بٹھا کر ہی دم لے گامگر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایران نے علوی نصیری بشارالاسد کا ساتھ دینا شروع کیا اور ساتھ ساتھ اپنے طفیلی حزب اللہ کو بھی تن من دھن سے بشارالاسد کا تخت بچانے پر لگا دیا ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ استاد خود اپنے مضامین لکھ چکے ہیں کہ ایران کے جید شیعہ عالم بشارالاسداور اس کی قوم کے کافر ہونے کا فتویٰ دے چکے ہیں ۔ایران کو شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ بشارالاسد ایک نیا قرآن ایجاد کرنے کی ناپاک جسارت کر چکا ہے ۔سوال یہ ہے کہ اس ناپاک جسارت سے ہم لوگوں کی جو دلی حالت ہوئی وہ اسلامی انقلاب کے ٹھیکیدار ایران کی کیوں نہیں ہوئی؟کیا ایسا نہیں لگتاکہ خبث باطن غیر ارادی طور پر ظاہر ہو گیا ہو۔انھیں قرآن سے وہ نسبت ہے ہی نہیں جس کا ڈھنڈورا یہ اب تک پیٹتے رہے ہیں ۔مئی ؍جون ۲۰۱۲ میں ہم صاحب فراش تھے اور مسلم ایمبولنس امام باڑہ میں ایڈمٹ تھے ۔جون کے اوائل میں بستر علالت پر استاد کا ایک مضمون ایران کی حمایت میں پڑھا ۔ہم نے فوراً فون پر جرح کی مگر انھوں نے مان کر نہ دیا ۔۳؍۴ دن بعد ہم اسپتال سے چھوٹے(جی ہاں۔باہر نکلنے کی بڑی بے چینی تھی)گھر پہونچے تو پہلا کام یہ کیا کہ انتہا درجے کی نقاہت کے باوجود استاد کی ہر ہر دلیل کا رد کرتے ہوئے ایک مضمون سپرد قلم کیا۔اس مضمون میں ہم نے وارننگ دی تھی کہ بہت جلد عالم اسلام میں ایران اور اس کے حمایتی غیر ہو جائیں گے ۔اس کا نقصان ایران کو بھی پہونچے گا اور استاد کو بھی ۔آج ہر نئے دن کے ساتھ نئے انکشافات ہو رہے ہیں ۔سنتے تو پہلے بھی تھے مگر ایران کے عشق نے یہ سوچنے نہ دیا کہ ایران اسلام کا متوالا ہے تو پھر نو روز ان کا قومی تہوار کیوں ہے ؟اسرائیل نے عراق و شام کے نیوکلیئر پلانٹ پر حملہ کر کے انھیں برباد کردیا تو پھرایران کے ساتھ یہ سلوک کیوں نہ ہوا؟دو ڈھائی سال پہلے عراقی اخوانی قائدنے اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا کہ مرسی کی رخصتی میں شیعہ ایران اور سنی سعودی عرب برابر کے شریک تھے ۔اب تو حد ہو گئی ۔تازہ ترین انکشاف یہ ہے کہ صاحب وہ جو ایران کا اسلامی انقلاب تھاجس کا دنیا مین ڈنکا بجایا گیا ۔ساری اسلامی دنیا میں جس کو ایکسپورٹ کرنے کی کوششیں کی گئیں وہ بھی امریکہ کا رہین منت تھا۔ہمیں یاد ہے ایک بار استاد نے اپنے ایک مضمون میں مجاہدین افغانستان کے روس کے خلاف جہاد کے دوران امریکی کنکشن پر تنقید کی تھی ۔اب یہ جو ایرانی اسلامی انقلاب کا امریکی کنکشن ہے جس میں براہ راست خمینی اور امریکی صدر کے درمیان ڈیل ہوئی تھی !کاش وہ انصاف کا تقاضہ پورا کرنے کے لئے اس پر بھی تنقید کرتے ۔جناب! یہ ہماری فطرت ہے یا تو ہم سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں گے یا چپ رہیں گے ۔ہمارا اپنا کوئی نہیں ۔ہم پوری ایمانداری نیک نیتی سے شریعت کے تقاضے پورے کریں گے ۔چاہے ایران ہو ،سعودی عرب ہو یا ترکی۔
استاد ممبئی میں قیام کے دوران معاشی مشکلات کا شکار رہے ۔کوئی بھی بچہ سیٹل نہیں ہو پایا تھا ۔مگر پھر ممبئی چھوڑتے ہی سب کچھ صحیح ہو گیا ۔بچے سیٹل ہو گئے ان کی شادیاں بھی ہو گئیں۔دھڑا دھڑ مجموعہ مضامین بھی شائع ہوئے اور رفقاء کا خیال ہے کہ یہ سب دست غیب کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا ۔یہی مسائل ہمارے علماء کرام کے ساتھ بھی ہیں ۔اپنے ہم عصر اور ہمجولی دنیا داروں کو وہ جب دنیا میں گل چھرے اڑاتے دیکھتے ہیں دل میں ہوک سی اٹھتی ہے نفس بے قابو ہوجاتاہے ۔گھر والوں کا دل بھی چاہتا ہے کہ دنیاوی تعیشات انھیں بھی حاصل ہوں ۔ان کے بچے بھی مہنگے اسکولوں میں پڑھیں،ان کے پاس بھی گاڑیاں ہوں رہن سہن بھی جدید طرز کا ہو اور یہ سب ظاہر ہے وراثت نبوی ﷺ کو طاق پر رکھ کر ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔پیٹ پر پتھر باندھنے والے چٹانوں کی طرح اٹل ہوتے ہیں ۔مگر یہاں کماتا وہی ہے جو نرم ہو لچکدار ہو ۔دین یاامت پیٹ تھوڑی بھرتی ہے وہ بھی وہ جو اب بڑا ہو چکا ہے ۔خیر !غیر کرے تو کانوں پر جوں نہیں رینگتی ،مگرجن پہ تکیہ ہو وہی پتے ہوا دینے لگیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے ۔استاد ہمارے مزاج کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس کا لحاظ بھی کرتے تھے ۔ہم آج بھی ان کے منتظر ہیں وہ جہاں ہیں واپس آجائیں۔آخرت دنیا کی دولت سے خریدی نہیں جا سکتی۔وہ عمر میں ہم سے بڑے ہیں اور اب تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اوور ٹائم میں جی رہے ہیں معلوم نہیں کب شفٹ ختم ہوجائے۔
انسان کی نفسیات بڑی عجیب ہے ۔اسے کچھ لوگ بہت پسند ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے۔اور اس پسند نا پسند کی کوئی وجہ نہیں ہوتی ۔وہ کوئی دلیل نہیں دے سکتا۔فیروز میٹھی بور والا کا معاملہ یہ ہے کہ ہم نے اس شخص کو پہلے دن ہی سے پسند نہیں کیا ۔اس وقت بھی جب وہ محترم اسلم غازی کے کاندھوں پر براجمان تھے ۔یہ شاید جماعت اسلامی کا وتیرہ بن چکا ہے کہ وہاں منافقین کا بڑی خوش دلی سے استقبال کیا جاتا ہے ۔اس شخص نے لفظ فلسطین کا استعمال کرکے مسلمانوں کے دل میں جگہ بنائی ہے دراصل یہ اسرائیلی ایجنٹ۔این جی اوز چلانے والے عموماً بیرونی ایجنٹ ہی ہوتے ہیں۔ویسے ہی ہوتے ہیں اور وہی کام کرتے ہیں جیسا یہ شخص کرتاہے۔ہم نے پہلے جب ممبئی میں مقیم تھے اس کو اہمیت دی نہ اب ۔اب تو اسے خود اپنی اہمیت کا احساس ہے یہ احساس اس کے دو ہفتے پہلے کے انٹرویو کی وجہ سے ہے ۔اسی طرح ان لوگوں کی زندگی چلتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 07697376137
0 comments: