featured

دہشت گردی ،مذمت اور احتجاج !کیا اس سے خون آشامیاں تھم جائیں گی؟

4:59 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر

دہشت گردی !یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا نام لیتے ہی یا اس سے جڑے واقعات کے نظر میں آتے ہی ایک خاص قوم کا نام اور اس میں ایک خاص طبقہ یا فرقہ کی شکل ذہن میں آجاتی ہے ۔اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا ہے ۔اکیسویں صدی میں ترقی یافتہ ملکوں اور نام نہاد ترقی یافتہ تہذیبوں نے دنیا کو کچھ دیا ہو یا نہیں لیکن انہیں ایک فرضی نام ضرور دے دیا جسے میڈیا کے ذریعے اتنا دہشتناک بناکر عوام کے دماغ میں پیوست کردیا گیا ہے کہ ہر کوئی وحشت زدہ ہے کہ جانے کب کیا ہوجائے ۔جمعرات کو پاکستان کے سیہون میں واقع درگاہ لعل شہباز قلندر پر خودکش حملہ میں سو کے قریب افراد ہلاک ہو گئے ۔اس پر ایک اردو اخبار کی خبر کے مطابق رضا اکیڈمی سمیت جمعیتہ العلماء مہارشٹر ،جمعیت اہل حدیث اور حریت کانفرنس نے مذمت کی ہے ۔اس شرمناک اور بزدلانہ حرکت پر ایک اردو اخبار نے اپنے اداریہ کے آخر میں لکھا ’’پاکستان میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگلا دھماکہ اب نہیں ہوگا ‘‘۔اس آخری سطر سے قبل بھی ایسا کچھ لکھا گیا ہے گویا یہ سب کچھ پاکستان کے اپنے کارناموں کا پھل ہے جسے وہ بھگت رہا ہے۔جبکہ ہم کہیں کے بارے میں بھی کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کب کیا ہو جائے لیکن ہمیں میڈیا کے ذریعہ ایسے واہموں میں مبتلا کردیا گیا ہے کہ وہ ہمارے ذہن و دل میں ثبت ہو گیا ہے۔ہم انہی واہموں میں جی رہے ہیں ۔اس میں وطن پرستی کا جنون بھی شامل ہے ہمیں یہ ثابت تو کرنا ہی ہے نا کہ ہم بھی وطن پرست ہیں ۔اصل میں ہم اس طرح کے واقعات کو ایک خاص عینک اور نکتہ نظر سے دیکھنے اور اسی کے مطابق عوام کو بتانے اور سمجھانے میں مصروف رکھتے ہیں ۔کوئی اس کے کسی دوسرے پہلو پر نظر نہیں ڈالتا کہ یہ کون کررہا ہے ؟کیوں کررہا ہے ؟اس کا مقصد کیا ہے ؟اس کا ہدف کیا ہے ؟ کہیں کوئی دھماکہ یا خود کش حملہ ہوا نہیں کہ ایک عدد ای میل یا فون کسی اخبار یا کسی ایجنسی کے پاس آجاتا ہے کہ انہوں نے یہ دھماکے کئے ہیں اور یہ مان لیا جاتا ہے کہ جس نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے اسی نے یہ گھناؤنا کارنامہ انجام دیا ہے ۔آج کل داعش نام سے ایک تیار شدہ تنظیم سب کے سامنے ہے جتنا کچھ جہاں بھی ہو بس یہ کام اس کے علاوہ کسی اور نے کیا ہی نہیں ہو ۔ہمیں قطعاً یہ نہیں سوچنا ہے کہ جس نے فون یا ای ایل پر دھمکی دی ہے یا حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اس کی حیثیت کیا ہے ۔وہ وجود میں بھی ہے یا عدیم الوجود محض ایک سایہ ہے ہم سب ایکفرضی ہیولے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔مسئلہ یہہے کہ اعترافی بیان ای میل یا فون کے ذریعہ موصول ہونا اور اس پر بیان داغ دینا یا کو ئی اسٹرائیک کردینا بہت آسان نسخہ ہے ۔اس کے برعکس اگر ملکوں کے حکمراں اور ان کے کار پرداز اس کی تہہ تک جانے اور اس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ مشقت طلب مرحلہ ہے ۔ کون جائے ایئر کنڈیشن کوٹھیوں اور آرام دہ کاروں سے نکل کر عوام کے درمیان یا جنگلوں میں بھٹک کر اصل مجرمین کو پکڑے اور یہ بھی کہ ایسے مجرمین حکومتی اہل کاروں میں ہی ہوں جو محض دو حکومتوں یا دو ملکوں کے تعلقات کو بگاڑنے کے درپے ہوں ۔اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صوفی درگاہوں پر حملہ کرکے ایک خاص گروہ اور ایک خاص مسلک کے خلاف رائے عامہ ہموار کرکے معاشرے میں فساد پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس کوشش کے پیچھے کون ہے اور اس کا مقصد کیا ہے ؟اس جانب جتنی جلد توجہ دی جائے اتنا ہی بہتر ہوگا ۔یہ انسانیت ،ملک اور پوری دنیا کی سلامتی کیلئے اچھا ہو گا کہ اصل مجرمین کو پکڑا جائے ۔ انہیں عوام کے سامنے لایا جائے اور اسلام کے نظام تعزیر کے مطابق سر عام سزا دی جائے ۔لیکن یہ ضروری ہے کہ محض انتقام اور مسلکی عناد کے سبب کسی کو سازش کے تحت نہ پھنسایا جائے ۔کیوں کہ ایسا کرنے سے امن کبھی قائم نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے بطن سے انتقام جنم لے گا اور انتقام در انتقام دنیا کو خون خرابہ کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتا ۔
دھماکے مسلم دنیا کا نصیب بن چکے ہیں ۔ہر روز کہیں نہ کہیں دھماکہ ہوتا ہی ہے اور اس میں بے گناہ اور معصوم شہری بے موت مرتے ہیں ۔کہیں بازار میں دھماکہ ،کہیں بسوں اور ٹرینوں میں دھماکہ اور کہیں مساجد و مقابر و درگاہوں میں دھماکہ ہوتا ہے جس میں آج تک ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔دھماکے درگاہوں میں ہوں یا مساجد و منادر میں بہر حال اس میں بے گناہ انسان ہی مرتا ہے ۔مرنے والا معصوم ہی ہوتا ہے ۔اس سے تفریق نہیں کرنی چاہئے کہ ہم کسی خاص جگہ دھماکہ ہو جب ہی مذمت کریں گے ورنہ خاموش تماشائی بنے رہیں گے ۔یہ مذمت بھی عجیب بلا ہے ۔میں بچپن سے یعنی اسی کی دہائی سے اخبارات میں لفظ مذمت پڑھ رہا ہوں ۔لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس مذمت سے بھلا مظلوم کو کیا مل جائے گااور ظالم کے ہاتھ کیوں کر کاٹے جاسکتے ہیں ۔بس جسے دیکھو ایک سطری مذمتی بیان داغ کر فارغ البال ہوجاتا ہے ۔روزانہ ہونے والے دھماکوں میں بے گناہ مرتے ہیں لیکن بہت خاص خاص دھماکوں پر ہی کوئی ردعمل پڑھنے یا سننے کو ملتا ہے ۔یہ تفریق کیوں ؟ہمیں چاہئے کہ ہم سارے انسانی جانوں کی حرمت کا یکساں خیال کریں ۔جیسا کہ قرآن کہتا کہ کسی انسان کو بغیر حق کے قتل کرنا ساری انسانیت کا قتل ہے لیکن ہم کسی خاص موقعہ پر ہی بیدار ہوتے ہیں ۔ایک بات اور یہ کہ اب یہ مذمت کا سلسلہ بند کیجئے اور عملی اقدامات کی جانب قدم بڑھائیں ۔بہت ہو چکا مذمت کا سلسلہ ۔اس مذمت سے قاتلوں جنونیوں اور انسانیت کے دشمنوں کا کچھ نہیں بگڑنے والا ۔اس لئے کچھ ایسا کریں کہ ان ظالموں کی گردن ناپی جاسکے ۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہو سکے گا جب ہم مذہب ،مسلک ، رنگ و نسل اور اونچ نیچ کے خود قائم کئے ہوئے فرضی طبقاتی نظام سے باہر نکل کر محض انسانیت کے درد کو محسوس کرتے ہوئے آگے آئیں اور کسی کے بہکاوے ،کسی کے کہنے ،کسی کی سازش سے کسی کو مجرم نہ گردانتے ہوئے اصل مجرم کو پکڑا جائے ۔خواہ وہ کوئی بھی کسی ملک کا سربراہ ہو ،کوئی سیاست داں ہو یا دنیا کی سوپر پاور ملک کا صدر یا گلی محلوں کا کوئی عام سے مجرم ۔امن و امان اور قتل و غارت گری تو صرف انصاف اور اس کے مکمل نفاذ سے ہی قائم ہو گا ۔اس کے بغیر محض مذمتی بیان ،احتجاج سے کچھ نہیں ہونے والا ۔آخری بات یہ کہ حق و انصاف کی لڑائی مسلمانوں کو ہی لڑنی ہے ۔مسلمانوں کو ہی اللہ نے حق و انصاف کا علمبردار بنے رہنے کا حکم دیا ہے۔

0 comments: