Muslim Worlds
تہران اب کبھی عالم مشرق کا جنیوا نہیں ہوسکتا !
عمر فراہی ۔ ای میل : umarfarrahi@gmail.com
اقبال نے جب یہ بات کہی کہ
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
تو
ان کے ذہن میں کہیں نہ کہیں اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں وہی تصور
رہا ہوگا جو ترکی اور مصر کے بارے میں ایک عام تصور پایا جاتا ہےکہ یہ
ممالک عالی شان مساجد اور خوبصورت گنبدوں والی تاریخی عمارتوں اور مساجد
سے آراستہ ہونگےاور بیشک ترکی سے لیکر عراق شام مصر اور فلسطین کے علاقے
اپنی ان قدیم تاریخی عمارتوں سے اسلامی تہذیب و تمدن و ثقافت کی نمائندگی
بھی کرتےہیں - اقبال نے ہوسکتا ہے یہ بات ایران کو اپنی آنکھوں سے دیکھ
کر کہی ہو - اگر نہ بھی دیکھا ہو تو بھی عالم اسلام کے اس خطے کی اپنی ایک
انفرادی تاریخ رہی ہے اور اقبال کی اپنی شخصیت بھی اتنی معتبر ہے کہ ان
کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ بھی کسی تاریخی جملے سےکم نہی ہوتے - لیکن کچھ
سال پہلے یعنی احمدی نژاد کی صدارت کے دور میں جب ایران کے دورے سے لوٹ کر
آئے جماعت اسلامی کے ایک سرگرم رکن سے ہماری گفتگو ہوئی تو ان کی ایک بات
ہمیں بہت ہی عجیب سی لگی کہ تہران میں انہیں بہت دور دور تک کہیں پر ایسی
عالیشان مساجد نظر نہی آئیں جیسا کہ خود ہمارے ملک ہندوستان اور دیگر
اسلامی ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہےاور انہوں نے خود کسی سنی مسجد میں
باجماعت نماز ادا نہیں کی - انہوں نے پھر اس کا خود ہی جواب بھی دیا کہ
ایسا اس لئے بھی ہے کہ اہل تشیع حضرات میں مساجد کی تعمیر کا چلن نہیں
رہاہے - لیکن چونکہ اس وقت ہم بھی ایران کے تعلق سے کوئی منفی رائے قائم
کرنے کا مزاج نہیں رکھتے تھے اس لئے انہوں نے ایران کی تعریف میں جو قصیدے
پڑھے یا انہیں ایرانیوں نے جو سبز باغ دکھائے ہونگے اسے ہم نے بھی تسلیم کر
لیا - یہ بھی سچ ہے کہ ایران کے دورے پر جماعت کے افراد کو جس طرح ہپنو
ٹائز کیا جاتا ہے وہی رپورٹ یہ لوگ اپنے اکابرین اور حلقے میں بھی پیش
کرتے ہیں - جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر جماعت اسلامی کے لوگ نہ صرف
ایران کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں بلکہ عالم اسلام کے خلاف ایران کی
سازشوں کی صفائی پیش کرنے میں بھی سبقت لے جاتے ہیں - جیسا کہ یمن کی بغاوت
کے بعد جب سنی دنیا نے یمن میں ایران کی مداخلت کے بعد مذمت کرنی شروع کی
تو پاکستان جماعت اسلامی کے جنرل سکریٹری عبد الغفار عزیز نےایران کے تعلق
سے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یمن تنازعہ یمن کے سابق صدر عبد اللہ
صالح اور سعودی عربیہ کے درمیان خلش سے شروع ہوا ہے اس میں ایران کو کیوں
گھسیٹا جارہا ہے - ان کی مکمل ویڈیو ریکارڈنگ کو یو ٹیوب پر سنا جاسکتا ہے -
اسی طرح جماعت کے اخبار دعوت نے شام میں ایران کی مداخلت کے تعلق سے اپنی
حق بیانی کا ثبوت دیتے ہوئے اخبار کے صفحہ اول پر یہ بات لکھی کہ اگر شام
میں سعودی عربیہ کو مداخلت کا حق ہے تو ایران کو کیوں نہیں - دنیا نے
دیکھا کہ ایران کی مداخلت سے پانچ لاکھ شامی مسلمان شہید کردیے گئے اور خود
ایرانی جنرل اور سپاہیوں کی لاشوں کے تابوت ایران پہنچائے گئے مگر کسی
اخبار میں ایسی کوئی خبر شائع نہیں ہوئی
کہ شام کی جنگ میں سعودی سپاہی بھی شہید ہوئے ہیں - اس کا مطلب کہ نہ صرف
شام کے قتل عام میں ایران اور ایران کی دہشت گرد تنظیموں کے شامل ہونے
کا ثبوت ظاہر ہے اور یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت میں بھی ایران کا چہرہ
بے نقاب ہو چکا ہے ۔ اس کا اعتراف اکثر و بیشتر ایرانی سیاست داں بھی کرتے
رہے ہیں - ہم جانتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو ہمارے اس بے وقت کے سوالات سے اس
لئے بھی پریشانی ہورہی ہوگی کیونکہ کہ ایسے سوالوں سے امت کے اتحاد کو
خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ۔ مگر سوال پھر یہ اٹھتا ہے کہ لفظ امت کو ہم کس تعریف
میں لیتے ہیں - کیا ایران اور ایران نواز لوگ جن کیلئے عرف عام میں روافض
کی اسطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے امت مسلمہ کی حقیقی تعریف میں آتے ہیں -
مسلمانوں میں ایک عام تصور یہ پایا جاتا ہے کہ جب اسلامی تاریخ کے کسی دور
میں بھی علماء دین کی اکثریت نے انہیں امت مسلمہ کے دائرے سے باہر تسلیم نہیں کیا
ہے تو ہم کیوں اختلاف پیدا کریں - یہ بات درست بھی ہے اور شاید اسی بنیاد
پر مولانا مودودی نے ایران کے اسلامی انقلاب کی حمایت کی اور اسی حمایت کی
وجہ سے آج بھی جماعت اسلامی کے لوگوں کو سلفی حضرات کی طرف سے نشانہ بنایا
جاتا ہے - اس کے علاوہ دیگر اعتدال پسند علماء بھی ہندوستان میں اہل تشیع
حضرات کے ساتھ اتحاد و بھائی چارگی کے موضوع پر اسٹیج شیئر کرتے رہتے ہیں -
لیکن ایک دوسرا اور اہم سوال یہ ہے کہ اگر یہ موزوں نہیں ہے اور سب کچھ
ٹھیک ٹھاک ہے تو پھر یہ سوال اکثریت کے ذہن میں اٹھتا ہی کیوں ہے کہ تہران
اب عالم مشرق کا جنیوا نہیں ہو سکتا - 26 جنوری جمعرات کو ممبئ اردو نیوز
کے ادارتی صفحہ میں جب شہیم خان نے ایران میں سنیوں کی عام سیاسی صورتحال
پر سوال اٹھاتے ہوئے ایران کے تعلق سے صفائی پیش کی تو ممبئ کے ایک بہت ہی
مشہور ومعروف اور معزز عالم دین اور بزرگ شخصیت نے جو کہ عراقی حکومت کی
دعوت پر عراق کا دورہ بھی کرچکے ہیں ہمیں فون کیا کہ فراہی صاحب یہ جو اردو
نیوز کے ادارتی صفحہ پر ایران میں سنی مسلمانوں کی مساجد کے تعلق سے صفائی
پیش کی گئی ہے اس کی حقیقت کیا ہے جبکہ ابھی کچھ ہی مہینے پہلے العربیہ
چینل نے ایک خبر نشر کی تھی کہ ایرانی حکومت نے تہران کے اندر موجود اہل
سنت والجماعت کی واحد خستہ حال مسجد کو بھی شہید کر دیا ہے - میں نے کہا سر
مصنف نے کچھ سنی مسلم تنظیموں کی ویب سائٹ کا حوالہ اور لنک تو پیش کیا ہے
- انہوں نے کہا کہ اس بات کی تصدیق کون کرے گا کہ یہ ویب سائٹ فرضی ہیں
یا اصلی اور کیا اب ہم دنیا میں مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کی داستان
انٹرنیٹ پر ہی دیکھتے رہیں گے جبکہ ان ممالک کی زمینی صورتحال بالکل مختلف
ہو-شہیم خان صاحب نے اپنی اس معلومات کیلئے کسی پاکستانی صحافی کے تعاون
کا شکریہ ادا کیا ہے ممکن ہے یہ صحافی بھی عبد الغفار عزیز صاحب کی طرح
ایران کے عزیز ہوں اور اب تو ہم میں سے بہت سارے لوگوں کو ایران نواز
صحافیوں ، جماعتوں اور اخباروں کی کسی خبر اور تحریر پر اعتبار بھی نہیں
رہا - جیسا کہ شحیم خان کے اس ادارتی صفحہ والے مضمون میں ایک بات خود ہمیں
بھی کھٹک رہی ہے کہ پورے تہران میں سنت والجماعت کی صرف نو مساجد ہیں -
اگر اس حقیقت کو بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ تعجب اور افسوس کی بات
ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی راجدھانی تہران جیسے شہر میں کیا سنت
والجماعت کے لوگ اتنی کم تعداد میں ہیں کہ پورے شہر میں صرف نو مسجد ! جبکہ
ہمارا اپنا تعلق اعظم گڈھ کے ایک گاؤں سے ہے جسے لوگ فریہہ کہتے ہیں جو
قصبہ بھی نہیں ہے پھر بھی اس پورے گاؤں میں چودہ عالیشان مساجد اور چھ
مندریں ہیں - اس کے برعکس کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہندوستان جیسے
غیر اسلامی ملک کے شہرمدراس دلی کلکتہ اور حیدرآباد میں سیکڑوں مساجد ہیں -
جہاں تک پارلیمنٹ میں اٹھارہ سنی ممبران کی بات ہے اور جس طرح ایران کو
اسلامی جمہوریہ ہونے کا دعویٰ پیش کیا جاتا ہے اگر یہ بات درست ہے تو پھر
مضمون نگار کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ دنیا کے تمام ایرانی سفارت خانوں میں
کتنے سنی مسلمان ہیں یا ہندوستان میں کیا کبھی ہندوستان کی کسی سنی جماعت
کے دفتر میں ایران کے سنی علماء یا دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف کسی وفد
کا آنا ہوا - ہمیں تو کبھی کسی ایرانی سنی عالم دین یا ایرانی سیاستداں
کی کوئی معتبر آواز گونجتی نظر نہی آئی جبکہ ایران نواز علماء بحرین اور
سعودی عربیہ جیسے سخت گیر حکومتوں کے اندر بھی چیخ رہے ہیں - اس کا مطلب
ایران میں سنی مسلمان پوری طرح امن و امان میں ہیں یا ان کی مذہبی اور
سیاسی قیادت کا گلاگھونٹ دیا گیا ہے - یہ سوال جماعت اسلامی کے ذمہ داران
سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ کیا وہ صرف ایران کے شہر کا ہی دورہ کرنا
جانتے ہیں یا ان کے روابط ایران کے سنی علماء اور ان کی کسی تنظیم سے بھی
ہے یا انہوں نے کیا کبھی کسی ایرانی سنی جماعت کے لوگوں سے رابطہ کرنے کی
کوشس کی -عالم اسلام کے خلاف ایران کی منافقت کےتعلق سے سوال تو بہت ہیں جو
ایرانی جمہوریت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرتے ہیں لیکن شحیم خان صاحب کے
اداریے پر ایک عالم دین کے اٹھائے گئے سوال پراسی عالم دین کےعراقی دورے
کا حال بھی انہیں کی زبانی سن لیں - انہوں نے کہا کہ مجھے کئی بار ایرانی
سفارت خانے کی طرف سے ایران کے دورے کی پیشکش کی گئی جو کسی وجہ سے ممکن
نہیں ہوسکا لیکن ایک بار صدام حسین کے بعد نوری المالکی کی حکومت کی طرف سے
عراق کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا اور پھر وہاں جانے کے بعد میری آنکھوں نے
جو منظر دیکھا اور جس طرح میں ہندوستان میں بیٹھ کراخبارات میں شحیم خان
اور جماعت اسلامی کے لوگوں کی ایرانی اورعراقی حکومت کی صفائی سے مطمئن تھا
میرا گمان بالکل مختلف نکلا - حکومت عراق نے ہمیں کربلا کا دورہ کروایا ہم
نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مزار کی زیارت کی جسے وہاں کے لوگ حرم کہتے
ہیں - اس کے بعد میں نے میرے ساتھ رہنمائی کیلئے رکھے گئے حکومت کے لوگوں
سے کہا کہ مجھے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر بھی جانا
ہے - پہلے تو انہوں نے بہانہ کیا کہ چونکہ دہشت گردی کی وجہ سے کبھی بھی
دھماکوں کا خطرہ رہتا ہے اس لئے ان کا وہاں جاناٹھیک نہیں ہے لیکن جب میں
نے دھمکی دی کہ میرا پاسپورٹ لاؤ مجھے واپس جانا ہے تو انہوں نے میرے لئے
اس کا انتظام کروایا - لیکن جیسا کہ میرا گمان تھا کہ اکثر ہندوستان وغیرہ
میں جس طرح اولیاء کرام کے مزارات پر بھیڑ رہتی ہے پیران پیر کے اس مزار
پر تو لوگوں کا اژدھام ہونا چاہیے لیکن یہاں تو پورا مقبرہ سنسان پڑاتھا
اور صرف کچھ سیکیوریٹی والے اور کچھ ایسے لوگ نظر آئے جن کے حلیے سے ان کی
مفلسی کا اظہار ہورہا تھا - میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل پڑے کہ کیا
یہ وہی صدام حسین کا عراق ہے جہاں سے کبھی سونے اور پٹرول دونوں کی ندیاں
بہتی تھیں اور جسے ہمارے ہی لوگوں میں سے کچھ لوگ کمینہ کہتے ہیں - اس وقت
میرے پاس جتنے بھی پیسے تھے غربا میں تقسیم کر کے واپس اپنی رہائش گاہ پر
آگیا اور حکومت کے کارندے سے پوچھا کہ کربلا میں تقریباً تیس فیصد سنی
مسلمان تھے اور یہ مسلمان اب کسی بھی مسجد اور خاص طور سے پیران پیر کے
مزار پر بھی نظر نہیں آئے تو اس نے جواب دیا کہ جو شیعہ صدام حسین کے خوف
سے سنی ہو گئے تھے وہ پھر سے شیعہ ہو گئے ہیں اور بہت سارے سنی مسلمان
یہاں سے ہجرت کر گئے - ہجرت کر گئے یا قتل کر دیئے گئے بہرحال یہ بات تو
اللہ ہی جانے اس کے بعد میں نے امام ابوحنیفہؒ کے مزار پر جانے کی خواہش کی
تو پھر سے وہی دہشت گردی کا بہانہ کیا گیا اور مجھے اس لئے جانے سے محروم
رکھا گیا کہ کہیں حقیقت سے پردہ نہ اٹھ جائے - غلبہ ایران کے تعلق سے
سوالات بہت سارے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کچھ سوالات قونو بالقسط کے
علمبرداران کی طرف سے بھی اٹھائے جائیں کیونکہ کہ یہ لوگ ایران کے بہت
زیادہ قریب رہے ہیں - اور اکثر ان کی نظر میں صدام اور سعودی عربیہ کے
حکمراں تو کمینے رہے ہیں لیکن یہی الفاظ ایرانی حکمرانوں کیلئے کبھی
استعمال نہیں ہوئے
- اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اے رب العالمین جب تک تیری زمین پر صالح بندوں
کی حکمرانی نہیں قاںُم ہوتی اگر تیرے حرم کی حفاظت صدام اور سعودی جیسے
حکمرانوں سے ہوتی ہے تو ایران کے مقابلے میں تو ان کمینے حکمرانوں کو ہی
وہاں کے مسلمانوں پر مسلط رکھ کیونکہ اب مشرق وسطیٰ کا مسلمان ایک اورعراق
اور حلب کے قتل عام سے نہیں گذرنا چاہتا-
0 comments: