featured
الیکشن کی گہما گہمی اور کرنسی منسوخی سے پیدا شدہ حالات کے درمیان بجٹ
نہال صغیر
تازہ بجٹ پیش کردیا گیا ہے ۔جیسا کہ عام رجحان ہے کہ حکومت کے ذریعہ پیش کئے گئے بجٹ پر کبھی بھی حزب اختلاف خوش نہیں ہوتا ۔حزب اقتدار کے برخلاف وہ اسے عوام دشمن غریب دشمن اور کسان دشمن ہی متصور کرتی ہے ۔ملک میں کرنسی منسوخی اور الیکشن کی گہما گہمی میں یہ بجٹ کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکتا ۔ہر چند کہ وعدہ کیا گیا ہے کہ کسانوں کی آمدنی میں پانچ سال میں پچاس فیصد اضافہ ہوگا ۔انکم ٹیکس کی شرح میں ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ کرکے کچھ راحت دی گئی ہے لیکن یہ کوئی بہت بڑا اور جرات مندانہ قدم نہیں ہے ۔انکم ٹیکس میں چھوٹ کم از کم پانچ لاکھ تک ہونی چاہئے تھی ۔ڈھائی لاکھ سے پانچ لاکھ کے درمیان ٹیکس کی شرح میں دس فیصد کی جگہ پر پانچ فیصد کرکے کچھ راحت دی گئی ہے تو پچاس لاکھ سے ایک کروڑ کے ٹیکس سلیب میں تیس فیصد ٹیکس کے ساتھ دس فیصد سر چارج کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔اس سے یہ تو ٹھیک ہے کہ کم آمدنی والے پر زیادہ بوجھ نہیں ہے لیکن ان لوگوں پر جن پر ٹیکس کا بوجھ پڑے گا وہ ٹیکس دینے کے بجائے اس میں چوری کرنے کی عادت کو تقویت دیں گے۔آخر بجٹ اور حکومت کے کام کاج میں شفافیت کب آئے گی کہ عام آدمی بھی اس سے مستفید ہوسکے اور اس کو بجٹ کو سمجھنے کیلئے کسی ماہر معاشیات کا سہارا نہیں لینا پڑے ۔دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اپنی حکومت کے شروعات میں ہی کہا تھا کہ تاجر ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں پر حکومت کی پالیسی انکے ٹیکس ادا کرنے کی راہوں میں حائل رہتی ہے ۔پیشہ سے انجینئر ایک دوست کا کہنا ہے کہ یہاں ٹیکس کی زیادتی اور اس کے کوئی خاطر خواہ فوائد نظر نہیں آنے کے سبب ٹیکس چوری کا رجحان زیادہ بڑھ رہا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جب ہم ٹیکس دیتے ہیں تو ہمیں یہ توقع ہوتی ہے کہ حکومت ہماری محنت کی کمائی سے ادا کئے گئے ٹیکس کی رقم سے ترقی کی رفتار بڑھائے گی ۔اس کے برعکس یہاں ترقی تو کہیں دکھائی نہیں دیتی ہاں ہر روز بد عنوانی کی نئی نئی خبریں میڈیا میں ضرور آتی ہیں ۔حالانکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ بجٹ سے روزگار میں اضافہ ہوگا ۔لیکن اس میں کتنا اضافہ ہوگا یہ بات تفصیل طلب ہے ۔موجودہ نوٹ بندی کے احمقانہ اور عاجلانہ فیصلہ سے بے روزگاری میں جو اضافہ ہوا ہے اس پر کب تک قابو پایا جاسکے گا ۔حکومت اس تعلق سے کچھ کہنے کو راضی ہی نہیں ۔ وہ تو یہی نہیں مانتی کہ اس سے کوئی نقصان بھی ہوا ہے ۔ان کے وزراء اور لیڈران کہتے ہیں کہ مرنے والے کرپٹ یا لٹیرے تھے ۔یہ بے حسی کی انتہا ہے ۔بہر حال ملک کے حالات جب ستر برسوں کے بجٹ سے نہیں بدلے تو اس بجٹ سے کیا ہو جائے گا ۔اس کی بنیادی وجہ بدعنوانی ہے ۔جس پر مودی حکومت بولتی تو بہت ہے لیکن عمل اس کے خلاف ہے۔ ان کے وزراء اور ذمہ دارن پر بدعنوانی کے درجنوں معاملات ہیں یہ الگ بات ہے کہ اسے تسلیم نہیں کرنے کی ان کی یہ عادت پرانی ہے ۔
0 comments: