featured
عوام کا سیاسی مزاج اور سیاسی پارٹیوں کا دنگل
umarfarrahi@gmail.com عمر فراہی
وزیر اعظم نریندرمودی نے آٹھ نومبر 2016 کو اچانک یہ اعلان کر کے کہ رات بارہ بجے سے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ کو منسوخ کیا جاتاہے ہندوستانی عوام کو ایمرجنسی جیسی صورتحال میں مبتلا کر دیا تھا - حالانکہ کرنسی منسوخ کئے جانے کا یہ اعلان حکومت کے مالیاتی ادارے کے کسی عہدیدار کی طرف سے بھی کیا جاسکتا تھا لیکن شاید اس اہم اور انقلابی فیصلے سے وزیراعظم کو جس کامیابی اور پذیرائی کی امید تھی وہ اس کا سہراخود اوڑھنا چاہتے تھے - اور انہیں یہ امید بھی تھی کہ جس وقت وہ ٹی وی پر نوٹ بندی کے اس انقلابی فیصلے کا اعلان کرنے کیلئے نمودار ہونگے تو ہندوستان کی عوام ان کے اس فیصلے کے استقبال میں مصر اور ترکی کی طرح سڑکوں پر اتر آئے گی - اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام سڑکوں پر اتری بھی لیکن یہ بھیڑ مودی جی کے استقبال کیلئے نہیں بلکہ لوگوں میں نئے نوٹوں کو حاصل کرنے کی بھوک تھی - بینکوں کی قطاروں میں کھڑے کچھ لوگ حکومت کے فیصلے کی مذمت کر رہے تھے تو کچھ ایسے بھی تھےجنھیں یہ امید تھی کہ مودی جی ضرور ہندوستانی عوام کیلئے کچھ جادو کرنےوالےہیں اور حالات بہت جلد عام رفتار میں تبدیل ہو جائیں گے - اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات نارمل بھی ہو رہے ہیں لیکن ایک سوال ابھی بھی برقرار ہے کہ حکومت نے نوٹوں کی تبدیلی کے اتنے بڑے فیصلے کو نافذ کرنے کے لئے سرکاری خزانے کا جو کروڑوں روپیے صرف کیے ملک کو کیا فائدہ حاصل ہوا - لیکن جو بھگت ہیں ان کے خوش ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ ڈھائی سال کے اندر زعفرانی سرکار نے بہرحال کوئی ایسا فیصلہ تو ضرور لیا جس نے ملک کے سرمایہ داروں میں ہلچل پیدا کردی - مودی حکومت کے اس فیصلے سے کیا حقیقتاً سرمایہ داروں کا کالا دھن باہر آیا اور کیا حکومت ٹیکس چوروں پر لگام لگا نے میں کامیاب ہوسکی - حیرت ہے کسی نے پارلیمنٹ میں یہ سوال بھی نہیں اٹھایا کہ مودی جی جو کالا دھن اور کروڑوں کی بے نامی جائدادیں دستاویزات کی شکل میں سیاست دانوں کی تجوریوں میں بند ہیں اسے کب ضبط کریں گے - چور چور موسیرے بھائی کے بقول یہ سوال چونکہ عام سیاست دانوں کیلئے بھی نقصان کا سودا تھا اس لئے کوئی سیاسی پارٹی یہ سوال اٹھا بھی کیسے سکتی تھی - جہاں تک عام آدمی کا سوال ہے اسے کون بتائے کہ سیاست داں ، سرمایہ دار میڈیا سبھی ایک ہی تھیلی کےچٹے بٹے ہیں اور کہیں کہیں بدعنوانی میں سب ایک دوسرے کے حصے دار ہیں - سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے تو1978 کی نوٹ بندی کے بعد ہی کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے فرضی کمپنیاں ، فرضی کاروبار اور فرضی کرنٹ اکاؤنٹ کھول رکھےتھے جو بظاہر کاغذ پر تو کاروبار کر رہی ہیں اور بینکوں میں کروڑوں کے ٹرانزیکشن بھی ہورہے ہیں لیکن حقیقت میں خریدو فروخت کا معاملہ صفر ہے یا ہے بھی تو برائے نام - مثال کے طورپر کبھی کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ سنسان اور غیر آبادی والے علاقوں میں بھی سڑکوں کے کنارے کھانے اور رہنے کے شاندار ہوٹل کھلے ہیں جنھیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ اپنا خرچ بھی پورا کر پارہے ہیں لیکن نقصان کے باوجود ایسے سینکڑوں پروجیکٹ پر روز کام ہو رہا ہے اور یہ بات سرکار کو بھی پتہ ہے - اس کا مطلب کہ ملک میں بھگتوں کو خوش ہونے کا طریقہ نہیں آتا کہ وہ کس بات کیلئے خوش ہیں - اسی طرح ایک بارٹرین میں سفر کے دوران کچھ لوگ بحث کررہے تھے کہ راجیو گاندھی اور منموہن سنگھ نے اگر ملک میں آئی ٹی انڈسٹری اور کال سینٹر کو بڑھاوا دے کر بھارتی معیشت کو ترقی دی تو مودی جی نے بھی بہت جلد جاپان کے نقش قدم پر بلٹ ٹرین چلانے کا منصوبہ بنا لیا ہے - یہ بحث چل ہی رہی تھی اور لوگ سپنوں کی دنیا میں خوش بھی ہورہے تھے کہ اچانک ایک سر پھرے نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ بھائی ابھی تو ہم جس ٹرین سے سفر کر رہے ہیں ہماری حکومتیں ٹھیک سے ان ریل کی پٹریوں کی مرمت ہی نہی کرپارہی ہیں اور آئے دن کوئی نہ کوئی ٹرین اپنے وقت سے دس بیس گھنٹے تاخیر میں چلتی ہے کیا ہم بلٹ ٹرینوں کو محفوظ طریقے سے چلنے کی ضمانت دے پائیں گے اوراگر یہ سپنا پورا بھی ہو گیا تو کیا عام آدمی جو سلیپر کلاس کا کرایہ ہی مشکل سے ادا کر پارہا ہے اس کیلئے تو بلٹ ٹرین بھی ایک سپنا ہے - اس کا مطلب ملک کی ہر سیاسی پارٹی کا سیاسی فیصلہ سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کے حق میں ہوتا ہے - اس کے باوجود ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ منموہن سنگھ حکومت کے دور میں آئی ٹی انڈسٹری کی آمد ہی پی او انڈسٹری اور وال مارٹ کلچر سے کم سے کم عام آدمی کو کروڑوں کی تعداد میں نوکری تو ملی -لیکن اس کلچر نے بھی چھوٹے کاروبار کو نقصان ہی پہنچایا ہے اور نئی نسل نوکری کو ترجیح دینے لگی ہے جبکہ چھوٹے کسان اور چھوٹے کاروبار ہی کسی ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہوتےہیں - آزادی کے دوران گاندھی جی نے چرخہ انڈسٹری کی جو حوصلہ افزائی کی تھی وہ بظاہر اسی کارپوریٹ کلچر کے برخلاف گھریلو صنعت کو فروغ دینے کی تحریک تھی مگر اس بات کو سودیشی تحریک کی علمبردار ہندو تنظیم آر ایس ایس کے لوگ تو سمجھنے سے رہے منموہن سنگھ جیسا ماہر معاشیات بھی نہیں سمجھ سکا اور انہوں نے بیرونی زرمبادلہ کی لالچ میں ہندوستان کو ایک بار پھر جدید ایسٹ انڈیا کمپنی کے نرغے میں ڈھکیل دیا - آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس حل کیا - ہمارا جواب یہ ہے کہ جب ہم امریکہ کے سائنسی ادارے میں اپنے سائنسدانوں کی کارگردگی کا دعویٰ کر سکتے ہیں تو پھر ہم اپنے یہاں موبائل سے لیکر لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانک سامان کیوں نہیں بنا سکتے - کرنا یہ ہے کہ آپ اپنے انجینئروں کو تربیت دیں اور بیرونی زرمبادلہ حاصل کرنے کے بجائے ڈیجیٹل ٹکنالوجی حاصل کریں چاہے ہمیں دیگر ممالک کے انجینئروں اور کاریگروں کو خریدنا ہی کیوں نہ پڑے - اس کے برعکس ہم نے اپنے انجینئروں کو بھی کال سینٹر میں بیرونی کمپنیوں کا بندھوا مزدور بنا دیا ہے - شاید ہماری نا اہل قیادت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں کہ وہ آزادی کے بعد بھی ہمیں غلامی کی زنجیروں میں قید رکھیں - بھگتوں کے خوش ہونے کیلئے تو جئے ہند کا نعرہ ہی کافی ہے جو ہر الیکشن میں تمام سیاسی پارٹیوں کا نعرہ ہوتا ہے - شاید ہم سب بھی اسی مزاج کے لوگ ہیں جو سیاسی پارٹیوں کے کھوکھلے نعروں سے بہلتے رہے ہیں اور بہلتے رہیں گے اور بہل رہے ہیں -
0 comments: