featured

یہ روش تو بدلنی ہوگی

6:29 PM nehal sagheer 0 Comments




قاسم سید 
سیاست مجبوریوں کا سودا اور ضرورتوں کا تبادلہ ہے۔ کم از کم ہندوستانی تناظر میں پارلیمانی سیاست کے کوئی اصول و آداب نہیں ہیں۔ نظریاتی مفاہمت اب عام بات ہوگئی ہے۔ سیکولر اور فرقہ پرست کی تعبیر و تعریف اپنی اہمیت و افادیت کھوچکے ہیں۔ اب وہ بال کی طرح باریک لکیر بھی بے رحمی کے ساتھ مٹادی گئی ہے، جو اس فرق کو واضح کرتی تھی۔ کب کون سا پہلوان کس طرف چلا جائے کہنا یا پیش گوئی کرنا مشکل ہوگیا ہے، مگر مسلمانان ہند کی اس بات کے لئے تعریف کرنی پڑے گی کہ انھوں نے سیکولرازم کو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھا اور اسے عقیدہ کا ایک حصہ بنالیا، یہاں تک کہ جو لوگ سیاست میں داخلہ کو بھی کفر سمجھتے تھے اور طاغوتی نظام کے قیام کا ذریعہ گردانتے تھے، سو وہ بھی بقول اقبال قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا، کی تصویر ہوگئے۔ مذاکرہ، مباحثہ، اختلاف رائے پارلیمانی جمہوریت کے عناصر ترکیبی ہیں اور یہی اس کی روح ہے، مگر ہم ایسے دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ جہاں حکومت کی پالیسیوں پر تنقید خواہ وہ کتنی مدلل، سنجیدہ اور معقول کیوں نہ ہو، مہلک دشمنی سمجھی جانے لگی ہے اور حب الوطنی کو مشتبہ بنایا جاتا ہے۔ اختلاف رائے کو برداشتش کرنے کا تو سوال ہی نہیں ہوتا۔ عدم رواداری کا یہ رویہ سماج کے ہر طبقہ میں موجود ہے اور ہم سب اس اذیت کا شکار ہیں۔
اترپردیش کے ریاستی انتخابات میں یہ تمام جوہر اپنی جگہ موجود ہیں، جہاں عوام یا رائے دہندگان محض تماشائی ہیں، حالات اس نہج پر پہنچادیے گئے ہیں، جہاں اُف کہنا بھی گردن زدنی کے مترادف ہے۔ مقابلہ ایک بار پھر سیکولرازم اور فرقہ پرستی کے درمیان ہے۔ یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ ہاشم پورہ اور مظفرنگر کے ذمہ داروں نے ہاتھ ملالیا اور فرمان جاری کردیا گیا کہ اب یہی ’راہ نجات‘ ہے اور ادھر ادھر بھٹکنے کی صورت میں ’عذاب الیم‘ انتظار کررہا ہے۔ سرکار دعویٰ کرتی ہے، اس نے جو وعدے کئے تھے اس سے کہیں زیادہ پورے کررہے، چنانچہ کس کو زبان چلانے اور حضور کے ااداب میں گستاخی کا حق نہیں ہے اور اگر کوئی اس ’گناہ‘ کا مرتکب ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کررہا ہے۔ یقیناً سودے بازی کرلی ہوگی اور وہ ’معصومین سیاست‘ کے ساتھ دھوکہ دہی کرنے کے جرم عظیم میں ملوث ہے۔ مستقبل کے ممکنہ ’وقارالہند‘ شاید اب یہی لقب باقی رہ گیا ہے، ورنہ رفیق الملک اور فیق الملت تو پیٹنٹ ہوچکے ہیں۔ نوجوانوں کی آخری امید، وزارت عظمیٰ کے امیدوار اور جن پر مہاوکاس پرش کی تمام حدیں آکر ختم ہوجاتی ہیں، ان پر انگلی اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ایمان میں کچھ کمی ہے یا آپ کو سرکاری درباری بننے کے فن سے واقفیت نہیں۔ کورنش بجا لانے کا ہنر نہیں جانتے۔ وہیں ’رفیق الملک‘ نے بھی ریاستی عوام کو پرلے درجہ کا بے وقوف سمجھ لیا ہے۔ کبھی بیٹے کو ڈانٹتے ہیں پھر پچکارتے ہیں، کبھی باغیانہ تیور دکھاتے ہیں تو اگلے پل میں گھٹنوں کے بل جھکتے نظر آتے ہیں، کبھی بیٹے کو مسلم مخالف کہتے ہیں پھر اپنا سارا وزن اسی کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں۔ کبھی کانگریس سے اتحاد کی سخت مخالفت کرتے ہیں تو دوسرے بھی دن اسی اتحاد کے لئے انتخابی مہم چلانے کا اعلان کرتے ہیں۔ کبھی اپنے بھائی کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں تو کبھی بیٹے کی طاقت میں اپنی طاقت ملادیتے ہیں، اپنے چچازاد بھائی کو بی جے پی کا ایجنٹ اور بیٹے کو اس کی کٹھ پتلی بتانے سے نہیں چوکتے تو اسی بیٹے کی سرکار بنانے کا خواب دکھاتے ہیں۔ حالانکہ اب وہ خود مذاق کا موضوع بن گئے ہیں۔ بھلے ہی انھوں نے گول کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہو مگر اپنا پیر توڑ بیٹھے ہیں۔ ان پر بھروسہ اور اعتماد تو پہلے بھی لوگ نہیں کرتے تھے اب تو بالکل ہی ختم ہوگیا ہے۔
ہماری حیثیت تو غلاموں اور بندھوا مزدوروں سے بھی بدتر ہے۔ نہ کانگریس یہ بتانے کے لئے تیار ہے کہ سرکار میں شریک ہونے کے بعد وہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور نہ ہی سماجوادی پارٹی کھل کر یہ کہنے کی پوزیشن میں ہے کہ اس کا ایجنڈا اور کم از کم مشترکہ پروگرام ہے۔ ہاں یہ ضرور سمجھ لیا گیا ہے کہ اب مسلمان آنکھیں بند کرکے اس اتحاد کے حق میں ووٹ دینے کا پابند ہوگیا ہے، کیونکہ اس کے پاس فرقہ پرستوں کی یلغار سے بچنے کا کوئی راستہ ہی نہیں بچا ہے۔ اسے ہم نے اتحاد کے حصار میں قید کرلیا ہے اور پھر سیکولرازم کے تحفظ کے تمام جملہ حقوق اپنے نام بھی اسی نے محفوظ کرلئے ہیں۔ کوئی بھی انقلاب آجائے، سیکولر فرقہ پرست ہوجائے، اس کی زبان پر جاری ورد کبھی نہیں ہوگا۔ اونٹ کی اوجھڑی کی طرح سیکولرازم کا جوا اس کے کندھے پر رکھ دیا گیا ہے۔ یہ کولہو کا بیل ہے جتنا ماروگے اتنا ہی بہتر چلے گا، کیونکہ آنکھوں پر جالی لگادی گئی ہے، وہی دیکھتا ہے جو ہم دکھانا چاہتے ہیں۔
یہ کبھی سوال نہیں کرے گا اسے سوال کی پوزیشن میں چھوڑا کہاں ہے، کیونکہ خود اس کے حلقہ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سوال کرنے پر اس کے پیچھے پڑجائیں گے اور اسے بی جے پی کا ایجنٹ بنادیں گے، ایسے کلمہ خیر کہنے والے موجود ہیں جن کو مظفرنگر فساد کے وقت چارٹرڈ طیاروں سے لکھنؤ بلاکر ریاستی حکومت کے دفاع میں اتارا گیا تھا، ان کی ضروریات و مطالبات کی تکمیل وقفہ وقفہ سے کی جاتی رہی ہے تو پھر معاہداتی سیاست کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ اسی طرح اگر کوئی سو امیدوار مسلمان کے نام پر اتارکر یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اب جوق در جوق سارے مسلم رائے دہندگان اس کی جھولی میں آگریں گے، اب ان سے بات کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ان کا فرض منصبی ہے کہ وہ اس احسان عظیم کو ووٹوں کی صورت میں اتارکر عنداللہ ماجور ہوں۔ وہیں ٹیکٹیکل ووٹنگ کے علم بردار فہرست سازی میں مصروف ہیں کہ اسمبلی میں اخلاقیات کے پروردہ ہی پہنچ سکیں جو منتخب ہونے کے بعد اخلاق و انسانیت کی تبلیغ و تشہیر کریں گے۔ فہرست سازی کے اس عمل نے بی جے پی کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے۔ یقیناً بی جے پی کے ارباب حل و عقد ان حضرات کے بھی مشکور و ممنون ہوں گے جن کی بی جے پی ہرائو پالیسی نے سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا۔ ہر کھیت میں تھوڑا تھوڑا کھاد ڈالنے اور سب کو خوش کرنے کی پالیسی نے ان کے مقاصد جلیلہ کو ضرور پورا کردیا ہوگا، مگر مسلمانان ہند کی سیاسی پوزیشن لگاتار کمزور ہوتی گئی، حتیٰ کہ بہار الیکشن میں ان کے منھ پر تالہ لگادیا گیا کہ ووٹ خاموشی سے دینا، شور مچائوگے تو بدنامی ہوگی۔ اب وہی مرحلہ اترپردیش میں ہے، حالانکہ بہار اور اترپردیش میں اس لحاظ سے فرق ہے کہ بہار میں عوام کے سامنے مہاگٹھ بندھن کے علاوہ کوئی متبادل نہیں تھا، جبکہ یوپی میں ایسا نہیں ہے، یہاں متبادل موجود ہے اور بوقت ضرورت ووٹر دبائو کی پالیسی سے بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے، مگر ہماری بدنصیبی ہے کہ ہر الیکشن میں فرقہ پرستی کے مسئلہ کو سب سے آگے کردیا جاتا ہے تاکہ آپ ایشوز کی بات ہی نہ کرسکیں، بلکہ شر سے دور رہنے کی تدبیر کو ترجیحات میں شامل کریں ورنہ سیکولرازم سے آپ کی وفاداری مشتبہ مانی جائے گی۔ ایسے ماحول میں کون کمبخت یہ معلوم کرے گا کہ حضور گستاخی معاف آپ نے آبادی کے تناسب سے ریزرویشن کا وعدہ کیا تھا وہ ایفا کیوں نہ ہوسکا اور اب تو آپ کی زبان مبارک سے لفظ ریزرویشن نکلتا ہی نہیں حتیٰ کہ نئے انتخابی منشور میں لفظ مسلمان ہی خارج کردیا گیا اور صرف اقلیت لکھ کر رسم ادا کردی گئی۔ آخر کون سی ایسی مجبوری ہے کہ 19 فیصد مسلمانوں کے ووٹ پر اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور زبان اقدس سے نام لینا بھی ناگوار لگتا ہے۔ آپ نے ضلعی سطح پر اردو میڈیم اسکول کھولنے اور مسلم اکثریتی اضلاع میں روزگار فراہم کرنے والے پروجیکٹ کا وعدہ کیا تھا، آخر اس میں کیا قباحت تھی۔ آپ تو اردو میڈیم اسکول کھولنے پر پابندی والا جی او بھی واپس نہیں لے سکے۔ مسلم بے گناہ نوجوان جو سالوں سے دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں بند ہیں، ان کی رہائی کا وعدہ پورا کرنے کا معاملہ تو دور جو عدالت نے بری کردیے آپ ان کے خلاف عدالت چلے گئے۔ مظفرنگر فساد کے پچاس ہزار سے زائد مظلومین اب بھی پناہ گزینوں کی شکل میں موجود ہیں۔ ان کیمپوں میں اسکول، روزگار کی باتیں تو دیوانے کی بڑ ہیں، ضروریات پوری کرنے تک کا سامان نہیں۔ ظاہر ہے ایسے سوالات منھ کا مزا خراب کردیتے ہیں اور ایسا کرنے والے یقیناً بی جے پی سے ہمدردی رکھنے والے ہوں گے، ورنہ وہ وعدے یاد دلانے کی جرأت کرتے۔ اپنے ممبران اسمبلی کی ریڑھ کا پانی نکال چکے ہیں۔ انھیں سجدئہ تعظیم سے ہی فرصت نہیں ملتی، کلمہ وفاداری سے آگے کچھ سوجھتا نہیں۔ تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے، اگلے پانچ سالوں کے لئے قسمت کا فیصلہ ہوجائے گا۔ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اگر دل اور دماغ کو شریک سفر نہ بنایا تو پھر شکوہ کرنے اور کوسنے کا بھی حق نہیں رہے گا۔ ہماری تن آسانی اور وقتی فائدے کی روش نے ماضی میں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ آنے والی نسلوں کا فائدہ سوچنے کی عادت ڈالنی ہوگی ورنہ مداری آئیں گے، تماشہ دکھائیں گے، نظربندی کریں گے اور جیب خالی کرکے چمپت ہوجائیں گے۔ سیاست دل سے نہیں دماغ سے کی جاتی ہے۔ ہم یہ راز کب پائیں گے؟

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: