گاہے گاہے با ز خواں ۔۔۔ !

10:02 PM nehal sagheer 0 Comments



 ممتاز میر 

 گذشتہ دو دہائیوں سے مسلمان دہشت گردی مخالف یا دہشت گردی کی مذمت میں کانفرنسیں کروا رہے ہیںاور ان کا یہ عمل اس کے باوجود بھی جاری ہے کہ ۸ سال پہلے ہیمنت کر کرے نے بھگوا دہشت گردوں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا اور یہ بتلایا تھا کہ کم و بیش ہر اس واقعے میں جس میں مسلمانوں کو ماخوذ کیا گیا ہے اصل دہشت گرد ہندو ہیں ۔حیرت اس بات پر ہے کہ کر کرے کی اس بات پر حکومت نے تو یقین نہ کیا خود کرکرے کے برادری بھائی پولس والوں نے بھی یقین نہ کیا مگر ان سے بھی آگے بڑھ کر خود مسلمانوں نے بھی یقین نہ کیا ۔اسلئے آج بھی دہشت گردی مخالف مذمتی کانفرنسیں صرف مسلمانوں کے درمیان جاری ہیں۔آج بھی ہمارے چھوٹے بڑے لیڈر،علماء،دانشور کوئی واقعہ ہوتے ہی مذمتی بیان داغ کرفرض کفایہ نہیں فرض عین ادا کردیتے ہیں۔آج بھی واٹس ایپ پر روز ہی کسی نہ کسی پروگرام کا میسیج ہوتا ہے جس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم بڑے شریف اور معصوم لوگ ہیں ۔ہم ان کے سامنے اپنی دیش بھکتی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی خمیر میں ہی دیش بھکتی نہیں ہے۔پوری مسلم قوم سارے تعمیری کام چھوڑ کر اپنی صفائیاں دیتی پھر رہی ہے۔کسی کو اس بات کا احساس بھی نہیں کہ دشمن یہی تو چاہتا ہے کہ آپ اپنے منصب اصلی سے ہٹ جائیں دنیا کی رہنمائی کے کام سے منہ موڑ لیں۔ انسانیت کی سب سے بڑی خیر و فلاح یہ ہے کہ آپ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر ایک اللہ کی غلامی میں لے آئیں ۔
  ٹاڈا ۲۳ مئی ۱۹۸۵ میں پنجاب کے حالات کے تحت پید اہو اتھا۔یہ ۱۹۸۴ میں آپریشن بلیو اسٹار کے بعد پیدا ہونے والے حالات تھے جہاں واقعتا دہشتگردانہ واقعات روز کا معمول تھے مگر اس کا سب سے زیادہ استعمال ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف وہاں ہوا جہاں دہشت گردی کا وجود ہی نہیں تھا ۔اسی لئے شور مچنے پر مسلمانوں کے کرتے پاجامے ،ٹوپیاں اور ڈاڑھیاں استعمال کرکے دہشت گردانہ واقعات کروائے گئے تاکہ ٹاڈا Justified لگے۔ٹاڈا کے نفاذ کے پورے کا پورا سہرا ’’بلا شرکت غیرے ‘‘ کانگریس کے سر جاتا ہے۔اس ٹاڈا کے خلاف ملکی ہی نہیں غیر ملکی حقوق انسانی کے چمپینوں نے بھی آواز بلند کی تھی۔بڑ ے بڑے قانون دانوں نے اسے سیاہ قانون قرار دیا تھا ۔پھر اس کے خلاف فلم اداکار اور سیاست داں راج ببر نے جو آج یو پی کانگریس کے صدر (اس وقت وہ سماج وادی میںتھے)اور یو پی اسمبلی انتخابات کے اسٹار کمپینر یا پوسٹر بوائے ہیںاور ان کے ساتھ م افضل صحافی اور سیاستداں نے مل کرمہم چلائی تھی اور ۱۹۹۵ میں اسے ختم کر وا کر ہی دم لیا تھا آج یہی حضرات اسی کالے قانون کی خالق اور مسلمانوں کودہشت گرد بنانے والی پارٹی کی چھتر چھایامیں ہیں۔ملک عزیز میںآسماں کو اس طرح رنگ بدلتے ہوئے بار بار دیکھنا پڑتا ہے ۔اس طرح دیکھا جائے تو وطن مین دہشت گردی دو نہیں تین دہائی پرانی ہے۔۱۹۹۲ میں بابری مسجد کی شہادت کے وقت ہم ممبئی میں مقیم تھے ۔اس کے بعدفسادات اور بم دھماکے ہوئے ۔اس کے بعد مہاراشٹر میں مسلمانوں کو ٹاڈا میں گرفتار کرنے کی ریوڑیاں بٹ رہی تھی اور فسادات کے مجرمین کو یہی کانگریس بچا رہی تھی ۔ سلیمان بیکری فائرنگ کیس میں کانگریس ہی تھی جس نے تیاگی کا بال بھی بانکا نہیں ہونے دیا ۔اسی دوران ہمیں خود بھی ناسک جیل میں ۴ مہینے ’’لگانے‘‘ پڑے۔اس وقت فسادات میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا تھا اور گرفتاریاں بھی ان ہی کی ہوئی تھیںاور سب کو ٹاڈا کے تحت ہی گرفتار کیا گیا تھا اور یہ سب کچھ کانگریس کی مہربانی ہی سے ہوا تھا ۔مسلمانوں پر کانگریس کے جو احسانات ہیں وہ دو چار جنم تو اتارے نہیں جا سکتے۔ٹاڈا کے بعد بہت سارے قوانین جیسے مکوکا ۔پوٹا وغیرہ تو مسلمانوں کو ذہن میںرکھتے ہوئے ہی بنائے گئے تھے۔اتنی ساری مہربانیوں اور احسانات کے باوجود مسلمانوں کے لیڈران ان کی پارٹیاں ،جماعتیں تحریکیں کانگریس کے عشق سے آج تک رشتہ نہ توڑ سکیں وہ جمعیت العلماء جو آج مسلم محروسین کی مسیحا بنی ہوئی ہے (بلا شبہ وہ بڑا کام کر رہی ہے مگرکب تک؟)کل تک بلکہ شاید آج بھی کانگریس کی حاشیہ بردار رہی ہے ۔آسام مین نیلی کے قتل عام کے بعد غالباًراجیہ سبھا کی ایک سیٹ پر سمجھوتہ کر لیا گیا تھا ۔دنیا چاہے جو بھی سمجھے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جمعیت آج جو بھی کر رہی ہے وہ اس کے پرانے پاپوں کا پرائشچت ہے ۔سوال یہ ہے کہ وہ یہ بھی نہ کرتی تو کوئی کیا کرلیتا۔
مارچ یا اپریل ۲۰۰۸ میں ممبئی آزاد میدان میںجماعت اسلامی کا ایک جلسہ ہوا تھا۔ایک صحافی دوست سے اس کی غرض و غایت کے تعلق سے پوچھا تو کہا کہ جماعت بھی اب اپنے آپ کو سیاست میں لانچ کر رہی ہے ۔یہ ابتدائی کاروائیاں ہے ۔جلسے میں ہم بھی گئے تھے دیکھا کہ اسٹیج پر سارے وہی لیڈر موجود ہیں قوم جن کے سبب بیمار ہے۔یہی حال مسلم لیگ کا رہا ہے ۔بابری مسجد شہید کی جا رہی تھی فسادات میں مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے تھے اور مسلم لیگ کیرالہ میں کانگریس کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھی۔ ایسا محسوس ہی نہیں ہوا کہ دین و ملت کی طرف ان کی کوئی ذمے داری بنتی ہے ۔مسلمان منہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ خدا رزاق ہے مگر عملاً ان کے لیڈر اپنی پارٹیوں کو رزاق اور مشکل کشا کے عہدوں پر بٹھا ئے ہوئے ہیں مگر دلتوں کا معاملہ برعکس ہے ۔ بہرحال آج کرنے کے کام یہ ہیں کہ ہم دفاع کرتے رہنے والی ذہنیت سے باہر نکلیں اور کچھ ایسے کام کریں کہ دفاع کی نوبت ہی نہ آنے پائے ۔آج دلتوں کے جگہ جگہ مظاہرے ہورہے ہیں اس میں مسلمان بھی شامل ہیں ۔اکثر و بیشتر مسلمانوں کے احتجاجات میں دلت مع اپنی مختلف تنظیموں کے شامل ہوتے ہیں ہمیں یاد ہے ایس ایم مشرف کی کتاب Who Killede Karkare  کا اجراء ممبئی میں دادر کے ایک ناٹیہ مندر میں رکھا گیا تھا جو شیو سینا کہ ہیڈ کوارٹر شیو سینا بھون سے چند قدموں کے فاصلے پر تھا ۔پروگرام میں مسلمانوں سے زیادہ دلت شریک ہوئے تھے اور ناٹیہ مندر کے ہر دروازے پر ۲؍۳ لاٹھی بردار دلت موجود تھے ۔پھر عیسائی اور مسلمان بھی ایک دوسرے کے احتجاجات میں شریک ہوتے ہیں ۔ابھی چند دنوں پہلے پنجاب میں مسلمانوں پر حملہ کرنے والے شیو سینکوں کو سرداروں نے اپنی تلواروں سے دوڑادیا۔اس کے علاوہ پروفیسر رام پنیانی۔جیوتی پنوانی ،ٹیسٹا ستلواد،جسٹس ہوسبیٹ سریش،جسٹس راجندر سچر ،بی جی کولسے پاٹل ،کرنل سدھیرساونت،مہیش بھٹ ،سوامی اگنی ویش،سریش کھیرنار اور بھی درجنون نام گنوائے جا سکتے ہیں جو مسلمانوں کے ہی نہیںہر مظلوم کے پروگرام میں شریک ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ہر موقع پر کھڑے رہتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۳ فی صد برہمن کس طرح ملک کی ۹۷ فی صد آبادی کو دبائے رکھتے ہیں ۔یہ ان زیرکی اور بہادری ہے یا ہماری حماقت اور بزدلی ۔ہم کیوں تحریک آزادی کی طرح ایک اور تحریک دوبارہ نہیں چلا سکتے۔درجنوں افراد ملک کے دشمنوں ،دستور کے دشمنوں ،انسانیت کے دشمنوں کے ہاتھوں روزانہ مارے جارہے ہیں۔یہی قربانیاں ہم شعوری طور پر دینے کے لئے تیار کیوں نہیں ہوتے؟اگر ہم شعوری طور پر یہ قربانیاں دینے کو تیار ہو جائیں تو بہت کم نقصان میں ملک کو اس ٹھگوں ڈاکوؤں اور قاتلوں کے گروہ سے چھٹکارا مل جائے گا ۔اور اس کے لئے سارے کام چھوڑ کر ٹھوس حکمت عملی بنانی ہوگی۔جو پیسہ ہم دفاع پر خرچ کر رہے ہیں اس میںسے یا اور زائد حاصل کرکے کچھ میڈیا کو گھیرنے کے لئے استعمال کیوں نہیں کیاجاتا؟ہم اپنے بچوں کے دفاع میں پولس اور حکومت سے تو عدالتوں میں لڑ رہے ہیں ۔میڈیا کو کیوں عدالتوں میں نہیں گھسیٹا جاتا ؟میڈیا جتنا ہمیں defame کررہا ہے نقصان پہونچا رہا ہے اس سے زیادہ اور کیا کرسکتا ہے ؟ہماری کوششیں بہت ہیں مگر درست سمت میں نہیں ہیں ۔ایک سیل ؍کمیٹی بنائی جائے جسمیں وکلاء اورصحافی ہوں اور جن کا کام میڈیا کا تعاقب کرنا ہو ۔اسی طرح ہم نے جن منصفین کے نام لکھے ہیں ان کے ساتھ ایک نام اور جوڑ لیں سابق چیف جسٹس آف انڈیا جناب اے ایم احمدی اور ان حضرات کے ساتھ بڑے بڑے وکلا ء کو بھی شامل کر لیںاور پولس اور عدالتوں کو ٹارگٹ کریں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ عام آدمی کو گرفتار کرنے کے لیئے ثبوت و گواہ کی ضرورت نہیں ہوتی اور خاص لوگوں کو گرفتار کرنے لئے پہلے ثبوت اور گواہ اکٹھے کرنے پڑتے ہیں چاہے مہینوں لگ جائیں ۔اور تو اور ثبوت و گواہ ہونے کے باوجود گرفتاری میں اتنی تاخیر کی جائے کہ چور ملک سے فرار ہوجائے۔اور اس کی ذمے داری تک نہیں طے کی جاتی،تو کیوں؟ کیا ہم اپنی عدالتوں سے یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتے کہ کیا ملک میں طبقات کے اختلاف کے ساتھ قوانین بھی مختلف ہیں اگر نہیںتو یکساں قوانین کا نفاذ کس کی ذمے داری ہے؟ساری دنیا میں  Public interest Litigationکا رواج ہے ۔ہم کیوں یہ سب کرنے سے ڈرتے ہیں۔ہم اس کے لئے کوئی تحریک کیوں نہیں چلاتے؟کچھ ہی سالوں میں ہم اپنی آزادی کی اپنی جمہوریت کی پون صدی مکمل کر لیں گے جبکہ وہ جنوبی افریقہ جسے آزاد ہوئے ابھی جمعہ جمعہ ۸ دن بھی نہیں ہوئے وہاںکی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے پوری پارلیمنٹ کو طاق پر رکھتے ہوئے ملک کے موجودہ صدر کو کرپشن کا سارا پیسہ جو صدر کے ذاتی گھر کی تعمیرات اور تزئین و آرائش پر خرچ ہوا تھا لوٹانے پر مجبور کردیا ۔ہم میں ایسے لوگ کب پیدا ہونگے؟جب تک ہم شعوری قربانیاں نہیں دیتے ۔جب تک ہم ظلم کا راستہ روکنے کے لئے تن ،من ،دھن سے فرنٹ پر نہیں آتے ۔صرف دفاع پورے ملک کو قبرستان بنا کر دم لے گا۔ہم یہ سب باتیں گذشتہ دس سالوں سے بار بار لکھ رہے ہیں۔اسلئے کے ہمارے ہاتھوں میں صرف لکھنا ہی تو ہے۔
                                                                                            07697376137

0 comments: