featured

دہشت گردی کے الزام سےپھر ۴ ؍ مسلم نوجوان بری ۔اب تو سپریم کورٹ سو موٹو لے

10:44 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر

ملک میں ایک بڑا طبقہ مسلمانوں سے مخاصمت رکھتا ہے ۔یہ کہنے کی قطعی ضرورت نہیں کہ وہ کون لوگ ہیں ؟اس طبقہ کی جانب سے آزادی کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیاجاتا رہا ۔پہلے انہیں پاکستان کا طعنہ دیا جاتا تھا ۔اس کے بعد فسادات کا سلسلہ شروع ہوا ۔لیکن فسادات نے جہاں مسلمانوں کو تباہ و برباد کیا وہیں ملکی معیشت کا بھی نقصان ہوتا تھا ۔اکثریتی طبقہ کا بھی کاروباری نقصان اس میں شامل ہے ۔ مہینوں جاری رہنے والے کرفیو سے کاروبار پر برا اثر پڑتا تھا ۔اس لئے ایک لمبے عرصہ بعد اس طبقہ نے نیا طریقہ کار ڈھونڈ نکالا کہ خود بم دھماکہ اور ٹیلی فون پر دھمکی آمیز کال سے دہشت پھیلایا جائے اور اس کے بعد پھر مسلمانوں کے سر الزام ڈال کر انہیں گرفتار بھی کیا جائے اور انہیں مجرم ضمیری میں بھی مبتلا کردیا جائے ۔دو روز قبل گجرات سے تعلق رکھنے والے مسلم نوجوانوں کو سپریم کورٹ نے باعزت بری کردیا ۔یعنی ان کی زندگی کے چودہ پندرہ سال یونہی برباد کردیئے گئے ۔اس پر مولانا ارشد مدنی نے بالکل واضح ردعمل دیا ہے کہ اب سپریم کورٹ سو موٹو لے کر متعصب افسران کے خلاف کارروائی کرے ۔انہوں نے کہا کہ اب صرف سپریم کورٹ سے ہی انصاف کی امید بچی ہے اور اسی نے ملک کے عوام میں یہ بات راسخ کی ہے کہ انصاف مل سکتا ہے ۔لیکن کیا کسی کو دس پندرہ سال کے بعد باعزت بری کردینے بھر سے ہی انصاف کے تقاضے پو رے ہو جاتے ہیں۔بالکل نہیں انصاف کا مطلب ہے کہ جلد از جلد مظلومین کی اشک سوئی کی جائے تاکہ انہیں نظام انصاف پر یقین مستحکم ہو سکے ۔لیکن اب اس طرح کے فیصلے اور انصاف ملنے میں تاخیر سے عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ عدالتوں سے انصاف پانا کسی غریب یا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔ایک سابق سپریم کورٹ کے جج بھی کہہ چکے ہیں کہ یہاں ایک امیر اور با رسوخ شخص وکلا کی فوج کھڑی کرکے انصاف کے بجائے فیصلہ اپنے حق میں کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ایک عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔یہاں مسلمانوں کے ساتھ اس نظام کی خرابی کے ساتھ تعصب کی ایک دوہری مار بھی ہے ۔بہر حال یہ رام کہانی کہاں تک سنائی جائے ۔بس ایک بات قابل ذکر ہے کہ یہ ناانصافیاں اور تعصب ملک کی بقا و سلامتی کیلئے ٹھیک نہیں ہے ۔مسلمان یہاں کی ایک بڑی اقلیت ہیں ان کی بے چینی کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے ۔اس سے ملک کی ترقی پر بھی آنچ آتی ہے ۔اس لئے ارباب اقتدار اور عدلیہ سے وابستہ قابل احترام اشخاص کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور ایسے مقدمہ میں ایک تو جلد از جلد معاملہ نپٹایا جائے نیز تعصب کی بنیاد پر کسی نوجوان کی زندگی سے کھیلنے والے افسران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ ملک میں امن امان بنا رہے ۔

0 comments: