featured
کرشن چندر کا ایک ناول ہے گدھے کی سرگزشت ۔اس میں انہوں نے ایک گدھے کی آپ بیتی بیان کی ہے کہ کس طرح وہ دھوبی کے گدھے سے ایک ادیب کا مداح بن گیا اور پھر اسے بھی ادب کی کچھ جانکاری ہو گئی ۔پھر تقسیم ہند کا روح فرسا زمانہ آیا اور اس میں کیسے مذکورہ ادیب کی لائبریری پر شرپسندوں نے قبضہ کرلیا اورالماریوں میں کتابوں کی جگہ دوسری چیزیں بھر دی گئیں ۔گدھا بے چارا ان باتوں سے بہت رنجیدہ ہوا اور وہ دہلی کو روانہ ہوا اور وہاں انڈیا گیٹ پر ہریالی دیکھ گھاس چرنے لگا جہاں وہ کسی کانسٹبل کے ہتھے چڑھ گیا اور اس نے اسے پاکستانی جاسوس قرار دے کر اپنے افسر کے سامنے پیش کردیا ۔ یہ تو اس گدھے کی کہانی جو کہ کسی ادیب کے رابطے میں اتنا مہذب ہوگیا کہ اس نے ادب اور ادب نوازوں کی قدر کو جانا اور اس پر دل سے فریفتہ ہوگیا ۔آج کل ملک میں انتخابی ماحول ہے اور یہاں انسان کے گدھا بننے کی کہانی دو روز سے میڈیا میں آرہی ہے ۔ہمارے وزیر اعظم خیر سے اپنی پیٹھ تھپتھپانے میں پوری دنیاکیا پوری دنیا کی تاریخ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔یقین نہیں آئے تو تاریخ کے اوراق پلٹنا شروع کردیں آپ تھک جائیں گے لیکن آپ کی تلاش کو منزل نہیں ملے گی۔اب ہمارے یہ وزیر اعظم جن کے کارناموں میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام رات کی سیاہی کی طرح تاریخ کے صفحات میں رقم ہے ۔ہر دن کوئی نہ کوئی نیا شگوفہ چھوڑتے رہتے ہیں ۔ایک دن انہوں نے کرنسی کی منسوخی پر سخت تنقید سے گھبرا کر کہہ دیا کہ وہ تو فقیر ہیں تھیلا اٹھا کر چلے جائیں گے ۔انہیں یہ یاد ہی نہیں رہا کہ انہوں نے ایک سوٹ ایسا بھی پہنا تھا جو کہ دس لکھیہ کا تھا ۔ہر چہار جانب سے کہا جانے لگا کہ اللہ کرے ہندوستان کا ہر انسان وزیر اعظم جیسا فقیر بن جائے ۔وزیر اعظم تو فقیر سے لاکھوں کا سوٹ پہننے والے فرد بن گئے لیکن اپنے اول جلول اقدامات سے ملک کو معاشی نا پائیداری کی اس کھائی میں پھینک دیا ہے جہاں سے نکلنا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔فقر و فاقہ میں مست عوام میں پہلے ساٹھ فیصد سے اوپر غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد تھے کوئی عجیب نہیں جب2021 کی مردم شماری میں سطح غربت سے نیچے کی آبادی 75 فیصد ہو جائے ۔وزیر اعظم کی یادداشت اچھی نہیں ہے ۔اسی لئے وہ ایسی بات بول گئے اور انہیں صرف ایک سال قبل پہنے اپنے دس لکھیہ سوٹ کی بات یاد نہیں رہی ۔ویسے جناب ابھی تک ایک کروڑ سے کچھ ہی کم کا سوٹ زیب تن کرچکے ہیں ۔انہوں نے گاندھی بھی بننے کی کوشش کی، چونکہ ان کی یاد داشت کمزور ہے اس لئے انہیں آزادی ہند کی تاریخ کا وہ واقعہ یاد نہیں رہا کہ گاندھی جی جب وطن لوٹے تو سوٹ بوٹ میں تھے لیکن انہوں نے ایک خاتون کو دیکھا جس کو ٹھیک تن ڈھانکنے کیلئے کپڑا بھی میسر نہیں تھا اور وہاں سے انہوں نے پوری زندگی ایک کپڑے میں گزارنی شروع کی ۔ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو اپنی حقیقی ہار کا یقین ہو چلا ہے اس لئے عام لیڈروں کو تو چھوڑیئے خود وزیر اعظم نے اپنے عہدے کے وقار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اول فول بولنا شروع کردیا ہے ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی قبرستان اور شمشان بھی ہے ۔اس پر بھی ان کا مذاق بن گیا ٹوئٹر پر یہ ٹرینڈ کرنے لگا کہ ’’تم مجھے ووٹ دو میں تمہیں شمشان دوں گا ‘‘۔خبر یہ بھی آئی ہے کہ وزیر اعظم کے ایک چہیتے نے اپنی بدزبانی میں یہ تک کہہ ڈالا کہ اگر یوپی میں ہم ہارے تو قبرستان بنا ڈالیں گے ۔چلئے انہوں نے ہارنے پر کہا لیکن وزیر اعظم تو ہندوؤں کو جیتنے پر شمشان دینے کی بات کہہ رہے تھے ۔ویسے ہم مسلمانوں کیلئے تو ہمارا ملک آزادی کے بعد سے قبرستان بنا ہوا ہے ۔کانگریس نے اپنے پینسٹھ سالہ دور حکومت میں مسلمانوں سے دو جگہوں کو تو آباد کیا ہے قبرستان یا قید خانہ ۔پھر ہم بھلا اس طرح کی دھمکیوں سے کیوں خوفزدہ ہونے لگیں۔یہ اور بات ہے دھمکی بی جے پی والے دیتے ہیں اوراس پر عمل کانگریس کرتی ہے ۔سچر کی رپورٹ دیکھ لیجئے کانگریس نے بی جے پی کے سامنے دستاویزی ثبوت پیش کردیا کہ تم تو صرف مسلمانوں کو حاشیہ پر پہنچانے کی بات کرتے ہو اور ہم تو اس پر عمل کرتے ہیں ۔یقیناًکانگریسیوں نے اپنی اس کارکردگی پر فخر سے سینہ 56 انچ کا کرلیا ہوگا ۔ممبئی کانگریس کے صدر اور سابق شیو سینک نے ایک ٹی وی شو میں کہا تھا کہ ہم پر رام مندر میں رخنہ ڈالنے کا الزام غلط ہے تالا ہم نے کھلوایا ۔شلا نیاس ہم نے کروایا ۔
کرنسی کی منسوخی نے عوام کو وہ زخم لگایا کہ وہ کراہ رہے ہیں ۔لیکن مودی بھکت انہیں یقین دلانے میں اب بھی مصروف عمل ہیں کہ دیش کی ترقی اور اس کی سلامتی کیلئے یہ تو کرنا ہی پڑے گا سو جنہوں نے دیش بھکتی کی گھونٹی کچھ زیادہ ہی پی رکھی ہے وہ اب بھی مودی حکومت کو اچھے دنوں کی چاہ میں ووٹ دے رہے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ اب جعلی نوٹ پاکستان یا جموں کشمیر یا کسی مسلمان کے گھر سے نہیں بلکہ بینک کے اے ٹی ایم سے نکل رہا ہے ۔آیا نا اچھا دن بھلا اس سے بھی زیادہ کوئی حکومت اچھے دن لاسکتی ہے کیا کہ مدھیہ پردیش سے بی جے پی بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے لوگ پاکستانی خفیہ ایجنسی کی خدمات انجام دیتے ہوئے پکڑے گئے ۔بے چارے وزیر اعظم کریں تو کیا کریں بولیں تو کیا بولیں اس خوار ہوتی پوزیشن میں انہیں گدھا یاد آگیا کہ شاید اس سے ہی کچھ سہارا مل جائے اور عزت بچ جائے کیونکہ وہ بیچارا کتنا کام کرتا ہے ۔وہ بھی اتنا ہی کام کریں گے ۔اب وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ وہ گدھے کی طرح کام کرتے ہیں ۔ انہیں گدھے کے کام کرنے کی صلاحیت اور جفا کشی سے سبق ملتا ہے ۔بہر حال یہ کوئی بری بات بھی نہیں ہے کہ کوئی کسی سے سبق لے کر اپنی زندگی کو جفا کشی کا عادی بنائے اور عوام کو راحت پہنچانے میں ہمہ وقت مصروف رکھے ۔گدھے کے بارے میں آنجناب فرمارہے تھے کہ وہ بہت ہی محنتی اور مالک کا وفادار جانور ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی عوام کو اس کی جانکاری نہیں تھی اس لئے وہ عوام کو سمجھا رہے تھے کہ دیکھو میں کتنا کام کرتا ہوں اور مثال میں گدھا کو پیش کردیا ۔وزیر اعظم کی اس بات سے یہ سمجھ میں لیکن آیا کہ وہ گدھا کس کو بنا رہے ہیں۔ویسے کاٹجو نے بھی ہندوستانی عوام کے بارے میں تھا کہ اسی یا نوے فیصد کے بارے میں یہ بتایا تھا کہ وہ احمق ہیں۔لیکن ایک بات تو طے ہے کہ وزیر اعظم ہندو کے مسیحا بن کر اسی فیصد عوام کو الو بنانے میں مصروف ہیں حالانکہ انہیں صرف بیس اکیس فیصد لوگوں نے ہی ووٹ دیا تھا ۔وزیر اعظم کی اس بات سے بیچارے گدھوں کے دلوں پر کیا بیتی ہوگی وہ ہمیں معلوم نہیں ہو سکتا کیونکہ اب ہمارے درمیان کوئی کرشن چندر تو ہے نہیں کہ وہ گدھے کی سرگزشت لکھ کر اس کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتا ۔جبکہ وزیر اعظم کیلئے ملک کے خزانوں سے اربوں روپئے بہا کر میڈیا کے ذریعے ترجمانی کا کام کیا جارہا ہے ۔جو کہ حکومت کے ہر نقص کو عوام کے سامنے سود مند بنا کر پیش کررہا ہے ۔شاید دنیا نے تاریخ کے کسی موڑ پر اتنا چاپلوس اور بے ایمان میڈیا نہ کبھی دیکھا ہو گا اور آگے نہ کبھی اسے دیکھنا نصیب ہوگا ۔امریکہ میں بھی نہیں ۔امریکہ کا میڈیا بھی کم از کم عوام کی بیداری اور ان کے تعلیم یافتہ ہونے کا کچھ تو لحاظ رکھتا ہی ہے اور ٹرمپ کی ناقص اور مجنونانہ پالیسی کیخلاف سخت انداز اپناتا ہے ۔کبھی کبھی مجھے خیال گزرتا ہے کہ شاید امریکہ اسی لئے امریکہ ہے اور دنیا کا سوپر پاور کیوں کہ وہاں واقعی آزادی اظہار رائے ہے۔اسی آزادی نے امریکہ کو عظیم بنایا ہے ۔بہر حال بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی میں کہنا چاہ رہا تھا کہ وزیر اعظم جب سب کچھ کہہ چکے ۔ سارے جھگڑے دیکھ چکے ۔یہ سمجھ آیا کہ عوام اس پر دھیان بھی نہیں دے رہے ہیں ۔رام مندر تو ایک فلاپ شو ثابت ہوا ہے ۔اب کہیں کہیں گاہے بگاہے اندھیری رات کے سناٹے میں جس طرح کسی کتے کے پِلے کی آواز سنائی دیتی اسی طرح کہیں کوئی زندگی کا ثبوت دینے کیلئے رام مندر کا راگ چھیڑ دیتا ہے ۔جس سے مسلمانوں سے زیادہ خود ہندوؤں کا منھ کڑوا کسیلا ہوجاتا ہے ۔یہ کتے کے پلے والی بات بھی عجیب ہے دو ہزار انسانوں کے قتل پر وزیر اعظم کو صرف اتنا دکھ ہوا تھا جتنا کہ آپ کی کار کے نیچے کوئی کتے کا پلا آجائے ۔دیکھئے یہ گدھے کی طرح کام کرنے والی بات کب تک مودی جی کا ساتھ دیتی ہے ۔یا گدھے کے توسط سے وہ عوام کو جو سمجھانا چاہ رہے ہیں ۔عوام وہ کب تک سمجھ سکتے ہیں کہ انہیں گدھا بنایا جارہا ہے ۔حالانکہ بقول نریندر مودی ’گدھا وفادار اور محنتی جانور ہے‘۔ ہندوستانی عوام بھی اپنے حکمرانوں کے وفادار ہیں۔اس کا ثبوت کرنسی منسوخی کے سبب آنے والی معاشی سنامی سمیت مہنگائی اور وعدوں کے وفا نہیں ہونے والے سلسلہ کے باوجود ان کا صبر و استقامت ہے ۔کیا دنیا میں اس کی کوئی مثال ملے گی ؟وینزوئلا نے بھی اپنے یہاں کرنسی بند کی عوام سڑکوں پر نکل آئے صرف دو دن بعد حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا لیکن ہمارے ملک کے عوام کو دیکھ لیجئے اتنی معاشی تباہی اور کسانوں کی خودکشی کے باوجود مہاراشٹر میں عوام نے بی جے پی کو ٹوکری بھر بھر کر ووٹ دیا ۔اجتماعی نوبل انعام کا کوئی شعبہ ہوتا تو وہ صرف ہندوستانی عوام کو ان کی بے مثال صبر کی وجہ سے دیا جاتا اور ہر سال ہندوستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک اس کا حقدار نہیں بنتا۔
یوپی الیکشن اور گدھے کی سرگزشت
نہال صغیر
کرشن چندر کا ایک ناول ہے گدھے کی سرگزشت ۔اس میں انہوں نے ایک گدھے کی آپ بیتی بیان کی ہے کہ کس طرح وہ دھوبی کے گدھے سے ایک ادیب کا مداح بن گیا اور پھر اسے بھی ادب کی کچھ جانکاری ہو گئی ۔پھر تقسیم ہند کا روح فرسا زمانہ آیا اور اس میں کیسے مذکورہ ادیب کی لائبریری پر شرپسندوں نے قبضہ کرلیا اورالماریوں میں کتابوں کی جگہ دوسری چیزیں بھر دی گئیں ۔گدھا بے چارا ان باتوں سے بہت رنجیدہ ہوا اور وہ دہلی کو روانہ ہوا اور وہاں انڈیا گیٹ پر ہریالی دیکھ گھاس چرنے لگا جہاں وہ کسی کانسٹبل کے ہتھے چڑھ گیا اور اس نے اسے پاکستانی جاسوس قرار دے کر اپنے افسر کے سامنے پیش کردیا ۔ یہ تو اس گدھے کی کہانی جو کہ کسی ادیب کے رابطے میں اتنا مہذب ہوگیا کہ اس نے ادب اور ادب نوازوں کی قدر کو جانا اور اس پر دل سے فریفتہ ہوگیا ۔آج کل ملک میں انتخابی ماحول ہے اور یہاں انسان کے گدھا بننے کی کہانی دو روز سے میڈیا میں آرہی ہے ۔ہمارے وزیر اعظم خیر سے اپنی پیٹھ تھپتھپانے میں پوری دنیاکیا پوری دنیا کی تاریخ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔یقین نہیں آئے تو تاریخ کے اوراق پلٹنا شروع کردیں آپ تھک جائیں گے لیکن آپ کی تلاش کو منزل نہیں ملے گی۔اب ہمارے یہ وزیر اعظم جن کے کارناموں میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام رات کی سیاہی کی طرح تاریخ کے صفحات میں رقم ہے ۔ہر دن کوئی نہ کوئی نیا شگوفہ چھوڑتے رہتے ہیں ۔ایک دن انہوں نے کرنسی کی منسوخی پر سخت تنقید سے گھبرا کر کہہ دیا کہ وہ تو فقیر ہیں تھیلا اٹھا کر چلے جائیں گے ۔انہیں یہ یاد ہی نہیں رہا کہ انہوں نے ایک سوٹ ایسا بھی پہنا تھا جو کہ دس لکھیہ کا تھا ۔ہر چہار جانب سے کہا جانے لگا کہ اللہ کرے ہندوستان کا ہر انسان وزیر اعظم جیسا فقیر بن جائے ۔وزیر اعظم تو فقیر سے لاکھوں کا سوٹ پہننے والے فرد بن گئے لیکن اپنے اول جلول اقدامات سے ملک کو معاشی نا پائیداری کی اس کھائی میں پھینک دیا ہے جہاں سے نکلنا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔فقر و فاقہ میں مست عوام میں پہلے ساٹھ فیصد سے اوپر غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد تھے کوئی عجیب نہیں جب2021 کی مردم شماری میں سطح غربت سے نیچے کی آبادی 75 فیصد ہو جائے ۔وزیر اعظم کی یادداشت اچھی نہیں ہے ۔اسی لئے وہ ایسی بات بول گئے اور انہیں صرف ایک سال قبل پہنے اپنے دس لکھیہ سوٹ کی بات یاد نہیں رہی ۔ویسے جناب ابھی تک ایک کروڑ سے کچھ ہی کم کا سوٹ زیب تن کرچکے ہیں ۔انہوں نے گاندھی بھی بننے کی کوشش کی، چونکہ ان کی یاد داشت کمزور ہے اس لئے انہیں آزادی ہند کی تاریخ کا وہ واقعہ یاد نہیں رہا کہ گاندھی جی جب وطن لوٹے تو سوٹ بوٹ میں تھے لیکن انہوں نے ایک خاتون کو دیکھا جس کو ٹھیک تن ڈھانکنے کیلئے کپڑا بھی میسر نہیں تھا اور وہاں سے انہوں نے پوری زندگی ایک کپڑے میں گزارنی شروع کی ۔ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو اپنی حقیقی ہار کا یقین ہو چلا ہے اس لئے عام لیڈروں کو تو چھوڑیئے خود وزیر اعظم نے اپنے عہدے کے وقار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اول فول بولنا شروع کردیا ہے ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی قبرستان اور شمشان بھی ہے ۔اس پر بھی ان کا مذاق بن گیا ٹوئٹر پر یہ ٹرینڈ کرنے لگا کہ ’’تم مجھے ووٹ دو میں تمہیں شمشان دوں گا ‘‘۔خبر یہ بھی آئی ہے کہ وزیر اعظم کے ایک چہیتے نے اپنی بدزبانی میں یہ تک کہہ ڈالا کہ اگر یوپی میں ہم ہارے تو قبرستان بنا ڈالیں گے ۔چلئے انہوں نے ہارنے پر کہا لیکن وزیر اعظم تو ہندوؤں کو جیتنے پر شمشان دینے کی بات کہہ رہے تھے ۔ویسے ہم مسلمانوں کیلئے تو ہمارا ملک آزادی کے بعد سے قبرستان بنا ہوا ہے ۔کانگریس نے اپنے پینسٹھ سالہ دور حکومت میں مسلمانوں سے دو جگہوں کو تو آباد کیا ہے قبرستان یا قید خانہ ۔پھر ہم بھلا اس طرح کی دھمکیوں سے کیوں خوفزدہ ہونے لگیں۔یہ اور بات ہے دھمکی بی جے پی والے دیتے ہیں اوراس پر عمل کانگریس کرتی ہے ۔سچر کی رپورٹ دیکھ لیجئے کانگریس نے بی جے پی کے سامنے دستاویزی ثبوت پیش کردیا کہ تم تو صرف مسلمانوں کو حاشیہ پر پہنچانے کی بات کرتے ہو اور ہم تو اس پر عمل کرتے ہیں ۔یقیناًکانگریسیوں نے اپنی اس کارکردگی پر فخر سے سینہ 56 انچ کا کرلیا ہوگا ۔ممبئی کانگریس کے صدر اور سابق شیو سینک نے ایک ٹی وی شو میں کہا تھا کہ ہم پر رام مندر میں رخنہ ڈالنے کا الزام غلط ہے تالا ہم نے کھلوایا ۔شلا نیاس ہم نے کروایا ۔
کرنسی کی منسوخی نے عوام کو وہ زخم لگایا کہ وہ کراہ رہے ہیں ۔لیکن مودی بھکت انہیں یقین دلانے میں اب بھی مصروف عمل ہیں کہ دیش کی ترقی اور اس کی سلامتی کیلئے یہ تو کرنا ہی پڑے گا سو جنہوں نے دیش بھکتی کی گھونٹی کچھ زیادہ ہی پی رکھی ہے وہ اب بھی مودی حکومت کو اچھے دنوں کی چاہ میں ووٹ دے رہے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ اب جعلی نوٹ پاکستان یا جموں کشمیر یا کسی مسلمان کے گھر سے نہیں بلکہ بینک کے اے ٹی ایم سے نکل رہا ہے ۔آیا نا اچھا دن بھلا اس سے بھی زیادہ کوئی حکومت اچھے دن لاسکتی ہے کیا کہ مدھیہ پردیش سے بی جے پی بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے لوگ پاکستانی خفیہ ایجنسی کی خدمات انجام دیتے ہوئے پکڑے گئے ۔بے چارے وزیر اعظم کریں تو کیا کریں بولیں تو کیا بولیں اس خوار ہوتی پوزیشن میں انہیں گدھا یاد آگیا کہ شاید اس سے ہی کچھ سہارا مل جائے اور عزت بچ جائے کیونکہ وہ بیچارا کتنا کام کرتا ہے ۔وہ بھی اتنا ہی کام کریں گے ۔اب وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ وہ گدھے کی طرح کام کرتے ہیں ۔ انہیں گدھے کے کام کرنے کی صلاحیت اور جفا کشی سے سبق ملتا ہے ۔بہر حال یہ کوئی بری بات بھی نہیں ہے کہ کوئی کسی سے سبق لے کر اپنی زندگی کو جفا کشی کا عادی بنائے اور عوام کو راحت پہنچانے میں ہمہ وقت مصروف رکھے ۔گدھے کے بارے میں آنجناب فرمارہے تھے کہ وہ بہت ہی محنتی اور مالک کا وفادار جانور ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی عوام کو اس کی جانکاری نہیں تھی اس لئے وہ عوام کو سمجھا رہے تھے کہ دیکھو میں کتنا کام کرتا ہوں اور مثال میں گدھا کو پیش کردیا ۔وزیر اعظم کی اس بات سے یہ سمجھ میں لیکن آیا کہ وہ گدھا کس کو بنا رہے ہیں۔ویسے کاٹجو نے بھی ہندوستانی عوام کے بارے میں تھا کہ اسی یا نوے فیصد کے بارے میں یہ بتایا تھا کہ وہ احمق ہیں۔لیکن ایک بات تو طے ہے کہ وزیر اعظم ہندو کے مسیحا بن کر اسی فیصد عوام کو الو بنانے میں مصروف ہیں حالانکہ انہیں صرف بیس اکیس فیصد لوگوں نے ہی ووٹ دیا تھا ۔وزیر اعظم کی اس بات سے بیچارے گدھوں کے دلوں پر کیا بیتی ہوگی وہ ہمیں معلوم نہیں ہو سکتا کیونکہ اب ہمارے درمیان کوئی کرشن چندر تو ہے نہیں کہ وہ گدھے کی سرگزشت لکھ کر اس کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتا ۔جبکہ وزیر اعظم کیلئے ملک کے خزانوں سے اربوں روپئے بہا کر میڈیا کے ذریعے ترجمانی کا کام کیا جارہا ہے ۔جو کہ حکومت کے ہر نقص کو عوام کے سامنے سود مند بنا کر پیش کررہا ہے ۔شاید دنیا نے تاریخ کے کسی موڑ پر اتنا چاپلوس اور بے ایمان میڈیا نہ کبھی دیکھا ہو گا اور آگے نہ کبھی اسے دیکھنا نصیب ہوگا ۔امریکہ میں بھی نہیں ۔امریکہ کا میڈیا بھی کم از کم عوام کی بیداری اور ان کے تعلیم یافتہ ہونے کا کچھ تو لحاظ رکھتا ہی ہے اور ٹرمپ کی ناقص اور مجنونانہ پالیسی کیخلاف سخت انداز اپناتا ہے ۔کبھی کبھی مجھے خیال گزرتا ہے کہ شاید امریکہ اسی لئے امریکہ ہے اور دنیا کا سوپر پاور کیوں کہ وہاں واقعی آزادی اظہار رائے ہے۔اسی آزادی نے امریکہ کو عظیم بنایا ہے ۔بہر حال بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی میں کہنا چاہ رہا تھا کہ وزیر اعظم جب سب کچھ کہہ چکے ۔ سارے جھگڑے دیکھ چکے ۔یہ سمجھ آیا کہ عوام اس پر دھیان بھی نہیں دے رہے ہیں ۔رام مندر تو ایک فلاپ شو ثابت ہوا ہے ۔اب کہیں کہیں گاہے بگاہے اندھیری رات کے سناٹے میں جس طرح کسی کتے کے پِلے کی آواز سنائی دیتی اسی طرح کہیں کوئی زندگی کا ثبوت دینے کیلئے رام مندر کا راگ چھیڑ دیتا ہے ۔جس سے مسلمانوں سے زیادہ خود ہندوؤں کا منھ کڑوا کسیلا ہوجاتا ہے ۔یہ کتے کے پلے والی بات بھی عجیب ہے دو ہزار انسانوں کے قتل پر وزیر اعظم کو صرف اتنا دکھ ہوا تھا جتنا کہ آپ کی کار کے نیچے کوئی کتے کا پلا آجائے ۔دیکھئے یہ گدھے کی طرح کام کرنے والی بات کب تک مودی جی کا ساتھ دیتی ہے ۔یا گدھے کے توسط سے وہ عوام کو جو سمجھانا چاہ رہے ہیں ۔عوام وہ کب تک سمجھ سکتے ہیں کہ انہیں گدھا بنایا جارہا ہے ۔حالانکہ بقول نریندر مودی ’گدھا وفادار اور محنتی جانور ہے‘۔ ہندوستانی عوام بھی اپنے حکمرانوں کے وفادار ہیں۔اس کا ثبوت کرنسی منسوخی کے سبب آنے والی معاشی سنامی سمیت مہنگائی اور وعدوں کے وفا نہیں ہونے والے سلسلہ کے باوجود ان کا صبر و استقامت ہے ۔کیا دنیا میں اس کی کوئی مثال ملے گی ؟وینزوئلا نے بھی اپنے یہاں کرنسی بند کی عوام سڑکوں پر نکل آئے صرف دو دن بعد حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا لیکن ہمارے ملک کے عوام کو دیکھ لیجئے اتنی معاشی تباہی اور کسانوں کی خودکشی کے باوجود مہاراشٹر میں عوام نے بی جے پی کو ٹوکری بھر بھر کر ووٹ دیا ۔اجتماعی نوبل انعام کا کوئی شعبہ ہوتا تو وہ صرف ہندوستانی عوام کو ان کی بے مثال صبر کی وجہ سے دیا جاتا اور ہر سال ہندوستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک اس کا حقدار نہیں بنتا۔
0 comments: