ذاکر نایک کا میڈیا ٹرائل :پردے کے پیچھے کیا ہے؟
نہال صغیر۔ ای میل :sagheernehal@gmail.com
پچھلے ایک ہفتہ سے ہندوستانی میڈیا میں نیا شوشہ کام کررہا ہے ۔وہ شوشہ ہے ذاکر نایک کی دہشت گردی میں شمولیت کا۔دنیا میں میڈیا کا اتنا حال برا نہیں ہے جتنا یہاں وطن عزیز میں ہے ۔نیو یارک واشنگٹن میں صہیونی میڈیا بھی اتنا بے شرم اور دروغ گو نہیں ہے ۔لیکن ہم نے کسی اچھائی میں کچھ نام کمایا ہو یا نہیں لیکن برائیوں اور کمیوں میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔فسادات ،فرضی بم دھماکہ میں مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنا یہ ہمارا محبوب مشغلہ ہے ۔دو روز قبل اخبارات میں آئے ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعصب و تنگ نظری میں ہندوستان کا اول نمبر ہے اور ایران دوسرے نمبر پر ہے۔لیکن اس پر کوئی بحث نہیں کوئی گفتگو نہیں ۔ہمارے یہاں میڈیا بے سر پیر کے معاملے میں ساری حدوں کو پھلانگ جاتا ہے ۔میڈیا ہی کیا ہماری حکومت اور بھی بہت سے حکومتی ادارے اور نہ جانے کون کون جھوٹ ظلم اور جبر کے کاروبار میں مصروف ہے ۔اب دیکھئے یہی ذاکر نایک والے ایپی سوڈ میں ڈھاکہ کے اس اخبار نے خبر کی تردید کی اور غلط بیانی کے لئے معافی بھی مانگ لی ۔لیکن ہمارا میڈیا ابھی تک ہوش و خرد سے بے گانہ ہو کر ذاکر نایک کو اب بھی بخشنے کو راضی نہیں ہے ۔ڈھاکہ میٹر کلوز ہوا تو ہندوستانی نقشے میں کشمیر کا معاملہ آگیا ۔کل ملا کر انڈین میڈیا یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی طرح ذاکر نایک کو پھانسی پر ہی لٹکا دے یا اس کے لئے زمین تیار کردے ۔اس میں ان کے ساتھی ہماری صفوں کے کچھ میر جعفر اور میر صادق بھی ہیں ۔انہی کی شہہ پر میڈیا اور زیادہ چیخ پکار مچا رہا ہے۔ ان میر جعفروں اور میر صادقوں میں کچھ تو سادہ لوح ہیں جن کو مسلک کی گھٹی پلادی گئی ہے کہ صرف تم ہی حق پر ہو اور تم ہی جنت کے حق دار ہو اس لئے وہ بے چارے اس کے تحت ان کی مخالفت کئے جارہے ہیں ۔شکر ہے کہ عوام میں ذاکر نایک کی حمایت کو لے کر کوئی کنفیوژن نہیں ہے اور بہت حد تک قائدین ملت نے بھی تھوڑا غور فکر کرکے ذاکر نایک کی حمایت کا اعلان کرکے بد طینتوں کو یہ پیغام دے دیاکہ ہم ایک ہیں ۔ہمیں بانٹنے کی تمہاری کوششوں کو جزوی کامیابی بھلے مل جائے لیکن کلی کامیابی کی حسرت دل میں لئے دنیا سے چلے جاؤگے ۔جیسے ایک اشوک سنگھل بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی حسرت لئے اپنے عبرتناک انجام کے لئے چلا گیا۔میرے ایک دوست الطاف پٹیل جو کہ بریلوی ہیں اور ایک مشہور مسجد کے ٹرسٹی ہیں نے زی نیوز کو فون پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ذاکر نایک اور ہمارا معاملہ چھوٹے بھائی بڑے بھائی جیسا ہے ہم گھر کا معاملہ گھر میں حل کرلیں گے یہ بالکل فروعی معاملہ لیکن اس میڈیا ٹرائل کے خلاف میں ذاکر نایک کے ساتھ ہوں ۔کیوں کہ انہیں صرف مسلمان جان کر ہی تنگ کیا جارہا ہے‘‘۔اینکر نے بار بار زور دے کر پوچھا کہ آپ سنی ہیں اس کے باوجود ایسا کہہ رہے ہیں ۔اس پر الطاف پٹیل کا جواب تھا کہ ہاں میں صرف سنی (بریلوی ) ہی نہیں ہوں بلکہ ایک بریلوی مسجد کا ٹرسٹی بھی ہوں ۔
دو سالہ نریندر مودی کی حکومت عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔اس پر ہر چہار جانب سے حملے تیز ہو گئے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ ملک بھر کے سناروں نے بھی اپنا ووٹ ہی نہیں نوٹ بھی دیا تھا ۔لیکن اب وہ بھی ہوا دینے لگے ۔انہوں نے ایک ماہ سے بھی طویل تحریک مودی حکومت کی ناکامیوں کے خلاف چلائی اور جگہ بجگہ پوسٹر لگائے کہ ’’ایک ہی بھول کنول کا پھول‘‘۔یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ گجرات کی پٹیل برادری جس کے ووٹوں سے کئی دہائیوں سے وہ حکومت میں رہے اور انہی کو بھڑکا کر مسلمانوں کے خلاف فسادات کی وہ سیاہی گجرات کے ماتھے پر لگایا جس سے پیچھا چھڑانا انکے لئے پی ایم بن جانے کے بعد بھی مشکل ہو رہا ہے ۔یہ سب ایسے معاملات ہیں کہ اگر اسی طر ح عوام کو سکون سے یہ سب کچھ سوچنے کے لئے موقعہ فراہم رہا تو اگلے الیکشن یا حالیہ یوپی الیکشن میں ان کی تو نیا ہی ڈوب جائے گی ۔چنانچہ ایسے معاملات کی انہیں ضرورت ہے جس سے عوامی غصہ کا رخ موڑا جائے ۔اس لئے حکومت کے وجود میں آنے کے دوسرے تیسرے دن سے ہی یہ کام شروع ہو گیا ۔شاید انہیں پتہ ہے کہ وعدے توپورے ہوں گے نہیں کیوں کہ پیسہ تو سرمایہ داروں نے دئے ہیں ۔لہٰذا موجودہ حکومت کی نظر میں پہلاحق سرمایہ داروں کا ہے اور وہ اسے فائدہ پہنچارہے ہیں۔بے چارے عوام چیخ پکار مچا رہے ہیں ۔اس لئے ان کی آواز دبانے کے لئے انہوں نے اپنے سپاہیوں کو کام پر لگا دیا ۔انہوں نے اپنی بکواس سے ملک کی فضا مکدر کرنے کا کام اور دو اہم فرقوں میں باہم خلیج کو مزید گہرا کرنا شروع کیا ۔لیکن ہر چیز کی ایک معیاد ہوتی ہے ۔اس کی بھی ایک مدت تھی عوام نے اسے مسترد کردیا ۔اس سے گھبرا کر انہوں نے حالات پر کڑی نظر رکھنا شروع کیا کہ کہیں سے کوئی شوشہ ملے تو اس پر ارنب گوسوامی اور دیپک چورسیا جیسے دلال اینکروں کی مدد لی جائے ۔ان سے معاملات شاید پہلے سے طے شدہ تھے۔یا منصوبہ بندی میں یہ بھی شامل تھا ۔کیوں کہ ڈھاکہ فائرنگ والے معاملے میں بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ اس میں آئیسس کا نہیں بلکہ کچھ گمراہ نوجوان کا ہاتھ ہے اور یہ کہ یہاں (بنگلہ دیش میں ) آئیسس کا کوئی وجود نہیں ہے ۔لیکن ہمارا بھارتی میڈیا بضد ہے کہ نہیں صاحب وہ کام تو آئیسس کا ہی ہے اور اس کو انجام دینے والے لڑکے ذاکر نایک سے ہی متاثر تھے ۔اس کو کہتے ہیں چائے سے زیادہ پیالی گرم ۔
اس شور و غل میں کئی معاملے دب گئے ۔اس میں سے سب سے اہم ہے پینتالیس ہزار کروڑ کا ٹیلی کام گھوٹالہ جس پر کوئی بحث نہیں ہوئی اور نہ ہی خود کے پیٹھ تھپتھپانے والے پی ایم سے کسی نے سوال کیا کہ کیوں میاں بڑے ایماندار بنے پھرتے ہو ،یہ کیا ہے ؟ایسے کئی گھوٹالے ہیں جو ایسے ہی چند ہنگاموں کی نظر ہو گئے ۔دوسرا اور اہم معاملہ ہے سپریم کورٹ سے اکشر دھام مندر معاملہ میں فرضی طور پھنسائے گئے مظلومین کے معاوضہ کی درخواست کو رد کیا جانا ۔لیکن ذاکر نایک ایپی سوڈ نے اس پر بھی گفتگو نہیں ہونے دی ۔بتائیں کتنا اہم مسئلہ ہے کہ جس عدلیہ کی آپ دہائی دیتے ہیں وہاں سے ہی خفیہ ایجنسیوں اور سلامتی دستوں کی تعصب پر مبنی کارروائیوں کو حوصلہ ملنا۔یہ بات ہمارے نادان ہم مذہبوں اور ہم مسلکوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ذاکر نایک کامعاملہ فی الحال قائدین کی دانشمندانہ تحریک سے دب گیا ہے ۔اس کے باوجود ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ ایسے حالات بار بار پیدا کئے جاتے رہیں گے ۔کیوں کہ انہیں یوپی الیکشن ہر حال میں جیتنا ہے ۔جس کے بعد ان کا تسلط مکمل ہو جائے گا ۔یہ ساری تیاری ان کی صرف یوپی الیکشن کے لئے ہے ۔کہتے تو یہ ہیں اپنے آپ کو ملک کا سب سے وفادار لیکن ان کی وفاداری فسادات کروانے بم دھماکے کرکے اس کا الزامات مسلم نوجوانوں پر تھوپ کر مسلمانوں کے حوصلے توڑنے تک ہی ہے ۔حالانکہ جب سے یہ حکومت وجود میں آئی ہے تب سے پاکستانی دسیوں بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کرچکا ۔ جس میں سلامتی دستے کے کئی جوان کام آگئے ۔لیکن ایک سر کے بجائے دس سر لانے کا پر جوش نعرہ لگانے والے کی بولتی بند ہے ۔چین بھی کئی بار سرحد پر کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرچکا ہے ۔لیکن مکمل سکوت ہے ۔دیش بھکتوں کی حکومت پر جوں تک نہیں رینگ رہا۔11 ؍جولائی کے ایک اردو اخبار میں دو خبریں ہیں ایک امریکہ کی اور ایک ہندوستان کے کشمیر کی ۔امریکہ میں ہونے والے کالے گوروں کے ہنگاموں کے بیچ ابامہ اپنا اسپین کا دورہ مختصر کرکے امریکہ لوٹ آئے اور اس تشدد پر کہا کہ یہ مشکل گھڑی ہے ۔اسی صفحہ پر کشمیر کی شورش کی خبر ہے جس میں دو درجن سے افراد سلامتی دستوں کی گولیوں کا شکار ہو گئے ۔لیکن اس خبرسے اوپر ہمارے وزیر اعظم افریقی ملک تنزانیہ کے صدر کے ساتھ نقارہ بجا ر ہے ہیں ۔کتنا فرق ہے ایک موجودہ سوپر پاور اور مستقبل کے سوپر کے سربراہ مملکت کی سوچ اور فکر مندی میں ۔موجودہ سوپر پاور اپنے یہاں عوام کے لئے فکر مند ہے ذرا سا جھگڑا ہو جاتا ہے تو وہ وطن لوٹ آتا ہے افسوس کا اظہار کرتا ہے ۔لیکن مستقبل کے سوپر پاور کا وزیر اعظم تیس لوگوں کی ہلاکت اور بدترین شورش کے باجود بڑی بے فکری سے نقارہ بجارہا ہے ۔اسے دیکھ کر روم کے شہنشاہ نیرو کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔سپریم کورٹ نے بھی کئی سال قبل ان کے بارے میں ایسا ہی کچھ تبصرہ کیا تھا ۔آج اس کو انہوں نے عملاً ثابت کردیا ۔
ذاکر نایک کے معاملہ میں یہی سب کچھ سوچ غالب تھی اور ہے ۔فی الحال تو معاملہ دبا ہوا ہے لیکن یہ پھر کوئی دوسرا معاملہ اٹھائیں گے ۔بقول کسی شاعر کے
یہ گھڑی محشر کی ہے،تو عرصہ محشر میں ہے ۔پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
لیکن یہاں عمل کا پٹارا تو خالی ہے ۔حالات اس سے بھی بھیانک آئیں گے ۔لیکن ہم بیدار رہے تو اس کا مقابلہ کرنا آسان ہونا بصورت دیگر افسوس کرنے کا بھی میسر نہیں آئے گا یا یوں کہہ لیں کی ہماری میت کو کاندھا دینے والے ہاتھ موجود نہیں ہوں گے ۔یعنی ہماری لاشوں کو کوئی کفن دینے والا اور اس پر رونے والا بھی موجود نہیں ہوگا ۔کسی کو موقعہ ملے تو اسپین کی تاریخ پر تھوڑی سی نظر ڈال لے ۔یا کسی کو اسلامی تحریکات پر لگائے گئے الزامات سچ لگتے ہیں تو وہ صلاح الدین ایوبی کی تاریخ پر تھوڑا ذہن مرکوز کرلے ۔صلاح الدین ایوبی کے دور کے حالات میں اور آج کے دور کے حالات میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ۔صلاح الدین ایوبی کو بھی حسن بن صباح کے گروہ نے مسلمانوں میں بدنام کرنے کے بہت سارے حربے اپنائے لیکن وہ مرد مجاہد اس کی پرواہ کئے فتح بیت المقدس کی جانب بڑھتا رہا یہ اور بات ہے کہ وہ نوجوانی کے عرصہ میں اس خواہش کے ساتھ اٹھا اور زندگی کے آخری ایام میں اپنی اس تاریخی خواہش کو کامیابی سے ہمکنار کرپایا۔آج بھی حسن بن صباح کے گروہ کے لوگ اسلامی شخصیات اسلامی تحریکات کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں اور ان کے اثرات مسلمانوں کے بڑے طبقات قبول کررہے ہیں ۔کیوں کہ میڈیا کا دور ہے اور مسلمان اس ہتھیار سے خالی ہے ۔نہ صرف عملی طور پر بلکہ ذہنی طور پر بھی ۔جب تک یہ خالی پن یا ذہنی دیوالیہ پن سے مسلمان جان نہیں چھڑائیگا تب تک اس دور مصائب سے نکل پانا مشکل ہے ۔کیوں کہ اب شاید ابابیلوں کا لشکر مسلمانوں کی مدد کو نہیں آئے گا ۔بات بھی سیدھی سی ہے کہ ابابیلوں کا لشکر اللہ کے گھر کو بچانے آیا تھا!
0 comments: