گئو رکشک کی غیر قانونی حرکتوںکو حکومت و انتظامیہ کی سرپرستی حاصل

9:55 PM nehal sagheer 0 Comments


جانوروں کے مسلم تاجروں کو قانونی تجارت کی بھی اجازت نہیں ،پولس اسٹیشن میں گئورکشکوں کے مطابق ایف آئی آر درج کئے جاتے ہیں 
 پورے ملک پر برسات کی ٹھنڈی پھوہاروں کی نرمی کے ساتھ ساتھ گئو رکشک کی دہشتناکی کی گرمی بھی شامل ہے۔کوئی دن نہیں جاتا جب گائے اور اس کے بھکتوں کے تعلق سے کوئی ایسی خبر نہ آتی ہو جب کسی کو جان سے ماردیا جاتا ہے یا پھر ادھ مرا کر رکے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔لیکن اس معاملے میں حکومت و انتظامیہ کی خاموشی یہ اشارہ دینے کے لئے کافی ہے کہ اس درندگی میں حکومت و انتظامیہ کی خاموش حمایت شامل ہے ۔مختلف ٹی وی چینل یا پرنٹ میڈیا میں اس کی خبریں متواتر آرہی ہیں ۔کچھ نے اس نوعیت سے خبر وں کو اہمیت دی ہے کہ یہ ملک کی سلامتی اور قومی ہم آہنگی کے لئے خطرناک رویہ ہے جسے کنٹرول کیا جانا چاہئے ۔لیکن وہیں کچھ میڈیا کے ذمہ داران اس طرح کی خبر کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔
این ڈی ٹی وی جو کہ فی الوقت غیر جاندارانہ خبر نگاری کے لئے پہچانا جارہا ہے ۔اس نے ایسے ہی ایک ٹرک کے پیچھے اپنی ٹیم کو یہ جاننے کے لئے لگایا کہ گئو رکشکوں اور انتظامیہ میں کس حد تک ہم آہنگی ہے ۔نیز وہ کس طرح قانونی طور پر جانوروں کا کاروبار کرنے والوں کو دہشت زدہ کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں ۔این ڈی ٹی وی کی ٹیم جس میں سنجے مدن لال ایک خفیہ کیمرہ کے ساتھ ٹرک ڈرائیور کے معاون کی حیثیت سے دس بھینسوں سے لدے ٹرک میں سفر کررہے تھے ۔ٹرک پر محض سچائی کو حکومت اور عوام کے سامنے لانے دوسرے لفظوں میں اسے بے نقاب کرنے کے لئے سفر کرنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے وہ ناگالینٖڈ اور راجستھان میں مسلم نوجوانوں کی پیٹ پیٹ کر مارڈالنے اور دادری میں محمد اخلاق کے قتل سے واضح ہو جاتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ سچائیکی تلاش میں رہتے ہیں اور اپنی جان کی پراوہ نہیں کرتے ہوئے ملک کی قومی ہم آہنگی پر خطرات کے منڈلاتے بادل کی خطرناکی کو ملک کے سامنے لانے کے ایسا کرتے ہیں ۔دراصل یہی صحافت ہے ۔
این ڈی ٹی وی کے اسٹنگ آپریشن میں بالکل واضح نظر آرہا ہے کہ پولس بھی قانون ہاتھ میں لینے والے گئو رکشک کے غنڈوں کے ساتھ ہے ۔ٹرک ڈرائیور شفق قریشی نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ وہ بیس بھینس فروخت کی غرض سے لے گئے تھے لیکن دس ہی فروخت ہوئے اور دس وہ واپس لارہے تھے ۔ صحافیوں نے ٹرک ڈرائیور کے پاس موجود کاغذات چیک کئے جو کہ  مہاراشٹر میں جانوروں کے تعلق سے بنے قوانین کے مطابق تھے ۔اس میں کہیں کوئی بات غیر قانونی نہیں تھی۔بھینسیں قانون کے مطابق منڈی میں فروخت کے قابل تھیں۔گئو رکشک گروہ نے ٹرک کو روکا اور ٹیم کے صحافی جن کے پاس خفیہ کیمرہ تھا انہیں دھکہ دے کر ہٹا یا ان کے موبائل فون چھین لئے نیز پورے راستے گالیاں بولتے رہے ۔گئو رکشکوں کی منزل سسواد پولس اسٹیشن تھی ۔وہاں ایک بھیڑ جمع تھی اور ٹینشن واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔پولس افسر نے بھیڑ کنٹرول کرنے کے لئے معمولی حرکت کی جبکہ ایک نوجوان گئو رکشکوں کی رہنمائی کے لئے موجود تھا جس نے این ڈی ٹی وی سے اپنا تعارف سبھاش تیاڑے کے طور پر کرایا جو کہ مقامی ہندوتوا گروپ سمستھا ہندو اگھاڑی کا رکن ہے۔ویڈیو میں صاف سنا اور دیکھا جاسکتا ہے کہ تھانہ انچارج سے پوچھے جانے پر کہ گئو رکشک والوں نے قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ۔اس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتا ہے نہیں وہ صرف انفارمیشن کا کام کرتے ہیں ۔لیکن رپورٹر کے دوبارہ پوچھنے پر کہتا ہے کہ ہم اس کی انکوائری کریںگے۔اسی دوران انسپکٹر ایس ایس گوڑ آتے ہیں اور اپنا چارج لیتے ہیں ۔معاملہ کو سمجھنے کے دوران ہی گئو رکشک تیاڑے کے موبائل پر کسی سوامی کا فون آتا ہے وہ فون انسپکٹر کو تھما دیتا ہے وہ اس سوامی سے بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹرک میں گائیں نہیں بھینسیں ہیں اور ان کے پاس پورے کاغذات بھی ہیں ۔سوامی کا نام شیو شنکر سوامی ہے ۔جس پر کئی معاملات پہلے سے ہی درج ہیں ۔سوامی انہیں کہتا ہے کہ کس طرح معاملہ درج کرنا ہے اور کیبن میں گئو رکشک ایف آئی آر درج کرنے والے کو گائیڈ کرتا ہے کہ کس طرح ایف آئی آر درج کرنا ہے۔

0 comments: