خوف اور خود فریبی ۔۔!

11:45 AM nehal sagheer 0 Comments

عمر فراہی

25اگست 2016 کو ہندوستان میں ایک ایسا حادثہ نظر سے گذرا جو نہ تو کوئی دہشت گردانہ کارروائی تھی اور نہ ہی کسی ٹرین بس اور سیلاب میں سیکڑوں افراد کی ہلاکت کا سانحہ , لیکن جب ایک آرٹسٹ نے  اڈیشہ کے ایک غریب قبائلی مانجھی کو اپنے کاندھے پر اپنی بیوی کی لاش کو ڈھوتے ہوئے  ساتھ میں روتی ہوئی اس کی بارہ سال کی بچی کو اپنے تصور میں قید کیا تو اس نے  اس پورے حادثے کی یوں منظر کشی کی جیسے کہ مانجھی کے کاندھے پر اس کی بیوی کی لاش نہیں بلکہ پورے ہندوستانی جمہوریت کا بوجھ ہو - حقیقت میں یہ ایک سانحہ ہی تھا اور مصور اس تصویر سے جو پیغام دینا چاہتا تھا اسے پوری دنیا کے لوگوں نے دیکھا اور ان کے ذہنوں میں ہندوستان کی جو شبیہ قائم ہوئی ہوگی شاید اب دنیا اس تصویر کو بھی اسی طرح نہ بھلا پائے جیسے کہ گجرات فساد کے دوران اپنی جان بخشی کیلئے  ہاتھ جوڑتے ہوئے قطب الدین انصاری کی تصویر آج بھی ظلم اور درندگی کی علامت کے طورپر میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہے - خوف دہشت اور لاچاری انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے اور اس کی عزت نفس پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے زندگی کی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تصویر صرف قطب الدین انصاری,روہت وومیلا اور مانجھی کی بےبسی  اور لاچاری میں ہی نہیں قوموں اور ملکوں کے ضمیر اور ان کے اقدامات سے  بھی جھلکتی ہے -  
انڈین ایکسپریس کے سابق ایڈیٹر اور بی جے پی کے لیڈر ارون شوری نے اپنی کتاب Self deceive یعنی" خود فریبی" میں ایسی ہی ایک تصویر پیش کی ہے - انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو سے لیکر منموہن سنگھ تک کے ذریعے چین کے تعلق سے اپنائی گئی حکومت ہند کی حکمت عملی پر 2008 کے بیجنگ اولمپک گیم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ دنیا کی کسی حکومت نے جو کام نہیں کیا وہ ہماری منموہن حکومت نے کیا یعنی بیجنگ اولمپک گیم کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کیلئے دلی کے وجئے چوک پر بیس ہزار سیکورٹی فورس کے حصار میں اولمپک مشعل کی رسم نمائش کیلئے نہ صرف دو کلو میٹر تک راستے کو بند رکھا گیا بلکہ سرکاری آفس, میٹرو ٹرین اور پارلیمنٹ تک جانے کا راستہ بھی بند تھا - اس دوران احتجاج کر رہے تبتی رفیوجیوں کی بھی پولس نے دوڑا دوڑا کر پٹائی کی - آگے وہ لکھتے ہیں کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا اولمپک کھیل سے محبت کی وجہ سے کیا گیا ؟
نہیں یہ چین کے خوف کی وجہ سے تھا تاکہ  وہ ہم سے خوش رہے اور ہم اس کے عتاب کا شکار نہ ہوں -   
ارون شوری کے اس اقتباس کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ پندرہ اگست 2016 کو جب ہم نے سوشل میڈیا پر مدارس میں پرچم کشائی کا شاندار منظر دیکھا تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئےکہ پتہ نہیں یہ سوشل میڈیا کا کمال ہے یا پھر مدارس میں پرچم کشائی کا یہ اہتمام آزادی کے بعد سے ہی جوش و خروش سے منایا جاتا رہا ہے - اس کا جواب دس بیس سال پہلے مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ ہی دے سکتے ہیں - بہرحال اگر اس رسم سے وطن سے محبت کی علامت ظاہر ہوتی ہے تو محبت کوئی بری چیز نہیں لیکن ہر چیز میں اعتدال اور خلوص کے جذبے کا شامل ہونا بھی ضروری ہے - یہ بھی ضروری ہے کہ کیا ہم اس رسمی محبت اور وفاداری کا مفہوم بھی سمجھ رہے ہیں یا پھر یہ محض دکھاوا اور خوف زدگی کی علامت ہے جو اکثر مغلوب ذہنیت کے لوگوں کی طرف سے غالب قوموں کو خوش کرنے کیلئے ادا کی جاتی ہے - حالانکہ پرچم کشائی کی یہ رسم چند مدارس کے ذمہ داران اور علماء کے ساتھ بھی ادا کی جاسکتی تھی لیکن ہزاروں بچوں کو ایک صف میں کھڑا کرکے جو مظاہرہ کیا گیا ایسا لگتا تھا جیسے عید کی نماز کا منظر ہو اور کہیں نہ کہیں سے ان تقریبات سے بے چارگی صاف جھلک رہی تھی - بہت کم لوگوں نے تحریری شکل میں مدارس کی اس پرچم کشائی پر تبصرہ کیا ہے لیکن اکثر نے محسوس کیا کہ کہیں ارون شوری نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے مدارس اسلامیہ کے لوگ بھی تو اسی خوفزدگی کی نفسیات میں مبتلا نہیں ہیں ؟ اگر نہیں تو کیا جن مدارس اور مکتب کے  بچوں کو جمع کرکے یہ تقریب منعقد کی جارہی ہے ان بچوں کو آزادی, ناانصافی اور پرچم کشائی کا مفہوم بھی بتایا جاتا ہے - کیا ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ پرچم کشائی کی رسم کہاں سے شروع ہوئی اور پرچم کا حقیقی مفہوم اور اسلامی نظریہ کیا ہے - ہو سکتا ہے کچھ مولوی حضرات جو داڑھی ٹوپی اور پائجامے وغیرہ کو لیکر اپنی بحث میں بہت ہی سنجیدہ نظر آتے ہیں اس پرچم کشائی کا بھی شرعی جواز ڈھونڈھ لیں کہ یہ وطن سے محبت کی علامت ہے - یہ جواب بھی بالکل معقول ہے اور ہمیں بھی اس محبت اور امن والی باتوں سے پوری طرح اتفاق ہے اور اسلام کا اصل نصب العین بھی یہی ہے کہ زمین سے پوری طرح فتنہ اور فساد اور فحاشی کا خاتمہ کیا جائے - دنیا میں انبیاء کرام اور ان کے ماننے والے جن کو مسلمان کہا جاتا ہے انہوں نے اسی مقصد کیلئے تحریک شروع کی تھی اور پھر ایک  جماعت کی تشکیل اور اس کے قائد کا انتخاب عمل میں آیا - اسی جماعت کی شناخت کیلئے اہل حق اور اہل باطل دونوں ہی نے اپنے اپنے پرچم تخلیق کئے - قرآن نے اسی جماعت کے تعلق سے اللہ والوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ
کنتم خیر امتٍ اخرجت الالناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر-
سوال یہ ہے کہ جس آزادی کا جشن ہم منا رہے ہیں اور جس پرچم کو سلام کیا جارہا ہے کیا ہم نے حقیقت میں اس تحریک اور پرچم کے ذریعے وہ مقصد حاصل کر لیا اور ہمارا وہ  کیا مقصد تھا جو ہم حاصل کرنا چاہتے تھے - اس کی حقیقی خوشی کا اندازہ تو وہی  لگا  سکتے ہیں جنھوں نے انگریزوں کے دور میں ان کی نا انصافی اور مظالم کو برداشت کیا ہے اور اب وہ اپنے آپ کو انگریزوں کے دور سے بہتر سمجھتے ہونگے لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ نہ صرف ہندوستان میں بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی پسماندہ ذات کی اکثریت کل بھی مظلوم تھی اور آج بھی مظلوم ہے - ایوان سیاست یا مقدس سمجھی جانے والی جمہوری پارلیمنٹ میں کل بھی ان کی نمائندگی صفر تھی اور آج بھی صفر ہے - کیا  کوئی ہمارے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ اس لوک تنتر میں کتنے ایسے  غریب اور پسماندہ ذات کے لوگ ہیں جو   لوک سبھا کے الیکشن کے اخراجات کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں- اگر نہیں تو کیوں ؟ 
سچ تو یہ ہے کہ پندرہ اکست 1947 کا دن ہمارے ملک کے عوام کیلئے اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ اس ملک کو ترقی اور عروج کے جس مقام پر انگریزوں کو لیکر جانا چاہیے تھا یا ملک میں نظم و ضبط کی جو صورتحال تھی انگریز اسے قابو پانے میں ناکام رہے ہیں اور اس وقت ہمارے ملک میں جو خالص ہندوستانی قیادت  موجود تھی انہیں یہ احساس تھا کہ وہ انگریزوں کے برخلاف ملک کی بہتر قیادت کر سکیں گے - جنگ آزادی کی اس تحریک کے مجاہدین میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی تھے اور وہ اپنے مقصد میں اسی لئے کامیاب بھی ہوسکے کہ وہ ایماندار مخلص اور بےباک تھے - مگر اب ملک میں ایک بار پھر بدعنوان سیاستدانوں کی طرف سے خوف اور دہشت کا جو ماحول بنایا جاچکا ہے اب ایسا ممکن بھی نظر نہیں آتا کہ مستقبل میں ہندوستان کو کوئی نڈر اور بے باک قیادت میسر آ سکے- یا پھراللہ تعلیٰ کو ہی کچھ اور منظور ہو اور اسے اس ملک کے لوگوں پر رحم آجائے - یہاں پر ہم نے جان بوجھ کر مسلمانوں کی بجائے لوگوں کا استعمال کیا ہے کیونکہ قحط الرجال اور خوف و دہشت کی اس صورتحال سے صرف مسلم قیادت ہی دوچار نہیں ہے غیر مسلم لیڈر شپ میں بھی اس جرات اور نظریے کا فقدان ہے - فرق اتنا ہے کہ مسلمان اپنے ہی ملک کے سیاسی فاشزم سے خوفزدہ ہیں اور وہ اپنی بقا کیلئے وہی زبان بولنے کیلئے مجبور ہیں جو ہماری حکومتیں اور ایجنسیاں چاہتی ہیں اور ہمارے ملک کی سیاسی قیادت عالمی طاقتوں کے دباؤ میں ہے - خاص طور سے ہماری سرحد سے لگی ہوئی چین کی سرحد سے جو خطرات لاحق ہیں ہمارے ملک کی سیاسی قیادت اپنے بچاؤ کیلئے اپنے مہذب ہونے کا ڈرامہ کر رہی ہے - ارون شوری کے لفظوں میں اسی کا نام خود فریبی ہے -


0 comments: