featured
بند گلیوں کےسفر میں منزل کی تلاش
قاسم سید
سنا ہے جب سیلاب آتا ہے ،پانی سر سے اونچا
بہنے لگتا ہے ۔ نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے تو جنگل کے جانور ایک دوسرے کے ازلی دشمن،چیر
پھاڑ کے لئے ہمہ وقت تیار ،دشمن کو دیکھ کر غرانے اور ترنوالہ بنانے والے، ایک دوسرے
کے وجود کو برداشت نہ کرسکنے والے اس ہنگامی حالت میں اپنے تمام اختلافات ودشمنیاں
بھلا کر انچے ٹیلہ پر اکٹھا ہو جاتے ہیں اور عارضی مدت کے لئے ہی سہی سرجوڑکر بیٹھ
جاتے ہیں اور آفت ناگہانی کے گذرنے کا انتظار کرتےہیں ۔کیونکہ اس وقت ترجیحی مسئلہ
جان کا تحفظ ہوتا ہے چھپ کر شکار کرنے والے ہوں یا اعلانیہ ،ظالم ہو یا مظلوم اس وقت
کوئی کسی کے مظالم کی داستان سنا کر اسے شرمندہ یا مشتعل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ہر
طرح کے تنازعات و اختلافات کو اٹھاکر رکھ دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی فطری جبلت اس
وقت عود کرتی ہے یہ الگ بات ہے کہ جیسے ہی خطرہ ٹلتا ہے آسمان صاف ہو کر چمکیلی دھوپ
بکھیرتا ہے اپنی فطرت کے خول میں چلے جاتے ہیں لیکن عارضی جنگ بندی اور امن کی مدت
بھلے ہی مختصر ہو لیکن یہ پیغام تو ضرور دینے میں کامیاب رہتی ہے کہ ترجیحات و اقدامات
وقت اور حالات کے حساب سے بدلتی رہتی ہیں ،بدلتی رہنی چاہئیں جامد فکر ہو یاعمل تاریخ
کے سفر میں بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے دل کہتا ہے کہ اگر ڈھلان سے اترنےکا مرحلہ در پیش
ہو تو قدم جما کر اور ہوش و حواس میںرہ کر پیش رفت کرنی چاہئے ۔سپاٹ راستہ پر ضرورت
کے مطابق چال ہلکی یا تیز کی جاتی ہے اور اوپر چڑھنے کے لئے کبھی چھڑی کا سہارا بھی
لیا جاسکتا ہے کیونکہ نگاہیں ہدف پر ہوتی ہیں
جب ’ساودھانی ہٹی دورگھٹنا گھٹی‘ کا بورڈ نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے اجتہاد کا
پہلو اس لئے رکھا گیا ہے کہ مسلمہ اصول وفرامین کی روشنی میں منزل تک جانے کے لئے متبادل
راستے تلاش کئے جائیں مگر اجتہاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کھونٹے کو کہ چھوڑ دیا جائے
رسی کتنی بھی لمبی کیوںنہ ہو اسے کھونٹا کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے ۔
اترپردیش کے حالیہ انتخابات بھی سیلاب جنوںکی
طرح ہیں نہیں معلوم کہ اس سیلاب میں کیا کیا چلا جائے جس کو ان خطرات کا احساس تھا
اس سے نمٹنے کی تیاریاں عرصہ پہلے شروع کر دی تھیں ۔گاؤں گاؤں جاکر لوگوں سے رابطہ
کرکے خطروں سے آگاہ کر رہے تھے ۔ایسے بھی تھے جو ایسے مواقع کونیک فال سمجھ کر سیلا
ب کے دوران بہنے والے مال و اسباب اور مال غنیمت پر نگاہیں جمائے تھے کہ کب باندھ ٹوٹے
اور اور وہ مال غنیمت میں حصہ داری طے کر لیں اور ایسے بھی تھے جو آنکھ مل کر اٹھے
اور جب نگاہیں دیکھتی ہیں کہ پانی دروازے تک آنےمیںابھی کافی وقت ہے تو کروٹ بدل کر
سو جاتے انہیں محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی اور وارننگ سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ہاں
جب پانی گھر میں داخل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے تو عجلت میں اٹھتے ہیں اور شور ہنگامہ
کرتے ہیں بچاؤ بچاؤ کی صدائیں سنائی دینے لگتی ہیں پھرکچھ نجات دہندہ اچانک نمودار
ہوتے ہیں اور اپنی شرطوں پر بچانے کا معاہدہ کرتے ہیں کیونکہ اس کے پاس اور کوئی متبادل
نہیں ہوتا اور مجبوری جو خود اس کی بد اعمالی ،بےحسی ،خود غرضی اور کم نگاہی کا نتیجہ ہے اسے کبھی پناہ گزیں کیمپوں تو کبھی
قبرستان تک پہنچا دیتی ہے اور اپنی کمزوری و خود فریبی کو چھپانے کے لئے اپنی حالت
کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
یہ کون نہیں جانتا تھا کہ اترپردیش کے انتخابات
نتائج کے لحاظ سے قومی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کریں گے جنہیں احساس تھا وہ اس کی
تیاری میں لگ گئے تھےاور خود کو ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیں کررہے تھے ۔
جہاں تک ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت
کا سوال ہے وہ دوربین لگا کر آسمان میں ہونے والی ہلچل کا مشاہدہ کر رہی تھی اور اس
کے رہنمامناسب وقت کا انتظار ۔ہر پارٹی کو مسلمانو ںکی اہمیت اور انتخابی رول کا بخوبی
اندازہ تھا ان کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بنائی جانے لگیں ایک پارٹی نے سو مسلم امیدوار
وں کو میدان میں اتار دیا تو دوسری نے مسلم ووٹوں کی تقسیم نہ ہونے کی غرض سے بدترین
سیاسی حریف پارٹی سے اتحاد کر لیا جبکہ لڑائی کی تیسری فریق نے مسلم ووٹو ں کو بکھیرنے
اور منتشر کرنے کے لئے مختلف حریفوں کےتیر اپنےترکش میں جمع کئے مگر مسلما ن خود اس
لڑائی سے کوسوں دور ستاروں کی گذر گاہیں ڈھونڈنے والا اپنے افکار کی دنیا میں سحر کرنے
سے نیا روزشب کی خرمستیوں میں ڈوبا تھااور ہے ۔
مسلم ووٹوں کی کھینچا تانی نے اسے تماشہ
محض بنادیا اور ایسے وقت جب زیادہ حکمت و دانائی کی ضرورت تھی اتحاد و اتفاق کے نام
پر دانے بکھیرنے کی مہم شروع ہو گئی ۔اتحاد کرنے والوں کو زعم ہے کہ وہ اور کہاں جائے
گا اور اور سو مسلم امیدوار اتارنے والوں کو بھروسہ ہے کہ ہم نے وہ دانہ پھینکا ہے
کہ کبوتر اسے چننے کے لئے یہیں اترے گا اورحرام ہیں آجائے گا جبکہ ووٹوں کو منتشر
کرنے والے معاملہ کو شمشان گھاٹ اور قبرستان کی لڑائی تک لے آئے رمضان اور دیوالی
کے قصے سنانے لگے اور اب اس بات کا خدشہ پید ا ہو گیا ہے کہ خوش فہمیاں عذاب میں نہ
بدل جائیں اس لئے بحمداللہ ان کی منشا کے مطابق اتحاد کے لئے نعرہ نے وہ انتشار پیدا
کیا ہے جو اس سے قبل نظر نہیں آیا ۔بی جے پی کو ہرانے کے نیک مقصد اور کارخیر نے حالات
کو بہت نازک موڑ پر پہنچا دیا ہے ۔سیلاب کے موقع پر بھی ہم اپنے ظاہری باطنی اختلافات
کو بھلانے میں ناکام رہے ہیں اور بے زبان لوگوں سے بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں
جن کے پاس و ہ فہم و شعور نہیں جس کی بنا پر ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ عطا ہوا ہے
۔یا تو ہم سمجھ نہیں رہے ہیں یا سب کچھ جانتے ہوئے بھی سمجھنا نہیں چاہتے ۔ہماری حد
سے بڑھی جذباتیت معاملہ کو سطحی طور پرسمجھنے کی عادت اور ان سے اختلاف رکھنے والے
کو مردود ،ملعون اور کسی کا ایجنٹ کہنے کی
خرافات نے خلیج کو اتنا چوڑا کر دیاہے کہ افہام وتفہیم کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے
اسی المیہ ہی کہاجائے گا کہ دوسروں کو کاندھوں پر بٹھانے ان کے سامنے سر بسجود ہونے
اور وفاداری کا ہرممکن ثبوت دینے کو بےتاب جب اپنوں کی مجلس میں آتے ہیں تو ساری فراخدلی
،نرم دلی اور وسعت فکری کو گھر چھوڑ آتے ہیں۔ وجود برداشت کرنے کوتیار نہیں ہوتے
۔اجلے کپڑے پہننے والے عطر میںبسے خوبصورت لوگ ذہنی سفاکیت کا وہ مظاہرہ کرتے ہیں کہ
اس کے تذکرہ سے بھی ڈر لگتا ہے ۔اتر پردیش کے انتخابات میںبدقسمتی ہے اہلیان فکر و
نظر ،واعظان قوم وملت ٹھوس رہنمائی دینے میں ناکام رہے اور اپنی سیاسی وابستگیوں وفاداریوں
سے اوپر اٹھ کر ملت کے بارے میں سوچنے کا زریں موقع گنوابیٹھے رہیںسیکولر پارٹیاں تو
انہوں نے ساٹھ سالہ دور حکومت میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ سچر کمیٹی رپورٹ
اس کا عبرت انگیز دستاویزہے مزید کچھ کہنے کی ضرورتنہیں رہی بھگوا طاقتیں تو انہوں
نے اپنی دشمنی چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی اس لئے وہ جو کچھ بھی کرتی ہیں خلاف توقع
نہیںہے تو اس بات کا غم ہے کہ ہمیں اپنوں نے لوٹا اور ہم ان سے خوش ہیں اور مزید لٹنےکے
لئے بے قرار و بےتاب ہیں ۔
بی جے پی کو مرکز تک پہنچانے میں جہاں سیکولر
پارٹیوں کا کلیدی رول ہے تو وہیں ٹیکٹکل ووٹنگ کے علمبردار بھی برابر کے مجرم ہیں
۔جوبی جے پی کو ہرائے اس کو جتاؤ کی منفی اور تباہ کن سیاست نے بی جے پی کا تو کچھ
نہیںبگاڑا ان کی مہربانی سے لگاتار سیڑھیاں چڑھتی گئی 2سے0 28تک پہنچ گئی کیونکہ وہ
تو یہی چاہتی ہے کہ اسکے خلاف پولرائزیشن ہو تاکہ مسلمان بی جے پی کو ہرانے کے لئے
متحد ہو رہے ہیں اس کے رد عمل میں ہندو ووٹ کی صف بندی ہوجائے کیونکہ آپ زمین پر محنت
نہیں کرتے گاؤں میں جاکر زمینی حالات کا جائزہ نہیں لیتے کوئی ڈیٹانہیں کمروں میں
بیٹھ کر دانشورانہ انداز میں اپیلیں جاری کر دیتے ہیں اور اس کا خمیازہ پوری ملت بھگتتی
ہے ۔آخر کبھی یہ سوال کیوں نہیں اٹھا کہ ہماری حکمت عملی میں کہاں غلطی ہوئی ہے ہم
اپنے مقاصد جلیلہمیں ناکام ہوتے کیا ہماری ترجیحات و مطالبات محدود تھے ان کاہدف صرف
ہماری ذات یا تنظیم تھی گزشتہ تین دہائیوں میں خوشحالی و فراوانی کےدریا نے کس کو سیراب
کیااس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہےعام مسلمان پسماندگی کا شکارہے جیسے وہ چھتیس گڑھ
کے قبائلی علاقوں یا کالا ہانڈی کی مخلوق ہو ں۔اب ایسی تمام کنڈلیوںکا جائزہ لینے کا
وقت آگیا ہے ان جیو تشیوں کا بھی جو ہاتھ دیکھ کر ہمیں ادھر سے ادھربھٹکاتے رہتے ہیں ۔اور اس پر بھی غور کرکرنا ہوگا کہ ایک
ڈال سے دوسری ڈال پر کب تک پھدکتے اور آشیانہ عافیت کی تلاش میں سر پھوڑ تے رہیں گے
۔اتر پردیش سے خوبصورت انجام کا ٹھوس آغاز ہوسکتا تھا آزمائشیں اب بھی باقی ہیں
۔بس ذہن کی گرہیں کھولنے کی ضرورت ہے ۔پرانیلکیریںپیٹنے کی بجائے نئی لکیر کھینچی جائے بند
گلیوں کا سفر کبھی منزل نہیں پہنچا سکتا ۔
0 comments: