تاریخ فیصلہ کرے گی .!
منیر احمد خلیلی
امریکا کے اندر جن کرم فرماؤں سے میرا رابطہ اور باہمی تعامل جاری رہتا ہے ان میں ایک ڈاکٹر کوکب صدیقی بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب امریکا میں Pennsylvania کی Lincoin University میں انگریزی کے پروفیسر ہیں۔ وہاں ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ بھی دیتے ہیں اور The Trend کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالتے ہیں۔ فیس بک پر بھی لوگوں کو اپنے خیالات سے نوازتے رہتے ہیں۔ وہ امریکا میں مسلمانوں کی اجتماعی سرگرمیوں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ جتنے مخلص اور دردمند ہیں اسی قدر جذباتی ہیں۔ القاعدہ، طالبان اور داعش سمیت وہ ساری تنظیمیں جو ساری دنیا کی نظر میں دہشت گرد ہیں، ڈاکٹر کوکب صدیقی کی رائے میں امتِ مسلمہ کی حقیقی نمائندہ اور محسن ہیں۔ وہ ان کے جہادی کارناموں کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں اسامہ بن لادن، مُلّاعمر اور ابوبکر البغدادی اس امت کے ہیرو ہیں۔ ڈاکٹر کوکب صدیقی اپنی تحریروں میں امریکی سماج کی بہت سی اخلاقی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور امریکا اور اہل مغرب کی طرف سے اسرائیل کی سرپرستی کی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔ صہیونیت کے خلاف بڑی بے باکی سے لکھتے ہیں۔ ہولوکاسٹ یعنی نازیوں کے ہاتھوں مبینہ طور پر چھ ملین یہودیوں کو آتشی بھٹیوں میں جھونک کر ہلاک کرنے کی کہانی کو ایک غیر حقیقی اور فرضی قصہ مانتے اور اس کے بارے میں بغیر لگی لپٹی رکھے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام کے مسلمان حکمران اور سیاست دان بھی ان کے نشانے پر رہتے ہیں۔ انہیں وہ بزدل اور منافق گردانتے ہیں۔ امریکا کی یہودی لابی نے انہیں سامیت مخالف (anti-semite)، انتہا پسند، جھگڑالو اور فسادی (firebrand) مشہور کر رکھا ہے۔ امریکی اخبارات میں ان کی متنازع اور ریڈیکل سرگرمیوں پر مراسلے اور رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ لوگ جب سوال اٹھاتے ہیں کہ ان کی یونیورسٹی انتظامیہ ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کیوں نہیں کرتی تو یونیورسٹی انتظامیہ یہ موقف پیش کرتی ہے کہ امریکا میں چونکہ اظہار رائے کی آزادی ایک فرد کا مسلمہ حق ہے، اس لیے یونیورسٹی ان کے خیالات کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگاسکتی۔ شمالی امریکا میں CAIR، ISNA، ICNA مسلمانوں کی نمائندہ بڑی تنظیمیں ہیں۔ یہ بھی ڈاکٹر صاحب کی سخت تنقید کا ہدف بنتی رہتی ہیں۔ میرے بارے میں ڈاکٹر کوکب صدیقی کا رویہ ’کہیں قندِ مصری کہیں زہر ہے‘ کے مثل ہے۔ کبھی اتنے مہربان ہوتے ہیں کہ میرے کالموں کا خلاصہ نکال کر اس کا انگریزی ترجمہ اپنے رسالے میں شائع کردیتے ہیں اور کبھی میرے بارے میں سخت لہجہ اختیار کرلیتے ہیں۔ القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، داعش اور بوکوحرام پر میری سخت تنقید پر بھی ڈاکٹر کوکب صدیقی برہم ہوتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ان کا ایسی ہی برہمی سے کچھ اس طرح کا سوال آیا کہ ’خلیلی صاحب آپ دینی تنظیموں میں کسی کو اچھا بھی سمجھتے ہیں؟‘
اس سلسلے میں میرا نقطۂ نظر بڑا واضح ہے۔ میری نظر میں امت کی اصل ہیرو وہ اسلامی تحریکیں ہیں جو گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں مطلعِ امت پر طلوع ہوئیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک طرف اسلام کے حقیقی چہرے پر صدیوں سے پڑا ہوا جہل و بے خبری کا پردہ ہٹایا اور اس کی حقیقت اور اصلیت سے اس امت کو روشناس کرایا۔ عام مسلمان تو کیا بڑے بڑے علماء بھی یہ بھول ہی چکے تھے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات اور مثالی نظامِ زندگی ہے۔ صرف برصغیر کی تین چار صدیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں ہندو اور ایرانی تہذیب کے اثرات سے نمو پانے والے تصوف نے اسلام کی اصل صورت کو مسخ کر دیا تھا۔ دوسری طرف سارے عالم اسلام کے اندر اٹھارہویں صدی کے اواخر تک چھا جانے والے مغربی استیلا کے نتیجے میں دینی قوتوں نے پسپائی اختیار کرنی شروع کردی تھی۔ صحیح الفکر علماء بھی جتنا کچھ دین بچا سکتے تھے اسے لے کر مسجدوں اور مدرسوں میں گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ مغربی استعمار نے اظہارات کے لیے ایسے دائرے کھینچ دیے تھے کہ اس کی قاہرانہ سیاست پر دین کے حوالے سے انگلی اٹھانے کی کوئی جرأت نہ کرسکے۔ مسجدوں میں سیاست کی بات ممنوع سمجھی جانے لگی تھی۔ صوفی اور مُلّا نے اس حکم کو ایسا مانا کہ مدتوں تک یہ فرنگیوں کا نہیں بلکہ اسلام کا حکم ہی سمجھا جاتا رہا کہ سیاست اور دین دو جدا چیزیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ سیاست دین میں دخل دیتی تھی مگر دین کو سیاست میں دخل کی اجازت نہیں تھی۔ دین کو مسجد اور مدرسے کے حجرے میں جو پناہ ملی علماء اس کو غنیمت سمجھنے لگے تھے۔ ’مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت، ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد‘… والی بات تھی۔
جدید مغربی تعلیم کے سائے مسلمانوں کے ایک طبقے کی ساخت و پرداخت ہوئی۔ اس طبقے نے دین کے معاملے میں پہلے مغرب کے سامنے معذرت خواہی کی روش اپنائی اور آخر میں خود سپردگی تک نوبت پہنچ گئی۔ یہ تھے وہ حالات جن میں برصغیر پاک و ہند میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مصر میں امام حسن البناؒ کا تحریکی کاروان جادہ پیما ہوا۔ ان کا کارنامہ یہ تھا کہ ایک طرف انہوں نے اسلام کی اصل تصویر کو اس کی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا اور بتایا کہ یہ دین صرف مسجد و مدرسہ اور خانقاہ کا معاملہ نہیں ہے۔ دین کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ریاست و سیاست، معیشت و معاشرت، تمدن و تعلیم، خاندانی اور عائلی امور، اخلاقیات و معاملات اور روحانیت سمیت ہر گوشے میں اسلام کی رہنمائی اور کارفرمائی کو مانیں۔ ان تحریکوں کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ذہنوں پر چھایا ہوا مغرب کا سحر توڑا۔ مغربی تہذیب اور نظریات و افکار کے سامنے مرعوبیت کی جو فضا بنی ہوئی تھی اس کو ختم کیا اور اس تہذیب اور ان نظریات و افکار کو دلیل سے رد کیا۔ مسلم امت کا اعتماد بحال کیا۔ ان دونوں عظیم شخصیات کے اپنی علمی و فکری اور دعوتی کام کے ساتھ ان کے زیر سایہ ایسے اہل قلم ابھرے جنہوں نے اسلام کی تعبیرات و توضیحات پر مشتمل فکر انگیز اور علم و استدلال سے آراستہ لٹریچر کے انبار لگا دیے۔ ڈاکٹر کوکب صدیقی کو جاننا چاہیے کہ یہ تھے ہمارے اصل ہیرو اور اس امت کے حقیقی محسن۔ یہ تحریکیں اور ان کے جلیل القدر بانی اور ان کے ساتھی اور فکری متبعین مجھے اچھے ہی نہیں لگتے بلکہ میری محبوب شخصیات ہیں۔
۷۹۔۱۹۷۸ء کے دو سال ایک اور لحاظ سے فکری طور پر سارے عالم اسلام اور خاص طور پر عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے اہم موڑ ثابت ہوئے۔ مولانا مودودیؒ اپنے رب کے جوار رحمت میں چلے گئے اور ساتھ ہی دو اور سانحے رونما ہوئے۔ روس اپنے وحشی لشکروں کو لے کر ہمارے پڑوس میں ایک انتہائی پسماندہ ملک افغانستان پر قابض ہوگیا۔ ایک دوسرے ہمسایہ ملک ایران میں رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹ دیا گیا۔ امام خمینی کی قیادت میں وہاں ایک مذہبی حکومت قائم ہو گئی۔ عالمی اسلامی تحریکوں نے اس مرحلے پر دونوں سانحوں میں توازن و اعتدال سے ہٹی ہوئی پالیسی اختیار کی، جس کے دوررس منفی اثرات ہماری تاریخ اور خود ان اسلامی تحریکوں کی رگوں میں اتر گئے۔ ایرانی انقلاب کے بارے میں یہ اندازہ کرنے سے قاصر رہیں کہ یہ اسلامی نہیں بلکہ ایک مسلکی انقلاب ہے۔ جب اس انقلاب کے پڑوسی ممالک تک برآمد کرنے کی باتیں ہوتی تھیں تو اس کا مطلب تھا کہ ان ممالک میں اس مسلک کا غلبہ اور تسلط دلانا ہے۔ یہ حقیقت حالیہ عرصے میں شام، یمن، بحرین، لبنان اور عراق میں ایرانی پالیسیوں سے کھل کر سامنے آگئی ہے۔ جس طرح آج ڈاکٹر کوکب صدیقی اسامہ بن لادن، ملاعمر اور ابوبکر البغدادی کو امیرالمومنین منوانے پر تلے ہوئے ہیں، اسی طرح اس دور میں برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر کلیم صدیقی مرحوم ہمیں باور کرایا کرتے تھے کہ امام خمینی ہی ساری امت کے امام ہیں اوران کی قیادت میں برپا ہونے والا انقلاب ہی وہ انقلاب ہے جس کی راہیں صدیوں سے ساری امت دیکھ رہی تھی۔
دوسری غلطی یہ ہوئی کہ اس انقلاب نے اسلامی تحریکوں کو خوش فہمیوں میں مبتلا کردیا۔ ان کو اس کے عقب میں اپنی کامرانی اور سیاسی پیش قدمی کی فرضی چاپ سنائی دینے لگی۔ وہ یہ سمجھیں کہ جس طرح ایران کے ۹۰ فیصد لوگ امام خمینی کی پشت پر کھڑے ہوگئے ان کے ملکوں کے لوگ بھی دعوت کے تقاضے پورے کیے بغیر اسی تعداد میں ان کے حامی ہو جائیں گے۔ ایرانی عوام اپنے اس مسلک کے پابند تھے اور ہیں جس کے بارے میں رجحان ساز نقاد، ادیب اور دانشور سلیم احمد سے منسوب ایک قول ہے کہ جوش ملیح آبادی اور جون ایلیا کے اندر سے سارا اسلام نکل گیا مگر ان کا مسلک نہیں نکلا۔
جماعت اسلامی کے حوالے سے میں نے جتنا غور کیا، یہی بات سمجھ میں آئی کہ افغان جہاد اس کے لیے تبدیلی، سمت،تغییر منہاج کا نقطہ آغاز بن گیا تھا۔ اس عرصے میں توازن اعتدال کی ڈور ہاتھ سے ایسی چھوٹی کہ اب ہاتھ میں آکر نہیں دے رہی ہے۔ کارِ دعوت و تربیت، خالص دینی فہم کے فروغ اور اصلاحِ معاشرہ جیسے مقاصد پس پشت چلے گئے۔ علم و تحقیق جو اس کی پہچان تھی اس کی کھیتی بنجر ہوگئی۔ روغنِ مطالعہ نہ رہا تو دانش و فکر کے چراغ ایک ایک کرکے بجھنے لگے۔ وہ جماعت لٹریچر جس کی شناخت اور مطالعہ جس کا کلچر تھا خود اپنے لٹریچر کی روح سے بیگانہ ہوئی اور کتاب سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ کتاب ہاتھ سے گئی تو تصنیف و تالیف کا چمن بھی خزاں کی زَد میں آگیا۔اس وقت سے لے کر آج تک اس کی دانش گاہوں سے علمی حوالہ بننے والی کوئی ایک کتاب بھی منصہ شہود پر نہیں آئی۔
اس کے وجود کے اندر سے تحریکی روح نکل گئی اور ایک سیاسی جماعت کا ڈھانچہ ابھر آیا۔ میں روس کے خلاف اور بعد میں امریکا کے خلاف مزاحمت کی دیوار بن جانے والی افغان تنظیموں کو ان کی بہت سی عملی اور اجتہادی غلطیوں کے باوجود ہیرو مانتا ہوں۔ اپنے وطن کو غاصب اور جارح قوت سے آزاد کرانے کا جس طرح کشمیریوں اور فلسطینیوں کو حق حاصل ہے اسی طرح حکمت یار، عبدالرسول سیاف، برہان الدین ربانی، نبی محمدی مجددی اور جلال الدین حقانی کا اور بعد میں امریکا سے آزادی کے لیے ملاعمر اور حکمت یار کا بھی حق تھا۔ اسامہ بن لادن نے افغانوں کے ساتھ تعاون کرکے جو بھلائی کمائی تھی وہ القاعدہ کو ایک دہشت گرد تنظیم کا روپ دے کر ضائع کردی۔ اس کی سرگرمیاں مسلم امہ کے لیے کسی خیر کا موجب نہیں بنیں۔ القاعدہ نے مسلمانوں کے عزت و وقار میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ وہ امریکا اور اس کے حلیف مغربی ممالک کے خلاف کچھ دہشت گردانہ کارروائیوں کے سوا ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے لیکن ان کے نتیجے میں مسلمان امت پر جو ذلت و مسکنت اور جو وبال اور مصائب آئے ہیں اور خود اسلام کی جو بڑی بھیانک تصویر دنیا کے سامنے آئی ہے اس کا مداوا شاید صدیوں تک نہ ہوسکے۔
ڈاکٹر کوکب صدیقی القاعدہ تحریک طالبان پاکستان، داعش اور بوکوحرام اوران سے منسلک دہشت گرد تنظیموں کی خون آشامی کو اسلامی تعلیمات کی میزان پر رکھ کر دیکھیں تو انہیں ماننا پڑے گا کہ یہ فساد فی الارض کی بدترین صورت ہے۔ ابوبکرالبغدادی کو جناب کوکب صدیقی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر پرکھیں تو وہ ایسا وحشی صفت شخص ہے، جس نے عراق خلیج سے لے کر شمالی افریقا تک اور جنوبی ایشیا سے لے کر مشرقِ بعید تک سارے عالم اسلام میں آگ لگا رکھی ہے۔ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کا کچھ بگڑ نہیں رہا ہے، لیکن عوام کا امن و سکون اور جان و مال سب اس آگ میں جھلس رہے ہیں۔ جو شخص ہوائی جہازوں میں سفر کرنے والے بے قصور مسافروں کے فضا میں پرخچے اڑانے کو جائز سمجھتا ہو، جو اپنے ہی ساتھیوں کی وفاداری پر شک کی وجہ سے ان کو زندہ حالت میں تیزاب کے اندر ڈال دینے کی بربریت کو جہاد سمجھتا ہو، اسے ہیرو ماننا تو درکنار انسان ماننا بھی ممکن نہیں ہے۔ ان ظالموں نے جہاد جیسی عظیم اور مقدس اصطلاح کو دنیا کے سامنے مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ محترم ڈاکٹر کوکب صدیقی کو چاہیے کہ ڈاکٹر کلیم صدیقی مرحوم کی طرح ایسی چیزیں منوانے پر زور نہ دیں جن کا فیصلہ تاریخ کے ذمہ ہے۔
امریکا کے اندر جن کرم فرماؤں سے میرا رابطہ اور باہمی تعامل جاری رہتا ہے ان میں ایک ڈاکٹر کوکب صدیقی بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب امریکا میں Pennsylvania کی Lincoin University میں انگریزی کے پروفیسر ہیں۔ وہاں ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ بھی دیتے ہیں اور The Trend کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالتے ہیں۔ فیس بک پر بھی لوگوں کو اپنے خیالات سے نوازتے رہتے ہیں۔ وہ امریکا میں مسلمانوں کی اجتماعی سرگرمیوں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ جتنے مخلص اور دردمند ہیں اسی قدر جذباتی ہیں۔ القاعدہ، طالبان اور داعش سمیت وہ ساری تنظیمیں جو ساری دنیا کی نظر میں دہشت گرد ہیں، ڈاکٹر کوکب صدیقی کی رائے میں امتِ مسلمہ کی حقیقی نمائندہ اور محسن ہیں۔ وہ ان کے جہادی کارناموں کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں اسامہ بن لادن، مُلّاعمر اور ابوبکر البغدادی اس امت کے ہیرو ہیں۔ ڈاکٹر کوکب صدیقی اپنی تحریروں میں امریکی سماج کی بہت سی اخلاقی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور امریکا اور اہل مغرب کی طرف سے اسرائیل کی سرپرستی کی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔ صہیونیت کے خلاف بڑی بے باکی سے لکھتے ہیں۔ ہولوکاسٹ یعنی نازیوں کے ہاتھوں مبینہ طور پر چھ ملین یہودیوں کو آتشی بھٹیوں میں جھونک کر ہلاک کرنے کی کہانی کو ایک غیر حقیقی اور فرضی قصہ مانتے اور اس کے بارے میں بغیر لگی لپٹی رکھے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام کے مسلمان حکمران اور سیاست دان بھی ان کے نشانے پر رہتے ہیں۔ انہیں وہ بزدل اور منافق گردانتے ہیں۔ امریکا کی یہودی لابی نے انہیں سامیت مخالف (anti-semite)، انتہا پسند، جھگڑالو اور فسادی (firebrand) مشہور کر رکھا ہے۔ امریکی اخبارات میں ان کی متنازع اور ریڈیکل سرگرمیوں پر مراسلے اور رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ لوگ جب سوال اٹھاتے ہیں کہ ان کی یونیورسٹی انتظامیہ ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کیوں نہیں کرتی تو یونیورسٹی انتظامیہ یہ موقف پیش کرتی ہے کہ امریکا میں چونکہ اظہار رائے کی آزادی ایک فرد کا مسلمہ حق ہے، اس لیے یونیورسٹی ان کے خیالات کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگاسکتی۔ شمالی امریکا میں CAIR، ISNA، ICNA مسلمانوں کی نمائندہ بڑی تنظیمیں ہیں۔ یہ بھی ڈاکٹر صاحب کی سخت تنقید کا ہدف بنتی رہتی ہیں۔ میرے بارے میں ڈاکٹر کوکب صدیقی کا رویہ ’کہیں قندِ مصری کہیں زہر ہے‘ کے مثل ہے۔ کبھی اتنے مہربان ہوتے ہیں کہ میرے کالموں کا خلاصہ نکال کر اس کا انگریزی ترجمہ اپنے رسالے میں شائع کردیتے ہیں اور کبھی میرے بارے میں سخت لہجہ اختیار کرلیتے ہیں۔ القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، داعش اور بوکوحرام پر میری سخت تنقید پر بھی ڈاکٹر کوکب صدیقی برہم ہوتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ان کا ایسی ہی برہمی سے کچھ اس طرح کا سوال آیا کہ ’خلیلی صاحب آپ دینی تنظیموں میں کسی کو اچھا بھی سمجھتے ہیں؟‘
اس سلسلے میں میرا نقطۂ نظر بڑا واضح ہے۔ میری نظر میں امت کی اصل ہیرو وہ اسلامی تحریکیں ہیں جو گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں مطلعِ امت پر طلوع ہوئیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک طرف اسلام کے حقیقی چہرے پر صدیوں سے پڑا ہوا جہل و بے خبری کا پردہ ہٹایا اور اس کی حقیقت اور اصلیت سے اس امت کو روشناس کرایا۔ عام مسلمان تو کیا بڑے بڑے علماء بھی یہ بھول ہی چکے تھے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات اور مثالی نظامِ زندگی ہے۔ صرف برصغیر کی تین چار صدیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں ہندو اور ایرانی تہذیب کے اثرات سے نمو پانے والے تصوف نے اسلام کی اصل صورت کو مسخ کر دیا تھا۔ دوسری طرف سارے عالم اسلام کے اندر اٹھارہویں صدی کے اواخر تک چھا جانے والے مغربی استیلا کے نتیجے میں دینی قوتوں نے پسپائی اختیار کرنی شروع کردی تھی۔ صحیح الفکر علماء بھی جتنا کچھ دین بچا سکتے تھے اسے لے کر مسجدوں اور مدرسوں میں گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ مغربی استعمار نے اظہارات کے لیے ایسے دائرے کھینچ دیے تھے کہ اس کی قاہرانہ سیاست پر دین کے حوالے سے انگلی اٹھانے کی کوئی جرأت نہ کرسکے۔ مسجدوں میں سیاست کی بات ممنوع سمجھی جانے لگی تھی۔ صوفی اور مُلّا نے اس حکم کو ایسا مانا کہ مدتوں تک یہ فرنگیوں کا نہیں بلکہ اسلام کا حکم ہی سمجھا جاتا رہا کہ سیاست اور دین دو جدا چیزیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ سیاست دین میں دخل دیتی تھی مگر دین کو سیاست میں دخل کی اجازت نہیں تھی۔ دین کو مسجد اور مدرسے کے حجرے میں جو پناہ ملی علماء اس کو غنیمت سمجھنے لگے تھے۔ ’مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت، ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد‘… والی بات تھی۔
جدید مغربی تعلیم کے سائے مسلمانوں کے ایک طبقے کی ساخت و پرداخت ہوئی۔ اس طبقے نے دین کے معاملے میں پہلے مغرب کے سامنے معذرت خواہی کی روش اپنائی اور آخر میں خود سپردگی تک نوبت پہنچ گئی۔ یہ تھے وہ حالات جن میں برصغیر پاک و ہند میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مصر میں امام حسن البناؒ کا تحریکی کاروان جادہ پیما ہوا۔ ان کا کارنامہ یہ تھا کہ ایک طرف انہوں نے اسلام کی اصل تصویر کو اس کی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا اور بتایا کہ یہ دین صرف مسجد و مدرسہ اور خانقاہ کا معاملہ نہیں ہے۔ دین کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ریاست و سیاست، معیشت و معاشرت، تمدن و تعلیم، خاندانی اور عائلی امور، اخلاقیات و معاملات اور روحانیت سمیت ہر گوشے میں اسلام کی رہنمائی اور کارفرمائی کو مانیں۔ ان تحریکوں کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ذہنوں پر چھایا ہوا مغرب کا سحر توڑا۔ مغربی تہذیب اور نظریات و افکار کے سامنے مرعوبیت کی جو فضا بنی ہوئی تھی اس کو ختم کیا اور اس تہذیب اور ان نظریات و افکار کو دلیل سے رد کیا۔ مسلم امت کا اعتماد بحال کیا۔ ان دونوں عظیم شخصیات کے اپنی علمی و فکری اور دعوتی کام کے ساتھ ان کے زیر سایہ ایسے اہل قلم ابھرے جنہوں نے اسلام کی تعبیرات و توضیحات پر مشتمل فکر انگیز اور علم و استدلال سے آراستہ لٹریچر کے انبار لگا دیے۔ ڈاکٹر کوکب صدیقی کو جاننا چاہیے کہ یہ تھے ہمارے اصل ہیرو اور اس امت کے حقیقی محسن۔ یہ تحریکیں اور ان کے جلیل القدر بانی اور ان کے ساتھی اور فکری متبعین مجھے اچھے ہی نہیں لگتے بلکہ میری محبوب شخصیات ہیں۔
۷۹۔۱۹۷۸ء کے دو سال ایک اور لحاظ سے فکری طور پر سارے عالم اسلام اور خاص طور پر عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے اہم موڑ ثابت ہوئے۔ مولانا مودودیؒ اپنے رب کے جوار رحمت میں چلے گئے اور ساتھ ہی دو اور سانحے رونما ہوئے۔ روس اپنے وحشی لشکروں کو لے کر ہمارے پڑوس میں ایک انتہائی پسماندہ ملک افغانستان پر قابض ہوگیا۔ ایک دوسرے ہمسایہ ملک ایران میں رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹ دیا گیا۔ امام خمینی کی قیادت میں وہاں ایک مذہبی حکومت قائم ہو گئی۔ عالمی اسلامی تحریکوں نے اس مرحلے پر دونوں سانحوں میں توازن و اعتدال سے ہٹی ہوئی پالیسی اختیار کی، جس کے دوررس منفی اثرات ہماری تاریخ اور خود ان اسلامی تحریکوں کی رگوں میں اتر گئے۔ ایرانی انقلاب کے بارے میں یہ اندازہ کرنے سے قاصر رہیں کہ یہ اسلامی نہیں بلکہ ایک مسلکی انقلاب ہے۔ جب اس انقلاب کے پڑوسی ممالک تک برآمد کرنے کی باتیں ہوتی تھیں تو اس کا مطلب تھا کہ ان ممالک میں اس مسلک کا غلبہ اور تسلط دلانا ہے۔ یہ حقیقت حالیہ عرصے میں شام، یمن، بحرین، لبنان اور عراق میں ایرانی پالیسیوں سے کھل کر سامنے آگئی ہے۔ جس طرح آج ڈاکٹر کوکب صدیقی اسامہ بن لادن، ملاعمر اور ابوبکر البغدادی کو امیرالمومنین منوانے پر تلے ہوئے ہیں، اسی طرح اس دور میں برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر کلیم صدیقی مرحوم ہمیں باور کرایا کرتے تھے کہ امام خمینی ہی ساری امت کے امام ہیں اوران کی قیادت میں برپا ہونے والا انقلاب ہی وہ انقلاب ہے جس کی راہیں صدیوں سے ساری امت دیکھ رہی تھی۔
دوسری غلطی یہ ہوئی کہ اس انقلاب نے اسلامی تحریکوں کو خوش فہمیوں میں مبتلا کردیا۔ ان کو اس کے عقب میں اپنی کامرانی اور سیاسی پیش قدمی کی فرضی چاپ سنائی دینے لگی۔ وہ یہ سمجھیں کہ جس طرح ایران کے ۹۰ فیصد لوگ امام خمینی کی پشت پر کھڑے ہوگئے ان کے ملکوں کے لوگ بھی دعوت کے تقاضے پورے کیے بغیر اسی تعداد میں ان کے حامی ہو جائیں گے۔ ایرانی عوام اپنے اس مسلک کے پابند تھے اور ہیں جس کے بارے میں رجحان ساز نقاد، ادیب اور دانشور سلیم احمد سے منسوب ایک قول ہے کہ جوش ملیح آبادی اور جون ایلیا کے اندر سے سارا اسلام نکل گیا مگر ان کا مسلک نہیں نکلا۔
جماعت اسلامی کے حوالے سے میں نے جتنا غور کیا، یہی بات سمجھ میں آئی کہ افغان جہاد اس کے لیے تبدیلی، سمت،تغییر منہاج کا نقطہ آغاز بن گیا تھا۔ اس عرصے میں توازن اعتدال کی ڈور ہاتھ سے ایسی چھوٹی کہ اب ہاتھ میں آکر نہیں دے رہی ہے۔ کارِ دعوت و تربیت، خالص دینی فہم کے فروغ اور اصلاحِ معاشرہ جیسے مقاصد پس پشت چلے گئے۔ علم و تحقیق جو اس کی پہچان تھی اس کی کھیتی بنجر ہوگئی۔ روغنِ مطالعہ نہ رہا تو دانش و فکر کے چراغ ایک ایک کرکے بجھنے لگے۔ وہ جماعت لٹریچر جس کی شناخت اور مطالعہ جس کا کلچر تھا خود اپنے لٹریچر کی روح سے بیگانہ ہوئی اور کتاب سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ کتاب ہاتھ سے گئی تو تصنیف و تالیف کا چمن بھی خزاں کی زَد میں آگیا۔اس وقت سے لے کر آج تک اس کی دانش گاہوں سے علمی حوالہ بننے والی کوئی ایک کتاب بھی منصہ شہود پر نہیں آئی۔
اس کے وجود کے اندر سے تحریکی روح نکل گئی اور ایک سیاسی جماعت کا ڈھانچہ ابھر آیا۔ میں روس کے خلاف اور بعد میں امریکا کے خلاف مزاحمت کی دیوار بن جانے والی افغان تنظیموں کو ان کی بہت سی عملی اور اجتہادی غلطیوں کے باوجود ہیرو مانتا ہوں۔ اپنے وطن کو غاصب اور جارح قوت سے آزاد کرانے کا جس طرح کشمیریوں اور فلسطینیوں کو حق حاصل ہے اسی طرح حکمت یار، عبدالرسول سیاف، برہان الدین ربانی، نبی محمدی مجددی اور جلال الدین حقانی کا اور بعد میں امریکا سے آزادی کے لیے ملاعمر اور حکمت یار کا بھی حق تھا۔ اسامہ بن لادن نے افغانوں کے ساتھ تعاون کرکے جو بھلائی کمائی تھی وہ القاعدہ کو ایک دہشت گرد تنظیم کا روپ دے کر ضائع کردی۔ اس کی سرگرمیاں مسلم امہ کے لیے کسی خیر کا موجب نہیں بنیں۔ القاعدہ نے مسلمانوں کے عزت و وقار میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ وہ امریکا اور اس کے حلیف مغربی ممالک کے خلاف کچھ دہشت گردانہ کارروائیوں کے سوا ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے لیکن ان کے نتیجے میں مسلمان امت پر جو ذلت و مسکنت اور جو وبال اور مصائب آئے ہیں اور خود اسلام کی جو بڑی بھیانک تصویر دنیا کے سامنے آئی ہے اس کا مداوا شاید صدیوں تک نہ ہوسکے۔
ڈاکٹر کوکب صدیقی القاعدہ تحریک طالبان پاکستان، داعش اور بوکوحرام اوران سے منسلک دہشت گرد تنظیموں کی خون آشامی کو اسلامی تعلیمات کی میزان پر رکھ کر دیکھیں تو انہیں ماننا پڑے گا کہ یہ فساد فی الارض کی بدترین صورت ہے۔ ابوبکرالبغدادی کو جناب کوکب صدیقی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر پرکھیں تو وہ ایسا وحشی صفت شخص ہے، جس نے عراق خلیج سے لے کر شمالی افریقا تک اور جنوبی ایشیا سے لے کر مشرقِ بعید تک سارے عالم اسلام میں آگ لگا رکھی ہے۔ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کا کچھ بگڑ نہیں رہا ہے، لیکن عوام کا امن و سکون اور جان و مال سب اس آگ میں جھلس رہے ہیں۔ جو شخص ہوائی جہازوں میں سفر کرنے والے بے قصور مسافروں کے فضا میں پرخچے اڑانے کو جائز سمجھتا ہو، جو اپنے ہی ساتھیوں کی وفاداری پر شک کی وجہ سے ان کو زندہ حالت میں تیزاب کے اندر ڈال دینے کی بربریت کو جہاد سمجھتا ہو، اسے ہیرو ماننا تو درکنار انسان ماننا بھی ممکن نہیں ہے۔ ان ظالموں نے جہاد جیسی عظیم اور مقدس اصطلاح کو دنیا کے سامنے مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ محترم ڈاکٹر کوکب صدیقی کو چاہیے کہ ڈاکٹر کلیم صدیقی مرحوم کی طرح ایسی چیزیں منوانے پر زور نہ دیں جن کا فیصلہ تاریخ کے ذمہ ہے۔
0 comments: